پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جو
ایک مخصوص نظریے ( دو قومی نظریے) کے تحت معرضِ وجود میں آیا۔ برصغیر پاک و
ہند میں بے شمار قو میں بستی ہیں لیکن ہندو غا لب اکثریت میں ہیں۔ تبھی تو
مسلم قومیت کی بنیاد پر علیحدہ وطن کا مطا لبہ جنوبی ایشیا میں مسلمانوں کی
ثقافتی،معاشرتی اور تہذیبی موجودگی کو محفوظ بنا نے کےلئے ضروری تھا۔برِ
صغیر پا کو ہند ایک ایسا خطہ ارضی تھا جس میں مختلف مذاہب کے لوگ صدیوں سے
ایک دوسرے کے ساتھ رہتے آرہے تھے اور ان کے درمیان کو ئی معاشرتی مخاصمت
نہیں تھی۔ زندگی کا یہ سفر کئی ہزار سالوں پر محیط ہے لیکن بدلتے تقا ضوں
اور معاشرتی اقداد کی مو جودگی میں اب اس باہمی سفر کو جاری رکھنا ممکن
نہیں تھا کیونکہ دنیا اب جمہو ری قدروں سے روشناس ہو رہی تھی اور ہندوﺅ ں
کی غا لب اکثریت کی موجودگی میں مسلمانوں کے لئے ایک ہی مملکت کے اندر جدا
گانہ تشخص کے ساتھ با عزت اور پر وقار انداز میں زندہ رہنا ممکن نہیں تھا۔
یہ تو وہ حالات جس میں علامہ اقبال نے انتہائی بالغ نظری اور دور اندیشی کا
مظاہرہ کرتے ہوئے ۰۳۹۱ میں الہ آباد کے مقام پر ایک علیحدہ وطن کا مطالبہ
پیش کر کے سب کو حیران کر دیا۔ قائدِ اعظم محمد علی جناح نے اسی تصور پر
اپنی ولولہ انگیز قیادت سے ۴۱ اگست ۷۴۹۱ کو دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ممکت
کی تخلیق کا معجزہ سر انجام دے کر برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کے مقدر کو
محفوظ کر دیا۔۔
پاکستان کا قیام بہت سی عالمی طاقتوں کے لئے قابلِ قبول نہیں تھا لہٰذا
روزِ اول سے ہی اس کے خلاف سازشوں کا جال بنا جاتا رہا اور اسے ختم کرنے کی
منصوبہ بندی کی جا تی رہے۔ اس مقصد کے لئے دو قومی نظریے کے ابطال کے لئے
لسانیت کو ہوا دی گئی۔مشرقی پاکستان میں بنگا لی زبان کے نام پر لوگوں کو
اکسایا گیا اور ان کے حقوق کی پاما لی کا رونا رویا گیا۔یہ سچ ہے کہ اقتدار
پر فوجی قبضے نے مشرقی پاکستانیوں کے دل میں نفرتوں کو ہوا دینے میں بنیا
دی کردار ادا کیا۔فوجی قیادتوں نے مشرقی پاکستان کے عوام کو اقتدار کے مرا
کز سے دور رکھا اور انھیں عزت و احترام سے نوازنے میں بخل سے کام لیا۔ اور
لسانیت کی بنیا دوں پر عوام میں مغربی پاکستان سے نفرت کے بیج بونے میں
بنیا دی کردار ادا کیا ۔ فوجی قیادتوں کا تعلق چونکہ مغربی پاکستان سے ہو
تا تھا لہٰذا مغربی پاکستان تنقید کا نشانہ بنتا چلا گیا ۔ لیکن اس کے معنی
ہر گز یہ نہیں ہیں کہ مغربی پاکستان والے بنگالیوں سے نفرت کرتے تھے یا ان
کو حقیر سمجھنے تھے بلکہ وہ تو پاکستانیت کے دل و جان سے حامی تھے اور اپنی
دھرتی ماں کے نام پر اپنی ہر متاع قربان کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے
تھے۔
جنرل محمد ایوب خان کا مارشل لا مشرقی پاکستانیوں کی دو قومی نظریے سے دوری
کا نقطہ آغاز تھا۔ حسین شہید سہر وردی کے بعد اگر تلہ سازش کیس میں بنگا
لیوں کے محبوب راہنما شیخ مجیب الر حمان کی گرفتاری اور اس پر مقدمہ
بنگالیوں کی عزتِ نفس پر سیدھا حملہ تھا جسے انھوں نے قبول کرنے سے انکار
کر دیا۔ پاک فوج اور مغربی پاکستان کے چند مخصوص خاندان اقتدار کے مزے لو
ٹتے رہے اور بنگا لی بے بسی سے اس سارے منظر کو دیکھتے رہے۔شیخ مجیب الر
حمان نے بنگا لی قوم کے احساسِ محرومی کی نفسیا تی سوچ اور فکر کے مداوے کے
لئے چھ نکات پیش کر دئے جنھیں بنگا لی عوام میں بے پناہ پذیرا ئی ملی۔
مغربی پاکستانی چھ نکات کو پاکستان توڑنے کی سازش کا نام دیتے تھے لہذا شیخ
مجیب الر حمان کو گرفتار کر کے اس پر مقدمہ دا ئر کر دیا گیا۔ شیخ مجیب الر
حمان کے حامی شیخ مجیب الر حمان کی گرفتاری کا صدمہ برداشت نہ کر سکے لہٰذا
انھوں نے حکو مت کے خلاف احتجاجی تحریک کو منظم کرنا شروع کر دیا ۔آنسو گیس
لاٹھی چارج روز مرہ کا معمول بن گئے۔ حکومت جتنی سختی کرتی رہی معاملات
اتنے ہی بگڑ تے چلے گئے اور لسانیت کی بنیا دوں پر تقسیم گہری ہوتی چلی
گئی۔
۰۷۹۱ کے انتحابات نے رہی سہی کسر پو ری کر دی۔ ان ا نتخابات میں عوامی لیگ
نے چھ نکات کی بنیاد پر الیکشن میں حصہ لیا اور مشرقی پاکستان سے ساری
نشستیں جیت کر پاکستان کی اکثریتی پارٹی بن گئی۔ شیخ مجیب الر حمان اس ملک
کے ممکنہ وزیرِ ا عظم تھے لیکن چھ نکات ان کی راہ میں آڑے آگئے۔قومی اسمبلی
کا وہ اجلاس جسے مارچ ۱۷۹۱ کو ڈھاکہ میں منعقد ہو نا تھا ملتوی کر دیا گیا
اور چیف مارشل لا ایڈ منسٹر یٹر جنرل یحی خان نے مشرقی پاکستان پر فوجی
آپریشن کا آغاز کر کے مشرقی پاکستان کی ساری سیا سی قیادت کو گرفتار کر
لیا۔ افرا تفری کے اس ماحول میں سیاسی کارکن سرحد پار کر کے بھارت میں دا
خل ہو گئے اور بھا رت نے ان سیاسی کارکنوں کو اسلحے سے لیس کرنا شروع کر
دیا ۔ مکتی باہنی کے نام پر مسلح جدو جہد کا سلسلہ شروع ہوا ۔ بھارت نے
مکتی باہنی کو ہر قسم کا تعاون پیش کیا اور اسے اسلحے سے لیس کیا تاکہ خانہ
جنگی کو ہوا دی جا سکے۔
بھارتی حکومت نے مکتی با ہنی کی صفوں میں اپنے دھشت گرد شامل کئے جس کا
واحد مقصد مشرقی پاکستان کو پاکستان سے علیحدہ کرنا تھا اور اس دو قومی
نظریے کو باطل قرار دینا تھا جسکی روح سے تخلیقِ پاکستان کا معجزہ رونما ہو
اتھا۔ سیا سی افراتفری میں ایک وقت ایسا بھی آگیا کہ بھا رت نے مکتی باہنی
کو پاکستانی افواج کے سا منے کھڑا کر دیا۔ اسلحے سے لیس مکتی با ہنی اور
افواجِ پاکستان کا آمنا سامنا ہوا اور مسلمانوں کا وہ قتلِ عام ہوا کہ پوری
قوم کے سر شرم سے جھک گئے۔ وہ کام جو تحریکِ آزادی کے وقت بھارتی قیادت
سرانجام د ینے میں ناکام ہو گئی تھی اسے اندرا گاندھی نے سر کرنے کی ٹھان
لی۔سویت یونین اور بھارت کا باہمی گٹھ جوڑ پاکستان کے حصے بخرے کرنے پر تلا
ہوا تھا اور پاکستان کے نا عاقبت اندیش حکمران انھیں ایسے مواقع فراہم کر
رہے تھے جس میں دشمن کی جیت یقینی ہو جائے۔۔۔
مکتی باہنی کی تخریبی کاروا ئیاں اور مشرقی پاکستان میں بھارت کی کھلم کھلا
مداخلت نے پاکستان کے اوسان خطا کر دئے۔فوجی قیادت حالات کا بر وقت ادراک
نہ کر سکی ۔ مغربی پاکستان کا مشرقی پاکستان کے ساتھ چونکہ کوئی ز مینی
رابطہ نہیں تھا لہٰذا مشرقی پاکستان میں متعین فوج ا سلحے اور رسد کی کمی
کا شکار ہو نا شروع ہو گی اور فوج کے حوصلے پست ہو نے شروع ہو گئے۔ مقامی
آبادی پہلے ہی فوج کے خلاف تھی لہٰذا پاکستانی فوج کے لئے بھارتی یلغار کا
مقابلہ کرنا ممکن نہ رہا۔ اس نے اپنی طرف سے حالات پر قابو پا نے کی ہر
ممکنہ کوشش کی لیکن جنگی سازو سامان کی کمی ، فضا ئیہ کی عدمِ موجودگی ،اور
عوام کے عدمِ تعاون کی وجہ سے ان کی ہر تدبیر ناکام ہو تی چلی گئی۔ دشمن کی
پیشقدمی کو روکنا ان کے بس سے با ہر تھا لہٰذا چند دنوں کی مختصر سی جنگ کے
بعد بازی فوج کے ہاتھ سے نکل گئی اور اسے شکست سے دوچار ہو نا پڑا۔
۸۱ دسمبر ۱۷۹۱ ایک ایسا سیاہ دن ہے جب پاکستانی افواج کو بھارت کے آگے
ہتھیار ڈالنے پڑے۔جنرل امیر عبدا للہ خان نیازی نے ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں
بھارتی جنرل جگجیت سنگھ اروڑہ کے سامنے ہتھیار ڈال کر اسلام کی ساری تاریخ
کو داغدار کر دیا ۔نوے ہزار پاکستانی بھارت کے قیدی بنے، بنگلہ دیش ایک
آزاد اور خودمختار ملک کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر ابھرا اور ہمارے مقدر
میں سدا کی رسوا ئی لکھ گیا۔ لسا نیت سے شرو ع ہو نے والی تحریک پاکستان کے
دو لخت ہو نے پر منتج ہو ئی۔اسلام کی پیشانی پر ہندوﺅں کے سامنے ہتھیار
ڈلوانے میں خود اسلام کے نام لیوا ﺅں (بنگالیوں) نے اہم کردار ادا کیا ۔ ان
میں شا ئد اس بات کا احساس مفقود ہو گیا تھا کہ پاکستان کی شکست در اصل
انکی اپنی شکست بھی ہے کیونکہ مسلمان ہو نے کے ناطے ان کا فخر اور پچھتا وا
مشترک ہے لیکن جب عقل و شعور مفقود ہو جاتے ہیں تو دشمن دوست نظر آنا شروع
ہو جا تا ہے اور دوست دشمن بن جا تا ہے اور یہی سب کچھ بنگالیوں نے بھی کیا
تھا لیکن انھیں اس کا ادراک نہیں تھا کیونکہ انتقام کی آگ نے ان سے سمجھنے
سوچنے کی ساری صلاحیتیں سلب کر لی تھیں۔
بنگلہ دیش کی تشکیل کے ساتھ ہی بہت سے لسانی گروہ پاکستان مین متحرک ہو
گئے۔ مشر قی پاکستان کی علیحدگی سے لسانیت کے اسی زہر کو پاکستان کی علا
قائی جما عتوں نے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا تا کہ باقی ماندہ پاکستان کو
بھی مزید ٹکڑوں میں تقسیم کر کے اپنی ریاستیں قائم کی جا ئیں۔ برساتی
مینڈکوں کی طرح ان کی آوازیں ہر طرف سے ابھرنی شروع ہو گئیں تاکہ اپنے اپنے
صوبے میں اپنی آزاد انہ حاکمیت قائم کر کے وہ سیا ہ سفید کے مالک بن جا
ئیں۔ اس کارِ خیر کے لئے انھوں نے اپنی ملیشیا قائم کرنی شروع کر دی تا کہ
بوقتِ ضرورت فوجی ا تھا رٹی کو بھی چیلنج کیا جا سکے۔ پختونستان کے نعروں
کے خا لقین کے لئے یہ سنہری موقع تھا لیکن اس وقت زما مِ اقتدار ایک ایسی
شخصیت کے ہاتھ میں تھی جو سیا ست کے رموز پر بڑی گہری نظر رکھتا تھا۔ وہ
ابن لوقت سیاستدا نوں کی رگ و پہ سے واقف تھا لہٰذا اس نے ایسے سارے عناصر
پر کڑی نظر رکھنے کا فیصلہ کیا اور انھیں کسی قسم کی ڈھیل دینے سے انکار کر
دیا ۔اس نے بلو چستان اور سرحد کی حکو متوں کو برخاست کر دیا اور بیرونی
طاقتوں سے ساز باز کرنے کے الزام پر نیپ پر پابندی لگا دی۔اسکے اس اقدام سے
علیحدگی پسندوں کے عزائم پر اوس پڑ گئی اور ان کے لئے کئی سالوں تک سیاست
میں متحرک ہو نا مشکل ہو گیا اور یوں وہ خواب جو پاکستان کی شکست و ریخت کی
بنیاد بننے والا تھا چکنا چور ہو کر رہ گیا۔۔
جنرل ضیا الحق کی فوجی حکومت میں ایک دفعہ پھر لسانیت نے سر اٹھا یا ۔ پی
پی پی کی عوامی مقبولیت کو کم کرنے کے لئے سندھ میں مہاجر قوم موومنٹ تشکیل
دی گئی اور یوں چار قومیتوں کے ساتھ ایک پانچویں قومیت مہاجر کا اضافہ کر
دیا گیا۔ پہلی دفعہ کنفیڈریشن کے نعرے کو متعارف کروا یا گیا۔اس نعرے کے
خالق عطا اللہ مینگل تھے ۔جی ہاں یہ وہی عطا للہ مینگل ہیں جن کی حکو مت کو
ملک دشمن سرگرمیوں کی وجہ سے ذوالفقار علی بھٹو نے تحلیل کر دیا تھا۔
بلوچستان میں بھی احساسِ محرومی کو اسی انداز میں پیش کیا گیا جیسے ساٹھ کے
عشرے میں مشرقی پاکستان میں پیش کیا گیا تھا ۔ مشرقی پاکستان میں یہ نعرہ
گھر گھر لگتا تھا کہ ہمارے پٹ سن کے سنہرے ریشہ کے زرِ مبادلہ سے مغربی
پاکستانیوں کی عیش و عشرت کے سامان بہم پہنچا ئے جا تے ہیں۔ موجودہ دور میں
بلو چستان کے معدنی ذ خائر اور سوئی گیس ایک ایسا نعرہ ہے جو بلوچستان کے
عوام کو گمراہ کرنے کےلئے استعمال ہو رہا ہے۔ معدنی ذخائر اور سوئی گیس کی
اہمیت کو اہلِ نظر بڑی اچھی طرح سے سمجھتے ہیں کہ یہ محض سادہ لو لوگوں کو
بیوقوف بنا نے کی ایک مذموم کوشش کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔۔
عالمی طاقتیں اور ہمارا ہمسایہ اس صورتِ حال سے اسی طرح فا ئدہ اٹھا نا چا
ہتا ہے جیسے اس نے ۱۷۹۱ میں مشرقی پاکستان میں اٹھا یا تھا۔ مشرقی پاکستان
کا موازنہ موجودہ پاکستان کے کسی صوبے سے نہیں کیا جا سکتا کیونکہ مشرقی
پاکستان کی جغرا فیا ئی صورتِ حال قطعی مختلف تھی اور مشرقی پاکستان سے
مغربی پاکستان کا کو ئی زمینی رابطہ نہیں تھا اور اس وقت تک پاکستان ایک جو
ہری قوت بھی نہیں بنا تھا۔ تاریخ کے جبر کے سامنے سندھو دیش پختو نستا ن
اور جناح پور کے نعرے اپنی موت آپ مر چکے ہیں آزاد بلو چستان کے نعرے کا
انجام بھی انہی نعروں سے مختلف نہیں ہو گا کیونکہ صوبے کی اکثریت ایسے منفی
نعروں کو پسند نہیں کرتی۔ وہ سچے اور کھرے پاکستانی ہیں اور اس ملک کی بقا
اور سالمیت کے لئے انھوں نے بیش بہا قربا نیاں دی ہیں بلو چستان کے عوام تو
سرداروں ، نوابوں، جاگیر داروں اور سرمایہ داروں سے نجات چا ہتے ہیں اور ان
کے آہنی پنجوں سے رہا ئی پانا چاہتے ہیں لیکن وہ انھیں جذ باتی نعروں کے
سہارے اپنا غلام رکھنا چاہتے ہیں۔ ۔ آزاد بلوچستان کبھی بھی بلوچیوں کی
آرزو اورخو اہش نہیں رہی بلکہ ایک متحدہ، مستحکم اور مضبوط پاکستان ان کا
خواب ہے اور اسی خواب کی خاطر وہ علیحدگی پسندوں کی سیاست کو ٹھکرا کر
وفاقی جماعتوں کا ساتھ د یتے رہے ہیں۔ان کی سیا سی بالغ نظری پاکستان کو
متحد رکھے ہوئے ہے۔
پاکستان اس وقت جن مسائل میں گھرا ہوا ہے اس کے پیشِ نظر حکومتِ وقت کی ذمہ
داری ہے کہ وہ بلوچستان کے عوام کی فلاح و بہبود پر خصوصی توجہ دے انھیں
وفاق میں نما ئندگی دے ان کے روزگار کے مواقع پیدا کرے تا کہ بلو چیوں کی
خوشخالی پاکستان کی سلامتی اور مضبو طی میں بدل جا ئے۔بلوچستان کے چند
سردار بھارت کے ہاتھوں میں کھلونا بنے ہو ئے ہیں اور بھارتی پشت پنا ہی سے
پاکستان کو نقصان پہنچا نے کے مکروہ منصوبے پر کام کر رہے ہیں۔ پاکستانی
عوام ایسے چہروں کو بخوبی پہچا نتے ہیں اور ان کی وطن دشمن حر کتوں سے
بخوبی آگا ہ ہیں ۔ پاکستان کی وہ محبت جو بلوچیوں کے رگ و پہ میں ہے اسی
محبت کی قوت سے انھیں ناکام و نا مراد کریں گے ۔آئیے پاکستان کی بقا اور
سلامتی کی خاطر لسانیت کے زہر کو بے اثر کر کے سارے متحد ہو جا ئیں کیونکہ
اتحاد میں ہی پاکستان کی بقا ہے اور اسی میں ہماری آنے والی نسلوں کا حسین
مستقبل پو شیدہ ہے۔۔۔
دل کی کچھ پرواہ نہیں زخمِ جگر کا غم نہیں۔۔غم اگر ہے تو وطن کا ہم کو گھر
کا غم نہیں
اس جہادِ زندگانی میں ہم تو سمجھے ہیں یہی۔۔وہ بشر ہی کیا جسے نوعِ بشر کا
غم نہیں
(عوامی شاعرحبیب جالب) |