سال 2002 میں ہی امریکا نے افغانستان میں سی آئی اے کے
اہل کاروں کو منتقل کیا تھا جنہیں پورے افغانستان میں پھیلا دیا گیا۔امریکی
خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے اہل کار خفیہ طور پر مختلف روپ میں افغانستان کے
تمام صوبوں ،ضلعوں اور شہروں میں پھیلادیئے تھے۔بعدازاں یہ اطلاعات بھی
آئیں کہ واشنگٹن نے افغانستان میں سی آئی اے کے اہل کاروں میں مزید اضافہ
کیا جب کہ بلیک واٹر کے اہل کار اس کے علاوہ تھے جس کا ٹھیکہ خود ڈونلڈ
ٹرمپ نے دیا تھا۔طالبان کی کوشش ہے کہ امریکی فورسز کے انخلا کے ساتھ ہی سی
آئی اے کے اہل کار اور ان کے کارندے جنہیں خوست پروٹیکشن فورس کا نام دیا
گیا ہے انہیں بھی نکالا جائے ۔اس لیے طالبان کا یہ مطالبہ ہے کہ سی آئی اے
بھی امریکی فورسز کے ساتھ ہی افغانستان سے انخلا کرے۔کیوں کہ یہی خفیہ اہل
کار خفیہ کارروائیوں کے ذریعہ امن معاہدہ کو سبوتاژ کرسکتے ہیں۔
اطلاعات ہیں کہ اب سی آئی اے کے اہل کاروں کو افغان خفیہ ایجنسی این ڈی ایس
کے نگرانی میں کابل میں موجودہ سفارت خانے میں منتقل کیا جا رہا ہے ۔دوسری
طرف امریکہ کے کچھ خفیہ ذرائع یہ دعوی کررہے ہیں کہ حقانی نیٹ ورک کے افراد
کو پاکستان منتقل کیا جا رہا ہے اس لیے سرحد کے قریب سی آئی اے کے افراد کا
موجود ہونا ضروری ہے۔امریکی خفیہ ذرائع کا یہ جھوٹا دعوی صرف اور صرف سی
آئی اے کے قیام کو طول دینے کا ایک ذریعہ ہے۔
اس الزام کو کہ حقانی نیٹ ورک کے افراد کو پاکستان منتقل کیا جا رہا ہے سچ
ثابت کرنے کے لیے اس وقت پشتون تحفظ موومنٹ( پی ٹی ایم) استعمال ہورہی ہے۔
پی ٹی ایم کے کارندے یہ پروپیگنڈہ کررہے ہیں کہ پشاور،کوئٹہ اور وزیرستان
میں حقانی نیٹ ورک کے افراد موجود ہیں اور ان کی تعداد مزید بڑھائی جا رہی
ہیں،پی ٹی ایم کے اس زہریلے پروپیگنڈہ کی وجہ سے وزیرستان کے عوام میں خوف
وہراس پایاجاتاہے ،خاص کرکے جنوبی وزستان کے لوگ اپنے علاقوں میں مکانا ت
بنانے سے گریزکررہے ہیں اسی پروپیگنڈہ کانتیجہ ہے کہ 7 لاکھ لوگوں کی آبادی
کا علاقہ خالی پڑا ہے حالانکہ حکومت کی طرف سے 37ہزار خاندانوں کو فی
خاندان چار لاکھ کے حساب سے 14 ارب 80 کروڑ روپے دیے جا چکے ہیں مگر بہت کم
لوگوں نے معاوضے کی رقم دوبارہ تعمیر پر خرچ کی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ یہ زہریلاپروپیگنڈہ ان پاکستانیوں کے لیے بھی مشکلات کاسبب
بن رہاجوکوروناوائرس کے بعدسرحدکی بندش سے افغانستان میں پھنسے ہوئے ہیں
پاکستانی ڈرائیوراورسینکڑوں افراد اس وقت واپسی کے منتظرہیں ،گزشتہ روزہی
پاکستان کی جانب سے افغانستان کے صوبہ اسپین بولدک میں پھنسے پاکستانیوں کے
لیے بارڈر کھول دیا جس سے تیس سے زائد پاکستانی ڈرائیور باب دوستی کے راستے
داخل ہونے کے بعد قرنطینہ مرکز میں منتقل ہوگئے ہیں سیکیورٹی ذرائع کا کہنا
ہے کہ ہفتے میں دو دن چمن بارڈر باب دوستی پاکستانیوں کی آمد کے لیے کھلا
رہے گا۔اس پروپیگنڈے کے ذریعے پی ٹی ایم افغان امن معاہدے کوسبوتاژکرنے کی
سازش کررہی ہے حالانکہ افغان امن معاہدہ کئی لاکھ افرادکی قربانیوں کے بعد
ہواہے جس کے دورس اثرات نکلیں گے مگرپشتون دشمن پی ٹی ایم کویہ ہضم نہیں
ہورہا۔
چند دن قبل پی ٹی ایم کے ایک بڑے پیج پی ٹی ایم نیوز نے ایک جھوٹی خبر
چلائی کہ کوئٹہ میں افغان طالبان کے شوری پر حملہ ہوا ہے آج تک اس خبر کو
پی ٹی ایم سچ ثابت نہ کرسکی منظورپشتین کے پیروکار اس طرح کی منفی خبریں
پھیلاکراپنامذموم ایجنڈہ حاصل کرناچاہتے ہیں ،یہ واضح ہوگیاہے کہ پی ٹی ایم
کسی نا کسی طور پر سی آئی اے کے اس منصوبہ کا حصہ بن رہی ہے جو یہ ثابت
کرنا چاہتے ہیں کہ حقانی نیٹ ورک کے اہل کاروں کو پاکستان منتقل کیا جا رہا
ہے جو کہ نہایت خطرناک ہے۔اس سے قبل بھی پی ٹی ایم پریہ الزامات ہیں کہ وہ
این ڈی ایس کے ذریعے راسے پیسے لے کرپاکستان مخالف اقدامات کرچکی ہے اب سی
آئی اے کے لیے ان کی طر ف سے بازوپھیلانانہایت خطرناک گیم کاحصہ ہے ریاستی
اداروں کواس کابروقت تدارک کرناہوگا ۔
پاکستان مخالف سازشوں میں را ہو یاسی آئی این ڈی ایس ہویاموساد کوئی بھی
موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتیں دنیااس وقت کروناسے لڑرہی ہے جبکہ رااورسی
آئی اے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے پاکستان سے لڑنے میں مصروف ہے کراچی میں
سکیورٹی اداروں نے مبینہ طور پر بھارتی خفیہ ایجنسی را کے لیے کام کرنے
والے کراچی پولیس کے ایک اے ایس آئی شہزادپرویز کو گلستان جوہر میں
کارروائی کرتے ہوئے گرفتار کیاہے جو شاہراہ فیصل تھانے میں تعینات
تھا۔شہزاد گلستانِ جوہر کے رہائشی ہیں اور پولیس نے ان کے قبضے سے دو دستی
بم برآمد ہونے کا دعوی بھی کیا ہے۔ شہزاد پرویز دہشت گردی کی کارروائیوں
میں ملوث ہے۔ ملزم کو بھارت میں موجود محمود صدیقی گروپ بھاری رقم فراہم
کرتا تھا اوروہ ٹارگٹ کلرز کی ٹیم کے اہم رکن بھی ہے۔ گرفتار ملزم ایم
کیوایم لندن سے وابستہ ہے ملزم سے مزید تحقیقات جاری ہیں۔
اس سے قبل19 مارچ کو کراچی کے علاقے گلستانِ جوہر سے ایک اور بڑی کارروائی
میں مبینہ طو ر پربھارتی خفیہ ایجنسی را کے لیے کام کرنے والے ایک گروہ کو
پکڑا گیا تھا۔اس حوالے سے ایڈیشنل آئی جی غلام نبی میمن نے پریس کانفرنس کے
دوران بتایا تھا کہ پولیس نے انٹیلی جنس ایجنسی کی مدد سے 'را کے دہشت گرد
ونگ کے سربراہ شاہد عرف متحدہ کو دو ساتھیوں سمیت گرفتار کر کے اسلحہ اور
بارود برآمد کیاتھا ؒپولیس کا کہناہے کہ' مذکورہ دہشت گرد وں کا تعلق بھی
ایم کیو ایم۔ لندن سے تھا اور وہ یہاں کی انٹیلی جنس معلومات بھارت میں
محمود صدیقی کو دیتے تھے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ را کے کراچی چیپٹر کے دہشت
گرد ونگ کی کافی عرصے سے نگرانی جاری تھی، یہ گروپ دہشت گردی کے لیے اسلحہ
بھی فراہم کرتا تھا۔
گرفتار ملزم شہزاد پرویز کی طرح یہ ملزمان بھی سرکاری ملازم تھے۔ ایک واٹر
اینڈ سیوریج بورڈ میں گریڈ 17 کا ملازم تھا، دوسرا ملزم کے ایم سی جبکہ
تیسرا کراچی یونیورسٹی میں ملازم تھا۔ایڈیشنل آئی جی غلام نبی میمن نے مزید
کہا تھا کہ ملزم کوحوالہ ہنڈی کے ذریعے رقم بھارت سے ملتی تھی۔ ان کرپٹڈ ای
میل کے ذریعے ملزم کو رقم کس کو پہنچانی ہے بتایا جاتا تھا۔ان کا مزید کہنا
تھا کہ ان ملزمان کے سلیپر سیلزکی صورت میں دیگر ساتھی بھی ہیں جو پڑھے
لکھے اور را سے تربیت یافتہ ہیں ۔
قومیں تب ہی ترقی کرتی ہیں جب دوست دشمن کی پہچان کرلیں۔ اس لیے جب بیرونی
سازشوں سے سرحدیں محفوظ کرلی جائیں تو پھرسکیورٹی اداروں کووطن کے خلاف
سازشیں تیار کرنے والوں کے سبھی حامیوں سے بھی ضرور نمٹنا چاہئے۔ملک دشمن
اور ریاست مخالف سوشل میڈیا عناصرکے ساتھ ساتھ بھارت اور امریکہ جیسے ممالک
کی جاری سازشوں کوطشت ازبام کرناہوگا تاکہ پاکستان کی جغرافیائی اور
نظریاتی سرحدوں کے خلاف کسی کوکام کرنے کی جرات نہ ہوسکے، کیونکہ پاکستان
کا نظریاتی اور جغرافیائی وجود ہر لحاظ سے مقدم ہے اور پاکستان کی زمینی و
نظریاتی وحدت کو دشمن کے ہتھکنڈوں سے بچانا ہمارا اولین فرض ہے اور ہم اس
مقصد کیلئے اپنا تن من دھن قربان کر دیں گے۔
|