اب وقت آ گیا ہے کہ ہم لاک ڈائون کر کے اپنے ملک
کوبچالیں۔ ا س لاک دائون میں ہمیں اپنے ملک کو سب سے علیحدہ رکھنا پڑے گا۔
بھلا کیسے؟ ہمیں اپنی کرنسی ، سونا چَاندی سب کو دنیا سے بچانا پڑے گا۔ جن
ممَالک نے بھروسہ کیا انکا سونا تو /11 9کے وقت ہی غائب کردیا تھا۔ اور
ڈالر کے پیچھے کوئی سونا تو ہے ہی نہیں۔جو نوٹ تھے۔ وہ ڈیجیٹل کرنسی مِیں
تبدیل ہو نے والے ہیں۔کرونا بلا سبب تو نہیں لا یا گیا۔نیو ورلڈ آرڈر کیا
ہے ہم اور ہمارے حکَمران سمجھے ہی نہیں؟ ویسے تو ہم پہلےبھی آزاد نہیں تھے
۔ لیکن نیو ورلڈ آرڈر کے بعد ہم پوری طرح فرعون کے محکوم ہیں۔ ہمارے ملک
جیسے ممالک کو یہ ا پنی طاقت اور دولت کے بل پر نچایئں گے۔
مغربی طاقتیں ہمیشہ سے تیسری دنیا کے ممالک پر قبضہ کرنے کے نئے نئے بہانے
ڈھونڈتی رہتی ہیں۔ اور ہمارے کم علم لیڈر ان کے بہلاوے میں آ جاتے ہیں۔
مثال کے طور پر کوئی پچَاس برس پہلے انہوں نے گندم کا جینیاتی بیج
((Genetic Seed
یہ کہہ کر دیا کہ اسکی پیداوار عام بیج سے زیادہ ہے۔ ہمارے ہاں اسکی بڑی
پذیرائی ہوئی۔
اگلے سال ہمیں معلوم ہوا کہ گذشتہ سال ہم نے جس بیج سے پیداوار لی ہے اسکو
بطور بیج استعمال نہیں کر سکتے ۔ ہمیں اگر کاشت کرنی ہے تو بیج انہی سے
لینا پڑے گا۔ مغرب کی اس چالا کی سے ہم انہی سے بیج لینے پر مجبور ہو گئے۔
میں نے سنا تھا کہ ہمارے بعض کسانوں کے پاس ہمارا دیسی بیج موجود تھا انہوں
نے پھر اپنا دیسی بیج استعمال کیا۔آج کل کیا صورتحال ہے مجھے نہیں معلوم۔
اسی طرح مغرب اپنا کنٹرول قائم رکھنے کے لئے ایسی بہت سی ہوشیاری کرتا رہتا
ہے۔ یہ موجودہ وائرس بھی ان ہی کی کار گذاری ہے۔ اسلئے ہر طرف پروپگنڈا کیا
جا ریا ہے کہ وائرس کی مشکل سے نکلنے کے بعد دنیا بہت بدل جائے گی۔وجہ کیا
ہے ؟ ایک تو انہوں نے آبادی میں تخفیف کا حدف حاصل کر لیا ہوگا۔ دوسری طرف
اس وائرس کا خوف پیدا کر کے ہر سال ویکسین لگانے پر اصرار کریں گے۔ اور
پوری دنیا میں اس ویکسین سے کتنا کما ئیں گے۔ تیسرا حدف یہ کہ پوری دنیا کو
شدید نقصان پہنچا کر کمزور کر دیا۔ اب کوئی انکے مقابل نہ ہوگا۔
بل گیٹ ایک اور خطرناک وباؑ کی پیش گوئی کر رہے ہیں ۔ آخر کس بنیاد پر؟ کیا
یہی وائرس کے بنانے والے ہیں؟
مندرجہ بالا وجوہات کی روشنی میں یہ کہ رہا ہوں کہ اپنی سلامتی کی خاطر
ہمیں بھی دیگر کمیونسٹ ممالک کی طرح آئرن کرٹین ڈالنا ہوگا۔اور بین
الاقوامی اداروں سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنا ہو گا۔ نہ سود نہ مغربی دوایئں
۔ نہ ان کی طبّی مہارت۔سب سے اجتناب کرنا ہو گا۔
اپنے ملک میں اپنی لیباریٹری اور فارمیسی بنانی پڑے گی۔ اور سائنس کے تمام
شعبوں میں خود کفیل ہونا ہوگا۔ اور سیاست میں خود کفیلی یہ ہوگی کہ ہم توبہ
کریں اور اس مملکتِ خداداد میں اسلامی سیاسی نظام قائم کریں۔
اگر ہمارا یہ نا سمجھی کا لاک ڈائون جاری رہا تو پھر ہماری بقا ممکن نہیں۔
ہم تو مسلمان ہیں قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے کہ ہر کسی کی
موت کا وقت مقرر ہے۔ اورکوئی نہ پہلے جا سکتا ہے نہ بعد میں۔ ہمیں کیا ہو
گیا ہے کہ ہم بنیادی عقیدے سے پھر گئے ہیں۔
ہمیں اگر کچھ کرنا ہے تو اپنی جانچ پرکھ کی صلاحیتوں کو بڑھائیں۔ اور وائرس
کی معلومات اپنے طور پر جانیں۔ اسکے بنانے والوں کے بیانات پر نہ جائیں۔
ابھی تو ہم بہت کچھ نہیں جانتے۔ مغرب کو دنیا پر غلبہ حاصل کرنے کا جنون
ہے۔ اور وہ اسکے لئے کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ ان کے جھوٹے بیانات کی ایک طویل
فہرست ہے۔ جن سے پوری دنیا واقف ہے۔ یہاں ان کا تذکرہ غیر ضروری ہے۔
اللہ سے دعا ہے کہ ہمارے قاعدین اور عوام کے ایمان میں برکت عطا فرمائے۔
اور اس مشکل میں ہماری رہنمائی فرمائے۔ آمین
|