۲ مئی کی شب اسامہ بن لادن اس
اٹل حقیقت سے دورچار ہوگئے جس کا نام موت ہے۔اسامہ اچھے انسان تھے ، اچھے
مسلمان تھے یا شیطان کے ہمزاد تھے، اس کا فیصلہ ہم نہیں کریں گے بلکہ اللہ
کریگا، جس کے حضور وہ اپنے فکر و عمل کا پشتارہ لئے ہوئے پہنچ گئے
ہیں۔البتہ اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ اسامہ اس دور کی واحد ایسی ہستی تھے
جس نے امریکا کی چولیں ہلا کر رکھ دیں اور زائد از دس سال تک چھلاوے کی طرح
اس کی گرفت سے بچے رہے ۔ دنیا کی سب سے بڑی طاقت کو اس طرح مصروف رکھنے
والا شخص ہرگز معمولی ذہن و فکر کا حامل نہیں ہوسکتا۔ لیکن افسوس کہ آہنی
جگر گردے کے اس انسان کو اللہ نے حکمت اور تدبر کی جو صلاحتیں اور اقدام کا
جو حوصلہ عطا کیا تھا ان کے استعمال میں چوک ہوئی۔ اگر وہ تدبر کے ساتھ
تحمل سے کام لیتے اور اپنی جدوجہد کو تشدد سے بچا لیتے تو یقیناً آج دنیا
اس سے مختلف ہوتی جیسی نظر آرہی ہے۔
اسامہ کی موت کی خبر سن کر اچانک ایک کہانی یاد آگئی۔ ایک جادو گر نے اپنے
دشمن کو شکست دینے کے لئے جادو کے زور سے ایک دیو کی تخلیق کی۔ اس دیو نے
دشمن کو تو ٹھکانے لگا دیا مگر اس کے بعد خود اپنے خالق جادوگر کے سر پر
مسلط ہوگیا اور اس کو نوچ نوچ کر کھانے لگا۔ آخر تنگ آکر جادوگر نے اس کو
ختم کرنے کا ارادہ کرلیا۔اس نے اپنے اسلحہ خانے کا ہر ہتھیار آزما کر دیکھ
لیا، مگر دیو کو نہ مرنا تھا نہ مرا۔ اس کے برعکس جب بھی اس پر وار کیا
جاتا تو زمین پر گرنے والے اس کے خون کے ہر قطرے سے ایک نیا دیو پیدا
ہوجاتا۔آخرکار ایک دن بڑا دیو تو مر گیا مگر اس جیسے ہزارہا نئے دیو پیدا
ہوگئے ۔ اس بات پر سبھی تجزیہ نگار متفق ہیں کہ اگر امریکی کاروائی اسامہ
بن لادن کی موت واقع بھی ہوگئی ہے تب بھی وہ نظریہ اوروہ فلسفہ زندہ رہے گا
جس کو اسامہ بن لادن نے جنم دیا ہے۔اسامہ کا فلسفہ یہ تھا کہ امریکا کو
حربی طاقت سے شکست نہیں دی جاسکتی ، البتہ اس کو اقتصادی طور سے کمزور کیا
جاسکتا ہے۔ چنانچہ اسامہ کا کہنا تھا کہ جہاں ہمارا ایک ڈالر خرچ ہوتا ہے
اس کے جواب میں امریکا کو لاکھ ڈالر خرچ کرنے پڑتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ
اسامہ کی فکر کو ختم کرنے کےلئے امریکا جو تدابیر اختیار کررہا ہے ان کی زد
الٹے امریکی معیشت پر پڑ رہی ہے اور وہ فکر، جس کو امریکا ’دہشت گردی ‘
کہتا ہے پھل پھول رہی ہے۔ اس کو ختم کرنے کے لئے امریکا نے ”سرکاری دہشت
گردی“ کی جو تدبیر اختیار کی ہے وہ ناقص ہے اور ہر روز’ منزل ہنوز دور است
‘کی صدائیں آرہی ہیں۔
یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ اسامہ بن لادن اصلاً امریکا کی پروردہ ہستی
کا ہی نام ہے۔ یہ طالبان اور القاعدہ جن کو تہہ تیغ کرنے کے اعلان کے ساتھ
امریکا نے پہلے عراق کو اور پھر افغانستان کو کھنڈر میں تبدیل کردیا ہے ،
اسی امریکا کی پیداوار ہیں۔ ان کو اس نے پاکستان کے تعاو ن سے افغانستان
میں روس کو زیر کرنے کے لئے کھڑا کیا تھا۔جب تک یہ عناصر روس کے خلاف نبرد
آزما رہے ’مجاہد‘ کہلائے اور ان کی قربانیاں اپنے وطن کی آزادی اور خود
مختاری کے لئے مثالی قرار دی جاتی رہیں۔ لیکن جب یہی عناصر افغانستان پر
امریکی قبضہ کے خلاف میدان کار زار میں اترے تو نہ حب الوطن رہے اور نہ ان
کی سرفروشی وطن کی آزادی کے لئے جہاد رہی بلکہ امریکا کے مجرم اور دہشت گرد
کہلائے جانے لگے۔
اسامہ بن لادن ایک ایسی ہی’مجاہد‘ شخصیت کا نام تھا جو افغانستان کو ہی
نہیں بلکہ پورے عالم اسلام کو اور پوری دنیا کو امریکی استعماری گرفت سے
آزاد کرانے کا عزم رکھتی تھی۔ البتہ اس کے لئے جو طریقہ اختیار کیا گیا اس
کی تائید نہیں کی جاسکتی ۔ ان کا مقصد لاکھ درست سہی، مگر اس کے لئے طریقہ
کار بھی معروف اور قرآن و سنت کی روشنی میں مباح ہونا چاہئے تھا۔ ان کی اس
جدوجہد سے یقیناً امریکا اقتصادی طور سے تو کمزور ہوا ہے، مگر ساتھ ہی
انسانوں کی جانوں کا تقدس بھی پامال ہوا ہے اور بیشمار معصوم افراد امریکی
کاروائیوں اور خود کش حملوں میں لقمہ اجل بن گئے ہیں۔ عموماً پورے عالم
اسلام پر اور خصوصاً پاکستان پر اس کے جو اثرات مرتب ہوئے ہیں ان کو نظر
انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ میڈیا نے اسامہ اور القاعدہ کے خلاف جو پروپگنڈہ
کیا وہ عادلانہ نہیں تھا بلکہ یک طرفہ اور بڑی حد تک شاطرانہ و متعصبانہ
تھا۔مگر اس پروپگنڈے کے نتیجہ میں دنیا کی نظروں میں اسلام کی امن پسندی ہی
مشکوک ہوگئی اور پیغمر اسلام پر بھی دہشت گردی کا جھوٹا الزام لگانے کا
اسلام دشمنوں کو موقعہ مل گیا۔ کہیں رسول رحمتﷺ کے اہانت آمیز کارٹون بنائے
گئے اور کہیں قرآن سوزی کے واقعات پیش آئے۔ہم ان تمام غیر مہذب حرکتوں اور
انکے اسباب و علل کی پرزور مذمت کرتے ہیں۔
القاعدہ کے خلاف امریکی عتا ب کا سلسلہ نیویار ک کے ورلڈ ٹرید سنٹر سے
مسافر طیاروں کے ٹکرائے جانے اور اس کی نتیجہ میں حیرت انگیز طور پر۰۱۱
منزلہ دو متوازی عمارتوں کے زمین بوس ہوجانے کے بعد شروع ہوا۔ اگرچہ امریکا
نے سرکاری طور پر اس کاروائی کے لئے القاعدہ کو مورد الزام ٹھہرایا ،لیکن
بڑے ہی باوزن دلائل کے ساتھ ایسی متعدد رپورٹیں بھی منظر عام پر آئیں جن
میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ سازش خود امریکا اور اسرائیل کا کارنامہ ہے۔ اس
دعویٰ کو اس حقیقت سے تقویت ملتی ہے اس کو بہانا بناکر پوری دنیا میں جو
کاروائیاں کی گئیں اور جن کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے اس سے امریکا، اسرائیل
اور ان کے حلیف برطانیہ و فرانس کے علاوہ کسی کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا۔
القاعدہ اور طالبان قیادت نے اگرچہ اس الزام کی پرزور تردید کی تھی لیکن
اسلام اور مسلمانوں سے بیزار صہیونیت نواز میڈیا کے زور میں یہ تردید نقار
خانے میں طوطی کی آواز بن کر رہ گئی اور مخالفین اسلام دنیا کو یہ یقین
دلانے میں کامیاب ہوگئے کہ یہ مذموم حرکت کسی اور نے نہیں بلکہ اسلام کے
نام لیواﺅں نے کی ہے۔حالانکہ امریکا کے پاس نہ تو دس سال پہلے اپنے اس
الزام کی تائید میں پختہ ثبوت موجود تھے اور نہ آج ہیں ۔اسی لئے اس نے یہ
ہمت نہیں کی کہ خود اپنے ہی ملک کی کسی عدالت میں اس الزام کے تحت طالبان
یا القاعدہ قیادت کے خلاف مقدمہ قائم کر کے ان ک ومجرم ثابت کرا دیتی۔ دہشت
گردی کے الزام میں جن لوگوں کو کیوبا کی گوانٹا نامو بے جیل میں قید رکھا
گیا ہے ان کے خلاف بھی اس کے پاس ایسے ثبوت نہیں ہیں کہ عدالت سے ان کو
مجرم ثابت کراسکے۔اگرچہ القاعدہ اور اسامہ کے خلاف امریکا کی اعلان کردہ
الزامات کی فہرست خاصی طویل ہے مگر ان الزامات کو عدالت کے روبرو لیجانے
اور جرم ثابت کرانے کی کوئی کوشش کبھی نہیں کی گئی۔ ۲ مئی کی شب ایبٹ آباد
میں امریکی فوجی آپریشن کی جو تفصیلات منظر عام پر آئی ہیں ان سے یہ منکشف
ہوگیا ہے کہ کاروائی کے وقت نہ تو اسامہ بن لادن کے پاس کوئی ہتھیار تھا
اور نہ ان کی طرف سے کوئی گولی چلی۔ اس کے باوجود امریکی کمانڈوز نے ان کو
گرفتار کرنے کے بجائے گولی مار کر ہلاک کردیا۔ گولی سر میں لگی۔ جس سے اس
گمان کو تقویت پہنچتی ہے کہ اسامہ کو گرفتار کیا جاسکتا تھا مگر پختہ گھیرا
بندی کے اندران کو قریب سے گولی مار کر قتل کردیا گیا۔وہاں موجود ایک کمسن
لڑکی کا یہ بیان بھی منظر عام پر آیا ہے امریکی سپاہ نے اسامہ پر قابو
پالینے کے بعد دیگر اہل خانہ کے نظروں کے سامنے ان کو گولی ماردی۔ ایسا ہی
امریکا نے عراق پر قبضہ کے دوران صدر صدام حسین کے بیٹوں کے ساتھ کیا تھا۔
اسامہ کو قتل کرنے سے لیکر ان کی لاش کو سمندر میں ڈال دینے تک کی ساری
کاروائی بڑے ہی منصوبہ بند طریقے سے کی گئی۔ اس پوری کاروائی کو صدر بارک
حسین اوبامہ، وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن اور انتظامیہ کے دیگر اعلا افسران نے
وہائٹ ہاﺅس میں لائیو دیکھا۔ قتل کے بعد معمول کی قانونی کاروائی پنچ نامہ،
پوسٹ مارٹم، غیر جانبدار گواہوں کی شہادت کو سرے سے نظر انداز کردیا گیا۔حد
یہ ہے کہ لاش کی تصویریں تک جاری نہیں کی گئیں۔ (جو تصویریں پاکستانی میڈیا
کے حوالے سے منظر عام پر آئیں وہ سب جعلی ہیں جس کے لئے میڈیا نے معافی
مانگ لی ہے) ۔کاروائی ختم ہوتے ہی آناً فاناً مقتولین کی لاشوں کا ہیلی
کاپٹر سے لاد کر پاکستان سے باہر لیجا گیا اور سمندر میں ڈالدیا گیا تاکہ
حقیقت کسی بھی وقت سامنے نہ آسکے اور ہر طرح کے ثبوت مٹ جائیں۔ یہ ساری
کاروائی قانون کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ مگر امریکا نے اپنے اوپر ہر قسم کی
قانون شکنی کو روا کرلیا ہے۔ لاش کی شناخت کے بارے میں دعویٰ یہ کیا گیا کہ
ڈی این اے ملا لیا گیا ہے جس سے یہ تصدیق ہوگئی کہ جس شخص کو ہم نے قتل کیا
ہے وہ اصلی اسامہ بن لادن ہی تھا۔ یہ ساری کاروائی صرف چھ گھنٹے میں پوری
کرلی گئی۔اگر مقتول کو زندہ گرفتار کیا جاتا تو مقدمہ چلائے بغیر ہلاک نہیں
کیا جا سکتا تھا اور مقدمہ چلانے اور الزام کو ثابت کرنے کےلئے جیسے ثبوت
درکار ہوتے ہیں وہ امریکا کے پاس نہیں ہیں۔اس لئے اس حملے میں اسامہ کا قتل
اس کے ساتھ ’انصاف‘ نہیں ہے ،جس کا دعویٰ امریکی صدر بارک اوبامہ نے اپنی
تقریر میں کیا ہے۔
میرا قاتل ہی میرا منصف ہے
کیا میرے حق میں فیصلہ دیگا
اس واقعہ کی بہت سی تہیں ہیں۔ اس کاروائی سے قبل امریکا پاکستان کے
حکمرانوں پر اپنے بعض مفادات کی خاطر دباﺅ بڑھا رہا تھا ۔امریکا چاہتا ہے
کہ پاکستان اس کا زیر دست بن کر رہے۔ اس کاروائی سے دباﺅ بڑھ گیا ہے اور
پاکستان کی جمہوری حکومت کی مشکلات میں اضافہ شروع ہوگیا ہے جس سے حکومت کو
کمزور کرنا مقصود ہے۔یہ پہلی بار نہیں ہورہا ہے بلکہ جب بھی پاکستان میں
جمہوری حکومت ہوتی ہے امریکا اس کو کمزور کرتا ہے۔پاکستان میں جمہوری نظام
امریکا کو ہرگز راس نہیں آتا۔ عوام امریکا کی مسلم مخالف سازشوں اور
سرگرمیوں کی وجہ سے سخت برگشتہ ہیں اور جمہوری حکومت رائے عامہ کو ایک حد
سے آگے نظر انداز نہیں کرسکتی۔ ہندستان اور پاکستان کے عوام کو امریکا کے
اس حکمت عملی کو سمجھنا چاہئے اور جذبات سے اوپر اٹھ کر قومی اور علاقائی
مفاد میں کام کرنا چاہئے۔اس میں صحافیوں کا بھی اہم رول ہے۔ مگر افسوس کہ
بعض صحافی خصوصا ً ہندوستانی الیکٹرانک میڈیا اس طرح کے مواقع پر بڑی ہی
جذباتی باتیں کرتے ہیں۔ امریکا سے آنے والا ہر اعلان ان کی نظروں میں پتھر
کی لکیر اور مقدس قول ہے جس کا بغیر سوچے سمجھے ڈھنڈورہ پیٹنا ان کا شیوہ
بن گیا ہے۔ کوئی بھی ایسا کام جو پاکستان کی موجودہ جمہوری حکومت کو کمزور
کرے ، ہمارے وسیع تر مفاد کے منافی ہے۔حکومت ہند کا رد عمل بڑی حد تک
اعتدال میں رہا ہے ۔ امید ہے کہ ذرائع ابلاغ کے پروپگنڈے کے باوجود اس کی
موجودہ مدبرانہ روش میں تبدیلی نہیں آئے گی اور دوطرفہ تجارت و تعلقات کی
استواری کا جو عمل ابھی حال ہی میں شروع ہوا ہے وہ اس واقعہ سے متاثر نہیں
ہوگا۔امریکا کے ساتھ اسٹرٹیجک شراکت کا مطلب یہ نہیں ہونا چاہئے کہ امریکا
کے مفاد اور تسلط کو تقویت پہنچانے کے لئے ہم اپنے قومی مفادات کو نظر
انداز کردیں ۔
اس واقعہ سے صدر بارک حسین اوبامہ کی مقبولیت کے گراف میں اچانک تبدیلی
آگئی ہے ۔ تنزلی رک گئی ہے اور مقبولیت میں اچھال آگیا ہے۔ان کے مخالفین
بھی اب ان کی مدح سرائی کررہے ہیں۔ اس کے نتیجہ میں ان کے لئے اگلے صدارتی
انتخاب میں فتح کے امکانات روشن ہوگئے ہیں۔یہی نکتہ شاید اس کاروائی کے
مقاصد میں سرفہرست بھی تھا۔ اسی لئے صدر امریکا اس قدر فکر مند تھے۔ دو
مہینے سے وہ خود منصوبہ بندی کی نگرانی کر رہے تھے اور جب کاروائی ہو رہی
تھی تو اس کو لائیو دیکھ رہے تھے۔یہ اقتدار کا کھیل ہے جس میں خون کی ہولی
کو روا کرلیا گیا ہے۔
(ختم) |