گودی میڈیا کی مسلم دشمنی اب کسی دلیل کی محتاج نہیں
رہی۔ الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا کھل کر مسلم دشمنی کا ایجنڈا چلا رہے ہیں۔
کانگریس حکومتوں میں قدرے تکلف تھا لیکن گذشتہ دو پارلیمانی انتخابات میں
بی جے پی کی لگاتار کامیابی کے بعد زیادہ تر میڈیا ہاؤسز اور اینکرز نے وہ
تکلف بھی بالائے طاق رکھ دیا ۔ اب تو ڈنکے کی چوٹ پر بغیر رائی پہاڑ اور
بغیر دھویں کے آگ لگانے کا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ کورونا جیسی مہلک بیماری
پر میڈیا کو حکومتی اقدامات ، حفاظتی اقدامات اور ارباب اقتدار کی لاپرواہی
پر سوال اٹھانے چاہئیں تھے، لیکن ہفتوں تک میڈیا ہاؤسز میں سناٹا چھایا رہا
ہے۔ منافقانہ عمل دیکھئے کہ تبلیغی جماعت کا معاملہ سامنے آتے ہی گودی
میڈیا کے تن مردہ میں جان پڑ گئی ۔ ایک ساتھ کئی نیوز چینلوں نے تبلیغی
جماعت کے نام پر مسلمانانِ ہند پر ہلہ بول دیا۔ کیونکہ مودی سرکار کا منشور
ہی مسلمان دشمنی پر محیط ہے ۔ بھارت کے ایک ساتھ کئی نیوز چینلوں نے تبلیغی
جماعت کے بارے میں ڈیبیٹ شوز اور بریکنگ نیوز دینا شروع کر دیں۔اس کے بعد
موذی کے آئی ٹی سیل نے اپنا کام شروع کر دیا۔نا اہل اور جاہل چونکہ فکر و
فہم میں نا بلد اور کم ظرف ہوتے ہیں اسی لئے وہ اپنی ناکامیوں کو چھپانے
کیلئے گندہ کھیل کھیلتے ہیں۔موذی آئی ٹی سیل نے ملک و بیرون ملک کے سالوں
پرانی ویڈیوز نکال کر انہیں مسلمانوں سے منسوب کر کے اکثریتی طبقے کے ذہنوں
میں یہ بات ڈالنے کی پوری کوشش کی کہ مسلمان ایک مکمل سازش کے تحت کورونا
وائرس پھیلانے میں لگے ہوئے ہیں ۔ اس شر انگیزی کی وجہ سے بھارت کے مختلف
علاقوں میں مسلمانوں پر حملے شروع ہو گئے ، اکثریتی طبقے میں مسلم منافرت
کا رجحان کس قدر بھر گیا ہے اس کا اندازہ ان مثالوں سے لگا سکتے ہیں:
1 : شاستری نگر کی ایک ویڈیو میں ایک سبزی فروش کو اس لئے نکال دیا گیا کہ
وہ مسلمان تھا۔ویڈیو بنانے والا کہتا ہے کہ جتنے بھی سبزی فروش ہیں ان کا
آدھار (راشن )کارڈ چیک کرو اگر مسلمان نکلے تو اسے فوراََ بھگا دو یہ لوگ
وائرس پھیلا رہے ہیں۔2 : اتراکھنڈ کے ہلدوانی شہر میں رامپور روڈ پر ایک
مسلمان پھلوں کی دوکان لگاتا ہے۔ دو دن پہلے آدھادرجن کے قریب بی جے پی کے
شر پسند پہنچے اور کورونا پھیلانے کا الزام لگاتے ہوئے دوکان بند کروا دی۔
پڑوسی دوکاندار غیر مسلم تھا، اس نے بی جے پی کے غنڈوں سے ڈرتے ہوئے پوچھا
کیامیں بھی دوکان بند کر دوں؟ شرپسندوں نے کہا تم دوکان کھولے رہو،
مسلمانوں کی وجہ سے کورونا پھیل رہا ہے۔3: 6 اپریل ، کرناٹک کے باگل کوٹ
ضلع بدرگاہی میں چار ماہی گیر کرشنا ندی میں مچھلی پکڑنے آئے تھے ۔ اچانک
ہی گاؤں والوں نے انہیں گھیر لیا ، ہندو ماہی گیر کو تو چھوڑ دیا لیکن
مسلموں پر کورونا پھیلانے کا الزام لگاتے ہوئے زدو کوب کر نا شروع کر دیا۔
وہ لوگ گڑ گڑاتے رہے مگر ہجوم پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ اور انہیں لہو لہان کر
کے پھینک دیا۔ 4 : اسی دن کرناٹک کے امروتا ہلی میں یوگیندر یادیو کا بیٹا
،تبریز کے ساتھ ایک بستی میں لاک ڈاؤن متاثرین میں راشن تقسیم کر رہا تھا۔
اچانک ہی بی جے پی کے 20/30 غنڈے وہاں پہنچے اور وائرس پھیلانے کا الزام
لگاتے ہوئے کہا کہ ہندوؤں کو کھانا مت بانٹو اپنے لوگوں میں بانٹو، تمہی
لوگوں سے کورونا پھیل رہا ہے۔ تبریز نے بی بی سی کو بتایا کہ ہم نے ان سے
بحث نہیں کی اور دوسری بستی میں چلے گئے، لیکن شریروں کی ٹولی نے وہاں بھی
پیچھا نہیں چھوڑا اور حملہ کر دیااس حملے میں تبریز کے سر اور ہاتھ پر 6
ٹانکے لگے ہیں۔5 : چار اپریل ، رامپور کے قصبے دڑھیال میں پنجاب اینڈ سندھ
بینک سے پیسہ نکالنے والوں کی بھیڑ لگی تھی۔ اچانک کچھ پولیس والے وہاں
پہنچے اور لائن میں لگے ہوئے ایک مشرع مسلمان کو تبلیغی کہہ کر نکالا،
گالیاں دیتے ہوئے کہا کہ تمہاری وجہ سے کورونا پھیل رہا ہے، یہ کہہ کر
سرعام خوب پیٹا۔6: یو پی کے ایک مشہور ہندی روزنامہ نے فیروز آباد میں 6
جماعتی افراد کے کورونا مثبت ہونے کی جھوٹی خبر چھاپی بعد میں ضلع پولیس نے
اس خبر کی تردید کی۔7:ملک کی معروف نیوز ایجنسی اے این آئی نے نوئڈا میں
قرنطینہ کیے گئے جماعتی افراد کے خلاف فرضی کی خبر چلائی۔ بعد میں نوئڈا کے
ڈی سی پی نے اپنے ٹوئٹر ہینڈل سے اے این آئی کو ٹیگ کر کے لکھا کہ آپ نے
غلط اور فرضی خبر چلائی ہے۔ تب جا کر اے این آئی نے وہ خبر ڈیلیٹ کی۔8:
بدنام زمانہ زی نیوز چینل نے ہماچل پردیش میں 11 جماعتی افراد کے کرونا
مثبت ہونے کی خبر چلائی حالانکہ پورے صوبے میں محض ایک ہی کورونا متاثر ہے
۔ بعد میں جب افسران نے اس جھوٹی خبر کی تردید کی تو چینل نے معافی
مانگی۔9: رامپور کے قصبہ ٹانڈہ میں 15 جماعتی تبلیغی مرکز دہلی گئے تھے جس
کی وجہ سے انہیں CHC میں قرنطینہ کیا گیا۔ ان لوگوں کے کھانے پینے کی ذمہ
داری مقامی افراد نے لے رکھی ہے لیکن اس کے بعد بھی ایک ہندی روزنامے نے یہ
جھوٹی خبر شائع کی، کہ جماعتی مرغ اور بریانی مانگ رہے ہیں۔ یہ مثالیں صرف
نمونہ ہیں ورنہ ہر علاقے سے خبریں جمع کی جائیں تو سینکڑوں مثالیں مل جائیں
گی۔
مودی حکومت بھارت ، کشمیر اور ہمسایہ ملکوں کے مسلمانوں کیلئے موذی ثابت ہو
رہی ہے۔ بھارت میں حاکم جماعت نے مسلم دشمنی کا ابھی تک کوئی موقع ہاتھ سے
جانے نہیں دیا۔اگر بھارتی حکومت کے لبرل ازم ہونے کے دعوے سچے ہوتے تو آج
ان کی پالیسیاں کورونا کے معاملے میں نظر آتیں۔ انہوں نے مسلم نسل کشی اور
مسلموں پر ہونے والے مظالم کے خلاف ابھی تک کوئی بیان یا اقدامات نہیں کئے
ہیں۔ اس امر کی تائید ایک بھارتی مصنفہ ، صحافی اور سماجی کارکن نے ایک
عالمی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے بھی کی ہے۔ اس نے کہا ہے کہ
بھارتی حکومت کورونا وائرس کی وبا کے پھیلاؤ کا ذمہ دار مسلمانوں کو ٹھہرا
کر ہندوؤں کے جذبات کو اکسا رہی ہے جس سے حالات ایک بار پھر مسلمانوں کی
نسل کشی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ایکسپریس نیوز کے مطابق بھارتی صحافی نے مزید
کہا کہ مودی سرکار ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان کشیدگی کو ہوا دے رہی ہے
جس سے مسلم کش فسادات کا خدشہ بڑھ گیا ہے جس پر دنیا کو نظر رکھنے کی ضرورت
ہے اور اس حوالے سے عالمی قوتوں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔آغاز سے
اب تک بھارتی میڈیا نے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ محض ایک مفاد پرست ، خوشامدی
ٹولہ ہے جو کسی بھی حکومت کی گود بھری رکھتا ہے۔
|