شائننگ انڈیا، انکریڈیبل انڈیا اور ایسے ہی کئی سلوگن اور نعرے بھارت کو بہتر ثابت کرنے کے لیے مسلسل بھارت کے میڈیا کی زینت بنتے رہتے ہیں اور پھر پوری دنیا میں پھیلا دیے جاتے ہیں اور یوں بھارت خود کو دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل سمجھنے لگتا ہے اور منوانے کی کو شش کرتا ہے اور اس سے بھی آگے بڑھ کر خود کو سلامتی کونسل کا مستقل رکن بنانے کی کوشش کرتا ہے اور اس کے لیے عرصہ دراز سے کوشاں ہے۔بھارت نے کچھ میدانوں میں ضرور ترقی کی ہے جیسے کہ کہا جارہا ہے کہ طب یعنی میڈیکل کے شعبے میں اُس نے بہت ترقی کی ہے، اگرچہ اس شعبے میں کام ضرور ہوا ہوگا لیکن یہ اس نہج پر نہیں ہوا جس درجے پر بھارت اس کی تشہیر کرتا ہے۔ اس کا پول اُس وقت کھلا جب کرونا وائرس نے دنیا پر حملہ کیا، اگرچہ اس نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور کوئی بھی ملک اس پرابھی اُس طرح سے قابو نہیں پا سکا ہے کہ وہاں کوئی بھی کیس نہ آرہا ہو حتّٰی کہ چین میں بھی اب بھی کوئی نہ کوئی کیس آجاتا ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہاں اس مرض پر قابو پا لیا گیا ہے۔ اس لیے کسی ملک کو چیلنج نہیں کیا جا سکتاکہ وہ کیوں اس مرض پر قابو نہیں پا سکالیکن اس سے بہت سے ملکوں کا پول کھل گیاکہ وہ صحت کے شعبے کو کتنی اہمیت دے رہے ہیں۔امریکہ جیسے ملک میں بھی کہا جارہا ہے کہ حکومت نے صحت کے شعبے سے زیادہ اسلحے پر خرچ کیا۔ ان ممالک میں تو ریسرچ کا کلچر موجود ہے لہٰذا کچھ نہ کچھ ہوا ہوگا اب بھی ٹیسٹ کیے جا رہے ہیں اموات بھی بڑی حد تک ریکارڈ پر لائی جا رہی ہیں لیکن بھارت کا حال پاکستان سے کچھ اچھا نہیں ہے۔وہاں بھی ٹیسٹ محدود تعداد میں ہو رہے ہیں لہٰذا کرونا کے مریضوں کی تعداد کم ہے جو اگر زیادہ ٹیسٹ کیے گئے تو یقیناََ اب سے کئی کئی گنا زیادہ ہوں گے۔حال ہی میں بھارت سے علاج کروا کے پاکستان واپس آنے والے تین مریضوں کے جب ٹیسٹ کیے گئے تو وہ پازیٹو آئے۔ اگر وسیع پیمانے پر بھارت میں صحت کے شعبے کا جائزہ لیا جائے تو وہاں تو پبلک ہیلتھ پر ہی وہ توجہ نہیں دی گئی جو درکار تھی۔صحت کے لیے صفائی پہلی شرط ہے جو بھارت میں ناپید ہے اس کے شہر دنیا کے گندے ترین شہروں میں سے ہیں۔اگر صفائی پر توجہ نہیں دی جائے گی تو صحت کا شعبہ ترقی نہیں کر سکتا۔ وہاں اگر صحت کی کچھ سہولیات ہیں بھی تو امیروں کے لیے غریب آدمی ایسی کسی بھی سہولت کے لیے ترستا ہے۔خود کمیونٹی میڈیسن کے جرنل جو انڈین ایسو سی ایشن آف پریونٹیو اینڈ میڈیسن کا رسالہ ہے میں اس بات کا اعتراف کیا گیا ہے کہ معاشی ترقی نے امیر کو امیر اور غریب کو غریب تر کر کے دونوں طبقات کے بیچ میں ایک بہت بڑا خلاء پیدا کر دیا ہے جہاں حکومت کو اس خلاء کو پُر کرنے کی ضرورت ہے وہاں صحت کے شعبے میں بھی اس تفاوت کو دور کرنا ضروری ہے اور یہ بھی کہ اس وقت بھارت بیماریوں کے تہرے بوجھ سے دوچار ہے اور ہمارا چھوت کی بیماریوں پر کام کا منصوبہ ادھورا ہے بلکہ ادھورا چھوڑ دیا گیا ہے۔سو یہ بھارت میں صحت کے شعبے کی اصل حقیقت ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ چھوت کی بیماریاں جب پھیلتی ہیں تو صحت کے پورے شعبے کو ہلا کر رکھ دیتی ہیں جیسا کہ کرونا وائرس نے کیا اور دنیا کو احساس دلا دیا کہ وہ کتنے ضروری شعبے کو نظر انداز کر رہی تھی۔اسی رپورٹ میں کہا گیاہے کہ ہسپتالوں کی کمی بھارت کا ایک شدید مسئلہ ہے اگر یہ سب کچھ ہے تو بھارت نے آخر صحت کے شعبے میں کہاں ترقی کی ہے۔ترقی تو تب کہی جا سکتی ہے جب ایک سہولت ایک عام آدمی تک پہنچے۔بات دراصل یہ ہے کہ بھارت اصل میں کچھ اور ہے اور دنیا کو کچھ اور تاثر دیتا ہے اور اس کا پراپیگنڈا سیل اس قدر مضبوط اور موئثر ہے کہ وہ دنیا کو بھارت کا اصل چہرہ دیکھنے نہیں دیتا۔اس کا الیکٹرانک اور سوشل میڈیا دونوں دنیا کو وہ کچھ دکھاتے ہیں جو بھارت کے محدود ترین علاقوں اور لوگوں تک محدود ہے۔وہ کلکتہ کا گند،دہلی کی آلودگی،ممبئی کا رش اور سڑکوں پر کھلے آسمان تلے سوتے اور صحت و صفائی سے دور رہنے والوں کی جھلک دنیا کو نہیں دکھاتے۔وہ صحت کے شعبے میں جہاں جہاں ترقی ہوئی اس کا ذکر کرتے ہیں لیکن جن جن شعبوں میں حالات دگرگوں ہیں ان کا تذکرہ نہیں کرتے۔بھارت کا غریب آج بھی ڈاکٹر اور ہسپتال کی فیس ادا نہ کرسکنے کی وجہ سے حالات کے رحم و کرم پر ہے لیکن اس سب کچھ کے باوجود جنوبی ایشیاء سے بھی اور خاص کر پاکستان سے لوگ بھارت جا کر علاج کرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دراصل جو لوگ پیسہ دے سکتے ہیں وہی علاج کے لیے بھارت پہنچتے ہیں لیکن جو نہیں دے سکتے وہ بھارت میں رہ کر بھی ان سہولتوں سے محروم ہیں۔مجھے یہاں یہ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان میں یہ سہولیات یا تو نہیں ہیں یا عام آدمی کی پہنچ سے دور ہیں اس لیے وہ بھارت کی ترقی کا یقین کرتے ہیں مگر یہ سمجھنا کہ بھارت نے واقعی طب کی دنیا میں کوئی انقلاب بر پا کیا ہے کچھ ایسا درست بھی نہیں جیسا کہ اُس کا الیکٹرانک یا سوشل میڈیا دکھا رہا ہے۔سچ یہ ہے کہ اس کی حالت بھی بس پاکستان جیسی ہے اور اگر وہ یہ چاہتا ہے کہ طب میں جنوبی ایشیاء یورپ اور امریکہ کے دستِ نگر نہ رہیں تو اسے ہتھیاروں کی دوڑ ختم کرنی ہو گی اور اپنی توجہ بھی اپنے عوام کی طرف موڑنی ہو گی اور علاقے کی دوسرے ممالک کو بھی یہ موقع فراہم کرنا ہو گا کہ وہ بھی مجبوراََ دفاعی اخراجات کی بجائے خطے میں ترقی کے عوامی فلاحی کاموں کی طرف توجہ دے سکیں تاکہ ترقی صرف کا غذوں اور میڈیا کی حد تک نہ رہے بلکہ عوام اور ان کے گھروں تک پہنچ سکے۔ |