دینی معاملات خصوصا چاند کے مسئلے میں نزاع کی صورتحال میں علمائے کرام اور حکومت کے کردار کو واضح کرتی تحریر |
|
راجہ محمد عتیق افسر اسسٹنٹ کنٹرولر امتحانات ،قرطبہ یونیورسٹی پشاور 03005930098، [email protected]
بہار کا موسم گرما میں ڈھل رہا ہے ۔ ہر جانب سبزے کا راج ہے کونپلیں پھوٹ کر پتوں میں بدل گئیں ہیں کلیاں ثٹک کر پھول بن چکی ہیں اور پھول رعنائیاں دکھا کر پھلوں کی شکل اختیار کر چکے ہیں ۔ پرندوں نے بھی گھونسلوں میں افزائش نسل کر لی ہے اب مخلوق خدا گرمی کا استقبال کر رہی ہے لیکن بہار کی آمد اور پھولوں کی رعنائیوں سے بھرپور بہار کے باوجود تمام عالم انسان پہ کرونا وائرس کے خوف کے باعث خزاں کا راج رہا اور اب بھی انسان گھروں میں دبکے بیٹھے ہیں ۔ جس کارو بار زندگی کو انسانی زندگی کا جزو لاینفعک گردانا جاتا تھا وہ مکمل یا جزوی طور پہ مفلوج ہے ۔اور یوں زندگی آگے بڑھ رہی ہے ۔ کرونا کے حوالے سےمختلف قیاس آرائیاں اور آراء گردش میں ہیں ۔ کوئی اسے سماوی آفت کہتے ہیں کوئی اسے انسانی تخلیق قرار دیتے ہیں ۔ کوئی اسے گناہوں کی سزا سے تعبیر کر رہے ہیں تو کوئی اسے آزمائش قرار دیتے ہیں ۔ بہر حال ایک غیر مرئی مخلوق نے انسان کو خوف میں مبتلا کر کے گوشہ نشینی پہ مجبور کر دیا ہے ۔مہیب وباء کی دہشت نے جہاں کاروبار زندگی متاثر کیا ہے وہاں انسان اور اسکے رب کا تعلق بھی متاثر ہوا ہے ۔ ماضی میں ہم دیکھتے ہیں کہ آفت آنے پہ ہر مذہب کافرد خدا کی طرف متوجہ ہوتا تھا اور عبادت گاہیں بھر جاتی تھیں لیکن اس وباء نے صورتحال بدل دی ۔ عبادت گاہیں خالی ہیں یہاں تک کہ حرمین الشریفین کی رونقیں بھی ماند پڑ گئی ہیں ۔رمضان المبارک کی آمد آمد ہے اور لوگ اس حوالے سے بھی روزے اور تراویح کے لیے فکرمند ہیں ۔حج کا ارادہ کرنے والے اس سال بیت اللہ کی زیارت کے لیے فکرمند ہیں ۔یہ ایک تشویشناک صورتحال ہے ۔ ایک جانب تو خوف کی وجہ سے لوگ عبادت گاہوں سے دور ہیں تو دوسری جانب لبرل طبقے کی جانب سے یہ پروپیگنڈا بھی عام کیا جا رہا ہے کہ اس وباء کے پھیلاؤ کے ذمہ دار مذہبی طبقہ ہے ۔ اس پراپیگنڈے کی وجہ سے حکومت نے مساجد میں داخلے پہ قدغنیں لگائی ہیں ۔ علماۓ کرام نے پہلے ایک مشترکہ فتوی دیا جس میں رہنمائی موجود تھی لیکن بیوروکریسی پہ انحصار کرنے والی حکومت اس سے راہنمائی لینے میں ناکام رہی اور میڈیا چینلز نے بھی اپنی ریٹنگ کے چکر میں بات کا بتنگڑ بنا کر خوب تماشا کیا ۔دوسری جانب مذہبی رجحان رکھنے والے عوام اور خواص نے بھی اس فتوے کو درخور اعتناء نہ جانا۔ پھر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بزور قوت لوگوں کو نماز سے روکنے کی کوشش بھی کی اس سے معاملے میں سنگینی پیدا ہو گئی ۔اس صورتحال میں صدر مملکت نے علمائے کرام اور مشائخ عظام کا مشترکہ اجلاس طلب کیا ۔تمام علماء نے مشترکہ لائحہ عمل طے کیا اور حکومت نے اسے نافذ کرنے کا عہد کیا ۔ اب صلاۃ تراویح اور صلاۃ عید کے لیے لائحہ عمل تیار کر لیا گیا ہے اور ہر مسجد میں اسے نافذالعمل بنایا جارہا ہے ۔ کرونا وائرس کی ہیبت اپنی جگہ لیکن اس نے حکومت اور علماء کی ذمہ داریوں کو واضح کر دیا ہے ۔اگر حکومت ہر دینی معاملے میں دلچسپی لے تو مختلف فیہ مسائل میں اتفاق رائے پیدا کیا جا سکتا ہے ۔قومی اتحاد ملکی سالمیت کے لیے ناگزیر ہے دین اسلام اتحاد بین المسلمین پہ زور دیتا ہے ۔اسلام کی تمام عبادات اتحاد بین المسلمین کی غماز ہیں ۔اس صورتحال میں حکومت کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اسلامی تعلیمات ہی قومی وحدت کو مضبوط کر کے ملکی سالمیت کا باعث بن سکتی ہیں ۔کرونا وائرس کی صورتحال میں علماء کرام کا مل کر بیٹھنا اور ان مسائل پہ اتفاق رائے پیدا کر لینا جس کے بارے میں کبھی سوچا بھی نہیں جا سکتا ایک نوشتہ دیوار ہے کہ جن معاملات میں امت پہلے سے یکسو تھی انہیں بھی سلجھا لیا جائے ۔ آپس کے فروعی اختلافات کو باہم گفتگو سے حل کیا جائے ۔امت میں اتفاق پیدا کرنا علمائے کرام کی ذمہ داری ہے لیکن اس ذمہ داری سے اسی صورت عہدہ برا ہوا جا سکتا ہے جب حکومت علماء کو مل بیٹھنے کا موقع فراہم کرے اور دینی معاملات میں دلچسپی کا اظہار کرے ۔وقت کے گرداب میں پھنسی امت مسلہ کی ناؤ کو اتحاد امت کی ضرورت ہے اور امت کا سب سے بڑا مسئلہ بھی یہی ہے ۔رمضان المبارک کے حوالے سے جہاں تراویح اور عید الفطر کی نمازوں کے حوالے سے علماء اور حکومت نے پیش رفت کی ہے وہاں اتحاد و یگانگت کے فروغ پہ بھی اسی رویے کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے ۔ رمضان المبارک اور اتحاد ملت کے حوالے سے بات کرنے سے قبل چشم تصور سے سنہرے ماضی کو دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں جب دنیا میں اللہ نے رحمۃ للعالمین محمد مصطفی ﷺ کو مبعوث فرمایا ۔ مدینہ منورہ کی اسلامی ریاست ہے اور لوگ امن و اخوت کی مجسم تصویر بنے ہیں ۔اس رحمت بھرے ماحول میں نبی مہربان ﷺ ایک خوشخبری سنانے کے لئے لوگوں پہ جلوہ افروز ہوتے ہیں لیکن اسی اثنا میں دو مسلمان آپس میں لڑ پڑتے ہیں اور نبی ﷺ کی مسرت خفگی میں بدل جاتی ہے اور اسی کیفیت میں اپنے اصحاب کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں " میں تو تمہیں شبِقدر بتانے آیا تھا لیکن فلاں اور فلاں نے آپس میں جھگڑا کر لیا تو اس کا علم اٹھا لیا گیا اور امید یہی ہے کہ تمہارے حق میں یہی بہتر ہوگا ۔پس اب تم اس کی تلاش (آخری عشرہ کی) نو یا سات یا پانچ (کی راتوں) میں کیا کرو"۔گویا خفگی کے باوجود ایک امید کی کرن بھی امت کے لئے چھوڑ گئے کہ آخری عشرہ کی تاک راتوں میں تلاس کر لو۔ اس کا ذکر صحیح بخاری میں فضائل لیلۃ القدر کی احادیث کے ساتھ اس طرح ہوا ہے ۔ حدثنا محمد بن المثنى: حدثنا خالد بن الحارث: حدثنا حميد: حدثنا أنس، عن عبادة بن الصامت قال: خرج النبي صلى الله عليه وسلم ليخبرنا بليلة القدر، فتلاحى رجلان من المسلمين، فقال: (خرجت لأخبركم بليلة القدر، فتلاحى فلان وفلان فرفعت، وعسى أن يكون خيرا لكم، فالتمسوها في التاسعة والسابعة والخامسة). ہم سے محمد بن مثنی نے بیان کیا، ان سے خالد بن حارث نے بیان کیا، ان سے حمید طویل نے بیان کیا، ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا اور ان سے عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں شب قدر کی خبر دینے کے لیے تشریف لا رہے تھے کہ دو مسلمان آپس میں جھگڑا کرنے لگے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں آیاتھا کہ تمہیں شب قدر بتادوں لیکن فلاں فلاں نے آپس میں جھگڑا کر لیا۔ پس اس کا علم اٹھا لیا گیا اور امید یہی ہے کہ تمہارے حق میں یہی بہتر ہو گا۔ پس اب تم اس کی تلاش (آخری عشرہ کی) نو یا سات یا پانچ (کی راتوں) میں کیا کرو۔ (صحیح بخاری کتاب لیلۃ القدرحدیث نمبر: 2023) پڑھنے پڑھانے والے حضرات اس حدیث کو شب قدر کی فضیلت اور اسکی تعین کے حوالے سے ایک واقعہ سمجھ کر گزر جاتے ہیں ۔ لیکن بنظر غائر دیکھیں تو یہ ایک پیغام ہے جو ہر مسلمان کے دریچہ ٔ دل پہ دستک دیتا ہے ۔ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان سے جھگڑنا اللہ جل شانہ کو اتنا ناگوار ہے کہ اپنے پیارے حبیب ﷺ کی امت سے لیلۃ القدر کے تعین کا علم اٹھا لیا گیا۔ صرف دو افراد کا جھگڑنا پوری امت کو ایک ؑظیم رات کےتعین کے علم سے محروم کر سکتا ہے تو کیامسلمانوں کی ایک جماعت کا دوسری جماعت سے جھگڑا اللہ تعالی ٰ کے غضب کو دعوت نہیں دیتا؟ ۔ ایک مسلک کا دوسرے کے خلاف نفرت انگیز رویہ ، بیان بازی اور کفر و شرک کے فتوے امت کو قہر خداوندی کا مستحق نہیں ٹھہراتے ؟ یہ امر قابل غور ہے کہ رمضان المبارک کا ایک اہم پیغام اتحاد بین المسلمین بھی ہے جو مذکورہ بالا واقعے سے بھی ہمیں ملتا ہے ۔ رمضان المبارک کا احترام سب مسلمان کرتے ہیں اس ماہ میں ہر شخص حتی الوسع دین سے جڑنے کی کوشش کرتا ہے عبادات کی کثرت ہوتی ہے ، مسجدوں میں رونق ہو جاتی ہے ،خیرات و صدقات کا اہتمام ہوتا ہے ہر جانب نیکیوں کی بہار محسوس ہوتی ہے ۔پوری دنیا کی طرح پاکستان میں بھی رمضان المبارک کا خاص اہتمام ہوتا ہے ۔ لیکن ایک بڑا مسئلہ جو ہر برس رونما ہوتا ہے وہ انتہائی تکلیف دہ ہے اور مذکورہ حدیث نبوی کے تناظر میں اس کے مضمرات پہ غور و غوص اوراسکے حل کے لیے دعوت فکر بھی دیتا ہے لیکن ہر سال ملت اسلامیہ پاکستان کے اہل حل و عقد کے ہاں غیر اہم سمجھ کر نظر انداز کیا جاتا ہے اور باطل کے لئے جگ ہنسائی کا سبب بھی بنتا ہے ۔وہ ہے رویت ہلال پہ جھگڑے کا معاملہ ۔ تمام سال چاند ایک ہی رہتا ہے کلینڈر ایک ہی رہتا ہے لیکن رمضان اور شوال کا چاند ایک نہیں دو دو یا تین تین وجود اختیار کر جاتا ہے ۔ علماء دو گروہوں میں تقسیم ہوتے ہیں ، لوگ دو گروہوں میں بٹتے ہیں ، ایک دوسرے سے جھگڑتے ہیں اور رمضان گزر جاتا ہے، میڈیا چسکے لے کر اس مسئلے کو اچھالتا ہے اور نسلی اور مسلکی اختلافات کو ہوا دے کر بحث و مباحثے کرا تا ہے اور ابلیس اور اس کے حواری یقیناًٍ نازاں و فرحاں ہوتے ہیں کہ ہم نے امت سے رمضا ن کا اصل پیغام ہی چھین لیا ۔ ایک شاعر اس صورتحال کو اس طرح بیان کرتاہے جب امت ہو ٹکڑے ٹکڑے کیسے ایک ہو اس کا چاند سب کی اپنی اپنی مسجد سب کا اپنا اپنا چاند یونٹی کیا ہے میری مانو کیسی عید اور کہاں کا چاند ایک شہر میں دو دو عیدیں دیکھ کے ہنستا ہو گا چاند سوچنے اور غور کرنے کی بات یہ ہے کہ جب پیغمبر اقدس ﷺ رحمۃ للعالمین کی حیثیت سے دنیا میں موجود تھے اور ان کی موجودگی میں دو افراد کا جھگڑا ہوا تو لیلۃ القدر کی تعین کا علم امت سے اٹھا لیا گیا ۔ اب امت کے علماء غضب الٰہی کو دعوت دے کر رمضان کے چاند پر ہی لڑ پڑیں تو عبادات و صدقات و خیرات کی قبولیت کی امید ہم کس بنا پر کیئے بیٹھے ہیں ۔ کہنے کو یہ ایک معمولی مسئلہ سمجھ کر نظر انداز کیا جا تا ہے لیکن یہ ایک بڑا سیاسی دینی وسماجی مسئلہ ہے ۔سیاسی اس لئے کہ ایک ریاست میں ایک ادارے (مرکزی رویت ہلال کمیٹی )کواختیار دیا گیا ہے کہ وہ ہر ماہ چاند نظر آنے یا نہ آنے کا اعلان کرے ۔ 1954میں( جبکہ اب نہ پاکستان کادستور بناتھا اور نہ دستوری یا قانونی لحاظ سے پاکستان اسلامی ریاست ڈیکلیئر ہوا تھا) پاکستان کے علماء نے رویت ہلال کے مسئلے کا تفصلی جائزہ لیا تھا جس میں مفتی محمد شفیع ، مولانا ظفر احمد عثمانی , مولانا احمد علی لاہوری , محمد یوسف بنوری , مفتی محمد سیاح الدین کاکا خیل, مفتی رشید احمد لدھیانوی, مولانا عزیز الرحمان , محمد عبد المصطفی الازھری اور محمد ناظم ندوی جیسے جید علماء شامل تھے. انہوں نے متفقہ فتویٰ دیا کہ "پاکستان کے حکمران اگر چہ شریعت کے احکام سے ناواقف اور غیر عادل ہیں لیکن رویت کے سلسلے میں ان کا فیصلہ شرعاً نافذ ہوگا". اس فتوے کو "زیدہ المقال فی رویہ الہلال"کے نام سے شایع کیا گیا. اب بھی موجود ہے اور فتاواجات کے کتب کی زینت ہے. (احسن الفتاوی, ص 350) 3،4مئی 1967کو "مجلس تحقیقات شرعیہ"کا رویت ہلال کے مسلے کے حوالے سے دوسرا بڑا دوروزہ اجلاس ہوا, جس میں ابوالحسن علی ندوی, محمد طفیرالدین , مولانا عون احمد قادری رح, مولانا عمران خان ندوی, عتیق الرحمن, معین الدین احمد ندوی, محمد منطور نعمانی, مولانا اویس ندوی, محیب اللہ ندوی, محمد اسحاق ندوی جیسے علماء موجود تھے, انہوں نے دیگر فیصلوں کے علاوہ شق نمر 6 اجماعی طور یہ فیصلہ کیا کہ "حکومت پاکستان کا اعلان اور فیصلہ ہی قبول کیا جاے." (رویت الہلال کا مسئلہ, مولانا برہان الدین سنبھلی, ص159وبعد) رویت ہلال کمیٹی کو تمام صوبوں اور تمام مسالک کے اتفاق رائے سے قائم کیا گیا ۔ اس کے ارکان بھی تمام صوبوں اور تمام مذہبی مسالک سے لئے جاتے ہیں پھر بھی علماء کا ایک ٹولہ حکومتی کمیٹی کو مسترد کرتے ہوئے اپنی کمیٹی بناتا ہے اور اپنے فیصلے کرتا ہے ۔ یہ حکومتی رٹ کو چیلنج کیا جاتا ہے لیکن حکومت کے کان پہ جوں تک نہیں رینگتی۔حالانکہ اس موقع پہ حکومتی مشینری کو حرکت میں آنا چاہیے اور اس کو روکنا چاہئے ۔لیکن حکومت اسےمحض ایک مذہبی معاملہ قرار دے کر نظر انداز کرتی ہے ۔یہی کچھ کم نہیں تھا کہ موجودہ حکومت کےوہ وزراء جن کی فکاہیہ و غیر سنجیدہ گفتگو خاص و عام میں مشہور ہے وہ بھی اس کھیل میں ٹپک رہے ہیں ۔ یہ لبرل شخصیات اب سائنس کی آڑ لیتے ہوئے اس فریضے کو مذہبی طبقے کے ہاتھوں سے لے کر محض کیلینڈرکے حوالے کرنا چاہتے ہیں ۔ حالانکہ یہ عاقبت نا اندیش لوگ رویت ہلال کے ایک واجب عمل سے لوگوں کو پھیرنا چاہتے ہیں ۔ دینی مسئلہ اس لئے ہے کہ یہ اختلاف علماء کے درمیان ہے لیکن اس کا اثر عوام الناس کی عبادات پہ بری طرح پڑتا ہے ۔ اس اقدام سے عوام تقسیم ہو کر رہ جاتی ہے ۔ صوبہ خیبر پختونخوا کی نصف آبادی ایک طرف اور نصف ایک طرف ہو جاتی ہے ۔ علماء تو ایک فقہی دلیل یعنی "اختلاف المطالع ممکن ہے"کی آڑ لے کر خود کو محفوظ کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن عوام الناس کی عبادات بری طرح متاثر ہوتی ہیں ۔ یہ دلیل کے طور پہ احادیث پیش کرتے ہیں کہ عہد نبوی میں مختلف شہروں میں عید اور روزہ مختلف دنوں میں ہوا ہے اور نبی ﷺ نے دونوں کو درست قرار دیا ہے ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس دور میں یہ سب باہمی اختلاف کی وجہ سے نہیں ہوا بلکہ فاصلے اور ابلاغ کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے ہوا ۔ اور اسی اختلاف مطالع کا علماء متقدمین نے لحاظ رکھا ہے ۔جبکہ آج جو ہو رہا ہے وہ محض ذاتی اختلاف اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے ہے ۔ اگر مختلف شہروں میں الگ الگ روزہ اور عید ہو تب بھی قبول کیا جا سکتا ہے لیکن حد تو یہ ہے کہ پشاور شہر کی ایک ہی گلی میں کچھ لوگوں کا روزہ ہوتا ہے اور کچھ کا نہیں اسی طرح محلے کی ایک مسجد میں نماز عید ہوتی ہے تو دوسری میں دوسرے دن ۔ یہ کیفیت دنیا میں کہیں نہیں اور نہ ہی تاریخ میں پہلے کبھی ایسا ہوا ہے کہ علماء نے اس پہ رائے دی ہو ، اور پھر یہ اختلاف عوام میں بحث و تکرار اور جھگڑے کی نوبت تک جا پہنچتا ہے ۔ کچھ برس پہلے ایک مولانا کا قتل بھی ہو چکا ہے ۔ رویت ہلال کے حوالے سے علماء امت کا اس پہ اتفاق ہے کہ روزے اور عید کے چاند کااعلان حکمران کرےگا, البتہ یہ گنجائش ہے کہ اگر کوئی رمضان کا چاند دیکھے تو وہ خود روزہ رکھ سکتاہے, لیکن کسی اور کو نہ حکم دے سکتا ہے نہ ان کی شہادت پر دیگر لوگوں پر روزہ واجب ہوسکتا ہے, لیکن عید کاچاند ایک شخص یا گروہ خود دیکھے تو پھر بھی وہ حکمران کے اعلان کے بغیر عید نہیں کرسکتے خواہ ان کے روزے 32کیوں نہ ہوجائیں. (مصنف عبدالرزاق 58/4،شامی 330/4،فتح الباری 87/4،نیل الاوطار 256/4،،۔گواہی لینا, گواہ رد کرنا اور رمضان وعید کا اعلان کرنا حکمران کا کام ہے، یا ان کے مقرر کردہ شخص کا ،یاادارے کا(ہدایتہ المجتہد 277/1 ،درالمحتار 321/4) اگر کوئی انفرادی طور چاند دیکھے اور حکومت اعلان نہ کرے تو (1).اگر ایک شخص یا جماعت چاند دیکھے مگر حکومت اس کی گواہی قبول نہ کرے تو جمہور فقہاء کی نیزدیک یہ فرد یا جماعت خود روزہ رکھ سکتاہے. لیکن اگر روزے کو توڑے تو ان پر قضاء واجب ہوگی مگر کفارہ(مسلسل 60روزے رکھنا) واجب نہیں ہوگا, اس لیے کہ حکومت نے اعلان نہیں کیا تھا. (اگر حکومت روزے کااعلان کرے پھر روزہ توڑ دیا جاے توپھر کفارہ بھی واجب ہوتاہے) (2)اگر ایک بڑی جماعت نے عید کا چاند دیکھا لیکن حکومت نے کسی وجہ سے گواہی قبول نہ کی تو اب یہ بڑی جماعت خود عید نہیں کر سکتی. گواہی ایک فرد نے دی ہو یا بڑی جماعت نے عید تب کی جاےگا جب حکومت باقاعدہ اعلان کرے. (غایتہ الاطار554/1). اگر چہ جمہور فقہاء اور محدیثین کے مطابق انفرادی طور چاند دیکھنے والے شخص یا جماعت پر امر الہی ہونے کی بنیاد پر روزہ رکھنا واجب ہے. تاہم بعض علماء انفرادی طور چاند دیکھنے والے کے لیے عید کی طرح روزہ بھی واجب قرار نہیں دیتے اور کہتے ہیں کہ ہر شخص پر لازم ہے کہ حکمران کے فیصلے پر عمل کرے اور خود روزہ رکھنے سے باز رہے. چنانچہ احناف کے بڑے مفسر اور فقیہ ابو بکر الجصاص نےاختلاف کا ذکر کرنے کے بعد یہ دو روایات نقل کیے ہیں: (1)روح بن عبادہ نے ہشام سے اور اشعث نے حسن سے نقل کیاہے کہ جو شخص تنہا رمضان کا چاند دیکھے تو وہ امام المسلمین(حکمران) کے ساتھ روزہ رکھے گا تنہاء (اپنی شہادت یا دیکھنے کی بناء پر) روزہ نہیں رکھے گا (2)عبد اللہ بن مبارک نے ابن جریج کے واسطے عطاء بن رباح سے روایت کیا کہ جس شخص کو رمضان کا چاند باقی لوگوں سے ایک رات پہلے نظر اجاے تو وہ باقی لوگوں سے پہلے روزہ نہ رکھے. (احکام القران ,ترجمہ سورہ البقرہ ص 429)۔اس طرح اقوال قاضی خان, درمختار اور دیگر کتابوں نے بھی نقل کیا ہے.. ظاہر ہے کہ حکومت کے اعلان کے بغیر انفرادی طور چاند دیکھنے والے پر بعض علماء رمضان کے روزے کے قائل نہیں تو عید کرنےیا غیر سرکاری فرد یا کمیٹی کے اعلان پر عمل بدرجہ اولیٰ ممنوع ہوگا. یہ دینی مسئلہ ایک سماجی مسئلہ بھی ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں علاقائی اور لسانی عصبیت کو فروغ مل رہا ہے ۔ یہاں کے قوم پرست عناصر اس کے ذریعے احساس محرومی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ یہ تأثر عام کیا گیا ہے کہ اہل پختونخوا کی گواہی قبول نہیں کی جاتی حالانکہ اس دن تمام پاکستان سے گواہی اکٹھی کی جاتی ہے اور جو معیار پہ نہ ہو اسے رد کیا جا تا ہے ۔ لیکن اس صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے احساس محرومی پیدا کیا جا رہا ہے۔صورتحال یہ ہے کہ پختون قوم بلوچستان اور کراچی میں بھی آباد ہے لیکن وہاں یہ مسئلہ نہیں ہے اس معاملے میں وہ قومی دھارے کے ساتھ ہیں۔یہ صورتحال قومی یکجہتی اور اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کا سبب بن رہی ہے ۔اور قوم پرست عناصر اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں ۔
اس گھمبیر مسئلے کا مستقل حل تلاش کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔ اس کے لیے پہلی ذمہ داری تو حکومت کی ہے ۔ حکومت کو چاہیے کہ اپنی رٹ کو مستحکم کرنے کے لئے اداروں کو حرکت میں لائے اور کسی بھی شخص کو اجتماعی مذہبی معاملات سے کھیلنے کی اجازت ہرگز نہ دی جائے ۔ مرکزی رویت ہلال کمیٹی کو فیصلہ نافظ کرنے کا اختیار بھی دیا جائےکمیٹی سے اختلاف کر کے ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنانے والوں کو قانون کی گرفت میں لا کر سزا دی جائے ۔ اگر مرکزی رویت ہلال کمیٹی سے کوئی شکایت ہو تو حکومت کو مؤقف سن کر اس کا ازالہ کرنا چاہئے ۔اگر قبل از وقت اجلاس بلا کر ازالہ ہو سکے تو بھی کر لینا چائیے کیونکہ انسانی فعل میں غلطی کے امکانات ہوتے ہیں ۔اور ایسی غلطیاں اجتہادی غلطیاں ہوتی ہیں جو قابل معافی ہیں ۔اگر اس حوالے سے قانون سازی کی ضرورت ہو تو وہ بھی کی جا سکتی ہے ۔ حکومت کے بعد بار ذمہ داری علماء کے کاندھے پہ آتا ہے ۔ اتحاد امت سے زیادہ قیمتی کچھ بھی نہیں ۔ اتحاد امت کی خاطر صحابہؓ کرام اور سلف الصالحین نے اپنا حق خلافت تک چھوڑا ہے لیکن یہ اپنی ہٹ دھرمی چھوڑنے کو تیار نہیں ۔ علمائے کرام اس معاملے کو سنجیدہ لیتے ہوئے ہر اس شخص کو روکیں جو انتشار کا باعث بن رہا ہو ۔ اس ضمن میں اگر علماء اتفاق کریں اور حرمین شریفین کو مرکز مان لیں تو پوری دنیا میں ایک ہی دن عید اور روزہ ممکن ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب علماء اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر صدق دل سے اتحاد امت کے لئے کمربستہ ہو جائیں ۔اگر فرض نمازوں میں باجماعت نماز، حج ، عمرہ ،تراویح جیسی عبادات میں رخصت کے معاملے میں علماء کا اتفاق ہو سکتا ہے تو پھر امت کے اتحاد کے لیے رویت ہلال پہ بھی اتفاق کیا جا سکتا ہے ۔
ملک میں دہائیوں سے جاری اس مرض کا علاج ناگزیر ہے ۔ اس کے لئے پہلی ذمہ داری تو حکومت وقت کی ہے خواہ وہ مرکزی ہو یا صوبائی کہ اپنے عوام کو رمضان میں فرائض کی ادائیگی کا موقع فراہم کریں اور بغیر کسی اختلاف کہ تمام ملک میں ایک دن روزہ اور ایک ہی دن عید کا التزام کریں ۔ اور اس ضمن میں موجود شکایات کا ازالہ کریں ۔یہ وزارتوں پہ براجمان افراد خود کو اللہ کے سامنے جوابدہی کا پابند گردانیں تو معاملہ حل ہو سکتا ہے -دوسری جانب خود کو علماء کہلانے والے مولانا صاحبان ہیں جو دین کا علم رکھتے ہیں اور اتحاد بین المسلین کی اہمیت سے خوب واقف ہیں اگر ہوش کے ناخن لیں اور اپنی اناؤں کو اتحاد امت پہ قربان کر دیں تو ملت اسلامیہ پاکستان رمضان اور عید سے صحیح معنوں میں مستفید ہو سکتے ہیں ۔اگر اس طرف سے بھی معاملہ حل نہیں ہوتا تو پھر اس ملک کے ایوان عدل پہ مامور ججوں پہ یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس سنگین مسئلے پہ از خود نوٹس لیں اور اداروں کو اس کے حل کا پابند کریں ۔اس سنگین مسئلے کو حل نہ کیا گیا تو اس صوبے میں بسنے والے افراد کے صوم و صلاۃ کے ذمہ دار یہی حکمران، علماء ، سیاستدان ا، مذہبی جماعتیں ور جج صاحبان ہوں گے جو اختیار رکھنے کے باوجود اس مسئلے کو حل نہیں کرتے اور بارگاہ خداوندی میں عوام کی عبادات کا بار گراں ان سب کی گردنوں پہ ہو گا۔ اللہ تعالی ٰ ان سب کو اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہونے کی توفیق عطا فرمائے اور اہل پاکستان کو رمضان کے اصل پیغام اتحاد بین المسلمین کے ثمرات کے ساتھ عبادات و معاملات کا اجر عطا فرمائے آمین ۔
|