شِبہ طرازکاسفرنامہ ’یورپ میں 19دن‘۔ ایک مطالعہ
(Prof. Dr Rais Ahmed Samdani, Karachi)
|
شِبہ طرازکاسفرنامہ ’یورپ میں 19دن‘۔ ایک مطالعہ ٭ ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی یوں تودنیا میں بے شمار لوگ مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب آتے جاتے رہتے ہیں لیکن بہت ہی کم لوگ اپنی ان مصروفیات یا سیاحت کو قرطاس پر منتقل کرنے میں کامیاب ہوپاتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ادبی تصانیف میں سفرناموں کی تعداد کم ملتی ہے۔ ادبی ذوق کی حامل شخصیات اپنی سفری مصروفیات کو خواہ مختصر ہی کیوں نہ ہوں قلم بند کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہیں۔جیسے شِبہ طرازنے یورپ کے انیس(19) دن کی سیاحتی کہانی کو ادبی چاشنی اور دلفریب انداز میں قلم بند کیا۔انہوں نے چند یورپی ممالک کے اپنے سفری حسن کو اپنی آنکھوں میں حنوط کیا اور پھر اسے قارئین تک پہنچایا۔ سفر نامہ لکھنے کی روایت نئی نہیں، اردوادب میں اسے ایک اہم صنف کی حیثیت حاصل ہے۔ تحقیق کے مطابق بر صغیر پاک و ہند میں مہاراجا چندر گپت موریہ کے دربار میں آنے والا پہلا یونانی سیاح میگا ستھنز تھا،اس کی اس تحریر کو سفرنامہ کا درجہ حاصل ہے۔ اس کے بعد ایک اور چینی سیّاح کی آمد کا مقصد بدہسٹ کے بارے میں معلومات جمع کرنا تھا، اس نے اپنے مشاہدات جمع کیے۔ دوسرا ہیون ٹی یاشیانگ تھا، یہ ساتویں صدی عیسوی میں راجہ ہریش چندر کے دورمیں آ یا تھا اس نے بھی اپنی یادداشتیں قلم بند کیں۔ چودھویں صدی عیسوی کی تیسری دہائی میں مراکش کے شہر طنجہ کا مشہور سیّاح، ابن بطوطہ آیا، جس کا نام شیخ ابو عبد اللہ تھا، اس کا ”سفرنا مہ ابن بطوطہ“ دنیا بھر میں مشہور ہے۔ ایک اور یورپی سیّاح مارکو پولو غیاث الدین بلبن کے عہد میں آیا، اس نے بھی اپنا سفر نامہ قلم بند کیا۔ ایک برطانوی سیاح نکولائی مانوچی، اورنگ زیب کے عہد میں آیا تھا اس نے بھی آنکھوں دیکھا حال لکھا تھا۔اس طرح سفرنامہ نگاری وقت کے ساتھ ساتھ آگے بڑھتی رہی۔ ا ردوزبان میں لکھے گئے سفر ناموں کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ سب سے پہلا سفر نامہ ”تاریخِ یوسفی“ کے نام سے یوسف خان کمبل پوش نے لکھا جو 1847ء میں شائع ہوا تھا۔ اردو کے بے شمار مدبرین، قائدین، مصنفین نے یوسف کمل پوش کی سفر نامہ نگاری کی روایت کو نہ صرف قائم رکھا بلکہ اسے آگے بھی بڑھایا۔ ان میں سر سید احمد خان کا’مسافران لندن‘اور’سفر نامہ پنجاب‘، محمد حسین آؔزادکا’سیر ایران‘، مولاناشبلی نعمانی کا ’سفر نامہ روم و مصر و شام‘،، مولوی محبوب عالم،سر عبد القادر، مولوی مسیح الدین، مولانا حکیم سید عبد الحیی کا سفر نامہ دہلی، مولانا محمد علی جوہر، قاضی عبد الغفار، سید سلیمان ندوری، مرزا حسین احمد بیگ، خواجہ احمد عباس، پروفیسر احتشام لدین، شورش کاشمیری، نواب رام پور حامد علی خان، اشفاق احمد، جمیل الدین عالی، ابن انشاء، ممتاز مفتی، قدرت اللہ شہاب حکیم محمد سعید، مستنصر حسین تارڑ،کرنل محمد خان، شفیق الرحمٰن، مختار مسعود،امجد اسلام امجد، عطاالحق قاسمی، اسلم کمال، پر تو روہیلہ، رفیق ڈوگر، آفتاب اقبال، انور فیروز، مرزا ریاض، فخر زمان، سید شوکت علی شاہ، پروین عاطف، سید ضمیر جعفری، مسکین علی حجازی، بلقیس ریاض، ڈاکٹر شفیق جالندھری، علی سفیان آفاقی، ذوالفقار تابش، آغا سہیل، رضا علی عابدی، آصف جیلانی، سلمیٰ اعوان، محمد اختر مموکا، حسن رضوی، وحید قیصر، عثمان خاور، قمر علی عباسی، پروفیسر سعید اختراوراب شِبہ طراز نے یورپ کا سفرنامہ لکھ کر اپنا نام اردو کے سفرنامہ نگاروں میں شامل کر لیا ہے۔ جو ایک قابل قدر اضافہ ہے۔ اس موضوع پر تحقیق بھی کی گئی۔ ایم اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی کی سطح پر مقالات بھی لکھے گئے۔ ڈاکٹر صدف فاطمہ کے ڈاکٹریٹ کے تحقیقی مقالہ کا عنوان ”خواتین کے اردو سفر ناموں کا تحقیقی مطالعہ“ تھا، جو کتابی صورت میں انجمن ترقی اردو پاکستان نے شائع کیا۔ ان کی تحقیق کے مطابق اردو میں پہلی خاتون سفر نامہ نگار ”نازلی رفیعہ سلطانی تھیں جنہوں نے ”سیر یورپ“ کے نام سے اپنا سفر نامہ قلم بند کیا تھا۔ بیگم اختر ریاض الدین کے سفر نامے ’سات سمندر پار‘ اور ’دھنک پر قدم‘ مشہور ہوئے۔ اس سے قبل اردو اکیڈمی بہاولپور کے تحت رسالہ ”الزبیر“ کا ’سفر نامہ نمبر‘ بھی شائع ہوچکا ہے۔ پیش نظر سفرنامہ ’یورپ میں 19 دن‘میں شِبہ طرازنے اپنے سفر کے یاد گار لمحات اورحسین نظاروں، اپنے قیام و طعام، نشست و برخاست کو حسین پیرائے میں قرطاس پر منتقل کیاہے۔ اس سفر کی ایک خوبی میری نظر میں یہ ہے کہ سفر نامہ نگار نے بطور خاص یہ بھی بیان کیا کہ بیرون ملک خاص طور پر یورپ کے ملک جرمنی کا ویزا کے حصول میں کون کون سی مشکلات کا سامنا کرناپڑا۔ یعنی دیگر ممالک کے مقابلے میں جرمنی کا ویزا حاصل کرنا قدرِ مشکل ہے۔ اس طرح کی مشکلات کا تذکرہ عام طور پر سفرنامہ نگار نہیں کرتے، وہ صرف تصویر کا مثبت رخ ہی دیکھاتے ہیں۔ حالانکہ بیرون ملک سفر کا آغاز وزا کے حصول کے لیے تنگ و دو سے شروع ہوجاتا ہے۔ شِبہ طراز نے ان باتوں کو قلم بند کر کے مستقبل کے سفرنامہ نگاروں کی مشکلات کو آسان تر کردیا ہے۔حقیقت بھی یہی ہے کہ کسی بھی سفر کا آغاز اس وقت سے ہوجاتا ہے جب ہم جس ملک جانے کا ارادہ کرتے ہیں اور اس کے لیے پاسپورٹ پھر وزا اور ٹکٹ کے مراحل شروع کرتے ہیں۔ عام طور پر ہمارے سفرنامہ نگار ان باتوں کو سفر کا حصہ ہی نہیں سمجھتے۔ شِبہ طراز نے ان مراحل و مشکلات کی تصویر کشی کر کے کئی قابل قدر کام کیا ہے۔وہ سفرپر روانہ ہونے سے قبل جن ذہنی مشکلات سے گزریں ان کو بیان کیا،مجھ جیسے جو لوگ جرمنی جانے کا ارادہ رکھتے ہیں انہیں ان مراحل کا علم ہوگیا، وہ ویزا کی باریک بینیوں اور نزاکتوں سے آگاہ ہوگئے، ساتھ ہی پاکستان میں جرمن ایمبیسی کے اہل کاروں کے رویے کو بھی آشکار کیا گیا۔ شاید جرمنی کی وزارت خارجہ کو اس کتاب کے توسط سے اپنی ایمبیسی کے اہل کاروں کے رویے کو علم ہوجائے اور آئندہ جرمنی کا ویزا حاصل کرنے والوں کو ان مصا ئب کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اس سارے عمل میں شِبہ نے یہ بھی لکھاکہ ”ایک لڑکے نے نہایت عزت سے نہ صرف میرے نام کا مطلب پوچھا بلکہ بہت ملائمت سے چائے کافی کا بھی پوچھا“۔ شِبہ کے لکھنے کے مطابق ’ان دو انتہائی متضاد رویوں نے ہمارا ایمانی استقلال متزل کر کے رکھ دیا تھا‘۔ مختصر یہ کہ اچھے اور برے مزاج یا کم اچھے مزاج کے لوگ ہرجگہ پائے جاتے ہیں۔ سفر کا آغا لاہور سے ابو ظہبی اور وہاں سے جرمنی کے لیے تھا، اس کی وجہ مصنفہ نے یہ بیان کی کہ ان کی بیٹی’جزا‘ جرمنی میں تعلیم حاصل کررہی تھی، اسی کی تحریک پر جزا کے والدین اور بہن نے جرمنی کا قصد کیا، کیونکہ جرمنی کا ویزا یورپ کے ممالک کا بھی احاطہ کرتا ہے اور کئی ممالک جرمنی کے آس پاس ہیں جہاں بذریہ ریل یا کار آسانی سے سفر کیا جاسکتا ہے۔پیش نظر کتاب مجھے سلسلہ ادبی فورم کے مرتضیٰ شریف صاحب نے عنایت فرمائی، وہ یہ عنایت اکثر کرتے رہتے ہیں اور میں ان کے حکم کی تعمیل کرتا ہوں، اس بہانے ایک اچھی کتاب پڑھنے کو مل جاتی ہے۔ ادبی جریدہ ”سلسلہ“ کے لیے اچھی کتاب پر تبصرہ بھی شامل ہوجاتا ہے۔ تبصرہ نگاری میری علمی مشاغل میں اہم اور دلچسپ مصروفیت ہے۔پیش نظر سفر نامہ کا مطالعہ اور اس پر اظہار خیال کہ ایک وجہ اوپر بیان کیا دوسری اہم وجہ یہ رہی کہ میری بیٹی ’فاھینہ‘ جرمنی کے شہر ڈوذلڈورف میں رہتی ہے، میری نواسی ’نہا اور کشف، نواسہ ارحم اور داماد عاصم مشکور جرمنی میں مقیم ہیں، ان کی وجہ سے میں بھی مستقبل میں جرمنی اور اس کے آس پاس کے یورپی ممالک کا سفر کرسکتا ہوں اور سفرنامہ قلم بند کرنے کی امید رکھتا ہوں۔ لیکن جرمن ایمبیسی کے عملے کی غیر مناسب باتوں کا جو حال شِبہ طراز نے اپنے آغاز سفر میں لکھا ہے اسے دیکھتے ہوئے مجھے امید نہیں کہ جرمن ایمبیسی سے میں ویزا حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکتا ہوں۔ گزشتہ برس جب ہماری بیٹی نے اپنے شہر کے متعلقہ محکمے کو درخواست دی کہ وہ اپنے والدین کو چند دن کے لیے بلانا چاہتی ہے، تو اس درخواست کے جواب میں اسے چھ ماہ کا وقت دیا گیا کہ آپ چھ ماہ بعد آکر معلوم کیجئے گا، جب چھ ماہ بعد وہ گئی تو پھر اسے کئی قسم کے سوالات اور اعترضات کے ساتھ واپس کردیاگیا، اسی دوران ہمارا پاسپورٹ renewکرانے کا مرحلہ آن پہنچا،وہ مکمل ہوا ہی تھا کہ کور ونا نے سارا نظام ہی چوپٹ کردیا۔ اب دیکھنا ہے کہ کورونا کی مستقل رخصتی کب ہوتی ہے اور ہم اس کی شکنجے سے بچ نکلتے ہیں تب ہی کچھ سوچا جاسکتا ہے۔ شِبہ طراز نے جو حالات جرمن ایمبیسی کے پاکستان میں بتائے اور جو کچھ میری بیٹی نے جرمنی میں ویزا کے حصول کی ابتدائی کاروائی کی تفصیل بتائی اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جرمنی کے وہ حکام جو وزارت خارجہ میں ویزا کے اجراء سے منسلک ہیں ان سب کی ایک سوچ اور اس پر عمل کا پیمانہ بھی ایک ہی ہے یا پھر ان کی پالیسی ہی یہ ہے کہ آنے والے مہمانوں کو خوا ہ کوئی بھی ہو ایک جیسا سلوک روارکھو۔ بظاہر جرمن ایسے لگتے تو نہیں لیکن نہیں معلوم اس معاملے میں ان کی پالیسی اس قدر منفی کیوں ہے۔ خیر یہ بات تو یوں ہی بر سبیل تذکرہ آگئی۔ سفر کی داستان کا کچھ مطالعہ آگے بڑھاتے ہیں۔ سفر نامہ نگار اپنی بیٹی ’دعا‘کے ہمراہ، جرمنی میں زیر تعلیم بیٹی’جزا‘سے ملاقات ساتھ ہی سیاحت کے لیے لاہور سے ابو ظہبی اور وہاں سے فرینکفرٹ اور فرینکفرٹ سے بذریعہ ٹرین فرائی برگ پہنچتی ہیں۔ جہاں ان کی بیٹی ’جزا‘ان کی منتظر تھی۔ سفر خوش گوار گزرا، ابو ظہبی میں ٹرانزٹ تھا اس کے بعد فرینکفرٹ کے لیے اڑان بھری۔ اپنے ا س سفر کے بارے میں وہ لکھتی ہیں کہ ’ہم بحیرہ اسود کے کنارے پر سے گزررہے تھے۔ بہت نیچے بڑی بادبانی کشتیاں، بحری جہاز، فیریز مختلف سمتوں میں رواں تھیں اور ان کے پیچھے لہریں نشان بناتی تھیں، کچھ کنارہ چھوڑ چکی تھیں کچھ کنارے کی طرف گامزن تھیں۔ ایک بہت ہی خوبصورت نظارہ تھا“۔ فرینکفرٹ پہنچنے کے بعد فرائی برگ کا سفر ٹرین کے ذریعہ طے ہوا،فرینکفرٹ سے فرائی برگ ٹرین کے سفر کے دوران شِبہ نے لکھا کہ ”فرائی برگ اسٹیشن سے آدھے گھنٹے پہلے جس قصبے میں جزا جرمنی جاتے ہی تین ماہ کے لیے رکی تھی کہ اُس نے کمرہ انٹر نیٹ پر حاصل کیا تھااور یہ ٹاؤن اس کے یونیورسٹی ٹاؤن سے ٹرین کے آدھے گھنٹے کے فاصلے پر تھا۔ اور میرا دل دُکھا کہ میری بچی روز صبح چھ بچے اٹھ کر یہاں سے ٹرین پکڑتی تھی اور اپنی یونیورسٹی جاتی رہی تھی“، سفرنامہ نگار کے یہ جملہ پڑھ کر مجھے اپنی بیٹی اور نواسی کی وہ باتیں یاد آگئیں جب وہ کہا کرتی ہیں کہ نہا تنہا ٹرین، ٹرام اور بسوں کا سفر کر کے اسکول جایا کرتی ہے،صبح سویر ے چھ بجے گھر سے نکلتی ہے اور شام گئے اندھیرے میں واپس آتی ہے، یہی نہیں بلکہ کسی بھی تکلیف کے صورت میں میری بیٹی اور نواسی تنہا ٹرین اور بسوں کے سفر کے بعدتنہا اسپتال جاتی ہیں۔ شروع شروع میں تو ان باتوں سے بہت خوف آیا لیکن پھر اطمینان ہوا کہ جرمنی میں کئی برائیاں ہونگی لیکن وہاں ہر کوئی اپنے میں مگن ہے، کون کیا ہے؟ کیا پہنا ہوا ہے؟ کہاں جارہا ہے؟ تنہا ہے یا کسی کے ساتھ، کسی کو کسی سے غرض نہیں۔وقت خواہ کچھ بھی ہو تنہا لڑکیاں اپنے کاموں سے آتی جاتی رہتی ہیں کوئی خوف و خطرہ نہیں۔ اسٹیشن پر جزا نے اپنی امی اور بہن ’دعا‘ کا استقبال کیا۔ فرائی برگ جرمنی کا ایک چھوٹا سے شہر ہے۔ اس شہر کے بارے میں کچھ بنیادی باتیں سفرنامہ نگار نے تحریر کی ہیں جیسے یہ کہ فرائی برگ جرمنی کے جنوب مغربی حصے میں ہے، اس کی آباد دو لاکھ تیس ہزار ہے، دریائے ڈریزم اس کے ساتھ سے گزرتا ہے۔ یہ ایک قدیم تاریخی شہر ہے جسے برٹولڈ 3نے 1120ء میں دریافت کیا، جنگ عظیم دوم میں پہلے مئی1940ء میں پھر نومبر1944 ء میں اس شہر کو شدید بمباری کا نشانہ بنایا گیا۔جنگ کے بعد شہر کو دوبارہ قرونِ وسطیٰ کی طرز کے مطابق تعمیر کیا گیا۔جرمنی کے خوبصورت شہر کا حال مختصر بیان کیا ہے، خاص طور پر ٹرام کا ذکر کر کے سفرنامہ نگار کراچی میں چلنے والی ٹرام کو یاد کرتی ہیں۔ہوٹل سے جزا کے اپارٹمنٹ منتقل ہوجاتے ہیں، جرمنی کے شہر کولمار کی سیر کا ذکر ہے، کولمار شہر خوبصورت ہے، فلم بنانے والوں کو اپنی جانب راغب کرتا ہے۔تین ہزار سال پرانی جھیل والے قصبے ٹی ٹی سی کا حال بیان کیاہے۔ یہاں ایک خاص بات جو شِبہ نے لکھی قارئین کی معلومات کے لیے لکھ دوں جو درست بھی ہے ”دراصل جرمنی میں ایک تو انسان کی اوسط عمر ہی کچھ زیادہ ہے دوسرے سوچ سمجھ کر بچے پیدا کرنے کی وجہ سے یہا ں بچوں سے کہیں زیادہ تعداد بوڑھوں کی ہے۔ چونکہ بوڑھو ں کا خیال رکھنے والے بچے پیدا ہی نہیں کیے گئے سو جرمنی غیر ملکی نوجوان انجینئرز، آرکیٹیکٹ اور معاشیات کے ماہرین کو ہمہ وقت خوش آمدید کہنے کے لیے تیار رہتا ہے۔ سوئٹزر لینڈ کے بارے میں بنیادی معلومات بیان کی ہیں، جھیل لیمےlimmatاور اس سے نکلنے والا دریاriver limmatجو شہر کو دو حصوں میں تقسیم کرتا ہے، یہاں موجود چرچ اور آرٹ گیلریوں کی ذکر کیا گیا ہے۔ یہاں شِبہ نے ایک مختلف تجربے کا ذکر ان الفاظ میں کیا ”ایک دھاتی کمرہ جس کے دروازے کے ساتھ لیٹر بکس جیسی مشی لگی تھی، کچھ سینٹ ٹائمز مشین میں ڈالیے، ٹوائلٹ کا دروازہ کھلے گا، اندر جاکر اسے بند کر لیجئے، استعمال کیجئے ایک لگثری ٹائلٹ کا لطف اٹھائیے کہ یہ دنیا کے امیر ترین ملک میں بنا ہوا ہے“۔ سوئس نیشنل میوزیم اور اس کے ساتھ ہی Wilhelm Baumgartnerکا مجسمہ،زیورخ کا مشہور کلاک ٹاور، Peter's cathedralکا مینار جس پر زیورخ کاسب سے بڑ ا گھڑیال لگا ہے اور Fraumunster church of our ladyکی پر شکوہ عمارت، ایک گھڑ سوار کا مجسمہ اور دیگر جگہ کی سیر کرتے ہوئے اگلے شہر کی منصوبہ بندی یعنی فرانس کے شہر پیرس اور اٹلی کے سفر آغاز ہوتا ہے۔ پیرس کی رنگینیوں کا خوبصورت نقشہ کھینچا ہے، وہاں کی آرٹ گیلریوں کا ذکر ہے۔ پیرس شہر کے بارے میں مختصر معلومات کتاب کا حصہ ہیں۔ آئیفل ٹاور اور Champs Elyseesکا تذکرہ اکثر سیاح ضرور کرتے ہیں، لو ر برجLovers bridgeجو رومانس کے لیے مخصوص ہے، پل پر لکھے ہوئے نام بلکہ دل بھی بنائے ہوئے تھے، کسی نے پورے نام تو کسی نے محض نام کے پہلے حروف، کسی نے دلوں میں تیر بھی پیوست کیے ہوئے تھے۔ یہاں کی روایت بیان کرتے ہوئے سفرنامہ نگار نے لکھا ہے کہ ’یہاں کی روایت یہ ہے کہ تالا لگا کر چابی یا تو دریا میں پھینک دی جاتی ہے یا ایک ایک چابی لڑکی اور لڑکا اپنے اپنے پاس رکھتے ہیں اور محبت میں کامیاب ہوکر اگر دوبارہ آسکتے ہیں تو تالا کھول بھی سکتے ہیں“۔ ایک دکان کا ذکر ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ مکالمہ نگاری کے بے تاج بادشاہ شیکسپیئر کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے Sylvia Beachنے 1919ء میں یہ دکان کھولی تھی۔ اسی دکان کا نام شیکسپیئر اینڈ کمپنی ہے۔ فرانس کی شیمز ایلیز ے فرانس کی اس سٹرک کا ذکر ہے جس پر فرانس کی مشہور سائیکل ریس ”ٹور ڈی فرانس“ کا اختتام ہوتا ہے۔ آئیفل ٹاور جو chams de Marsپر واقع ہے یہ1887ء سے 1889ء کے عرصے میں تعمیر ہوا،324میٹر اونچا اور 125مربع میٹر چوڑہے۔ آئیفل ٹاور ایک انجینئر Gustave Effelکا شاہکار ہے، آئیفل کا مقصد یہ تھا کہ یہ ٹاور پیرس کے ہر کونے سے نظر آئے۔ فرانس کی سیاحت ہو اور آئیفل ٹاور نہ دیکھا جائے اور پھر سفر نامہ اس کے ذکر کے بغیر ادھورا ہی رہتا ہے۔ پیرس کے ایک چھوٹے سے شہر ورسیلز کی سیاحت کا ذکر کیا گیا ہے۔ وینس شہر کا ذکر کرتے ہوئے سفرنامہ نگار نے لکھا ’خوبصورت گھٹاؤں سے لبریز آسمان مسکرارہا تھا اور اس کی مسکراہٹ کی پھوار ہم دلوں میں محسوس کرتے تھے، رونق ایسی تھی جیسی دوپہر کے اوقات میں انار کلی میں ہوتی ہے مختلف ملکوں سے آئے ہر عمر کے سیاح، خاندانوں کے ساتھ، اکیلے دوکیلے، سہیلو ں کے جھرمٹ کے ساتھ، جوڑوں کی صورت میں خوش و خرم ادھر اُدھر تصویر کشی کرتے اور خریداری کرتے ہوئے“۔ وینس سے فلورنس، اٹلی اور روم کی سیر کا ذکر تفصیل سے کیا گیا ہے۔ یہ وہ ممالک ہیں اسپین، جرمنی،اٹلی، فرانس کہ جہاں ان دنوں کورانا وائرس نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ روم میں کیٹس میوزیم ، ویٹی کن سٹی کا حال ہے جو ایک خود مختار ریاست کے طور پر روم کے اندر موجود ہے بقول سفرنامہ نگار یہ دنیا کی چھوٹی ترین لیکن مضبوط ترین ریاست ہے۔ سفرنامہ نگار روم سے میلان اور پھر میلان سے واپس فرائی برگ پہنچ جاتے ہیں اور پھر فریکفرٹ سے ابو ظہبی اور لاہور واپسی ہوتی ہے۔ یورپ کے کئی ممالک کا یہ سفر نامہ مختصر ضرور ہے لیکن ان ممالک کے بارے میں بنیادی معلومات فراہم کرتا ہے۔ آخر میں اپنی بات معروف سفرنامہ نگار مستنصر حسین تارڑ کی خوبصورت بات پر ختم کرتا ہوں فلیپ پر لکھتے ہیں ”اُ س کی تحریر میں شاعری کا مدھم بہاؤ بھی ہے اور نثر کے مدھر کرشمے بھی۔ ان دونوں کے امتزاج نے ”یورپ میں 19دن“ کے خواب کو مزید خوابناک بنا دیا ہے۔ وہ مجھے اس لیے بھی عزیز ہوگئی کہ اُس نے میرے پیار کے پہلے شہر پیرس میں بھی بسیرا کیا تھا اور وہ وہاں مجھے یاد رکھا تھا۔ اُس کی تحریر میں سوچ کی ایک خاص متانت شامل ہے اس لیے ’یورپ میں 19دن‘ ایک معمولی نہیں غیر معمولی سفرنامہ قرار دیا جاسکتا ہے“۔ مَیں مستنصر تارڑ صاحب کی اس بات سے مکمل اتفاق کرتا ہوں کہ شِبہ طراز کا یہ سفر نامہ غیر معمولی ہے، 2019ء میں شائع ہونے والا یہ سفرنامہ ہر کتب خانے کی زینت ہونا چاہیے، سفرنامہ سے دلچسپی رکھنے والے اس کا مطالعہ کریں، لطف آئے گا۔ صریربلی کیشنز، لاہور، راولپنڈی نے شائع کیا ہے، قیمت500/-روپے رکھی ہے۔ فون نمبر 042-37862105 اور 051-2711295سے رابطہ کر کے حاصل کی جاسکتی ہے۔(14اپریل2020ء) |