گزشتہ دنوں وزیرِ اطلاعات پنجاب فیاض الحسن چوہان نے
صحافیوں کے ایک ایسے پیکج کا اعلان کیا کہ جس پر بعض صحافتی تنظیموں کے
عہدیداران نے حکومتی اقدامات کی تعریف میں واہ واہ کا سلسلہ شروع کر رکھا
ہے جبکہ اکثریت ایسی تنظیموں کے عہدیداروں کی ہے جنھوں حکومت کے پیکج کو
علاقائی صحافیوں کے لئے مذاق قرار دیا علاقائی صحافیوں کے ساتھ ہمیشہ سے
حکومت اور یہاں تک کہ صحافتی اداروں نے سوتیلوں سے بھی بد تر کا سلوک روا
رکھا ہے سانچ کے قارئین کرام اس پر بات کرنے سے پہلے حکومت پنجاب کے صحافتی
پیکج کا ذکر ضروری ہے وزیرِ اطلاعات پنجاب فیاض الحسن چوہان نے کہا ہے کہ
کورونا وائرس سے متاثرہ صحافی کو 1 لاکھ جبکہ جاں بحق صحافی کے اہل خانہ کو
10 لاکھ روپے دیئے جائیں گے۔پریس کانفرنس کرتے ہوئے پنجاب کے وزیرِ اطلاعات
فیاض الحسن چوہان نے مزیدکہا کہ حکومت کے ذمے واجب الادا فنڈز جلد جاری کیے
جائیں گے۔انہوں نے کہا کہ صحافیوں کے کورونا وائرس سے بچاؤکے لیے ایس او
پیز بنائے ہیں، میڈیا ہاؤسز اور اخبار مالکان کو کورونا روائرس سے متعلق
ایڈوائزری بھیجی ہے۔ صحافی برادری کے لیے کورونا وائرس سے بچاؤکے لیے
اقدامات کر رہے ہیں اور ان کے لیے پیکیج بھی بنا یا ہے اگرکوئی صحافی
کورونا وائرس سے متاثر ہوا تو ایک لاکھ روپے ریلیف فنڈ دیں گے جبکہ کورونا
وائرس سے انتقال کرنے والے صحافی کی بیوہ کو 10 ہزار روپے ماہانہ پنشن دی
جائے گی، اخبار فروشوں کو کورونا وائرس سے بچاؤ کے لئے حفاظتی سامان مہیا
کیا جائے گا۔کسی صحافی کا کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں انتقال ہوا تو اس
کے اہلِ خانہ کو 10 لاکھ روپے دیں گے۔ سانچ کے قارئین کرام میڈیا کے ساتھ
ہمیشہ اپوزیشن کے تعلقات مثالی اور برسراقتدار طبقہ کو شکایات ہی رہتی ہیں
سابقہ ادوار کو دیکھیں تو اس بات میں حقیقت نظر آجائے گی ،چند سال پیشتر
صحافیوں خاص طور پر علاقائی صحافیوں کے مسائل مشکلات اور اداروں کی جانب سے
ان سے روا رکھے جانے والے سلوک پر لکھے کالم کا کچھ حصہ شامل کر رہا ہوں۔
"صحافت کو ریاست کو چوتھا ستون کہنے اور لکھنے والوں کی تعداد میں روز بروز
اضافہ تو دیکھنے کو ملتا ہے لیکن کیا اِن میں سے کسی ایک نے بھی اس شعبہ سے
وابستہ افراد کے مسائل کو جاننے کی کو شش کی ہے؟چھوٹے شہروں خاص طور پر
دوردراز کے دیہاتوں میں کسی بھی ادارے کی رپورٹنگ کرنے والا شخص جسکو عرف
عام میں صحافی کہا جاتا ہے کس طرح اپنے معاشی مسائل سے لڑتا ہواشعبہ صحافت
سے انصاف کرتا ہے؟ وطن عزیز پاکستان میں چھوٹے شہروں کے صحافی معاشرے میں
پھیلی ہوئی نا انصافیوں ،ظلم ،کرپشن کے خلاف تو اپنا قلم اْٹھاتے ہیں لیکن
اپنے گھر کو چلانے کے لیے ان کے پاس کوئی جادو کا چراغ نہیں ہوتا جو اْن کے
معاشی مسائل جن میں صحت ،بچوں کی تعلیم ،روزمرہ کی بنیادی چیزوں کی فراہمی
کو ممکن بنائے ،وطن عزیز میں سننے اور دیکھنے کو ملتا ہے کہ یہاں صحافی
بننے کے لیے کسی خاص مہارت کی ضرورت نہیں بس ایک قلم اور کاغذ لیں اور کسی
بھی ادارے کا کارڈ چند ہزار میں خریدیں اور اپنے آپ کو صحافی کہنا اور
کہلانا شروع کردیں یہ بات حقیقت ہے کہ کسی بھی شعبہ کو اختیار کرنے والوں
کے لیے کچھ نا کچھ تعلیمی معیار مقرر ہوتا ہے جیسے ڈاکٹر کے لیے ایم بی بی
ایس ،انجینئرکے لیے بی ایس سی انجینئرنگ،وکالت کے لیے ایل ایل بی تک تعلیم
اور بعد ازاں لائسنس کے لیے چند مزید امتحانی مراحل سے گزرنا ضروری ہوتا ہے
جبکہ یہاں صحافی بننے کے لیے واجبی سا لکھنا اور پڑھنا ہی کافی سمجھا جاتا
ہے موجودہ دور میں بھی بڑے بڑے میڈیا کے ادارے اپنے نمائندے کی تعلیمی
صلاحیت کو دیکھنے کی بجائے اس بات کو مدنظر رکھتے ہیں کہ ہمارا نمائندہ
ہمیں سال میں کتنا بزنس لے کر دے سکتا ہے یہ ہی وجہ ہے کہ آج بہت سے صحافی
کسی ادارے کا کارڈ گلے میں ڈالنے سے پہلے کسی ایسے کاروبار سے وابستہ تھے
جس کو چلانے میں اْنھیں خوف سارہتا تھا کہ کہیں کوئی قانونی کاروائی اْن کے
کاروبار کو ختم نہ کر دے اِس پریشانی سے بچنے کے لیے کئی ایک کاروباری
حضرات صحافت کے شعبہ سے منسلک ہو گئے صحافی سے عوام الناس اور معاشرہ منفی
سرگرمیوں کے خاتمہ اور اصلاح احوال کے لیے تجاویز اور اعلی احکام تک اپنے
مسائل کی توقع تو رکھتا ہے لیکن اس بات کو بھْول جاتے ہیں کہ ایسی صلاحیتوں
کا مالک وہی صحافی ہو سکتا ہے جو صحافت کو اپنا اوڑھنا بچھوڑنا
(پروفیشن)سمجھ کر اختیار کرے اور اپنا تمام وقت صحافتی امور کی انجام دہی
میں صرف کرے جبکہ ایسے صحافی اْسی صورت میں مِل سکتے ہیں جب نیک نیتی سے یہ
پروفیشن اختیار کرنے والے کو معاشی طور پر بھی صحافتی ادارے یا محکمہ
تعلقات عامہ اور گورنمنٹ ادارے مکمل سپورٹ کریں تاکہ معاشی مجبوریوں سے تنگ
آکر کوئی بھی اپنے قلم کی حرمت کو فروخت نہ کر سکے بڑے بڑے صحافتی ادارے
ہوں یا چھوٹے ادارے علاقائی صحافیوں کو اعزازیہ دینے کی بجائے اْن سے بزنس
کی توقع رکھتے ہیں جس کی وجہ سے علاقائی صحافی اپنے معاشی مسائل کا بوجھ
اْٹھائے پھرنے کے ساتھ ساتھ ادارے کے لیے بزنس اکھٹا کرنے والے شخص کے روپ
میں بھٹکتا پھرتا ہے ایسے شخص سے معاشرہ کیا توقع رکھے گا ؟کہ وہ معاشرے
میں منفی سرگرمیوں میں مصروف عمل افراد کی نشاندہی کر سکے محکمہ تعلقات
عامہ حکومت پنجاب کی ہی بات کر لیتے ہیں کیا یہ سو فیصد ایسے افراد کو
ایکریڈیشن کارڈ فراہم کرتا ہے جو واقعی ہی صحافت کے شعبہ سے نیک نیتی سے
منسلک ہیں ؟اگر ہاں تو پھر حکومت کو چاہیے کہ وہ ان صحافیوں کو وہ تمام
سہولیات فراہم کرنے کا بندوبست کرے جو دیگر گورنمنٹ کے ملازمین کو فراہم کی
جارہی ہیں اور جو شخص کسی اور کاروبار سے منسلک ہو اور صحافت کی آڑ میں
اپنے اچھے بْرے کاروبار کو فروغ دے رہا ہواور معاشرہ میں مثبت سرگرمیوں کے
فروغ کا سبب نہ بن رہا ہو ایسے شخص کو صحافت کے شعبہ میں بین کر دینا چاہیے
تاکہ ایسے افراد جو شعبہ صحافت میں اپنی تمام تر صلاحیتوں کو معاشرہ میں
بہتری لانے کے لیے استعمال کر رہے ہوں انکی حوصلہ افزائی ہو سکے جبکہ
دیکھنے میں آیا ہے کہ کسی صحافتی ادارے کا کارڈ گلے میں ڈال کر لوگوں
کوڈرایا دھمکایا جاتا ہے اور بعض پولیس کے ٹاؤٹ بن کرتھانوں میں ایف آئی آر
اپنے مخالفین یا جن سے رقم بٹورنی ہو کے خلاف درج کرواتے اور اپنا حصہ
بانٹتے نظر آتے ہیں ،سانچ قارئین کرام !یہ ہمارے معاشرے کا ایک بڑا المیہ
ہے جبکہ سینئر صحافی جو بڑے شہروں میں معروف اداروں سے منسلک ہوجاتے ہیں
اْنکی معلومات کا زریعہ بھی علاقائی صحافی جو کہ چھوٹے شہروں ،دیہاتوں،چکوک
میں ہوتے ہیں بنتے ہیں لیکن اِن علاقائی صحافیوں کے لیے یہ سینئر کبھی بھی
ٹھوس اقدامات اْٹھاتے نظر نہیں آتے، بلکہ گزشتہ دو دہائیوں سے الیکٹرانک
میڈیا کی ترقی کے ساتھ ساتھ ایسے اداروں اور ان اداروں میں بیٹھے صحافیوں
نے علاقائی صحافیوں کو کمائی کا زریعہ بنا رکھا ہے معذرت کے ساتھ اکثر ایسے
اداروں کے مالکان اپنے نمائندوں سے مختلف مواقعوں پر ادارے کو بزنس دینے کے
نام پر پیسے وصول کرتے رہتے ہیں ذرا سوچنے کی بات ہے چھوٹے شہروں کے صحافی
ان حالات میں صحافت کے لئے کیا کر سکیں گے وطن عزیز میں سینکڑوں صحافتی
تنظیمیں وجود میں آچکی ہیں جنھوں نے صحافیوں کے حقوق کے لیے اپنے اپنے آئین
میں نمایاں ذکر کر رکھا ہے لیکن معذرت کے ساتھ اِتنی زیادہ تنظیموں کے ہوتے
ہوئے بھی علاقائی صحافی بے یارومدد گار ہی نہیں ہیں بلکہ اْن کے ساتھ
معاشرہ کے چند افراد نہ صرف ہتک آمیز رویہ رکھتے ہیں بلکہ بعض کو اپنے
فرائض کی ادائیگی کے دوران اپنی جانوں سے بھی جانا پڑتا ہے" ٭
|