سوال تو ۔۔۔کروو نا؟

آج کل کروونا وائرس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ ہزاروں افراد کروونا کی بدولت لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ لاکھوں وائرس کی وجہ سے تنہائی میں یا ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔ سوال کیا جارہا ہے کہ کیا یہ بائیولوجیکل وار ہے جو کسی ہتھیار کی بجائے وائرس سے لڑی جارہی ہے ؟سوال تو یہ بھی کرونا کہ جہاں مسلمانان عالم اپنے اﷲ کے حضور سربسجود ہیں وہاں اب غیر مسلم بھی اوپر کی طرف نظریں اٹھا کراﷲ کی طرف رجوع کرنے پر کیوں مجبور ہوگئے؟ سوال کرونا کہ اس وائرس کے ہلکے سے جھٹکے نے خود کو دنیا کی سپر پاور سمجھنے والوں کو میرے رب کے سامنے کیسے حقیر بنا دیاہے؟
وائرس سے متاثرہ حالات میں غریب، امیر آدمی سے زیادہ مضبوط ہے کیونکہ یہ وباء باہر کے ممالک کی ایجاد ہے جو صرف امیروں کے ذریعے ہی پاکستان میں پہنچی ہے۔اس بیماری کے علاج کے لیے دنیا بھر سے ابھی تک کوئی دعوے دار نہیں اٹھا جو یہ کہہ سکے کہ میں اس کا علاج کرسکتا ہوں۔لاک ڈاؤن کو دیکھ کر سوال تو کرونا کہ جانور چڑیا گھر میں کیسا محسوس کرتے ہوں گے؟یہ بھی سوال کرونا جو لوگ وقت کی قلت کے شاقی تھے جن کا کاروبار بڑا وسیع تھا اور انہیں فرصت نہ ملنے کا گلہ تھا آج اپنے گھروں میں پڑے پڑے محصور ہو کر کاروبار کرنے پر کیوں مجبور ہیں ؟جو موم بتی مافیا، ممی ڈیڈی لوگ فاسٹ فوڈ اور ہوٹلوں پر جاکرکھانے کھائے بغیر نہیں رہ سکتے ان سے بھی کوئی سوال تو کروناکہ اب وہ لوگ کیسے زندہ ہیں؟ دنیا کتنی بھی ترقی کر لے لیکن وہ قدرت کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔

کورونا سے کی وجہ سے پاکستان بھر میں لاک ڈاؤن جاری ہے ۔حتیٰ کہ دفعہ 144 بھی نافذ کردی گئی ہے۔کراچی میں کرفیو تک لگایا ہوا ہے۔پورے ملک میں کورونا کی وجہ سے ایک عجیب سی کیفیت طاری ہے۔حکومتی سطح پر عوام کو تمام تر مصروفیات، کاروبار ، دفاتر اور دیگر سرگرمیاں چھڑ واکر گھر میں رہنے کاکہا جارہاہے مگر عوام حسب روایت کروونا سے خفیہ آشنائی کر کے چپکے چپکے سب سے چھپ کے بہانے بہانے سے گھر کا راستہ دکھا رہی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ عوام کو گھر میں بٹھانے کے لیے حکومت کو کرفیوتک لگانا پڑرہا ہے۔ بغیر احتیاطی تدابیر اختیار کیے گھر سے نکلنا اور فخریہ انداز میں سب کو بتانا بلکہ بدنام زمانہ ٹک ٹاک پر وائرل کرناباعث فخر سمجھا جا رہا ہے۔

یہاں اساتذہ کو خراج تحسین پیش نہ کرنا صریحا زیادتی ہو گی کہ حکومت کے سکھا شاہی و نادرشاہی احکامات ـ’’مار نہیں پیار‘‘ کے باوجود کس طرح معصوم اور نا سمجھ بچوں کو تعلیم و تربیت سے آراستہ کر تے ہیں ۔ بچوں کی نسبت بڑوں کو سمجھانا بہت آسان ہوتا ہے کہ وہ بذات خود سمجھدار ہوتے ہیں ۔ ایک استادکہ بقول : ’’محکمہ تعلیم میں ہونے والی ٹریننگ میں یہ سن سن کر کان پک گئے کہ ڈنڈا اٹھانے کا مطلب ہے کہ آپ تسلیم کر چکے ہیں کہ آپ میں سمجھانے کی اہلیت نہیں۔‘‘ استادو ! تم بھی حکمرانوں سے بالعموم اور محکمہ تعلیم کے حکام بالا سے بالخصوس جائز سوال کرونا کہ ملک بھر میں عوام کو گھروں میں روکے رکھنے کے لیے تمام ذرائع ابلاغ کے استعمال کے ساتھ ساتھ پولیس ،رینجرز اور فوج کا استعمال کرتے ہوئے کیوں بہت سی ویڈیو وائرل ہوئیں جہاں پر عوام کو مرغا بنایا گیا، ڈنڈے مارے گئے۔ڈنڈے کھاتے ہوئے بھاگتا دکھایا گیا ۔ملک کی سب سے تربیت یافتہ فوج، رینجرز، پولیس اور دیگر ادارے اب لاک ڈاؤن ختم کریں، عوام سے نہایت ہی پیار، محبت اور شفقت سے بغیر گھورے، بغیر ڈانٹے ، بغیر مارے، بغیر بال پکڑے، بغیر کان اور بازو مروڑے عوام کو گھروں میں بٹھائیں۔اگرعوام نہ بیٹھیں تو استاد کو بچے کو سزا دیتے ہوئے "رنگے ہاتھوں" پکڑے جانے پر پاگل کتوں کی طرح بھونکنے والوں کی بولتی یہاں کیوں بند ہے ۔ سکرینوں پر بیٹھ کر بڑے غصے اور جاہلانہ انداز اپناتے ہوئے استادکو فوری قرار واقعی سزا دلوانے اور نشان عبرت بنانے کا مطالبہ کرنے والے جغادری اینکرز اور دانشوروں کو عوام کو گھروں میں بٹھانے کی ذمہ داری دے کر چوکوں چوراہوں میں کھڑا کر دیں اور تب تک وہیں کھڑا رہنے دیں جب تک یہ دانشوری سے تائب نہ ہو جائیں۔ کیونکہ اگر یہ ڈنڈے برسانے، موٹر سائیکلوں کی ہوا نکالنے، دفعہ 144، لاک ڈاؤن، کرفیو اور جرمانوں کے بغیر بڑے اور سمجھدار شہریوں کو صرف گھروں میں بیٹھنے پر قائل نہیں کر سکتے تو انہیں کوئی حق حاصل نہیں کہ یہ ان اساتذہ کے بارے میں ہرزہ سرائی کریں جنہوں نے نہ صرف خود ان کو اس مقام تک پہنچایا اور آج بھی بچوں کر صرف بٹھانا نہیں بلکہ گھروں سے کھینچ کر لا کر پڑھانا بھی ہوتا ہے اور پھر ان کے رزلٹ کی ذمہ داری بھی اٹھانا ہوتی ہے۔

لاک ڈاؤن کی وجہ سے پاکستان میں معاشی بحران بڑھتا جارہا ہے۔ غریب تو غریب درمیانے درجے کے شہری بھی اس لاک ڈاؤن سے متاثر ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ حکومت بھی کیا کرے کروونا سے اپنی عوام کو مروا بھی تونہیں سکتے۔ اس کے لیے ہمیں حکومت سے مل کر مشترکہ لائحہ عمل اپنا نا چاہیے۔بطور قوم ہمیں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے ذاتی تشہیر اور پیکیج کی بجائے فلاحی کام کرنے والے اداروں کو اپنے ساتھ ملانا چاہیے جیسے کوئٹہ میں حفاظتی کٹس اور دیگر سامان جماعت اسلامی کی الخدمت فاؤنڈیشن نے ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکل سٹاف کو دیا۔اپنے ہسپتال ، ڈسپنسریاں اور ایمبولنس وغیرہ اس کام کے لیے وقف کیے ۔ بہت سے دردمند ضرورت مندوں کی خدمت کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ حکومت کے طریقہ پر تحفظات رکھتے ہیں اس لیے فلاحی تنظیموں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے تاکہ واقعی ہم ایک مسلم امت ثابت ہوں اور مصیبت کی گھڑی میں ایک دوسرے کے کام آئیں ۔

کچھ چیزیں جو کروونا کی وجہ سے زیادہ متاثر ہورہی ہیں ان پر حکومت کو بھی نظر ثانی کی اشد ضرور ت ہے۔ سب سے پہلے حکومت کو چاہیے کہ کروونا کے ساتھ ساتھ دوسرے مریضوں کی دیکھ بھال بھی ضروری ہے۔ پچھلے دنوں ایک ہسپتال میں جانا ہوا تو وہاں دیکھا کہ ڈاکٹر زعام مریض کو بھی زبردستی کوروونا کی علامات میں ڈھالنا چاہتے ہیں۔ باربار ان نشانیوں کے بارے میں سوال جواب کررہے جو کوروونا سے متعلق ہیں۔ کیا کوروونا ہی مرض رہ گیا ہے بس پاکستان میں اب؟

لاک ڈاؤن کی وجہ سے ہر طرف دکانیں بند ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنی زیر نگرانی ہرچھوٹے بڑے بس سٹاپ پر ایک ٹک شاپ اور ایک ہوٹل لازمی کھلوائے تاکہ دوران سفر ایمرجنسی میں پانی کی بوتل سے لیکر کچھ کھانے پینے کی چیز لے سکیں۔ لازمی نہیں کہ پبلک ٹرانسپورٹ بند ہے تو سٹاپ پر ان شاپس کی ضرورت نہیں کیونکہ روڈ پر ایمبولینس، ریسکیو 1122 اور اپنی ذاتی گاڑی پر کوئی مریض بھی ہوسکتا ہے جس کو کسی بھی چیز کی ضرورت کسی بھی جگہ پڑجائے تو اس کو نزدیک سے نزدیک تر میسر ہو۔
 
ماہ رمضان بہت جلد سایہ فگن ہونے والا ہے جس میں امت مسلمہ اپنے فرائض پوری ذمہ داری سے ادا کرے گی ۔اس ماہ میں اﷲ تعالیٰ اپنی رحمت کے دروازے مسلمانوں کے لیے کھول دیتے ہیں۔ اس لیے حکومت کوئی ایسی پالیسی بنائے جس سے مسلمان مسجد میں عبادت کرکے زیادہ سے زیادہ ثواب کما کر اپنی آخرت بنا سکیں۔ اس ماہ کو مدنظر رکھتے ہوئے ٹیلر ز، کلاتھ ، گارمنٹس اور ایسی شاپس جن کا عید کے دن سے تعلق ہو وہ بھی جلد از جلد کھولنی چاہیے تاکہ عوام کا رش نہ پڑے اور عوام کو پریشانی بھی نہ اٹھانی پڑے۔

اور میری امت مسلمہ سے درخواست ہے کہ وہ دوران عبادت اپنے رب سے دعا کریں کہ اﷲ کوروونا جیسے مرض سے پوری دنیا کو نجات دلائے لیکن اہلیان پاکستان سے دست بستہ درخواست یہ بھی ہے کہ خودساختہ مہنگائی سے غریب کی گردن کاٹنے کی بجائے اپنے خون پسینے کی کمائی کے صدقے سے دوسرے کے گھر کا چولہا جلانے کی فکر کریں۔
 

Aqeel Khan
About the Author: Aqeel Khan Read More Articles by Aqeel Khan: 12 Articles with 8322 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.