بچپن صوفیوں کے مزاروں پر متھا ٹیکنے اور قوالیاں سننے میں گزرا تھا،
جوانی میں سارا اشفاق احمد اور ممتاز مفتی پڑھ ڈالا اور اب بڑھاپے کی
دہلیز پر اپنے دیس کے لوگوں کے حالات و واقعات سمجھنے کے لیے ٹی وی پر
بیٹھے سیانوں کی بجائے کبھی کبھی عمیرہ احمد کا ناول پڑھ لیتا ہوں یا
ڈرامہ دیکھ لیتا ہوں۔
بچپن سے ہمیں ایک ہی بات سمجھائی گئی تھی کہ اس مملکت خدا داد کا ظاہری
نظام ظاہری ہے۔ یہ اسمبلیاں، یہ جی ایچ کیو، یہ اے سی ڈی سی صرف ایک
پردہ ہے جس کے پیچھے ایک روحانی نیٹ ورک موجود ہے وہی اس ملک کا محافظ
ہے۔ ایک بزرگوں، بابوں کا خفیہ سلسلہ ہے جو ہمارا نظام چلاتا ہے۔ محترم
چیف جسٹس نے اپنے آپ کو اشفاق احمد کا بابا قرار دے کر اس روحانی
تھیوری کو 100 فیصد درست ثابت کر دیا تھا۔
اگر میرے جیسے تشکیک کے مارے ذہنوں میں کچھ شک شبہ تھا تو وہ خاتون
اوّل محترم بشری بی بی کے پہلے انٹرویو کو دیکھ کر دور ہو گیا۔ اب ہمیں
یقین ہو جانا چاہیے کہ ہمارے روحانی سفر کی منزل قریب ہے۔
چشم نظارہ تاب لا سکے تو ذرا تصور کریں کہ اسلام آباد کے بنی گالہ کی
ایک سرسبز پہاڑی پر ایک ایچی سن کالج اور آکسفورڈ کا پڑھا ہوا شہزادہ
اور اس کے پہلو میں پاک پتن کی عبادت گزار مہارانی (اللہ نے مجھے
ہمییشہ مہارانیوں کی طرح رکھا ہے) ایک ساتھ کھڑے ہو کر درود شریف پڑھ
رہے ہیں اور بارش کی دعا مانگ رہے ہیں۔ کیا اسلام آباد جیسے بابرکت شہر
نے روحانیت اور رومانویت سے بھرا ہوا ایسا منظر پہلے کبھی دیکھا ہے؟ یہ
قدرت اللہ شہاب کے خوابوں کی تعبیر ہے۔ یہ بانو قدسیہ کے فلسفے کی عملی
تفسیر ہے۔ یہ ایک ایسی حسین تصویر ہے جو حضرت مولانا طارق جمیل کے سارے
بیانات سے زیادہ پرتاثیر ہے۔
روحانی معاملات میں دل تھوڑا کمزور ہے۔ کسی ماٹھے بریلوی مولوی کو بھی
سن لوں تو آنکھیں بھر آتی ہیں۔ آج کل حضرت خادم رضوی کو نہیں سنتا کہ
کہیں طیش میں آکر اکیلا ہی کسی کافر ملک کو فتح کرنے نہ نکل پڑوں۔ اب
بھی اس بات پر فخر کرتا ہوں کہ کراچی کے محافظ پیر عبداللہ شاہ غازی کا
ہمسایہ ہوں اور کچھ لوگ شاید ہمیں بدعتی سمجھیں میں تو غازی کے مزار پر
ڈھول بجانے والے اور اسی ڈھول کی تھاپ پر دھمال ڈالنے والے کو بھی
عبادت گزار مانتا ہوں۔
|