1۔تراویح کا معنی اور وجہ تسمیہ
تراویح "ترویحہ" کی جمع ہے، اور "ترویحہ" ایک دفعہ آرام کرنے کو کہتے ہیں،
جیسے "تسلیمۃ" ایک دفعہ سلام پھیرنے کو کہتے ہیں۔
تراویح کی نماز کو" تراویح" کے لفظ کے ساتھ نام رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ جب
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم پہلی مرتبہ اس نماز کو ادا کرنے کے لیے جمع ہوئے،
تو ہر چار رکعت کے بعد "ترویحہ" یعنی آرام اور وقفہ کرتے تھے۔
(فتح الباری 250/4 کتاب الصلوۃ التراویح ط: دار المعارفۃ بیروت)
شریعت میں "تراویح" اس نماز کو کہتے ہیں جو سنت مؤکدہ ہے، اور رمضان
المبارک کی راتوں میں عشاء کی نماز کے بعد سے صبح صادق کے درمیان جماعت کے
ساتھ یا اکیلے پڑھی جاتی ہے، اور اس میں عام رواج عشاء کی نماز کے بعد متصل
پڑھنے کا ہے۔
(اوجز المسالک، 514/2 کتاب الصلاۃ فی رمضان ط: مرکز الشیخ ابی الحسن الندوی)
2۔نماز تراویح کے فضائل
1)۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم نے ارشاد فرمایا : جو شخص رمضان (کی راتوں) میں ایمان کے ساتھ اور
ثواب کی نیت سے (عبادت کے لیے) کھڑا ہو، اس کے پچھلے تمام گناہ معاف ہوجاتے
ہیں۔
(بخاری شریف، کتاب الایمان رقم الحدیث 37)
ثواب کی امید رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ شہرت اور دکھاوے کے لیے نہیں؛ بلکہ
خالص اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے عبادت کی جائے۔
2)۔حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بیشک اللہ تبارک وتعالی نے تم پر رمضان المبارک
کے روزے فرض قرار دیئے ہیں، اور میں نے رمضان کی رات میں قیام (یعنی تراویح)
کو سنت قرار دیا ہے، پس جس شخص نے رمضان کا روزہ رکھا اور رمضان میں قیام
کیا (تراویح پڑھی) ایمان کی حالت میں اور ثواب کی امید رکھتے ہوئے اخلاص کے
ساتھ، تو وہ اپنے گناہوں سے اس طرح نکل جائے گا جیسا کہ وہ اپنی پیدائش کے
وقت تھا۔
(سنن نسائی، کتاب الصیام، رقم الحدیث 2210)
3)۔ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم نے ارشاد فرمایا: جب رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے تو آسمان کے دروازے
کھول دیے جاتے ہیں، اور آخر رمضان تک کوئی دروازہ بند نہیں کیا جاتا، اور
کوئی بھی بندہ جو رمضان کی رات میں نماز پڑھتا ہے تو اس کو ڈیڑھ ہزار
نیکیاں ملتی ہیں، اور ہر سجدے کے بدلے جنت میں سرخ یاقوتوں کا گھر بنادیا
جاتا ہے، جس کے ساٹھ دروازے ہوں گے اور ہر دروازے پر سونے کا محل ہوگا جو
سرخ یاقوت سے آراستہ ہوگا۔ پس جب بندہ رمضان کا پہلا روزہ رکھتا ہے تو اس
کے گزشتہ رمضان سے اب تک کے سارے گناہ معاف ہوجاتے ہیں اور صبح کی نماز سے
غروب آفتاب تک اس بندے کے لئے ستر ہزار فرشتے دعائے مغفرت کرتے رہتے ہیں
اور اس کے لئے رمضان کے ہر سجدے کے بدلے چاہے دن میں ہو یا رات میں جنت کا
ایک درخت ہے جس کے سائے میں سوار پانچ سو سال تک چل سکتا ہے۔
(الترغیب والترہیب، 357/2)
3۔تہجد اور تراویح میں فرق
تہجد اور تراویح کی نماز میں مختلف اعتبار سے فرق ہے:
(1) تہجد کا ذکر قرآن مجید میں ہے، جبکہ تراویح کا ذکر صرف حدیث شریف میں
ہے۔
(2) تہجد پورے سال پڑھنے کی نماز ہے، اور تراویح رمضان المبارک کے ساتھ خاص
ہے۔
(3) تہجد کا اصل وقت آخر رات ہے، اور تراویح کا اصل وقت عشاء کی نماز کے
فورا بعد ہے۔
(4) تہجد میں جماعت نہیں ہے، جبکہ تراویح کی نماز میں جماعت مسنون ہے۔
(5) تہجد میں قرآن شریف ختم کرنا سنت نہیں، جبکہ تراویح کی نماز میں پورا
قرآن شریف ختم کرنا سنت ہے۔
4۔تراویح کی نماز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کے دور
میں
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پوری زندگی میں صرف تین رات تراویح کی
نماز کو جماعت کے ساتھ ادا فرمایا، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس
اندیشے سے اس کو جماعت کے ساتھ ادا کرنا چھوڑ دیا کہ کہیں یہ نماز امت پر
فرض نہ ہو جائے، اور صحابہ کرام کو اپنے اپنے گھروں میں انفرادی طور پر
نماز پڑھنے کی تاکید فرمائی اور خود بھی وفات تک اس کو گھر میں ہی ادا کرتے
رہے۔
(اوجز المسالک مع مؤطا مالک500/2 کتاب الصلاۃ فی رمضان ط: مرکز الشیخ ابی
الحسن الندوی)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ
کی خلافت کا پورا زمانہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خلافت کے
ابتدائی ایام میں یہی صورتحال رہی کہ سب لوگ انفرادی طور پر جماعت کے بغیر
یا پھر چھوٹی چھوٹی جماعتوں میں تقسیم ہوکر تراویح کی نماز ادا کرتے تھے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت کے دور کے دوسرے سال ماہ رمضان
المبارک 14 ہجری میں ایک امام کی اقتدا میں سب لوگوں کو تراویح کی نماز کی
جماعت پر اکٹھا کیا، اور مشہور صحابی حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو اس
جماعت کا امام مقرر کیا، اور کسی ایک صحابی نے بھی اس موقع پر کوئی نکیر
نہیں فرمائی، اس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سنت کو جس کو آپ
صلی اللہ علیہ وسلم نے امت پر فرض ہوجانے کے خوف سے ترک کردیا تھا، حضرت
عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے خلیفہ راشد ہونے کی حیثیت سے پھر سے جاری
فرمایا، اور آج تک جاری ہے۔
(الطبقات الکبری لابن سعد ط: دار صادر بیروت 59/5)
5۔نابالغ حافظ کے پیچھے تراویح پڑھنا
بالغ افراد کے لیے نابالغ حافظ کی اقتدا میں تراویح اور دیگر فرض نمازیں
پڑھنا جائز نہیں ہے، البتہ نابالغ حافظ اپنے جیسے نابالغ بچوں کی امامت
کروا سکتا ہے۔
(شامی: 577/1کتاب الصلاۃ ط: سعید)
6۔ایک مسجد میں متعدد جگہ تراویح کا حکم
افضل اور بہتر یہی ہے کہ ایک مسجد میں ایک ہی امام کے پیچھے تراویح پڑھی
جائے، البتہ اگر دو یا زیادہ حافظ الگ الگ جگہ پر تراویح پڑھائیں، اور ایک
کو دوسرے کی آواز سے حرج بھی نہ ہو، اور غرور اور نفسانیت بھی نہ ہو تو
جائز ہے۔
(مشکوٰۃ المصابیح کتاب الصلاۃ،ص:115 الفصل الثالث ط:قدیمی)
7۔بلا ضرورت امام کو لقمہ دینا
بلاضرورت امام کو لقمہ نہیں دینا چاہیے، تاہم اگر بلا ضرورت لقمہ دیدیا تو
اس سے لقمہ دینے والے کی نماز فاسد نہیں ہوگی، کیونکہ لقمہ دینا امام کو
بتلانے کے لیے ہے، یہ لوگوں کے کلام میں سے نہیں ہے، اس لئے امام اور مقتدی
دونوں کی نماز صحیح ہے۔
(البحر الرائق، 6/2 کتاب الصلاۃ ط: سعید)
08۔تراویح روزے کے تابع نہیں
تراویح اور روزہ دونوں الگ الگ عبادت ہیں، جو لوگ کسی وجہ سے روزہ نہ رکھ
سکیں، ان کے لیے بھی تراویح کی نماز پڑھنا سنت ہے، اگر نہیں پڑھیں گے تو
سنت چھوڑنے کی وجہ سے گناہ گار ہونگے۔
(رد المحتار، 104/1 کتاب الطھارۃ مطلب فی السنۃ وتعریفھا ط: سعید)
09۔تراویح کی کچھ رکعات تہجد کے وقت پڑھنا
امام اگر تراویح میں سولہ رکعت تراویح پڑھا کر چار رکعت تراویح چھوڑ دے،
جسکو کوئی دوسرا امام پڑھا دے، پھر امام چار رکعت تراویح تہجد کے وقت جماعت
سے پڑھا دے، تو یہ جائز ہے۔
(فتاوی ھندیۃ، 115/1 الباب التاسع فی النوافل ط: رشیدیہ)
10۔تراویح کی جماعت گھر پر کرنا
تراویح کی نماز مسجد میں باجماعت ادا کرنا سنت مؤکدہ علی الکفایۃ ہے، لہذا
کچھ لوگوں کا مسجد میں باجماعت تراویح کی نماز قائم کرنا ضروری ہے، تاکہ
تمام اہل محلہ سنت مؤکدہ کے ترک کرنے کے گناہ سے محفوظ رہیں۔
(البحر الرائق، 68/2 باب الوتر والنوافل ط: سعید)
11۔خواتین کا جماعت سے تراویح پڑھنا
تنہا عورتوں کا تراویح کی جماعت کروانا، جس میں امام بھی عورت ہو، مکروہ
ہے، ہاں اگر گھر میں تراویح کی جماعت ہو رہی ہو، تو عورتیں پردے میں کھڑی
ہوکر مردوں کی جماعت میں شریک ہوسکتی ہیں؛ لیکن صحت نماز کے لیے ضروری ہے
کہ مرد امام عورتوں کی امامت کی نیت کرے۔
(رد المحتار علی الدر المختار: 305/2 ط: زکریا باب الإمامة)
12۔داڑھی منڈانے والے حافظ کی امامت
داڑھی منڈوانے والا شریعت کی رو سے فاسق ہے، ایسے حافظ کی اقتداء میں
تراویح وغیرہ پڑھنا مکروہ تحریمی ہے۔
(شامي، 299/2 ط: زکریا)
13۔تراویح کی تعداد رکعات میں اختلاف ہوجائے
اگر تراویح کی نماز کی رکعات کی تعداد میں اختلاف ہوجائے، تو تراویح پڑھانے
والے امام جس طرف ہوگا اس جماعت کا قول معتبر ہوگا، اگر امام نے اٹھارہ
رکعات کہا ہے، تو مزید دو رکعات پڑھی جائیں، اور اگر امام نے بیس رکعات کہا
ہے، تو مزید پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے۔
(ھندیۃ، 117/1 کتاب الصلاۃ الباب التاسع فی النوافل ط:رشیدیہ)
14۔گرمی کی وجہ سے مسجد کی چھت پر جماعت کروانا
گرمی کی وجہ سے مسجد کے اندرونی حصے اور مسجد کے صحن کو چھوڑ کر چھت پر
عشاء اور تراویح وغیرہ کی جماعت کروانا مکروہ ہے، ہاں مسجد کے اندرونی حصے
اور صحن میں جگہ خالی نہ ہونے کی وجہ سے مجبوری میں چھت پر نماز پڑھنا بلا
کراہت جائز ہے۔
(رد المحتار، 656/1 کتاب الصلاۃ ط؛سعید)
15۔دوران تراویح امام کے رکوع کے انتظار میں بیٹھے رہنا
تراویح کے دوران بعض افراد بیٹھے رہتے ہیں، اور امام جب رکوع میں جاتا ہے،
تو فورا کھڑے ہوکر نیت باندھ کر رکوع میں شامل ہو جاتے ہیں، اس طرح کرنا
مکروہ ہے، اس میں منافقین کے ساتھ مشابہت بھی ہے، اس سے تراویح میں قرآن
مجید ختم کرنے کی سنت بھی ادا نہیں ہوتی، اور ایسے لوگ پورے ثواب سے بھی
محروم رہتے ہیں۔
(رد المحتار، 48/2 کتاب الصلاۃ ط ایچ ایم سعید)
16۔رمضان میں وتر باجماعت ادا کرنا افضل ہے
تمام مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ رمضان المبارک میں وتر کی نماز
باجماعت ادا کرنا افضل ہے، جبکہ رمضان کے علاوہ باقی مہینوں میں وتر
باجماعت پڑھنا صحیح نہیں ہے، کیونکہ وہ ایک قسم کی نفل نماز ہے۔
(مراقی الفلاح، 376 کتاب الصلاۃ باب الوتر ط:قدیمی)
17۔تراویح کی کچھ رکعات رہ جانے پر پہلے تراویح پڑھے یا وتر؟
اگر کوئی شخص تراویح کی چار رکعت ہونے کے بعد آیا، اور نماز پڑھ کر امام کے
ساتھ تراویح میں شامل ہوگیا، تو وہ شخص امام کے ساتھ تراویح پوری پڑھنے کے
بعد وتر بھی امام کے ساتھ جماعت سے پڑھے، اور بعد میں اپنی بقیہ تراویح
پوری کرلے۔
(رد المحتار، 44،46/2 کتاب الصلاۃ باب الوتر والنوافل ط: سعید)
18۔امام کا بیٹھ کر تراویح پڑھانا
اگر امام کسی عذر کی وجہ سے بیٹھ کر نماز پڑھائے، تب بھی مقتدیوں کیلئے
کھڑے ہو کر تراویح پڑھنا مستحب ہے۔
(فتاوی ھندیۃ، 118/1 کتاب الصلاۃ فصل فی التراویح ط: رشیدیہ)
19۔شبینہ کا حکم
اگر شبینہ میں تراویح کی نماز پڑھائی جاتی ہو، نہ کہ نفل نماز، اور اس میں
فضول خرچی، شور شرابہ، نام و نمود، بلا ضرورت چراغاں، اور ضرورت سے زائد
لاؤڈ اسپیکر کا استعمال نہ ہو، فرائض اور واجبات کی طرح پابندی بھی نہ ہو،
اور تمام لوگ ذوق وشوق کے ساتھ قرآن کریم سنتے ہوں، نیز قرأت اس طرح کی
جاتی ہو کہ حروف اور زیر زبر سمجھ میں آتے ہوں، اور غلطی اور متشابہ کا
خیال بھی رکھا جاتا ہو، تو شبینہ جائز ہے، ورنہ جائز نہیں ہے۔
(فتاوی محمودیہ: 326/7 باب التراویح، ط: فاروقیہ کراچی)
20۔تراویح میں قرآن کریم ختم کرنا سنت ہے
تراویح میں ایک بار قرآن کریم مکمل کرنا سنت ہے، اگر کوئی شخص سستی یا کسی
اور وجہ سے اس کا اہتمام نہیں کرتا، تو وہ سنت کو ترک کرنے والا ہے، لہٰذا
مکمل قرآن کریم کم از کم ایک بار تراویح میں سننے کا اہتمام کرنا چاہیے۔
(البحرالرائق، 2/68،ط:سعید)
21۔حافظ کا تراویح پڑھانے پر اجرت لینا
حافظ کا تراویح میں قرآن سنانے پر اجرت لینا جائز نہیں ہے، اگر کسی نے اجرت
لے لی، تو اسے اصل مالکوں کو واپس کرنا ضروری ہے، البتہ اگر حافظ کے اجرت
لینے سے انکار کے باوجود انفرادی طور پر لوگوں نے ہدیہ کے طور پر کچھ دیا
ہو تو لینے کی گنجائش ہے۔
(شامی: 56/6، کتاب الاجارۃ_373/5 کتاب القضاء ط: سعید)
22۔ختم قرآن پر نذرانہ لینا
بعض حضرات ختم قرآن کے موقع پر حافظ صاحب کو کچھ نذرانہ، ہدیہ یا تحائف
وغیرہ دیتے ہیں، اگر پہلے سے کوئی بات طے نہیں ہوئی تھی، بلکہ اپنی خوشی سے
ذاتی طور پر رقم یا کپڑے وغیرہ دیتے ہیں، تو دینے اور لینے کی گنجائش ہوگی،
اگرچہ اس سے بھی بچنا بہتر ہے، اور اگر پہلے سے طے شدہ ہے یا زبردستی چندہ
کرکے جمع کیا ہے، تو دینا اور لینا درست نہیں ہے۔
(رد المحتار، 373/5 کتاب القضاء ط: سعید)
23۔بغیر اجرت کے تراویح پڑھانے والا حافظ نہ ملے تو کیا کریں؟
اگر بغیر اجرت کے تراویح کی نماز پڑھانے والا کوئی حافظ نہ ملے، تو کسی
حافظ کو صرف رمضان المبارک کے لیے نائب امام مقرر کر لیا جائے، اور عشاء
وغیرہ ایک دو نمازیں اس کے ذمہ لازم کردی جائیں، اسی ضمن میں وہ تراویح بھی
پڑھائے تو اجرت دینے کی گنجائش ہوگی۔
(رد المحتار، 73/2 کتاب الصلاۃ باب قضاء الفوائت ط: سعید)
24۔ختم قرآن کے موقع پر مٹھائی تقسیم کرنا
تراویح میں ختم قرآن کے موقع پر اگر مٹھائی تقسیم کرنے کو ضروری نہ سمجھا
جائے اور لوگوں سے جبرًا اس کے لیے چندہ نہ کیا جائے، نیز مٹھائی کی تقسیم
کے وقت مسجد کے آداب کا خیال رکھا جائے، تو اس کی گنجائش ہے، مگر بہتر یہ
ہے کہ دروازے پر تقسیم کی جائے۔
(فتاوی عثمانی 102/1 کتاب السنۃ والبدعۃ، فتاوی رحیمیہ 243/6 مسائل تراویح)
25۔ختم قرآن کے دن "مفلحون" تک پڑھنا
تراویح کی نماز میں ختم قرآن کے وقت سورۃ ناس کے بعد سورۃ بقرہ سے مفلحون
تک پڑھنا مستحب ہے، یہ حدیث سے ثابت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا
ارشاد ہے:
لوگوں میں سب سے بہتر وہ ہے جو ٹھہر کر پھر آگے چل پڑے، یعنی قرآن ختم کرکے
پھر شروع کر دے۔
(المعجم الکبیر للطبرانی، 168/12 رقم الحدیث 12783)
26۔تراویح کی قضا
تراویح کا وقت عشاء کی نماز کے بعد سے لے کر طلوعِ فجر تک ہے، لہٰذا اگر
کوئی شخص وقت کے اندر تراویح نہ پڑھ سکا، تو اس پر تراویح کی قضا لازم نہیں
ہے۔
(رد المحتار، 44/2 باب الوتر والنوافل ط: سعید)
27۔بلا عذر تراویح چھوڑنا گناہ ہے
تراویح سنتِ موکدہ ہے، بلا عذر اس کو چھوڑنے کی عادت بنانے والا یا غیر اہم
سمجھ کر چھوڑنے والا گناہ گار ہے، خلفاءِ راشدین، صحابہ کرام، تابعین، تبع
تابعین، ائمہ مجتہدین اور سلفِ صالحین سے مستقل پابندی کے ساتھ تراویح
پڑھنا ثابت ہے، لہذا تراویح کا خوب اہتمام کرنا چاہیے، البتہ اگر کبھی عذر
کی وجہ سے چھوٹ جائے، تو اگرچہ گناہ نہیں ہوگا، لیکن بڑی خیر سے محرومی کا
باعث ہو گا۔
(رد المحتار، 2/43 کتاب الصلاۃ ط: سعید)
28۔خواتین کا جماعت سے تراویح پڑھنا
تنہا عورتوں کا تراویح کی جماعت کروانا، جس میں امام بھی عورت ہو، مکروہ
ہے، ہاں اگر گھر میں تراویح کی جماعت ہو رہی ہو، تو عورتیں پردے میں کھڑی
ہوکر مردوں کی جماعت میں شریک ہوسکتی ہیں؛ لیکن صحت نماز کے لیے ضروری ہے
کہ مرد امام عورتوں کی امامت کی نیت کرے۔
(رد المحتار علی الدر المختار: 305/2 ط: زکریا باب الإمامة) |