ایبٹ آباد آپریشن قومی غیرت کا
قتل ہے ۔ چوہدری نثار
وزیراعظم مستعفی ہوں ۔ شاہ محمود قریشی
یہ غیرت کدھر ہوتی ہے پاکستانی اس کو کہاں رکھتے ہیں آج تک معلوم نہ ہو سکا
، اس غیرت کی مثال تو ایمل کانسی کے امریکیوں کے حوالے کرتے وقت دیکھنے میں
آئی تھی جس کا علم اس وقت کے صدر اور وزیراعظم کو بھی نہ تھا پھر عوام نے د
یکھا کہ ہماری سرزمین سے ستر امریکی کروز میزائل گزرتے ہوئے کابل پر گرائے
گئے اس وقت ہمارے ادارے بالکل لاعلمی کا اظہار کرتے رہے اس وقت بھی ہماری
غیرت کہاں تھی آج کے اپوزیشن لیڈر کی پارٹی حکومت میں تھے جو آج بڑی بڑی
غیرت کی باتیں کر رہے ہیں بالکل خاموش تھے بلکہ بالکل لاعلم تھے۔ کارگل
مسئلے پر ان حکمرانوں کی غیرت کہاں تھی جب ایک مطلق العنان حکمران امریکی
صدر کلنٹن کے آگے اپنی غیرت کا سودا کر رہے تھے۔ اور اپنی لاعلمی کا برملا
اظہار کر رہے تھے۔
اس وقت ہماری غیرت کہاں تھی جب ہم راتوں رات سیا ست سے دس سال تک کنارہ کش
ہونے کا معاہدہ کر کے باہر نکل گئے تھے ۔ آج وہی لوگ اپوزیشن میں بیٹھے
غیرت کی بات کرتے ہیں ہاں غیرت تو وہاں نظر آتی ہے جہاں کسی معصوم عورت کو
قتل کر کے اس کا اظہار کرتے ہیں ۔
ہماری غیرت اس وقت کہاں تھی جب اس پارٹی کے وزراء نے ۹۸ء میں ایٹمی دھماکے
کر کے ڈاکٹر خان کی تضحیک کا بیڑا اٹھا کر ان کی بے عزتی شروع کر دی تھی ۔
جو آگے چل کر کہاں تک گئی قوم جانتی ہے یہ غیرت کہاں چلی جاتی ہے جب یہی
حکمران موٹر وے اور آگسٹا آبدوزوں میں کمیشن لے کر دولت بیرونی ممالک میں
لے جاتے ہیں اور قوم سے غداری کے مرتکب ہوتے ہیں ۔ یہ غیرت کہاں چلی جاتی
ہے جب یہی حکمران اپنے لوگوں کو صرف پیسے کی بنیاد پر امریکیوں کے حوالے کر
دیتے ہیں اور امریکی بھی کہتے ہیں کہ یہ پیسوں کے عوض اپنی ماں کو بھی بیچ
سکتے ہیں۔
آج صورت حال اسی تناظر میں دیکھیں تو وہی ہے جہاں تک ایبٹ آباد کے آپریشن
کا تعلق ہے اور اس میں ہمارے اداروں کا کردار مشکوک بالکل اسی طرح ہے جیسے
امریکیوں کا ہے اس آپریشن میں ہماری ایجنسیوں کی رضا شامل حال رہی اور یہ
ڈرامہ پلاٹ کیا گیا اور ویسے بھی اگر انہیں معلوم نہ ہو سکا تو کوئی اچھنبے
کی بات نہیں ہے چونکہ امریکیوں کو کھلا رستہ فراہم کرنے کا معاہدہ کر رکھا
ہے اس لئے اطمناین سے سوتے ہیں کہ امریکہ ہماری تنصیبات کی حفاظت بھی کرے
گا۔ ان کے خیال میں دراصل شہروں میں کافی سکیورٹی کی ضرورت ہوتی ہے اس لئے
بارڈر کا کام امریکیوں کے حوالے کر کے رینجرز اور ایف سی کو ملک کی اندرونی
سالمیت کا کام سونپ دیا گیا ہے۔ جیسے بلوچستان اور کراچی جہاں ملک شدید
خطرات کا شکار ہے ان کو واپس بھیجنے کی آوازیں اٹھتی ہیں تو اچانک ہنگانے
شروع ہو جاتے ہیں اور انکی تعیناتی کو لازمی قرار دے کر مزید برقرار رکھنے
کے اقدامات اور معاہدے کی توثیق کر دی جاتی ہے۔ لیکن بلوچستان اور کراچی
میں لوگوں کے مرنے کا تناسب کم نہیں ہوتا بلکہ دس سے بارہ افراد کا قتل یا
غائب ہونا روز مرہ کے معمولات میں شامل ہے۔
ایبٹ آباد میں لادن ڈرامے کے ڈراپ سین کے دوران ہمارے میڈیا کے سینئر کارکن
شامی صاحب کا یہ کہنا کہ حکومت پاکستان کو اس آپریشن پر کھل کر حقائق لوگوں
تک پہنچانے چائییں ہمارے اداروں ہی کی مرضی سے اس کاروائی کو کیا گیا ہو گا
لیکن اگر ہمارے ادارے اس کاروائی سے لاعلم رہے تو پھر پاکستانی ایٹمی
تنصیبات کا اللہ ہی حافظ ہے۔ اتنے خفیہ اور بڑے واقعے پر ہمارے حکومتی
ارباب اختیار بالکل چپ سادھ کر بیٹھے رہے ۔ بیانات امریکہ سے آ رہے تھے اور
ہمارے ہاں حکمرانوں نے زبانیں بند رکھی ہوئی تھیں انڈیا نے پاکستان پر کیچڑ
اچھالنا شروع کر دی لیکن ہماری حکومت کی طرف سے کوئی امید افزا بیان سامنے
نہیں آیا۔ قوم کے ذہنوں میں شکوک و شبہات اٹھ رہے ہیں کہ کیا ہمارے ادارے
اس ملک کا دفاع کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں یا ایسے افراد جو ہمارے ملکی دفاع
سے غافل رہے اپنے منصب سے ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے فوری علیحدہ ہو جائیں
چونکہ انکی موجودگی بھی ہماری ملکی بقا کے لئے خطرناک ہے اور یہ بیان کہ ہم
کوئی خدا نہیں کہ ہر چیز کے بارے میں جان سکیں نہایت غیر ذمہ دار بیان ہے
اسے کہتے ہیں چوری اور سینہ زوری ایسے افراد ملک کی سالمیت کے لئے زہر ہیں
ان کو فوری فارغ کر کے گھر کی راہ دکھائی جائے۔ کسی نئے سانحے کے جنم لینے
سے پہلے بہت بڑی اور تیز تبدیلیاں ناگزیر ہیں قوم کو اس بارے میں آواز
اٹھانی ہو گی۔ امریکیوں کو اس سرزمین سے فوری بے دخلی کے احکامات دیے جائیں
کہ وہ اپنے تمام آپریشن بند کر کے اس خطے سے نکل جائے۔ بقول اس کے اس نے
لادن کو مار کر دنیا کو محفوظ کر دیا اور وہ اب ہمیں محفوظ ہونے دے اور اس
خطے سے نکل جائے۔
جہاں تک وزیراعظم صاحب کے مستعفی ہونے کا تعلق ہے یہ مطالبہ غلط نہیں
کیونکہ اس شخص کی ذہنی صلاحیت بھی مشکوک ہے کہ وہ اہم مسئلہ پر غیر ذمہ دار
بیان بلا کوئی غور کیے جاری کر جاتے ہیں جیسے کہ ممبئی اٹیک پر آئی ایس آئی
کے چیف کو انڈیا جا کر پاکستان کی پوزیشن ظاہر کرنے کے احکامات جاری کر دئے
جبکہ انڈیا نے آئی ایس آئی پر برا ہ راست اس حملے میں ملوث ہونے کا الزام
عائد کیا تھا۔
صدر صاحب کے بارے میں تو بات کرنا سورج کو چراغ دکھانا ہے اس پر بات کرنا
تو فضول اسلئے ہے کہ عدلیہ سالوں سال انکا ٹرائل کر کے ان سے کچھ حاصل کرنے
میں ناکام رہیں تو عام آدمی کہاں تک جا سکتا ہے۔ اور وہ آج تو صدارت پر
فائز ہیں کس کی اتنی ہمت ہے کہ ان کے بارے میں بات کر سکے۔ ان کا بیان تو
اتنا اہم تھا کہ کوئی ایسی ڈیوائس نہیں کہ ڈرون کو تلاش کر کے اسے گرا سکے
اور ائیر چیف کا بیان کے حکومت ہمت کرے ہم کسی ڈرون کو گرانے کی صلاحیت
رکھتے ہیں اور اسے بھی جانے نہیں دیں گے ان کی معلومات کا احاطہ کرنے کے
لئے کافی ہے۔
چوہدری نثار کا بیان ایبٹ آباد آپریشن قومی غیرت کا قتل ہے غلط نہیں ہے
لیکن اپوزیشن میں رہ کر بیانات اچھے دے رہے ہیں ۔ آپ تو اسمبلی میں بیٹھے
غیرت کے قتل عام کا سوگ نہ منائیں اسمبلی میں ان کے خلاف اقرار داد لائیں
تاکہ ان کو مزید غیرت کا قتل عام کرنے کا موقع نہ مل سکے ۔ قومی غیرت کے
قتل عام پر سوگ منانے اور بیانات سے بڑھ کر عملی اقدامات کی ہمت پیدا کریں
قوم شاید آپ کا ساتھ دے ہی دے جسے ایبٹ آباد ہی میں جماعت اسلامی نے احتجاج
کر کے سیاسی فائدہ اٹھانے کے موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا ان کا خیال تھا کہ
قوم ان کا ساتھ سے گی اتنے اہم واقعے کے بعد چند سو افراد بھی جمع کرنے میں
ناکام رہے اس اہم موقع پر انکی ناکامی ان کی سیاسی موت کے مترادف ہے چونکہ
لوگ ان پارٹیوں کے قول و فعل سے متنفر ہیں اس لئے ان کی کالوں پر توجہ دینے
کو تیار نہیں ہیں۔ ایسا کیوں ہے حالانکہ احتجاج پاکستان کی سالمیت کے حوالے
سے ہے جس کے بارے میں ایک غالب اکثریت خدشات کا شکار ہے۔ کیا ہماری قومی
غیرت کو ا ن سیاست دانوں سے سلا دیا ہے۔ اٹھو محب وطنوں کہیں یہ حکمران او
ملکی سلامتی کے ٹھیکیدار اس ملک کی سالمیت ہی کو ضرب نہ لگا دیں اور ہمیں
گرویں نہ رکھ دیں۔ |