دنیا اس وقت کرونا وائرس کی زد میں ہے ہر طرف اسی کا تذکرہ اور ذکر ہے میڈیا پر خبریں ہیں تو اسی سے جڑی ہوئی،معیشت کے لیے منصوبہ بندی ہے تو اسی کے مطابق،صحت کے اصول و ضوابط تو اسی کا غلبہ غرض اسّی فیصد دنیا اگر بند ہے تو اسّی فیصد خبریں بھی اسی سے متعلق۔اگر سوشل میڈیا کی بات کی جائے تو یہ تناسب اس سے بھی بڑھ جاتا ہے معلومات کے تبادلے سے لے کر غیر ذمہ دارانہ لطیفوں تک پر کرونا ہی چھایا ہوا نظر آتا ہے۔اس کی وجہ بالکل واضح ہے کہ یہ اس وقت دنیا کا سب سے سلگتا ہو ا موضوع ہے اور اسی ہما ہمی میں بہت کچھ غیر ذمہ داری سے بھی دکھایا اور پھیلایا جارہاہے اور تو جو بھی کچھ ہے ملکوں کے باہمی تعلقات بھی اسی کے زیرِ اثر ہیں۔امریکی صدر اس وائرس کو چائنا وائرس کہہ کر بلاتے رہے ہیں۔ جب تک یہ وائرس چین میں تباہی پھیلا رہا تھا تو کہا گیا کہ امریکہ نے اسے اپنی لیبارٹری میں تیار کرکے چین میں چھوڑ دیا ہے پھر جب یہ چین سے نکلا اور خاص کر امریکہ میں پھیلا اور چین سے بڑھ کر یہاں تباہی مچانا شروع کی تو اب بڑے تسلسل سے کہا جارہا ہے کہ اسے چین نے اپنے صوبے ووہان کی لیبارٹری میں بنایاجو اس سے بے قابو ہواتو خود ووہان میں پھیلا لیکن چونکہ خود چین کا بنا ہوا تھا لہٰذا اس پر قابو پا لیا گیااور منصوبے کے مطابق اسے پوری دنیا میں پھیلنے کے لیے چھوڑ دیا گیا۔اس کے لیے جو وجوہات بتائی گئیں وہ زیادہ تر معاشی ہی ہیں جس کے اوپر کوئی معاشی ماہر ہی تبصرہ کر سکتا ہے البتہ یہ ضرور ہو گیا کہ تیل کی قیمت کم ہی نہیں ہوئی بلکہ یہ بے قیمت ہو کر رہ گیا کوئی اس کا خریدار ہے نہ استعمال کنندہ اب جس کے پاس اس کے رکھنے کی جگہ ہے اُسی کی چاندی ہو گئی اور سونے کی قیمت اتنی اوپر چڑھی کہ جس کے پاس سونا ہے وہ دنیا کا مالک بن بیٹھے گا۔لہٰذا کون جیتا کون ہارا ابھی کچھ کہا نہیں جا سکتا لیکن اس وقت دنیا جس عالمی وباء کا سامنا کر رہی ہے اس میں امریکہ شدید مشکلات کا شکار ہے۔دنیا کے سب سے طاقتور ملک کی طاقت اس وقت کرونا کے ایک اَن دیکھے ذرے کے آگے ہیچ ثابت ہو رہی ہے۔اس کے صحت کے نظام کے سامنے کرونا ایک پہاڑ بن کر کھڑا ہے جس میں فی الحال وہ کوئی شگاف ڈالنے کی پوزیشن میں نظر نہیں آرہا اور یہی وجہ ہے کہ وہاں سے وقفے وقفے سے یہ خبریں آرہی ہیں کہ کرونا چین کا حیاتیاتی جنگ کا ہتھیار ہے جو اُس نے بنایا ا مریکہ کے لیے اور پھیل پوری دنیا میں گیا۔دوسری طرف بھارت ہے جو دنیا میں سب سے زیادہ ویکسین بنانے والا ملک ہے اور اُس کے نظام صحت کے بھی پوری دنیا میں چرچے رہے ہیں جس کا ذکر میں اپنے ایک دوسرے مضمون میں کر چکی ہوں وہ بھی اس الزام میں امریکہ کا مکمل اتحادی بنا ہوا ہے کیونکہ اُس کی طبی ترقی کا پول بھی اس ایک اَن دیکھے ذرے نے کھول دیا ہے لہٰذا وہ بھی اسے انسانی کارستانی ثابت کرنے پر تلا ہوا ہے سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا یہ مستقبل میں خود ہی ظاہر ہو جائے گا لیکن اس وقت سائنسدان اور عالمی ادارہ صحت یعنی ڈبلیوایچ او کے ماہرین اس بات سے مکمل انکاری ہیں کہ یہ وائرس انسان کا بنایا ہوا ہے۔وائرس کی ساخت پر تبصرہ کرتے ہوئے سائنسدان کہتے ہیں کہ یہ ساخت انسان ابھی تک نہیں بنا سکتا۔کرونا وائرس۔ٹو میں ہونے والی تبدیلیاں جسے انسانی دماغ کی کارستانی قرار دیا جا رہا ہے لیبارٹری میں نہیں کی جا سکتی۔سائنسدان نائجل مک ملن جن کا تعلق آسٹریلیا کے کوئنزلینڈ کے انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ سے ہے کے مطابق انہوں نے مارچ میں ایک ریسرچ کی جس میں کرونا۔ٹو جو سارس کی وجہ بنا کے اوپر ایک تحقیق کی گئی کہ کیسے اس میں تبدیلیاں واقع ہوئیں یعنی اگر یہ وہی وائرس ہے تو کیسے اس میں میوٹیشن ہوئی اور وہ اتنی خطرناک صورت اختیار کر گیااور اس کے مطابق اس نئے وائرس کی کچھ خصوصیات اس خیال کو بالکل رد کرتی ہیں کہ یہ انسان کا بنایا ہو ہے۔یہ بھی کہا گیا کہ اگر یہ وائرس بنایا نہیں گیا تو کسی ریسرچ کے دوران ووہان انسٹیٹیوٹ آف وائرالوجی سے باہر نکلا لیکن اس لیبارٹری نے اس الزام کی سختی سے تردید کی ہے کہ ایسی کوئی بے احتیاطی کی گئی ہو۔چین حکومتی سطح پر بھی اس الزام کی تردید کر چکا ہے لیکن چونکہ اس کی ابتداء چین سے ہوئی لہٰذا یہ الزام اُسی پر لگا دیا گیا اور پھر امریکہ اور بھارت جیسے ممالک نے سوشل میڈیا کے ذریعے اس کی خوب تشہیر کی جو عالمی سطح پر کسی طرح مناسب نہیں۔امریکہ کے ایک ٹی وی چینل نے تو یہ تک کہا کہ ایک ایسے شخص کو گرفتار بھی کیا گیا جس نے ہاورڈ یو نیورسٹی کی لیبارٹری میں چین کے لیے یہ وائرس تیار کیا۔ اس وقت تو دنیا کرونا سے جنگ کرنے میں لگی ہوئی ہے اس لیے ان باتوں کو اتنی اہمیت نہیں دی جا رہی لیکن اس طرح کے غیر ذمہ دارانہ الزامات اور بیا نات دنیا کے امن کے لیے بھی خطرناک ہو سکتے ہیں۔اس وقت ضرورت ایسے الزامات اور غیر ذمہ دارانہ رویے کی نہیں بلکہ مل کر اس عالمی وباء کے خلاف لڑنے کی ہے جس نے دنیا کو انتہائی سنجیدہ مسائل سے دوچار کیا ہے۔ایک طرف صحت اور سب سے بڑھ کر انسانی زندگی کے لیے چیلنجز پیدا کئے ہیں تو دوسری طرف معیشت بھی اپنے انتہائی کم ترین سطح پر ہے اور ایسا بھی نہیں کہ یہ وائرس بہت جلد ختم ہو جائے گا یا اس کے اثرات ختم ہو جائیں گے بلکہ سائنسدانوں کے مطابق یہ وائرس لمبے عرصے تک انسان کے ساتھ لگا رہ سکتا ہے لہٰذا اس وقت اس خطرے سے نمٹنے کے لیے مختلف سٹریٹجیز بنائی جائیں نہ کہ حالات کو بین الحکومتی اور سیاسی سطح پر خراب کیا جائے۔اگر یہ وائرس کوئی ملک بناتا تو اس کا علاج بھی بناتااور کم از کم اپنے ملک میں اس کو استعمال کر کے اموات پر قابو پالیتا۔لیکن چین کو خود سب سے پہلے اس سے نقصان اٹھانا پڑا اس لیے یہ سمجھنا کہ یہ انسان کا بنایا ہو اکوئی ہتھیار ہے عام انسان کے ذہنی اور نفسیاتی دباؤ میں مزید اضافے کا سبب بنتا ہے۔اس وقت عالمی سطح پر ایک ذمہ دار رویے کی ضرورت ہے اور عالمی طاقتیں بلیم گیم کی بجائے کرونا سے مقابلے کی کوئی تدبیر کریں تاکہ دنیا اس وباء سے جلد از جلد نجات پالے۔ |