ڈاکٹر نوید امام کا پیغام

مرگی سمیت لاعلاج دماغی امراض کی تشخیص کے لئے ایک پاکستانی سائنسدان کی تیار کردہ چپ کی آئیندہ چند ماہ میں آزمائش کا اعلان کر دیا گیا ہے۔یہ خبر کورونا کے خوفزدگان اہل وطن کے لئے باعث مسرت ثابت ہو گی۔خاص طور پر اس لئے بھی کہ مسلمان ہمیشہ اپنے اسلاف کے عظیم کارناموں اور دنیائے طب کی خدمات پر ہی قناعت کرتے رہے ہیں۔ ہم نے غور وفکر، تحقیق و تجربہ کو یکسر نظر انداز کر دیاہے۔ ہماری نامی گرامی تعلیم گاہوں میں بھی پہلے تو نصاب کی بہتری کی طرف توجہ نہیں دی گئی اور پھر علم کے بجائے رٹہ سسٹم کو ترجیح دی جارہی ہے۔ بعض تعلیمی ادارے بچوں کو اگر ایک سوال کے حل کے لئے دو آپشنز دیتے ہیں تو دونوں کے بارے میں پہلے ہی اعلان کیا گیا ہوتا ہے۔ جس کے نتیجہ میں بچہ ایک ہی آپشن تیار کرتا ہے اور نمبر سکور کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ ایسے میں پاکستانی نژاد کنیڈین سائنسدان ڈاکٹر نوید امام سید کی دنیائے سائنس میں اپنی نوعیت کی پہلی ایجاد پر بار بار فخر کرنا نئی نسل کو تسخیر کائینات اور دیگر علوم کی طرف متوجہ کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ اب لاعلاج دماغی بیماری کے علاج کے لئے دماغ میں ایک چھوٹی سی مصنوعی سیلیکون چپ لگا کر زندگی بچا ئی جا سکتی ہے۔ اس کے لئے ڈاکٹر نوید امام سید اور ان کی ٹیم مبارکباد کی مستحق بھی ہے اور یہ نئی نسل کے لئے مشعل راہ ہے۔یہ چپ کینیڈا کی کیلگیری یونیورسٹی میں ڈاکٹر صاحب کی نگرانی میں محققین کی ایک ٹیم نے تیار کی۔
تمغہ امتیاز ڈاکٹرنوید امام پہلے نیورو سائنس دان ہیں جنھوں نے دماغ کے خلیوں کو سلیکن چپ سے جوڑا، جنھوں نے دنیا کا پہلا نیوروکوپ بنایا۔ڈاکٹر سید نے انسانی دماغ اور اس منی چپ کے تعارف کے لئے دنیا بھر کا سفر کیا ہے۔ ڈاکٹر نوید سید کمنگ اسکول آف میڈیسن، یونیورسٹی آف کیلگری میں پروفیسر ہیں۔ انہوں نے سی ایس ایم میں ڈیپارٹمنٹ ہیڈ اناٹومی اینڈ سیل بائیولوجی، ریسرچ ڈائریکٹر ایچ بی آئی کے طور پر خدمات انجام دیں۔ ڈاکٹر سید کی تحقیق دماغی نشوونما اور پلاسٹکٹی پر مبنی سیلولر اور سالماتی میکانزم پر مرکوز ہے۔ خاص طور پر، وہ اس بات کا مطالعہ کرتے ہیں کہ کس طرح دماغی خلیوں کے نیٹ ورک ترقی کے دوران جمع ہوتے ہیں اور زندگی میں اس میں ترمیم کرتے ہیں تاکہ سیکھنے اوریادداشت کی بنیاد بن سکے۔ وہ یہ بھی تفتیش کرتے ہیں کہ کس طرح مختلف اینستیکٹک ایجنٹ دماغی خلیوں کے مابین مواصلات کو متاثر کرتے ہیں اور سائٹوٹوکسائٹی کو راغب کرتے ہیں۔دو دہائیوں کے مشقت انگیز ڈیزائن، تجربات، نئے ڈیزائن اور مشاہدات کے بعد، ڈاکٹر نوید کا دو طرفہ دماغی چپس انسانی آزمائشوں کے لئے تیار ہے۔ پہلے، بایونک چپ مرگی کے مریضوں کا انتظام کرنے کے لئے استعمال کیا جائے گا -انھوں نے نیچر، سائنس، نیوران اور دیگر نامور عالمی جرائد میں 130 سے زیادہ انتہائی تحقیقی مقالے لکھے ہیں۔لا تعداد اعزازات حاصل کئے۔ نیورو سائنس کے میدان میں ان کی بے پناہ خدمات نے پاکستان ہی نہیں بلکہ سمندر پار پاکستانیوں کے سر فخر سے بلند کر دیئے۔ وہ دنیا کے پہلے سائنسدان ہیں جنھوں نے دماغی خلیے کی دوہری کارکردگی کو جانچنے والی جدید چپ کے ذریعے دماغ کا تعلق کمپیوٹر کے ساتھ جوڑا اور اسے انسان کا مستقبل بدلنے والی ایجاد قرار دیا ہے۔ یہ چپ دماغ کے خلیوں کی حرکات و سکنات کو سمجھنے میں مدد کرتی ہے اور دماغ اور کمپیوٹر کے درمیان رابطہ بناتی ہے۔ اس میں نئی قسم کا طریقہ کار استعمال ہوا ہے جس کا پہلے استعمال کبھی نہیں ہوا۔ اس جدید ترین ٹیکنالوجی کوچند ما ہ میں کینیڈا کی یونیورسٹی آف کیلگری میں انسانوں پر آزمایا جائے گا۔ یہ چپ مرگی کے دوروں کی وجہ سے دماغ میں پیدا ہونیوالی تبدیلیوں کا پتہ دے گی۔ یہ چپ انسانی دماغ کے خلیوں کو سن کر جواب بھی دے سکے گی۔

وہ پنجاب کے شہر اٹک میں پیدا ہوئے۔ کراچی سے بایؤمیڈیکل انجینئرنگ میں گریجویشن کی اور لیڈز یونیورسٹی سے نیورو سرجری میں پی ایچ ڈی کی۔وہ طویل عرصے سے کینیڈا میں رہائش پذیر ہیں اور اس وقت یونیورسٹی آف کیلگری کے ہاٹچکس برین انسٹیٹیوٹ کے چیف سائنسدان اوربطور پروفیسر درس و تدریس کے شعبہ سے وابستہ ہیں۔کیلگری یونیورسٹی کی لیبارٹری میں تیار کردہ چپ ایم آر آئی سے بھی مماثلت رکھتی ہے اور سرجن کو ایم آر آئی میں دوروں کی اصل جگہ کا تعین کرنے میں مددگار تصور ہو گی۔ اس طرح یہ چپ سرجیکل آلات اور تربیت کے معاملے میں بھی اہم کامیابی تصور کی جا رہی ہے۔اس ایجاد نے نہ صرف شعبہ طب بلکہ آرٹیفیشل انٹیلیجنس (مصنوعی ذہانت) اور روبوٹکس کی دنیا میں انقلاب برپا کردیا ہے۔دو دہائیوں کی تحقیق کے بعد ڈاکٹر نوید اور ان کی ٹیم کی محنت رنگ لائی ہے اور انھوں نے انسانی دماغ کو مشینوں کے ساتھ گفتگو کر نے ، مشینوں کو سمجھنے اور انھیں پیغام دینے کے قابل بنا دیا۔مختلف انٹرویوز میں ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ مسلسل دو دہائیوں کی تحقیق، ڈیزائننگ اور متعدد تجربات کے بعد اب یہ چپ انسانوں پر آزمائش کے لیے بالکل تیار ہے۔کسی بھی وقت اس چپ کو مرگی کے ایسے مریضوں پر آزمایا جائے گا جو آج تک موجود کسی بھی دوا سے ٹھیک نہیں ہو سکے۔اس چِپ کے ذریعے انسانی افعال کو کسی حد تک کنٹرول کرنا ممکن ہے اور اب تک کی تحقیق کے مطابق اس سے نشے کی لت، مرگی اور رعشہ جیسی اعصابی بیماریوں کا علاج ممکن ہے۔ڈاکٹرصاحب کے مطابق انھیں بچپن سے ہی تحقیق کا شوق تھا۔ جب وہ پنجاب کے قصبے سمندری میں رہائش پذیر تھے تو انھوں نے انتہائی چھوٹی عمر میں ایک برقی کھلونا کھول کر دوبارہ جوڑا اور اپنی والدہ کو حیران کر دیا۔

ڈاکٹر نوید سید کے بچپن کے تجربے نے بلا شبہ ان کی زندگی کو بدل ڈالا اور دماغ اور خون کے مابین تعلق کے جذبے کو بھڑکا دیا۔ ان کے پاس زمانہ طالب علمی کے دوران ہی گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ تھا جس میں وہ دماغ کے بارہ خلیوں کو ریکارڈ کیا کرتے تھے مگر بارہ خلیوں سے دماغ کے فنکشن کو سمجھنا ممکن نہیں۔’’اس کے بعد میں نے کوشش کی کہ ایک ایسی چپ تیار کی جائے جس سے ہزاروں کی تعداد میں دماغی خلیوں کی کارکردگی ریکارڈ کر لی جائے۔ جب ان کی کارکردگی کو ریکارڈ کر لیں گے تو ان کی آپس میں فنکشننگ کو ہم سمجھ سکتے ہیں۔ جب فنکشننگ کو سمجھ سکتے ہیں تو پھر اسی طریقے سے ڈسفنکشننگ کا بھی علاج ڈھونڈا جاسکتا ہے‘‘۔’’دماغ میں اربوں خلیے ہیں۔ جب یہ ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر کام کرتے ہیں تو ان کے تال میل کی وجہ سے سیکھنے، یادداشت جیسے عوامل وقوع پذیرہوتے ہیں۔ اگر آپ نے دماغ کے فنکشن کو سمجھنا ہے تو اس کیلیے ضروری ہے کہ آپ ایسی ٹیکنالوجی تیار کریں جو ان دماغی خلیوں کے نیٹ ورک کو ریکارڈ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ جو آج تک نہیں ہو سکا تھا۔‘‘ دماغ کے فنکشن سمجھنے کیلے ایسے آلات اور ٹیکنالوجی کی ضرورت تھی جو دماغ کے بڑے نیٹ ورکس کو ریکارڈ کر سکے اور یہ چپ اس کا پہلا عمل ہے۔ اگر دماغ کا کوئی حصہ مرگی، ٹراما، چوٹ یا رعشہ کی وجہ سے متاثر ہوجاتا ہے تو اس کا کوئی علاج نہیں ہے۔ ان حالات میں اگر آپ ایسی چپ کو دماغ میں لگا دیں تو آپ دماغ کے اس متاثرہ فنکشن کو دوبارہ بحال کر سکتے ہیں۔

سمند پار تارکین وطن یہاں خدمت خلق اور سرمایہ کاری میں انتہائی دلچسپی لیتے ہیں۔ اگر حکومت رکاوٹیں پیدا کرنے کے بجائے معاونت اور آسانیاں پیدا کرے تو یہ کام مزید تیزی سے کیا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر نوید سید کئی دوسرے پاکستانی نژاد سائنسدانوں سے مل کر اسلام آباد میں ایک جدید سائنس اینڈ ٹیکنالوجی یونیورسٹی اور نالج مال قائم رہے ہیں، جس کا سنگ بنیاد رکھا جا چکا ہے۔ان کا کہنا ہے’’تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں نے علم کا ایک نایاب ذخیرہ چھوڑا ہے۔ انھوں نے امراض کے علاج کے لیے حیرت انگیز ادویات کا استعمال کیا۔ ہم دماغی چِپ کے نئے زمانے میں داخل ہو رہے ہیں۔ علم میں سرمایہ کاری ہمیشہ منافع دیتی ہے۔ اپنے خوابوں کو پورا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان غفلت کی نیند سے جاگے۔‘‘ڈاکٹر صاحب کو سلام عقیدت پیش خدمت ہے۔
 

Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 555873 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More