<br /><br />ہم سب کو ہی تبدیلی کا نعرہ بہت بھاتاہے۔ہر
کو ئی تبدیلی کو ووٹ دینے کے بعد تبدیلی کی توقع کر رہا ہے۔تبدیلی کا نعرہ
لگانا بے حد آسان ہے لیکن اس پر عمل کرنا اتنا ہی مشکلہے ۔ہمیں تبدیلی کا
آغاز خود سے کرنا ہو گا۔اگر اپنے روز مرہ کے کام میں تبدیلی لایں تو بہت
کچھ بہتر ہو سکتا ہے۔ہمارے ہاں جو بھی کام ہوتا ہے انتہا درجہ کا ہوتا
ہے۔اگر ہم کھانے پینے کی طرف آہیں تو ہم ایک بیمار قوم بنتے جا رہے ہیں،کم
کھانا ،بھوک رکھ کر کھانا،مضر صحت کھانوں سے پرہیز،یہ سب ہم بھول گئے
ہیں۔بلڈپریشر،شوگر،ہارٹ اٹیک،پہلے ساٹھ کی عمر میں جا کر کہیں ایک دو کیس
سامنے آتے تھے ،اب تو ہرشخص ان بیماریوں میں مبتلا ہے۔<br />ٹھیک اسی طرح
اس نئی تبدیلی کے چکر میں ہم ذہنی طور پر بیمار ہو چکے ہیں،ہمیں سمجھ نہیں
آ رہی کہ ہم کیا کریں ہمارے سامنے ہماریبہن، بیٹیوںکو لا کر سڑک پر کھڑا کر
دیا ہے اور ہم کچھ نہیں کر سکے۔کیا یہی تبدیلی تھی،کیا ہم اسی تبدیلی کے
انتظار میں تھے ،کیا ہم نے اس تبدیلی کو ووٹ دیا تھا۔<br />ہمیں خالی
تبدیلی کے نعرے پر ہی اکتفا نہیں کر نا ہو گا ،ہمت کرنا ہو گی، بلکہ خود کو
تبدیل کر نا ہو گا۔ہمت دنیا کی وہ واحد چیز ہے جس کے بارے میں آپ کوئی نپا
تلا اصول نہیں بتا سکتے،جو لوگ زیادہ مشکل حالات میں ہوتے ہیںاکثر ان کی
ہمت بہت بڑی ہو تی ہے۔جو لوگ آسان حالات میں ہوتے ہیںوہ اتنے ہی سست ہوتے
ہیں۔حالات اور ہمت دو بدلنے والی چیزیں ہیںکیونکہ حالات کبھی ایک جیسے نہیں
رہتے،اور ہر ایک کے لیے ان حالات میں کوئی ایک چیلنج بھی ہو تا ہے،جیسے
حالات ہر ایک کے مختلف ہوتے ہیں ویسے ہی ان حالات میں چھپے چیلنج بھی مختلف
ہوتے ہیں۔کسی کے لیے باہر کے حالات اتنے مشکل نہیں ہو تے جتنے اس کے اندر
کے حالات مشکل ہوتے ہیں،وہ مشکل جو آپ کو سکون سے رہنے نہیں دیتی۔ایسے میں
آپ کو ہمت کرنا ہو تی ہے اور مشکل کو آسان کرنے کے لیے جدو جہد کرنا ہوتی
ہے،آپ اپنے حصے کی ہمت کریںاور اپنے حالات بدلیں جیسے آپ کی ہمت بڑھتی جائے
گی مشکلات کم ہوتی جائیں گیں،آپ خود میں تبدیلی محسوس کریں گے جو آپ کے
اندر سے شروع ہو گی یہ تبدیلی نعروں والی نہیں ہو گی بلکہ حقیقی تبدیلی ہو
گی پھر ایک دن آئے گا کہ آپ کی تبدیلی کو لوگ بھی محسوس کریں گے،عربی کا
معقولہ ہے کہ (وقت تلوار کی مانند ہے اگر تم نے اسے نہیں کاٹا تووہ تمہیں
کاٹ دے گی)جب آپ وقت کو کاٹنا سیکھ جائو گے تو ہر چیز میں تبدیلی آنا خود
بخود شروع ہو جائے گی۔<br />ہم حقیقی تبدیلی لا سکتے ہیں اگر ہم خود سے یہ
عہد کر لیں کے وقت کی قدر کریں گے۔ملک کے حالات خواہ کتنے ہی خراب کیوں نہ
ہوں ہمیں امید کا دامن نہیں چھوڑنا چاہئے،ہر سیاہ رات کے بعد صبح کا اجالا
ضرور ہوتا ہے۔ان تمام مشکلات کے باوجود ہمیں خود کے لیے ہمت کرنا ہو گی اور
تبدیلی لانی ہو گی۔نماز کی پابندی کرنی ہے اور خود کا تعلق قرآن سے جوڑنا
ہے،ہمیں حقیقی تبدیلی کی طرف آنا ہو گا وہ حقیقی تبدیلی جو ہمارے پیارے نبیۖ
لے کر آئے،جس تبدیلی نے ہمیں خود سے روشناس کرایا،جس تبدیلی نے انقلاب
برپاکردیا،جس تبدیلی نے زندہ درگور کی جانے والی بیٹی کو عصمت کی بلندیاں
عطا کردیں،جس تبدیلی نے ہمیں زندگی کا مقصد بتایا۔ہماری بد قسمتی ہے کہ ہم
نے قرآن کو چھوڑ کر اغیار کے بنائے ہوئے قوانین کو اپنانا اپنا مقصد بنا
لیا ہے،جس کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے۔ہماری بقاء اسی میں ہے ہے کہ ہم آج
سے 14سو سال پہلے کی تبدیلی کو اپنا مقصد بناہیں جس میں والدین کو آخری عمر
میں اولڈ ہائوس میں جمع نہیں کروایا جاتا بلکہ ان کی خدمت کر کے اپنی آخرت
سنواری جاتی ہے۔ہمارے پاس تو قرآن ہے ہمیں اس سے بڑھ کر اور کیا چاہیضروت
اس امر کی ہے کہ ہمیں قرآن کو پڑھنے کے ساتھ ساتھ اس پر عمل بھی کرنا ہو گا۔<br
/>آج کا مسلمان اتنا کمزور کیوں ہے،آج ہر طرف سے ہم کو ہی نشانہ کیوں بنایا
جا رہا ہے،خواہ وہ کشمیر ہو فلسطین ہو افغانستان ہو،ہر جگہ مسلمانوں کو ہی
ٹارگٹ کیا جا رہا ہے۔جیسے جیسے ہم دین سے دور ہوتے جا رہے ہیںہم نئے نئے
فتنوں میں گرتے جا رہئے ہیں۔جب پاکستان کی تحریک چلی تھی تو اس وقت کا
مسلمان آج کے فتنوں کے بارے میں سوچ سکتا تھا، نہیں،کیوں کہ اس وقت غیرت
ایمانی زندہ تھی۔کیا پاکستان اس لیے بنایا گیا تھا ،آج ہم نے طاغوتی قوتوں
کو خود پر کیوں اتنا سوار کر لیا ہے ،آج ہم کیوں ان کے بنائے ہوئے قوانین
کی پیروی کر رہے ہیں،ہم تبدیلی کی نشے میں ان کے ہر قانون کو خود پر لاگو
کر کے دین سے دور ہوتے جا رہے ہیں،جیسے ہماری دین سے دوری ہوتی جا رہی ہے
رسوائی ہمارا مقدر بنتی جا رہی ہے۔ہم تبدیلی چاہتے ہیں لیکن ہم تبدیلی
14سوسال پہلے والی چاہتے ہیںجس نے ہمیں ایک نظام حیات دیا۔جس نے ہمیں ماں ،باپ،بہین،بیٹی
اور بیوی کے حقوق بتائے،جس تبدیلی نے ہمیں عدل و انصاف کے تقاضے اور مساوات
و بھائی چارے کا درس دیا،جس نے ہمیں پڑوسی کے حقوق کے بارے میں بتایا،قربان
جائوں پیارے آقاۖ پر آپ نے ایک ایک عمل کے بارے میں امت کی رہنمائی
فرمائی،کمزور سے کس لہجے میں بات کرنی ہے طاقتور سے کیا انداز اپنانا ہے ۔آج
کس حقوق کی بات کی جاری ہے ہمارے آقاۖ نے توقبرستان والوں کے حقوق بھی امت
کو بتا دیے ہیں،مگر افسوس کے ہم نے کبھی سیرت کو پڑھا ہی نہیں۔ہمیں تبدیلی
لانی ہو گی خود کوتبدیل کرنا ہو گاقرآن و سنت کو اپنانا ہو گااپنے ہر عمل
کو حضورۖ کی سنت کے مطابق ڈھالنا ہو گا،نماز کی پابندی کرنا ہو گی،آج ہمیں
خود میں تبدیلی کی ضرورت ہے اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑھ رہاہے کہ خود کو
تبدیل کرنے کے بجائے دین کے خلاف سازشیں کی جا رہی ہیں۔<br />ہم کردار کے
حوالے سے اتنا گر گئے ہیں کہ ہر کوئی اپنا مفاد دیکھتا ہے،ہم اللہ کا سامنا
کیسے کریں گے،ایک دوکاندار سے لے کر اعلیٰ افسر تک سب کی ایک سوچ کے بس
اپنا مفاد چاہے اس کی کوئی بھی قیمت کیوں نہ ہو چاہے اس کے لیے ہمیں اپنا
کردار ہی کیو ں نہ داغدار کرنا پڑے۔ریڑھی والے کے پاس جائو تو اس کی کوشش
ہو گی کے پچاس کا فروٹ سو میں بکے اور اگر پوچھ لو تو جواب ملے گا
تبدیلی،دوکاندار سے مہنگائی کا پوچھو تو بولے گا تبدیلی،ہمار ضمیر مر چکا
ہے ہم کیسے انسان ہیں،سرکاری ہسپتالوں میں جائو تو ٹیسٹ کی سہولت موجود ہو
نے کے باجود پرائیوٹ لیبارٹری کا لکھ کر دینگے،اور ساتھ میں راستہ بھی
بتائیں گے کہ کتنا دور ہے،وکیلوں کے پاس اگر آپ غلطی سے چلے گے تو وہ آپ کو
تحصیل کورٹ سے لے کر چلیں گے اور سپریم کورٹ تک آپ کو سارا راستہ حفظ کروا
دیں گے مگر آپ کا کیس ختم نہیں ہو گا،آپ کا اگر پٹورخانے کا چکر لگ جائے تو
آپ کو ایسا گماں ہو گا کے آپ خود کے نہیں بلکہ کسی اور کے گھر میں مکین
ہیں،ساری دُنیا کورونا وائرس کے خوف میں مبتلا ہے اوردُنیا میں اس پر قابو
پانے کے لیے کوششیں کی جا رہی ہیں ،دُنیا لاکھوں ڈالرکے حساب سے عطیات دے
رہی ہے، مگر ہم نے کیا کیا؟جیسے ہی کورونا وائرس کاسنا سنتے ہی ماسک کی
ذخیرہ اندوزی شروع کر دی،جو ماسک پہلے پانچ روپے میں ملتا تھا وہ پہلے
مارکیٹ سے غائب کر دیا اور بعد میں وہی ماسک پچاس میں بیچنا شروع کردیا۔
کاش ہمیں یہ سمجھ آ جائے کہ نہ کفن میں جیب ہے نہ قبرمیں الماری اور کمال
کی بات تو یہ ہے کہ موت کا فرشتہ رشوت بھی نہیں لیتا۔ ہمیں خود کو بدلنا
ہوگا،ہمیں مارچوں والی تبدیلی نہیں چاہے ،ہمیں حقیقی تبدیلی چاہے اور وہ
ہمیں خود سے شروح کرنی ہے۔ |