فکرِ اقبال اور اُمّت

پروفیسرشمشاداختر
حضرت اقبالؒ کو"شاعرمشرق"کا لقب بھی دیا گیا ہے انھوں نے شاعری کو"ملّی تقدس "عطا کیاہے۔جس کے سامنے تعزّل کی اباحت شرماجاتی ہے۔حضرت علامہؒکی شخصیت ،فکراورفنی پختگی جب اوجِ کمال کوپہنچی توان کی نثرہویانظم اس کا محوری نقطہ"اُمّت"بن گئی،انھوں نے فرد بن کر سوچناچھوڑدیا وہ ہمیشہ ہرمنظرکواُمّت کی آنکھ سے دیکھتے ۔ہرمسئلے پراُمّت کے نقطۂ نظرسے غورکرتے،نفع ونقصان کواُمّت کی میزان میں تولتے،خیروشرکواُمّت کے پیمانے سے ناپتے،حسن وقبیح کواُمّت کی کسوٹی پرپرکھتے۔ علامہ کی زندگی میں ایک وقت وہ آگیا کہ ان کاذہن اُمّت کاترجمان ،ان کا قلم اُمّت کا حدی خواں،ان کی سوچ اُمّت کی اپروچ،ان کی نثراُمّت کی فکر اوران کی نظم اُمّت کا غم بن کر رہ گئے۔کبھی وہ اُمّت کے حوالے سے فلسفے کی زبان میں بات کرتے ہیں۔کبھی داعی اورمبلغ بن کرکلام کرتے ہیں،کبھی اُمّت کے مرثیہ خواں نظرآتے ہیں۔کبھی رزمیہ انداز اختیارکرتے ہیں،کبھی عالم ناسوت اورلاہوت کی بات کرتے ہیں،کبھی بارگاہ رسالتﷺ میں فریادکناں ہوتے ہیں،کبھی جوانان ملّت کوعقابی پروازپرابھارتے ہیں۔کبھی ماضی مرحوم کوآوازدیتے ہیں۔کبھی حال کا روناروتے ہیں،کبھی خلوت میں تڑپتے ہیں،کبھی جلوت میں پھڑکتے ہیں،کبھی نالہ نیم شبی کی آڑلیتے ہیں،کبھی بادِصبح گاہی کوڈھال بنا لیتے ہیں،سب کچھ وقفِ اُمّت رہا،انھیں یہ یہ شوق نہیں تھا کہ وہ نابغہ اورعبقری کہلائیں بلکہ ان کی یہ خواہش تھی کہ افرادِاُمّت رمزِ خودی اپنائیں اوردنیا پہ چھائیں ۔

انھیں یہ اطمینان نہیں تھا کہ اہل دانش کی نگاہیں ان کی طرف لگی رہیں بلکہ ارمان رہا کہ اہل دُنیا اُمّت سے نظریں پھیر رہی ہے،انھیں یہ گھمنڈ نہیں تھا کہ وہ عصررواں کا دماغ ہیں بلکہ انھیں یہ غم تھا کہ شبستان اُمّت سے چراغ ہے۔وہ اِس سے خوش نہیں تھے کہ دُنیا انھیں فیلسوف مشرق کہتی ہے۔بلکہ اس پردلگیر تھے کہ اُمّت مغلوب مغرب ہورہی ہے وہ اس پرخوش نہیں تھے کہ انھوں نے یورپ کا فلسفہ کھنگال لیا ہے بلکہ اس سے آزردہ تھے کہ اُمّت میں فکری زوال آرہا ہے۔علامہ کی زندگی اس آرزومیں کٹی کہ ہرگام پراُمّت سرخرواوربا آبروہے ان کا فارسی کلام ہویاملفوظات ،ان کے خطبات ہوں یااردوکُلیات ہرپہلوسے اُمّت کارنگ جھلکتاہے،آپ پرلکھی جانے والی ہرکتاب میں غالب حصہ اُمّت کے مسائل ومعاملات کے لئے وقف ہیـ"فکرِاقبال"ہویا"روزگارفقیر"ہویا"دانائے راز"ہوہرجگہ علامہ کی اُمّت میں دلچسپی گہری اورواضح دکھائی دیتی ہے۔عہدِاقبال میں یہ نہیں کہ فلسفی کوئی نہیں تھا،صاحب ِقلم لوگ نہیں تھے،خطیب وادیب ناپیدتھے،دُنیا شاعروں سے بانجھ ہو گئی تھی،صاحب ِدرداُٹھ گئے تھے،یا اہل نظرمفقودتھے،سبھی لوگ تھے البتہ ان کا ہرلمحہ وقفِ اُمّہ تھا۔کبھی ماضی مرحوم ان کی آنکھوں کے سامنے آتاتوبڑی حسرت سے کہہ اُٹھتے
اے لاالہ کے وارث باقی نہیں ہے تجھ میں
گفتاردلبرانہ، کردارقاہرانہ
تیری نگاہوں سے دل سینوں میں کانپتے تھے
کھویا گیا ہے تیراجذب قلندرانہ
کبھی افرادِاُمّت سے اس اندازمیں مخاطب ہوتے ہیں
تیرااندیشہ افلاکی نہیں ہے
تیری پروازلولاکی نہیں ہے
یہ مانا اصل شاہینی ہے تیری
تیری آنکھوں میں بے باکی نہیں ہے
کبھی اس زمین میں لہجہ بدل کر بات کرتے ہیں
رگوں میں وہ لہوباقی نہیں ہے
وہ دل وآرزوباقی نہیں ہے
نمازوروزہ وقربانی وحج
یہ سب باقی ہیں ،توباقی نہیں ہے
اقبالؒجب اُمّت کے ہاتھ میں کشکول گدائی دیکھتے ہیں اورچھوٹے چھوٹے کاموں کے لئے غیروں کی طرف التجابھری نظروں کرتے ہیں توپروانے اورجگنوکواستعارہ بناکر اہل ِاسلام کودرس ِخودی دیتے ہیں،پروانہ کہتا ہے
پروانے کی منزل ہے بہت دورہے جگنو
کیوں آتش بے سوزپہ مفرورہے جگنو
جگنوجواب دیتا ہے
اﷲ کا سوشکر،کہ پروانہ نہیں میں
دریوزہگرآتش بیگانہ نہیں میں
مسلمانوں کے وقاراوراقتدارکی آخری علامت "خلافت"کی تحلیل کا جب باقاعدہ اعلان ہوتا ہے اوروہ بھی اپنے لوگوں کے ہاتھوں تواقبال چپ نہیں رہ سکتے
چاک کردی ترک ناداں نے خلافت کی قبا
سادگی اپنوں کی دیکھ اورو ں کی عیاری بھی دیکھ
اُمّت کی زبوں حالی پہ لکھتے ہیں
ہوگئی رسوازمانے میں کلاہ لالہ رنگ
جوسراپانازتھے،ہیں آج مجبورنیاز
اُمّت آج بہت سی مصیبتوں میں گھری ہوئی ہے آج سب سے زیادہ معاشی بدحالی کا اوراِسے"امّ المسائل"کادرجہ حاصل ہے کوئی شک نہیں معاشی بدحالی توہے مگرساتھ ارباب اقتدار کی بداعمالی بھی توہے۔اگرظالم حکمران اُمّت کی گردن سے کسی طرح اُترجائیں تودُنیادیکھے گی ۔سورہ رحمن کی ستائیس کی ستائیس نعمتیں قدرت نے اُمّت کوعطاکی ہوئی ہیں۔مسئلہ یہ ہے کہ اُمّت میں ذوق یقین پیداہو،روح انقلاب بیدارہو،نسبتِ مصطفیﷺ استوارہو،نصب العین کی وضاحت ہو،خودی کی تلاش ہواوراستحکام پرتوجہ دی جائے،
علامہ اقبالؒنے سب سے زیادہ انہی باتوں پرزوردیا ہے اگرہاتھ شل ہوجائیں توتوپ کسی کام نہیں آتی،آنکھیں اداس ہوں تونظارے پھیکے لگتے ہیں،ذوق بگڑاہوتولاہوتی نغمہ بھی کانوں پرگراں گزرتا ہے۔اقبالؒنے انہیں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا!
تیرے دریامیں طوفاں کیوں نہیں ہے
خودی تیری مسلمان کیوں نہیں ہے
عبث ہے شکوہ تقدیریزداں
توخودتقدیریزداں کیوں نہیں ہے

 

Rasheed Ahmad Naeem
About the Author: Rasheed Ahmad Naeem Read More Articles by Rasheed Ahmad Naeem: 47 Articles with 46442 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.