عابدہ حسین ، ساہیوال
پوری دنیا میں کرونا وائرس کے پھیلنے کی وجہ سے نہ صرف جانی نقصان ہوابلکہ
خوف المرض الموت نے جنم لیاجس کی بدولت معیشت کا پہیہ بھی جام ہو گیا۔ وہ
دنیا جو کل تک چکا چوند تھی آج خاموش دکھائی دے رہی ہے ۔کروڑوں روپے آمدن
والی صنعتیں بھی بند ہو گئی ہیں۔ اگر پوری دنیا کو دیکھا جائے تو
چین،امریکہ اور برطانیہ جیسے ممالک کی معیشت متاثر ہو ئے بغیر نہ رہ سکی تو
وہ ممالک جو کہ ترقی پذیر ہیں اور جن میں غربت کی انتہا ہے ان کی معیشت کا
کیا ہو گا ؟؟؟اُن کو آنے والے دنوں میں کن کن crisisکا سامنا کرنا پڑے گا
؟؟؟اس کا ادراک قبل از وقت شاید ممکن نہیں۔ لاک ڈاؤن میں مزید ایک ہفتہ
توسیع اور کرونا کے مزید پھیلاؤ کے خطرے نے ایک غیر یقینی سی کیفیت بھرپا
کر رکھی ہے۔ غریب جو ایک ایک دن گِن کر نکال رہا تھا اس پر مزید کڑا وقت آ
ن پڑا ہے جبکہ حکومت ابھی راشن کی تقسیم کی تیاریوں میں مصروف ہے۔ ابھی
راشن مراکز کے نام جاری کئے جارہے ہیں۔ دوسری طرف منافع خوروں نے بھی اپنا
دھندا مزید تیز کر دیا ہے گویا ’’لوٹ لو جتنا لوٹ سکو‘‘ یہاں تک کہ ایک
انڈے کے قیمت بھی دس سے بارہ روپے ہو چکی ہے۔ پھر آٹا،گھی،چاول،چینی کے نرخ
کہاں تک جائیں گے کچھ معلوم نہیں؟؟؟۔ ریٹ مقرر کرنے کے کوئی اصول و ضوابط
نظر نہیں آ رہے ہیں ۔ چینی تو جیسے کچھ دنوں تک ویسے ہی سونے کے بھاؤ ملے
گی ۔ناجائز منافع خوری پر احتجاج کرتے ہوئے مقررہ ریٹ پر چیز خریدنے پر اگر
کوئی گاہک اصرار کرتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ بڑے سٹوروں والوں نے اسی قیمت
پر دی ہے جبکہ بڑے سٹورز والے کہتے ہمارے پاس اشیائے خورد ونوش آہی نہیں
رہی ہیں بلیک مار کیٹنگ ہو رہی ہے، ہم کہاں سے لائیں؟؟؟۔ آفرین!! ایسے
لوگوں پر ۔اس قوم کی حالت کون بدلے؟؟ جو خود اپنی نہ بدل سکے؟؟ یعنی ہم
ابھی تک ویسے کے ویسے ہی ہیں۔پوری دنیا ہل کر رہ گئی اور ہمارے نفس کا
تزکیہ نہ ہو سکا۔ ہمارے گھر کا چولہا جلتارہے۔ کو ئی مرتا ہے تو مر جائے۔
خدارا!!ان غریب اور بے بس لوگوں پر نہیں تو اپنے آپ پر رحم کھا لیں۔ آپ جو
اتنا حساب کتاب رکھتے ہیں تو آپ کو بھی حساب دینا پڑے گا۔ ہم جو آج ہر وقت
حکومت کو کوستے رہتے ہیں حکومت یہ کر رہی ہے۔ اب طنزاً کہا جاتا ہے اور ووٹ
دو اب روتے ہو تبدیلی آگئی ہے۔ صد افسوس ہم خود کیا کرتے ہیں؟۔ کبھی سوچا
ہے ؟؟؟ کیا ہم اپنے نفس میں تبدیلی نہیں لاسکتے؟؟؟اور ہمارے ہاں تو دال میں
چینی اور چاول مکس کر کے بیچے جاتے ہیں۔ وزن بڑھانے کی خاطر دال کو گیلا کر
کے بھی رکھا جاتا ہے۔ یہاں تک کے چھوٹے بچوں کے کھانے کی اشیاء Candy،
چاکلیٹ اور ایک بسکٹ کے کئی کئی ڈوپلیکیٹ gala کی جگہ glee اور gale،
اورsuper کی جگہ snooper کے نام غیرمعیاری چیزیں فروخت کرتے ہیں مطلب اصل
نام سے ملتے جلتے نام رکھ کر عوام کو دھوکہ دیتے ہیں پھر ہم اذانیں دے کر
خدا کو منانے کی کوشش میں ہیں۔ اگر خدا نے صرف عبادت ہی کرانا ہوتی تو ہمیں
عرش پر ہی رکھ لیا جاتا ’’یہ دنیا پورا امتحان ہے‘‘ اور نوٹ پر یہ نہ
لکھوایا جاتا ’’حلال رزق عین عبادت ہے‘‘۔ ہم میں سے بہت سے لوگ ایسے ہیں جو
کورونا کو عذاب کہہ کر کافروں کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں مگر ہمارے اس بیمار
زدہ معاشرے میں ابھی بھی ظلم جاری ہے ۔ جب بھی کبھی وطن عزیز کو مشکل حالات
کا سامنا کرنا پڑا ہے یقینا ہم نے مل کر اس کا سامنا کیا اور ہر مشکل میں
فتح ہماری ہو ئی مگر ایسے عناصر جو ں کے توں ہی رہے ایک طرف افرا تفری کی
غیر یقینی صورت حال اور دوسری طرف غذائی قلت وبحران اور بلا کی مہنگائی ۔
مگر کافر کیا کرتے ہیں؟؟ اپنی حیثیت کے مطابق کنڑی بیوشن۔ یاد رکھیے۔
’’انسانیت کی کو ئی ذات نہیں ہو تی دردِ دل رکھنے والے انسان کی کوئی بھی
ذات ہو سکتی ہے‘‘۔۔جب جاپان میں تسنا می آیا اور بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی
تو Bbc نے ایک چھوٹاسا پیکج نشر کیا۔ ایک بوڑھی عورت کے بارے میں جو الیکڑک
کا سامان بیچا کرتی تھی جب نمائند ے نے اس سے ریٹ پوچھا تو وہ حیران رہ گیا
کہ اس کی پراڈکٹ کا ریٹ مارکیٹ کے ریٹ سے بہت کم تھا اور جب وجہ پوچھی تو
اس عمر رسیدہ عورت نے بتا یا کہ میں مارکیٹ سے ہول سیل پر سامان خرید کر
لاتی ہوں اور اُسی ریٹ پر وہی سامان اپنے مصیبت ذدہ لوگوں کو بیچتی ہوں اور
جب نمائندے نے پوچھا کہ وہ اپنا معاوضہ کیوں نہیں لیتی تو اس بوڑھی عورت نے
جواب دیا کہ ’’میں اپنی قوم کی مصیبت سے فائدہ نہیں اُٹھانا چاہتی میں اپنے
حصے کا کنٹری بیوشن کر رہی ہوں‘‘۔لہذا اذانیں بھی دیجئے عبادتیں بھی کیجئے
اور اپنے حصے کا کنٹری بیوشن بھی کیجئے جسم کی صفائی کے ساتھ ساتھ تزکیہ
نفس بھی۔
حکومت ہر جگہ نہیں پہنچ سکتی مگر خدا کی حکومت ہر جگہ ہے۔ اگر فوڈ انسپکٹر
انسپیکشن نہیں کرتا تو ہمارے گرد دو انسپکڑموجود ہیں جو ہمارے ہر عمل کو
درج کرتے ہیں۔۔
|