بدقسمتی سے ہمارے ملک کے پچیس فیصد سے زائد افراد
خط سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، اور بہت سے لوگ ایسے ہیں جو کہ عام حالات
میں بھی بہت مشکل سے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں جہاں مفلسی و فاقہ کشی کے
ڈیرے رہتے ہیں۔ اور اب جبکہ ملک بھر میں لاک ڈاؤن کی صورتحال ہے کاروباری
ادارے، فیکٹریاں و کارخانے ، ٹرانسپورٹ وغیرہ سب کچھ تو بند ہے ایسے میں
غریب محنت کشوں اور تازہ روزی کماکر گزر بسر کرنے والوں کے حالات انتہائی
گھمبیر ہیں،کرونا وائرس سے زندگی کا پہیہ جام ہے تو دہاڑی داروں کے چولہے
ٹھنڈے پڑ گئے ہیں ۔ محنت کش طبقہ کی ذمہ داری سے عہدہ برا ہونے کیلئے
حکومتی سطح پر مستحقین کے گھروں تک اشیائے خوردونوش، ادویات پہنچانے اور 12
ہزار فی خاندان نقد امداد دینے کا اعلان کیا گیا ہے ، اوراس مقصد کیلئے
ٹائیگر فورس تشکیل دیکر یوتھ رضا کار پروگرام کا اجراء کیا ہے۔ مگر یہ بھی
حقیقت ہے کہ ماضی میں عوام کیلئے جتنے بھی ریلیف پیکیج جاری کئے جاتے رہے
وہ مستحقین کے بجائے پارٹی ورکروں اور چہیتوں میں ہی تقسیم ہوتے رہے ہیں ۔
اس لیے بہتر ہو گا کہ حکومت قومی وسائل کی مستحق افراد تک رسائی میں شفافیت
کو یقینی بنائے تاکہ حکومتی امداد مستحق افراد تک پہنچ سکے۔
اس کے علاوہ یہ کہ بحران کی کیفیت میں ہر قسم کے حکومتی اور غیر حکومتی
پیکیج، فلاحی تنظیموں اور انفرادی طور پر مدد کرنے والوں کی تمام تر توجہ
غریب محنت کشوں پر تو ہوتی ہے۔ جبکہ پاکستان میں لوئر مڈل کلاس یا مڈل کلاس
افراد کی تعداد لاکھوں میں نہیں بلکہ کروڑوں میں ہے ۔ پندرہ بیس ہزار کی
آمدنی والے سفید پوش لوگ جو کسی کے آگے ہاتھ بھی نہیں پھیلا سکتے اور بمشکل
اپنا بھرم قائم رکھ پاتے ہیں ان کی مدد اور معاونت کے لئے کوئی نہیں سوچتا،
کہ فلاں صاحب کی دکان بند پڑی ہے ، فلاں کا کام کاج نہیں ہے کیسے گزارا ہو
رہا ہوگا؟حکومت کی طرف سے اس طبقہ کو بھی ٹیکسوں اور انرجی بلوں کی مد میں
چھوٹ ملنا چاہیے ، اور ان کے نقصان کے ازالہ کے لیے موثر اقدامات اٹھانا
چاہیے ۔ خوف و مایوسی کی صورتحال میں آج الحمد ﷲ چند شہروں میں کرونا
متاثرین کی مدد کے لئے گمنام مخیر افراد بھی سرگرم عمل ہیں، جن کا وجود اہل
پاکستان کے لیے باعث خوشی ہے۔
جو کہ نہ تو اپنا چہرہ دکھاتے ہیں اور نہ ہی نام بتاتے ہیں ، اور نہ ہی ان
کو سیلفی بنا کر تصویر اپ لوڈ کرنے کی جستجو ہوتی ہے ۔ بس خاموشی سے مستحق
افراد کو راشن اور دوسری اشیاء دے کر ان کی دعائیں لیتے ہیں۔ الخدمت
فاؤنڈیشن نے پچھلے چند دنوں میں تیس چالیس کروڑ سے زیادہ کا راشن تقسیم کیا
۔ اسی طرح اخوت محلہ کی سطح پرمواخات کے تصور کو لے کر چل رہی ہے ، دوسری
تنظیمیں بھی اپنے اپنے انداز میں کام کر رہی ہیں۔ لا ک ڈاؤن کی کٹھن
صورتحال میں آج ہمارے ملک کو مثالی ایثار و یکجہتی کی ضرورت ہے جو کہ
حکمران ، سیاسی و دینی شخصیات، سرکاری و نجی اداروں کے افسران ، ممتاز
صنعتکار، کاروباری شخصیات، اور سماجی رہنماؤں کی عملیت پسندی کی متقاضی ہے
۔ مخیر حضرات کو اپنے اپنے دائروں ،احاطوں اور حدود کے اندر مستحقین کی مدد
کو یقینی بنا نا چاہیے ، اور ملک کے متمول طبقات کی جانب سے صلہ رحمی کے
جذبہ کو بروئے کار لا کر اپنے پاس پڑوس، گلی محلے اور شہر بھر میں ایسا
اہتمام کرنا چاہیے کہ کوئی فرد کسی گھر میں بھوکا نہ سوئے اور ادویات نہ
ہونے کے باعث کسی کی ہلاکت نہ ہو۔
|