سانحہ ایبٹ آباد پر چوہدری نثار اور شاہ محمود کا مطالبہ درست ہے

صدر زردای کا چپ کا روزہ ،امریکا کے بے پَر کے بڑھتے مطالبات اور پاک امریکا تعلقات
سانحہ ایبٹ آباد پر غیرت کا تقاضہ، صدر، وزیراعظم اور دوسرے مستعفی ہوجائیں.....

دو مئی کو ایبٹ آباد میں امریکی فورسز کے ہاتھوں پاکستان کی خود مختاری اور سالمیت کے حوالے سے اٹھنے والے سوالات اور اِس پر حکومت کی جانب سے کسی قسم کا کوئی تسلی بخش جواب نہ ملنے اور امریکی آپریشن کے بعد حکومت اور بالخصوص صدر اور وزیراعظم پر ہونے والی شدید تنقیدوں کے بعد اَب یہ درست معلوم دیتا ہے کہ صدر اور وزیراعظم امریکی آپریشن کے حوالے سے اپنی اپنی پوزیشنیں عوام کے سامنے واضح کریں یا وہ ایسا نہیں کرسکتے ہیں تو پھر خاموشی سے مستعفی ہوجائیں جسکا مطالبہ گزشتہ دنوں ملک کے ساڑھے سترہ کروڑ عوام کی نمائندگی کرتے ہوئے سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور چوہدری نثار علی خان نے سانحہ ایبٹ آباد کے بعد پاکستان کی ساری دنیا میں ہونے والی جگ ہنسائی پر جس انداز سے اپنے شدید ردِعمل کا اظہار کرتے ہوئے صدر اور وزیراعظم سے اِن کے عہدوں سے فوری طور پر استعفیٰ دینے اور مستعفی ہونے کا جو مطالبہ کیا ہے وہ ہر لحاظ سے درست ہے اور اِس موقع پر غریت ملی کا اولین تقاضہ بھی یہی ہے کہ صدر اور وزیراعظم کو ایک لمحہ بھی ضائع کئے بغیر اپنے عہدے چھوڑ دینے چاہئیں تاکہ قوم کو یہ معلوم ہوسکے کہ اِن سے غلطیاں ہوئی ہیں اور اِنہوں نے اپنی اِس غلطی کی پاداش میں اپنی کرسی بچانے کی پرواہ کئے بغیر ملک بچانے کے خاطر اپنی کرسی ملک پر قربان کردی ہے اِس طرح یہ ملکی تاریخ میں امر بھی ہوجائیں گے اور اِن کے نام سُنہرے حروفوں میں درج کردیئے جائیں گے اور اِسی طرح یہ اپنی عوام اور عالمی میڈیا کی جانب سے بھی خود پر کئے جانے والی مزید تنقیدوں سے بچ جائیں گے ۔

اور اِس کے ساتھ ہی مجھے یہ کہنے دیجئے کہ اِس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے صدر زرداری نے دو مئی سانحہ ایبٹ آباد کے بعد سے ملکی اور عالمی میڈیا کے سامنے اِس حوالے سے اظہار نہ خیال کرنے کا جو چپ کا روزہ رکھا ہوا ہے یہ اُن کی اُس پریشانی کا یقیناً عکاس ہے جس یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ یہ اِس میں کس قدر مبتلا ہیں اور ہمارے صدر اِس واقعہ کے بعد سے کتنے پریشان ہیں کہ اِن کے پاس کوئی الفاظ نہیں ہے کہ یہ اپنی قوم اور دنیا کو جھوٹے منہ ہی یہ بتاسکیں کہ اِس سارے معاملے میں اِن کا اور اِن کی حکومت کا کیا کردار رہا ....؟بالفرض اِس حوالے سے اگر صدر نے اپنی لب کشائی کی اور اگر یہ اپنی پوزیشن واضح کرنے میں کچھ کم بولتے ہیں اور عوام کو مطمئن کرنے اور اعتماد میں لینے میں ناکام ہوتے ہیں تو بھی یہ اِن کے حق میں کچھ بہتر نہ ہوگا ....اور اِس پر بھی عوام اور دنیا طرح طرح کے سوالات گڑ لیں گے اور اگر کہیں زیادہ بول گئے تو بھی ممکن ہے کہ امریکا ہی اِن سے سخت ناراض ہوجائے سب کچھ کیاد ھرا ہم نے اور اپنا نمبر بڑھا رہے ہیں مسٹر زرداری ..... تو اِس حوالے سے جہاں تک میں سمجھ پایا ہوں وہ یہ کہ صدر نے اپنی دانش کی روشنی میں یہ ہی ایک انتہائی فہم و فراست سے بھر پور فیصلہ کیا ہے کہ جب تک یہ معاملہ پوری طرح سے دنیا کی نظروں سے رفع دفع اور میڈیا سے آؤٹ نہیں ہوجاتا بہتر یہی ہے کہ چُپ کا ہی روزہ رکھ لیا جائے تو جان کی پناہ ہے ورنہ بول پڑے تو عوام اور امریکا دونوں ہی طرف سے خیر نہیں.... مگر اِس کے باوجود بھی یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر صدر کب تک اپنا چپ کا یہ روزہ رکھے رہیں گے ....؟آخر کبھی نہ کبھی تو زبان اِنہیں کھولنی ہی پڑے گی ...؟تو کیوں نہ یہ اپنی جلد ہی زبان کھول کر اپنی بات واضح کردیں پھر اِس کے بعد استعفیٰ دے کر یہ اپنے دوسرے معاملاٹ نمٹاتے رہیں .....بہرحال !یہ اَب صدر کی مرضی ہے وہ ایسا کب کریں ...مگر یہاں یہ بات اِنہیں بھی معلوم ہونی چاہئے جو اَب ایک اٹل حقیقت کے روپ میں قوم کے سامنے آچکی ہے وہ یہ کہ چاہے صدر چپ کا روزہ توڑیں یا ناں توڑیں مگر پھر بھی قوم یہی سمجھتی ہے کہ اگر دو مئی کو امریکی فورسز کے آپریشن میں شہید ہونے والے اُسامہ بن لادن ہی ہیں تو اِس سارے منظر اور پس منظر میں صدر زرداری اور اِن کی حکومت بھی برابر کی ذمہ دار ہے آج امریکا جس اُسامہ کی شہادت کے چرچے اپنا سینہ پھلا کر اور گردن آسمان تان کر جس انداز سے ساری دنیا میں کرتے ہوئے یہ کہتا پھر رہا ہے کہ اِس کے سب سے زیادہ مطلوب دہشت گرد شخص اُسامہ بن لادن کو پاکستان نے اپنے یہاں پناہ دے رکھی تھی اور ہم سے ہی پاکستان سانحہ نائن الیون کے دہشت گردوں کو مارنے کے لئے وقتا فوقتا مختلف حیلے بہانوں سے امداد بھی طلب کرتا رہا ہے مگر اِس کے باوجود بھی اِس نے ایک جانب ہم سے اپنی دوغلی پالیسی روا رکھے رہا یعنی کہ پاکستان ہم سے ڈالرز بھی مانگتا رہا اور دوسری طرف اِس نے اپنے دامن میں دہشت گردوں کو بھی چھپائے رکھا مگر جب امریکا کو پاکستان کے اِس ڈبل گیم کا پتہ لگا تو اِس نے اپنی تئیں اپنے مطلوب دہشت گردوں کی تلاش پاکستان میں شروع کردی اور یوں بالآخر اِس نے اپنی سی آئی اے کی مدد سے کئی سالوں کی جدوجہد کے بعد القاعدہ کے سربراہ اُسامہ بن لادن دومئی کو پاکستان کے ایک علاقے ایبٹ آباد سے ڈھونڈ نکالا اور اِن کو شہید کر کے اپنے سانحہ نائن الیون میں مرنے والوں کے ساتھ انصاف کرنے میں کامیاب ہوگیا یوں اُسامہ بن لادن کی شہادت سے اِس نے اپنی فتح کے جھنڈے ساری دنیا پر گاڑ نے کا جو بیڑاا ُٹھا رکھا ہے یہ اِس کی جزو وقتی فتح ہوسکتی ہے۔

بہرکیف اِدھر دو مئی کو رونما ہونے والے سانحہ ایبٹ آباد کے بعد سے پاکستان میں امریکی دادگیری کے بڑھتے قدم کہیں رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے ہیں اور امریکا نے حکومت پاکستان کو اپنے شدید دباؤ میں لانے کے خاطر طرح طرح کے کچھ ایسے مقصد اور بے پَر کے مطالبات شروع کردیئے ہیں جن کا حقیقت سے دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں ہے جیسے مثال کے طور پر ایک خبر کے مطابق ایک امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے اپنا دعویٰ کیا ہے کہ امریکی انتظامیہ نے پاکستان سے روس جنگ میں عسکریت پسندوں اور اُسامہ سے قریبی تعلقات کے کے شبہ میں پاکستان سے آئی ایس آئی کے بعض افسروں کی تفصیلات طلب کی ہیں تاہم پاکستان نے یہ تفصیلات فراہم کرنے سے انکار کردیا ہے یہاں میرا خیال یہ ہے کہ اِس قسم کے امریکی مطالبات سے یقینی طور پر پاک امریکا تعلقات میں شک وشبہات پید ا ہوں گے کیوں کہ یقیناً یہ ایسے مطالبات ہیں جنہیں پورا کرنا سیاسی اور ملک کے جغرافیائی سمیت کسی بھی طرح پاکستان کے بس میں نہیں ہوگا جبکہ امریکا یہ چاہئے گا کہ اِن مطالبات کی ناکامی پر پاکستان ہمارے دباؤ اور پریشر میں رہے اور امریکا پاکستان سے وہ کچھ کرتا رہے اور خود بھی پاکستان گھُس کر اِس کی سا لمیت اور خود مختاری کا ستیاناس کر کے وہ سب کچھ کرتا رہے جو یہ کرنا چاہتا ہے۔

اگرچہ بڑی حد تک مگر کافی دنوں کے بعد یہ نات حوصلہ افزا ضرور سامنے آئی ہے کہ ہماری سیاسی اور عسکری قیادت نے سانحہ ایبٹ آباد کے بعد اپنے شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے واضح اور دوٹوک الفاظ میں امریکا سمیت اور دوسرے جارحیت پسند اُن ممالک کو جو پاکستان میں امریکی طرز کی کاروائی کا منصوبہ بنا رہے ہیں خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کی سالمیت اور خودمختاری کا ہر قیمت پر دفاع کیا جائے گا اور امریکا سمیت کسی کو بھی پاکستان کو بائی پاس کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دی جائے گی اور ہماری قیادت اِس پر بھی متفق ہوئی کہ امریکی انتظامیہ اور امریکی سمیت عالمی میڈیا پاکستان کے خلاف بے بنیاد اور منفی پروپیگنڈوں اور الزام تراشیوں کی مذموم مہم بند کردیں جس سے پاکستان کی ساکھ دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ کے حوالے سے متاثر ہورہی ہے۔

جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اِن تمام حالات اور واقعات کے بعد جہاں پاکستان آج بھی امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے تو وہیں امریکا کو بھی پاکستان کے اِس کردار پر شک کرنے کا حق نہیں پہنچتا کہ وہ دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی اِس کی جنگ میں سب سے زیادہ ہر قسم کے نقصانات برداشت کرنے والے ملک پاکستا ن کی دنیا بھر میں رسوائی کرتا پھرے....اور اگر اِس کے بعد بھی امریکا نے اپنی روش نہ بدلی تو اِسے بھی یہ واضح کرنا ہوگا کہ وہ پاکستان سے متعلق اپنے کیا ....؟اور کس قسم کے مذموم عزائم رکھتا ہے تاکہ دنیا امریکیوں کی اُس سازش کو بھی جان سکے جو امریکا پاکستان کا دوست بن کر اِس کی تباہی اور بربادی کا سامان پہلے سے کئے بیٹھا ہے۔
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 893803 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.