ملک میں جب سے لاک ڈائون کا سلسلہ شروع ہوا ہے اس وقت سے
اب تک ملک کے مختلف مقامات پرہزاروںلوگ کورونا کی وباء سے متاثر ہوچکےہیں
اور سینکڑوں لوگ ہلاک ہوچکے ہیں۔ ا ن سب سے الگ بات کی جائے تو کورونا کی
روک تھام کیلئے حکومتوں نے اس لاک ڈائون کو نافذ کیا ہے اس کی خلاف ورزی
کرتے ہوئے اب تک ملک میں 4 ہزار سے زائد افراد کو حراست میں لیا گیا ہے
اور9 ہزار سے زائد افراد پر مقدے عائد کئے گئے ہیں جبکہ 20 ہزار سے زائد
موٹربائک اورکاروں کو آئی ایم وی ایکٹ کے مطابق مقدمہ عائد کرتے ہوئے
جرمانہ وصول کیا گیا ہے۔ یقیناً کورونا مرض کی روک تھام کیلئے نافذ ہونے
والے لاک ڈائون کے قانون کو وزیر اعظم نریندرمودی نے جاری کیا ہو ،اس لاک
ڈائون کی مخالفت میں کئی لوگ سوشیل میڈیا پر وزریر اعظم نریندرمودی کی
مخالفت کررہے ہیں۔ یقیناً وزیر اعظم نریندرمودی سے ہندوستان کے بیشتر لوگوں
اخلافات ہیں اوریہ اختلافات سیاسی ونظریاتی بنیادوں پر ہوسکتے ہیں، لیکن
کورونا ایک ایسی وباء ہے جو نہ تو کسی پارٹی کو دیکھتی ہے اورنہ کسی مذہب
کے ماننے والوں کو اپنی چپیٹ میںلیتی ہے۔ یہ مرض خالص جان لیوا مرض ہے اس
لئے اس مرض سے بچنے کیلئے سخت حفاظتی اقدامات پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ عام
طور پر دیکھا جارہا ہے کہ ملک کے بیشتر علاقوں میں لوگ اس وقت تک ہی گھروں
میں رہتے ہیں جب تک کہ پولیس کا پہرہ رہتا ہو، جب پولیس کی گاڑی گذرجاتی ہے
تو لوگ آزاد گھومنے لگتے ہیں، چوراہوں و نکڑوں پر جب تک پولیس کا پہرا
رہتا ہے اس وقت تک سناٹا چھائے رہتا ہے مگر پولیس کے ہٹنے کے بعد لوگوں کا
بڑا ہجوم سڑکوں پر اتر آتا ہے۔ یہاں سمجھنے کی بات یہ ہے یہ لاگ ڈائون
پولیس کی طاقت کا مظاہرہ کرنے کیلئے نہیں بلکہ عام لوگوں کی حفاظت کیلئے
لاگو کیا گیا ہے۔ ذرا سوچئے کہ جس مرض سے امریکہ، چین، اسپین ، اٹلی جیسے
طاقتور ممالک نہیں بچ سکے اوروہاں کی ٹیکنالوجی ہندوستان کی ٹیکنالوجی سے
100 گنا اڈوانس ہے اوریہاں کے میڈیکل سسٹم سے وہاں کا میڈیکل سسٹم اورزیادہ
سخت ہے تو کیسے ہندوستان کے لوگ اس وباء سے بچ پائیں گے۔ زندگی اورموت
یقیناً اللہ کے ہاتھوں میں ہے لیکن یہ سوچ کر کسی پہاڑی پر سے کودنا حماقت
ہی ہے، لوگ کورونا کو مذاق سمجھ چکے ہیں۔ اس بیماری کی آڑ میں کس طرح سے
گھر کے گھر خاندان کے خاندان مٹ رہے ہیں اس پر توجہ دیں۔ زیادہ نہیںبلکہ بس
5 منٹ کیلئے آنکھیں بند کریں اوران آنکھوں میں اپنوں کی لاشوں کا تصور
کریں ، آپ کو احساس ہوگا کہ لاشوں کا رہنا کتنا دردناک ہوگا۔ آپ کے کمسن
بچے ، بوڑھےماں باپ اگر اس مرض کا شکار ہوجاتے ہیں تو انکا علاج ہونا چار
گنا مشکل ہے جتنا کہ ایک نوجوان کا علاج ہونا۔ بہت مشکل ہے اس مرض سے لڑ
پانااور اس مرض میں مبتلاء ہوکر اپنوں سے دور ہونا ۔ یادرکھئے ! کہ جب کسی
کو کورونا مرض لاحق ہوتا ہے تو اس کی عیادت کیلئے نہ گھر والے جاسکتے ہیں
نہ دوست ۔ جب وہ مرجائے تو نہ اس میت کو غسل ملے گا اورنہ ہی کاندھا۔ جب
قبر میں اتارا جائے گا تو اسکی قبر بھی قبرستان میں الگ تھلگ ہوگی۔ اطلاعات
کے مطابق ملک کے بعض مقامات پر کورونا سے مرنے والے لوگوں کو قبرستان میں
بھی جگہ نہیں مل رہی ہے جب کہ انہیں ویران مقام پر لے جاکرگہرے کھڈے
میںاُتارا نہیں پھینکا جارہا ہے۔ سوچئے کہ ہم دین اسلام کو ماننے والے ہوکر
بھی ہماری میتوں کو تعظیم کے ساتھ دفنایا نہیں جائے تو ایسی موت کا بھی کیا
فائدہ جو دوسروں کیلئے عبرت بن جائے۔ یقیناً وبائی مرض میں فوت ہونے والا
شخص بعض شرائط پر پورا اُترتا ہو تو وہ شہید بن جاتا ہے لیکن اس شہادت میں
لوگ عبرت حاصل کرنے سے بھی گریز کررہے ہیں۔ جملہ طور پر یہ کہا جاسکتا ہے
کہ اس لاک ڈائون پر ہم رضاکارانہ طور پر عمل کریں تو ہی ہماری زندگی بچ
سکتی ہے ورنہ ہم تو جائیں گے ہی ساتھ میں دوسروں کو بھی لے جائیں گے۔ اسی
لئے کہہ رہے ہیں کہ ظلم کو رام رام نہ کہو ، گدھے کو سلام نہ کرو۔۔۔
|