تبصرہ: زیر سماعت کتاب
گئے وقتوں کی بات ہے کہ ایک غلام بچہ اپنے آقا کیلئے انگور خریدنے نکلا
راستے میں پیسے کھو گئے تو پریشانی کے عالم میں رونے لگا۔ 9 سال کے اس بچے
کو ایک بزرگ نے پیسے دیئے اور و عدہ لیا کہ جب اﷲ تمہیں حکومت سے سرفراز
کرے تو تم غریبوں اور بھوکوں کی مدد کرنا، خود کو عشق مصطفیؐ سے لبریز
رکھنا۔بعد میں یہ غلام سلطان شمس الدین التمشؒ عظیم مسلم حکمران بنے۔ در
حقیقت کسی بھی مسلمان کی زندگی کا سرمایہ حیات عشق مصطفیؐ ہے۔ وہ زبانی ہو
، عملی، غرض جس طرح بھی ہو صدق اور اخلاص کی خوشبو سے معطر ہو۔ 29 فروری
2020ء مجھے واٹس ایپ پر سربراہ قلم فاؤنڈیشن علامہ عبد الستار عاصم کا
پیغام ملا کہ مجاہد ختم نبوت جسٹس میاں نذیر اختر کی کتاب ’’حاضری سے حضوری
تک‘‘ چھپ کر مارکیٹ میں آچکی ہے ۔ اس روز میں نے صبح اُٹھ کر غازی ممتاز
قادری شہید کیلئے فاتحہ اور دعائے مغفرت کی اور اس سوچ میں تھا کہ ایسا کیا
کیا جائے کہ اس مجاہد کی گرد سے اپنے دامن کو پُر رنگ کر کے اپنی حضوری کا
اہتمام کیا جائے۔ میں نے فوراً یہ کتاب آرڈر کی اور پھر جسٹس نذیر اختر
صاحب سے رابطہ کر کے کچے مزید کتابیں بھی منگوائیں قبل ازیں کتاب کے
مندرجات پر تبصرے کی سعادت حاصل کروں اﷲ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اُس نے اس
کتاب کے ذریعے مجھ سمیت ہر نابینا کیلئے ایک تاریخی وا قعہ بذریعہ قلم مصنف
تحریر کروایا۔ مدینے میں ایک یہودی عورت رسول خداؐ کی شان میں گستاخی کرتی
۔سمجھانے کے باوجود باز نہ آئی تو ایک نابینا صحابی حضرت عمیر بن عدیؓ نے
یہ منت مانی کہ اگر آپؐ مدینہ خیریت سے لوٹ آئے تو وہ اس گستاخ کو قتل کر
دیں گے پھر بدر کی فتح کے بعد آپؐ مدینہ آئے تو اس رات اس صحابی نے عورت کے
گھر جا کر اس کے بچوں کو اس سے الگ کیا ان میں سے ایک بچہ اس وقت ماں کا
دودھ پی رہا تھا صحیح طرح تسلی کرنے کے بعد یہی گستاخ عورت ہے آپ نے اُسے
قتل کر دیا۔ نماز فجر کے بعد یہ واقعہ آپؐ کو معلوم ہوا خوفزدہ تھا کہ اس
کا یہ عمل قابل سرزنش نہ ہو مگرآپؐ نے فرمایا کہ اس عورت کا خون رائیگاں
گیا پھر عمرؓ سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ اس میرے صحابی سے بکری کے دو سینگ
کے برابر بھی سوال نہیں، جب حضرت عمرؓ نے اسے اندھا کہہ کر اس کی تعریف
فرمائی تو آپؐ نے فرمایا اسے اندھا مت کہو عمیر بن عدیؓ چشم بصیرت رکھتے
ہیں ۔ معلوم ہوا کہ گستاخ رسولؐ جس کی بھی رینج میں آئے وہ عقل، قانون،
مصلحت، غوروفکر اور تذبذب کا شکار نہ ہو بلکہ اُسے جہنم کا ایندھن بنا دے،
دانستہ یا نا دانستہ طور پر مصنف نے نابینا افراد کی بڑی تعداد کو اس واقعہ
سے مجاہدین ناموس رسالتؐ کی صف میں شامل کر دیا۔ غازی ممتاز قادری کے حوالے
سے یہ کتاب 468 صفحات پر مشتمل ہے جسے نہایت ہی ایمانداری، نفاست، صداقت
اور عقیدت سے لکھ کر تاریخ کیلئے ریکارڈ کی درستی کرنے کے ساتھ ساتھ مصنف
نے امت کا قرض بھی چکا دیاہے۔ میرے جیسے سینکڑوں لوگ اس کتاب کو بوجہ
نابینا پن پڑھنے سے قاصر تھے چنانچہ اﷲ رب العزت نے مجھ ناچیز اور میرے
ادارے سے یہ کام لیا کہ ہم نے محض 33دن میں یہ کتاب 52 حصوں میں ریکارڈ کر
کے اپنی ویب سائٹ پر سب کیلئے اپ لوڈ کر دی۔ رہا سوال کہ ریکارڈنگ کے
اخراجات کیا رہے تو یہ سوال صرف اتنا ہی جواب رکھتا ہے کہ جن کا عمل ہو بے
غرض ان کی جزا کچھ اور ہے ۔ مساجد اور مدارس کی بندش کے حوالے سے علماء کے
عمومی کردار کے حوالے سے مجھے شدید تکلیف ہوئی لیکن اس کتاب کو پڑھ کر پتہ
چلا کہ ناموس رسالتؐ کے غازی کی آڑ میں چند لوگوں نے وہ کھیل بھی کھیلے کہ
جو تاریخ اسلامی اُسی طرح یاد رکھے گی جیسے ٹیپو سلطان کو اپنی شکست کے
مہرے یاد ہوں گے۔
علامہ عبد الرحمن بخاری اور جاوید احمد غامدی کا ذکر مصنف نے محتاط انداز
میں کیا جو ان کی اعلیٰ ظرفی ہے۔ یہ کتاب میڈیا کے حوالے سے بھی کئی گرہیں
کھولتی ہے جنگ اور جیو روشن خیالی کی آڑ میں یہاں جو لادینیت کا کھیل طویل
عرصے سے کھیل رہا ہے وہ ممتاز قادری کے معاملے میں بھی جاری رہا۔ گستاخ
سلمان تاثیر کہ جس کا بیٹا آتش تاثیر خود اپنی کتاب میں اس کی گمراہی کا
اعتراف کر تاہے اسے ‘‘ جیو‘‘ نے قادیانیت کی محبت میں جو یکطرفہ ائیر ٹائم
دیا وہ ریکارڈ کا حصہ ہے لیکن اسلام کے لبادے میں لپٹے ’’ نوائے وقت‘‘ اور
’’ARY‘‘ کا رول بھی کوئی مختلف نہ تھا۔ ہیں کواکب مگر نظر آتے ہیں کچھ لیکن
اُس دورمیں رائل ٹی وی، اوصاف، امت اور بہت سے رسائل بشمول ’’آڈیو ٹائمز‘‘
ممتاز قادری کے حق میں حق کی آواز بلند کرتے رہے۔ وقت سے بڑا کوئی ماسٹر
نہیں جس نبی برحقؐ کو جبرائیلؑ بھی پاؤں چوم کر جگائیں ان کی حرمت اور
ناموس پر مصلحت کو بالا تر رکھنے والے خاک میں مل جاتے ہیں۔ سلمان تاثیر کی
قبر آج بھی نحوست کا مینار ہے اسے پھانسی کا پروانہ دینے والے ججز میں سے
ایک ایجنسیوں کے باعث نوکری سے ہاتھ دھو بیٹھے دوسرے گمنام ہیں تیسرے خود
کیس بھگت رہے ہیں۔ ’’ جیو‘‘ کا مالک قید میں ہے ’’نوائے وقت‘‘ وقت کی کسی
گرد میں اَٹا آخری سانسیں لے رہا ہے ۔ اس وقت کے وزیر اعظم اور وزیر داخلہ
کی سیاست جھاگ کی طرح بیٹھ چکی ہے۔میاں محمد نواز شریف شاید تنہائی میں
ضرور سوچتے ہوں گے کہ جب انہوں نے ایک عاشق رسولؐ کو اچانک پھانسی دی جب
انہوں نے گستاخ بلاگرز کو بلاک کرنے کی بجائے ملک سے بھگایا جب انہوں نے
مرزائیوں کے ایماء پر توہین رسالت کے قانون سے چھیڑ چھاڑ کی تو پانامہ کا
مچھر ان کے اقتدار کو ختم کر گیا اور آج بھی کوئی گستاخ رسولؐ کا حمایتی
کسی گھمنڈ میں مبتلا ہے تو وہ نادان بے آواز لاٹھی کے پڑنے کا انتظار کرے۔
زیر نظر کتاب میں جہاں شہیدوں اور غازیوں کے قصے ہیں کیس کی قانونی روداد،
دلائل، فیصلہ جات، اپیل وہیں مصنف کے حوالے سے اہم ترین شخصیات کے کلمات
خیر بھی ایمان کو تازگی بخشتے ہیں۔ کتاب یہ بتاتی ہے کہ علامہ خادم حسین
رضوی، علامہ خلیل الرحمن قادری اور دیگر حق پرست علماء نے وقت کے گستاخ کو
واصل جہنم کرنے والے غازی کو بچانے کیلئے ان تھک جدوجہد کی ۔ بقول BBC ساٹھ
لاکھ لوگوں نے شہید کا جنازہ پڑھا مگر ایک پتہ بھی نہ ٹوٹا مگر پاکستانی
میڈیا نے جنازے کا مکمل بلیک آؤٹ کیا پھر لوگوں نے دیکھا کہ پرویز رشید ڈان
لیکس کی ذلت میں وزارت سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ مصنف کی پچیس سالہ قانونی خدمات
اور چودہ سالہ عدالتی خدمات پاکستان کے عدالتی نظام کا سنہری باب ہے۔ میری
جتنی بار بھی میاں جسٹس نذیر اختر سے بات ہوئی میں نے انہیں عاجز ، مطمئن،
مخلص اور پیکر خلق پایا جبکہ اس کیس سے جڑے ایک وکیل خواجہ محمد شریف سے ہم
لاہور میں وقت لے کر ملے اس بات کے گواہ میرے قریبی دوست عبد الراشد اور
سابق اہلیہ نیئر رحمان بھی ہیں۔ موصوف نے محض ہمارے میگزین میں اطہر شاہ
بخاری کا نام پڑھ کر اس قدر بد اخلاقی کا مظاہرہ کیا کہ پانی بھی ہمیں باہر
آکر پینا پڑا۔ اسی طرح بے روزگاری اور تنگدستی کے عالم میں مجھے کہیں سے
مجید نظامی کا نمبر ملا میں نے انہیں کال کر کے وزیراعلیٰ کے نام نوکری کی
اپیل چھاپنے کی التجا کی۔ وہ بھڑک اُٹھے بولے کہ میرا اخبار مفت کی اپیل
چھاپنے کیلئے ہے ؟ تم اندھے لوگ اپنی معذوری کا ناجائز فائدہ اُٹھاتے ہو۔
یہ وہی ’’نوائے وقت‘‘ اور ’’جنگ‘‘ ہے جس نے ممتاز قا دری کے پیڈ ایڈ تک
چھاپنے سے معذرت کر لی تھی۔ زیر سماعت و نظر کتاب کی ریکارڈنگ و اَپ لوڈنگ
کے بعد جہاں یہ لاتعداد بے بصر افراد کی سماعتوں سے ٹکرا کر ان کے دلوں میں
عشق محمدؐ کو بیدار کررہی وہیں اسے جس عقیدت اور توجہ سے سعید احمد نے پڑھا
یقینا وہ قابل ستائش ہے۔ قلم فاؤنڈیشن انٹر نیشنل کے سربراہ علامہ عبد
الستار عاصم بیک وقت علم و عمل، فلاح و بہبود، درس و تدریس اورآگہی کے
میدان میں کاروبار سے ہٹ کر جدوجہد میں مصروف ہیں۔ ہمارے ادارے کے ساتھ ان
کی وابستگی اور میرے ساتھ خاص محبت اور ہر اچھی کتاب ہماری لائبریری کو
عطیہ کرنا کئی سال سے جاری ہے اور آپ کے ادارے کا یہ اعزاز ہے کہ آپ اس
معرکتہ الٓاراء کتاب کے پبلشر ہیں جس کا ایک ایک صفحہ ایک ایک سطر اور ایک
ایک حرف محض لفاظی نہیں بلکہ 4 جنوری سے شروع ہونے والے حاضری کے اُس سفر
کی داستاں ہے جو حضوری پر آکر مکمل ہوا اور ہم اس لحاظ سے بھی خوش نصیب ہیں
کہ شہر ملتان اس عظیم مصنف کی اس کتاب کی رونمائی کیلئے ہماری میزبانی میں
اکٹھا ہوگا اور اس کے خریداروں کیلئے سٹاک بھی ہمارے ہاں موجود ہے۔ اﷲ
تعالیٰ مصنف کی یہ کاوش اور اس میں شامل تمام افراد کہ جن کا ذکر خیر مختلف
ابواب میں کیا گیا کو ناموس رسالتؐ کے صدقے دائمی ترقی و کامیابی عطا
فرمائے۔ آمین۔
|