یہ بچوں کی آ نکھ مچولی کا
منظرہے !
’’ میں یہاں ہوں بھائی ٹیرس پر! ‘‘(کچن سے آواز آ رہی ہے )
’’ منی میں چھت پر نہیں ہوں! ‘(چھت سے ہی آواز آتی ہے ) ................
اس میں کون سی خاص بات ہے جو موضوع گفتگو بنائی جائے ؟ بچے تو ہمیشہ سے یہ
کھیل کھیلتے چلے آئے ہیں ۔
اسی کھیل کا ایک اور منظر ملاحظہ ہو !
’’........... مجھے ڈھونڈو ! میں یہاں ہوں ! میں یہاں
.....................‘‘ اور ڈھونڈنے والا آواز کا تعاقب کرتا ہوا بالآخر
چھپے ہو ئے کو ڈھونڈ نکالتا ہے ۔ کچھ فرق محسوس ہوا دونوں مناظر میں ؟؟
ہوسکتا ہے کہ آپ جواب یہ دیں کہ اس کھیل کی تو روح ہی یہ ہے ڈھونڈنے والے
(seeker ) کو تنگ کرنا ، گمراہ کرنا !جی نہیں!!
یہ تصور درست نہیں ہے کہ اس کھیل کا مقصد ہی بے وقوف بنا نا ہے بلکہ جس طرح
ہر کھیل کے اصول ہوتے ہیں اسی طرح آنکھ مچولی کے ذریعے بچوں میں غور سے
سننے، مشاہدہ کرے ، ہدایا ت پر عمل کرنے ، اخذ کر نے اور فیصلہ کرنے کی
صلاحیتیں پروان چڑھتی ہیں لیکن جب زندگی کا ہر پہلو دھوکے اور فریب سے
عبارت ہو تو کھیل کیوں اور بچے کیسے بچ سکتے ہیں بھلا ؟
جہاں تک بچوں کا سوال ہے وہ دن رات دھوکا کھاتے ہوئے دیکھ رہے ہیں بلکہ خود
بھی کھارہے ہیں مثلاً وہ زندگی اور موت کا فلسفہ جاننا چاہتے ہیں تو انہیں
جھوٹی سچی باتیں بتائی جاتی ہیں۔ پہلے بھی بچے اسی طرح بہلائے جاتے تھے اور
پھر شعور آنے پر ان باتوں پر ہنستے تھے ، مگر آج کا بچہ اتنا باشعور اور
logical ہے کہ اسے سب پتہ ہے ( اور جو نہیں پتہ وہ میڈیا مستعدی سے سکھانے
میں مصروف ہے ) لہٰذا وہ دھوکے کو فوراً پکڑ لیتا ہے ۔ یوں ابتدا ہی سے اس
فن سے واقفیت حاصل کرلیتا ہے ۔
پھر مختلف مواقع پر والدین کے بدلتے رویے،بیانات اور لہجے اس کو بہت کچھ
سکھا دیتے ہیں ۔اسکے علاوہ فرمائشوں کے جواب میں لایعنی قصے کہانیاں اس کو
مہارت عطا کردیتی ہیں ۔ اسکے بعد گھر سے نکلنا ہویا گھر بیٹھے کام کرنا یا
کروانا ہو سب ایک دوسرے کو دھوکہ دینے میں مصروف نظر آتے ہیں اور وہ بھی
اپنے فن کا عملی مظاہرہ بہت کم عمری سے کر نے لگتا ہے ۔ ان مظا ہروں کی
قابل غور بات یہ ہے کہ نہ صرف دھوکہ دینے والا بلکہ دھوکا کھانے والا بھی
اس سے واقف ہوتا ہے مگر پھر بھی دھوکا کھاتا ہے اور ایسا دھوکہ کہ جس پر
دفعہ 420 کا اطلاق بھی نہیں ہوتا ،کیونکہ وہ قانونی نہیں محض اخلاقی ہوتا
ہے جس کا حساب کتاب تو روزِ محشر ہی ہوگا ۔
قرآن نے تو زندگی کو دھوکے سے تعبیر کیا ہے مگر انسان نے دھو کے کو ہی
زندگی بنالیا ہے ۔ شا ید اسی لیے اس کو دجالی دور کہا گیا ہے یعنی جو نظر
آرہا ہے وہ دراصل نہیں ہوتا ہے اور جو کہا جا رہا ہے اس کا مطلب وہ نہیں
ہوتا جو سنائی دیتا ہے ، اور پھر یہ کہ دھوکا دینے والے کو اعزازات اور
دھوکہ کھانے والے کو عتاب! ! یہ بھی اسی فن کا ایک حصہ ہے جس کی ایک واضح
مثال ایل ایف او تھا ! جی ہاں وہی دھوکا جو ایک جر نیل نے سیاست دانوں کو
دیا اور جسکا طعنہ آج تک وہ جماعت سن رہی ہے جس نے یہ کڑوی گولی محض اس
بپھرے ہوئے سا نڈ کو راستہ دینے کے لیے اگلی تھی جو کراکری کی دکا ن میں
گھس کر تباہی مچا رہا تھا ! اور پھر وہcheater جو سلامی لے کر نکلا تھا اب
پھر واپسی کا ارادہ کر رہا ہے ۔
بات کھیل سے شروع ہوئی تھی اور سیاست پر آ گئی ! یہ بھی تو ایک کھیل ہے ۔
جب فریب نظر ہر جگہ ہو خواہ وہ گھر ہویا معا شرہ ، معیشت ہو یا
ثقافت.....تو سیاست جسے کہا ہی گندہ کھیل (dirty game) جاتا ہے کیوں اس
مبرا رہتی ؟ مزے کی بات یہ کہ ڈرٹی گیم والا مفروضہ خود ایک دھوکے سے کم
نہیں ہے۔ اس دھوکے کا فریب چاک کر نے کے لیے بااصول افراد اس کھیل میں داخل
ہوئے اور قواعدوضوا بط کے تحت اس کو ایک صاف ستھرا کھیل بنانے کی کو شش کی
مگر انہیں دھکیل کر دیوار سے لگا دیا کہ ایسے جنوں کی اجازت نہیں!
ایک آمر کو رخصت کر کے قوم دوسرے کو بھگت رہی ہے جو جرنیل تو نہیں مگر ہاں
فوجی اسکول میں ضرور پڑھ چکا ہے ۔ سیاست جسے جہیز میں ملی تو صدارت بیوی کے
ترکے میں !
اور اب تین سال بعد پھر دھوکے کی فصل لہلہا اٹھی ہے ۔ انتخا بی معرکہ جو
قریب آلگا ہے ۔سارے چھوٹے بڑے لیڈر میدان میں کودنے کو بے تاب ہیں تاکہ
اپنا حصہ بقدر جثہ وصول کریں ۔ نئے NROکی آ مد متوقع ہے ۔ یونی فکشن بلاک
قائم ہوچکا ہے۔ نہ جانے کتنی نئی اصطلاحات ایجاد کی جائیں گی ۔ٹام اینڈجیری
کا کھیل کھیلنے والی جماعتیں تو آف سیزن بھی کھیل جاری رکھتی ہیں تاکہ آؤ ٹ
آف پریکٹس نہ ہوں.........قاتل لیگ قابل لیگ بنکر مسند وزارت پر بٹھا دی
گئی ہے! کوئی اصول نہیں ! بس چاہ اقتدار!مزید الفاظ اس موضوع پر خرچ کرنا
بے کار ہے ......................!
اس سارے ڈرٹی گیم میں ایک جماعت ایسی بھی ہے جو کھیل کو درست اور واضح
طریقے سے کھیلنا چاہتی ہے اور جو سیاست کو عبادت ہی سمجھتی ہے۔ اس کے رہنما
(leader) قوم کو mislead کرنے کے بجائے اپنا فریضہ رہنما ئی ادا کر رہے ہیں
۔ اب قوم کا فرض ہے کہ بڑھ کر اس کی پذیرائی کرے تاکہ دھوکے اور فریب کو ہی
سیاست سمجھنے کا مقولہ غلط ثابت ہو۔ |