بسم اﷲ الرحمن الرحیم
(29اپریل:قومی دن کے حوالے سے خصوصی تحریر)
جاپان دوسری جنگ عظیم میں راکھ کاڈھیر بن چکاتھا،اسکا بنیادی ڈھانچہ مکمل
طور پر تباہ ہوچکاتھااور ملک کی کارآمد آبادی جنگ کے ایندھن میں جھونکی
جاچکی تھی۔امریکی افواج جب فاتح کی حیثیت سے جاپان میں داخل ہوئیں تو شاہ
جاپان نے ان سے کہا کہ میں تم سے صرف ایک چیزمانگتاہوں کہ میری قوم سے اسکی
زبان نہ چھیننا،اپنی قومی زبان کا تحفظ کرنے والی قوم آج دنیاکے آسمان پر
سورج کی طرح جگمگارہی ہے اور کوئی اس سے آنکھیں نہیں ملا سکتاجو بھی اس
جانب دیکھتاہے چندھیااٹھتاہے۔معیشیت اور تکنالوجی کے میدان مین آج جاپان
کاکوئی ثانی نہیں اور تعلیم اور شرح خواندگی میں قومی زبان نے جاپان کی
ترقی کو اوج ثریاتک جاپہنچایاہے۔جاپان کی ریاست براعظم ایشیا کے انتہائی
مشرق میں واقع ہے،اس کے مغرب میں جاپان کے سمندر ہیں جس کے دوسرے ساحلوں
پرشمالی اور جنوبی کوریاکی ریاستیں اور سائبیریاکے سرد ترین علاقے واقع ہیں
اور جنوب مغرب میں چین کے سمندر ہیں۔کم و بیش ایک لاکھ چھیالیس ہزار مربع
میل کے رقبے پر واقع یہ ملک بہت سے جزائرپرمشتمل ہے لیکن ان میں سے چار بڑے
بڑے جزایر ہیں جو اس ملک کے بیشتر رقبے پرواقع
ہیں،’’ہوکیدو‘‘،’’ہانشو‘‘،’’شکوکو‘‘اور ’’کیوشو‘‘۔ان میں ’’ہانشو‘‘رقبے کے
اعتبار سے سب سے بڑاہے اور ان چار کے علاوہ بہت سے چھوٹے بڑے جزائراس ریاست
کاحصہ ہیں،دارالحکومت’’ٹوکیو‘‘اسی سب سے بڑے جزیرے کا شہر ہے اوردنیاکے اہم
شہروں میں اس کا شمار ہوتاہے۔جاپان کا لگ بھگ اسی فیصدرقبہ پہاڑی علاقوں پر
مشتمل ہے۔
جغرافیائی اعتبار سے جاپان کی سرزمین میں بہت زیادہ عدم استحکام ہے،یہاں کے
دریا بہت چھوٹے اوربہت تیزبہاؤ کے حامل ہیں،کچھ دریاؤں کے پانی میں بہت
زیادہ تیزابیت بھی پائی جاتی ہے جس کے باعث انکاپانی زراعت کے لیے انتہائی
غیرموزوں ہے۔’’بیوا‘‘نامی جھیل یہاں کی سب سے بڑی جھیل ہے جو کم وبیش
دوسوساٹھ مربع میل کے رقبے پر پھیلی ہے۔پہاڑی علاقہ ہونے کے باعث چھوٹی بڑی
بہت سی جھیلیں یہاں پر قدرتی طور پر موجود ہیں اور حکومت نے ان جھیلوں پر
بندباندھ کر ان کے پانی کو انسانی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے منصوبے
بنارکھے ہیں۔ملک کاموسم مجموعی طورپر گرم ہے لیکن پہاڑی علاقہ ہونے کے باعث
خوشگوار ہوائیں بھی چلتی ہیں چنانچہ اوسطاََ وہاں کادرجہ حرارت 4سے27ڈگری
سینٹی گریڈتک ریکارڈ کیاجاتاہے جس میں ساحل سمندر سے پہاڑی چوٹیوں تک
کادرجہ حرارت شامل ہے۔جاپان کے شمالی جنگلات بندروں کی مختلف نسلوں سے بھرے
ہیں،یہاں پانچ فٹ لمباسانپ نماچوہایاچوہا نماسانپ بھی پایاجاتاہے جوضرررساں
نہیں ہوتا۔انکے علاوہ تازہ اور میٹھے پانی کے بہت سے جانوروں کی متعدد
نایاب نسلیں بھی اس ملک میں موجود ہیں۔
جاپانی لوگ بنیادی طور ایشیائی نسل سے تعلق رکھتے ہیں،سترہویں صدی کے آغاز
میں’’ٹوکوجاوا‘‘دور میں وہاں کی آبادی کو چار حصوں میں تقسیم کیاگیاتھا،جنگ
جو،کسان،ہاتھ سے کام کرنے والے لوگ اور تاجر ۔ان چاروں سے برترایک طبقہ
’’پڑھے لکھے لوگ‘‘ہواکرتے تھے ان طبقات میں سے پڑحے لکھے لوگوں کے طبقے کو
آج تک کسی نہ کسی صورت کا معاشرتی تفوق حاصل ہے۔اسی دور میں جاپان کو
دنیاسے کاٹ کر داخلی استحکام پر توجہ دی گئی۔دوسوسال تک جاپان عالمی تنہائی
کاشکاررہا،یہاں تک کہ 1854ء میں جاپان نے امریکہ کے لیے اپنے بحری راستے
کھولے اور یوں جاپان میں صنعتی و عالمی تجارتی دور کاآغاز ہوا۔انیسویں اور
بیسویں صدی میں جاپان ایک طاقت کی حیثیت سے ابھرااور اس نے چین اور روس کے
ساتھ فیصلہ کن جنگیں لڑیں اور تائیوان اور کوریاسمیت متعدددیگر جزائرپر
قبضہ بھی کرلیا،یہاں تک کہ 1941میں جاپان نے امریکہ جیسے سانڈ سے بھی ٹکر
لے لی لیکن دوسری جنگ عظیم کی عالمی کشمکش میں جاپان کو منہ کی کھانی پڑی
۔اس کے بعدجاپان کو فوج رکھنے کی اجازت نہ مل سکی لیکن یہ صعوبت اس قوم نے
سہولت سمجھ کر قبول کی اور پوری توجہ اپنی معیشیت پرمرکوز کر دی جس کے خاطر
خواہ ثمرات آج اس قوم کاحسن مقدر ہیں ۔آج جاپان اپنی معاشی حیثیت کے باعث
دنیامیں بالعموم اور ایشیامیں بالخصوص اپناکلیدی کردار اداکررہاہے
اور2012کے مطابق یہ ملک دنیاکی تیسری بڑی معیشیت کا حامل ہے۔
جاپان میں جاپانی زبان بولی جاتی ہے تاہم کورین اور چینی زبان بولنے والے
بھی متعدد قبائل ایک طویل عرصے سے یہاں موجود ہیں۔جاپانی زبان دراصل چینی
زبان کی نومولود بیٹی ہے،چوتھی صدی عیسوی سے ان دونوں زبانوں کے درمیان
علیحدگی شروع ہوئی اور بیٹی نے میکہ چھوڑ کر اپناگھر آباد کرلیا۔چینی زبان
دنیا کی سب سے بڑی زبان ہے اسکے یہی اثرات جاپانی زبان پر بھی تھے چنانچہ
دوسری جنگ عظیم کے بعد جاپانی زبان میں سے بہت سے الفا ظ کوکم کردیاگیااور
انگریزی کے بھی کچھ الفاظ کو جاپانی لغت میں شامل کرلیاگیا۔جاپانی زبان کے
بہت سے لہجے ہیں لیکن ٹوکیوکے لہجے کوقومی لہجے کے طور پر ابلاغیات اور
تعلیم میں رائج کیاگیاہے۔جاپان معدنیات کے معاملے میں ایک تشنہ ملک ہے یہی
وجہ ہے کہ دنیابھر میں کوئلہ اور تیل درآمد کرنے والے صف اول کے ملکوں میں
اسکاشمارہے۔صرف مچھلی اور لکڑی ہی یہاں کی قدرتی پیداوار ہے یہاں کاپانی
بھی تیزاب کی آمیزش کے باعث بہت نچلے درجے کااور بیکارپانی ہے ۔جاپان کی
آبادی اس وقت تیرہ کروڑ کو چھورہی ہے،آبادی میں اضافے کی شرح -0.077%ہے
یعنی اصل میں سالانہ آبادی کم ہورہی ہے۔شرح پیدائش 8.39/1,000ہے اور شرح
اموات 9.15 /1,000سالانہ ہے۔جاپان میں98.5%جاپانی آباد
ہیں0.5%کورین،0.4%چینی اور باقی شرح کے دیگراقوام سے وابسطہ لوگ آباد
ہیں۔یہاں بدھ مت اور شینٹو ازم کے ماننے والوں کی اکثریت ہے جبکہ 2%عیسائی
بھی یہاں رہتے ہیں۔یہاں 99%لوگ خواندہ ہیں اور یہ دنیاکی سب سے زیادہ شرح
خواندگی والے ملکوں کے برابر ہے۔
3مئی 1947ء کے آئین کے مطابق جاپان میں آئینی بادشاہت کے تحت پارلیمانی
نظام حکومت قائم ہے،قومی نوعیت کے تمام فیصلوں کی توثیق شاہ جاپان کے
دستخطوں سے کی جاتی ہے ۔242ارکان کا ہاؤس آف کونسلرزقائم ہے جسے ایوان بالا
بھی کہ سکتے ہیں اس میں 146ارکان براہ راست منتخب ہوکر آتے ہیں اور 96ارکان
متناسب نمائندگی کے تحت اس ایوان کے رکن بنتے ہیں۔ایوان کو چھ سالوں کے لیے
منتخب کیاجاتاہے لیکن آدھے ارکان تین سال کے بعد رکنیت سے مستعفی ہوجاتے
ہیں اور پھراس تعداد کے لیے دوبارہ انتخابات کرائے جاتے ہیں اور طرح یہ
نظام چلتارہتاہے۔جاپان میں ووٹ کاحق استعمال کرنے لیے عمر کی حد بیس سال
مقرر کی گئی ہے۔زیریں ایوان کانام ایوان نمائندگان ہے،اس میں 480اراکین
ہوتے ہیں اور وزیراعظم ایوان نمائندگان کو کابینہ کے مشورے سے تحلیل
کرسکتاہے۔وزیراعظم حکومت کے سربراہ کے طور پر کام کرتا ہے اور اسکی معاونت
کے لیے کابینہ موجود ہوتی ہے۔’’بورڈ آف آڈٹ ‘‘وہ مرکزی آئینی ادارہ ہے جو
ریاست کے جملہ مالیاتی امور کا ذمہ دارہے۔مملکت کوسنتالیس ذیلی انتظامی
حصوں یاصوبوں میں تقسیم کیاگیاہے،جرمن قانون میں برطانوی طرز کی ترامیم
کرکے اسے یہاں پر رائج کیاہواہے اور سپریم ملک کی اعلی عدالت ہے اور ججوں
کی تقرری کابینہ کے ذریعے عمل میں آتی ہے۔صوبوں کے اپنے گورنرزاور صوبائی
ایوان نمائندگان ہیں،جبکہ لوکل سطح کی حکومتوں کے مئر ہوتے ہیں۔
1868ء میں یہاں پر مسلمانوں کا اولین ذکر ملتاہے،1877میں جاپانی زبان میں
سیرت النبی ﷺ کاترجمہ کیاگیا،عام جاپانی افراد کا اسلام سے تعارف کا یہ
پہلا ذریعہ تھا۔1890میں عثمانی ترک خلیفہ نے جاپان میں اپناوفدبھیجا تاکہ
اس ملک کے ساتھ رواسم کی ابتداہوسکے،اسکے جواب میں جاپانیوں کاجو وفد ترکی
گیااس میں سے کچھ لوگ مسلمان ہوئے لیکن وہ واپس جاپان نہیں آئے بلکہ ترکی
کے ہی ہورہے۔1909میں ایک جاپانی ’’مٹسوٹاروٹوکاؤکا‘‘کانام ملتاہے
جوہندوستان میں تجارت کے لیے آیااور مسلمان ہوگیا اوراسکانام’’احمد اریگا‘‘
رکھاگیا،اسکے بعد اس نے حج بھی کیا،معلوم تاریخ کی حد تک یہ جاپان
کاپہلامقامی مسلمان تھا۔روسی انقلاب اور پہلی جنگ عظیم کے بعد جاپان میں
مسلمانوں کی آمد شروع ہوئی اور بڑے بڑے شہروں میں مسلمانوں نے اپنی دینی
تاریخ رقم کرنے کاآغاز کیا۔1935میں جاپان میں’’کوبو‘‘شہر پہلی مسجد تعمیرکی
گئی اور1938میں ٹوکیوجیسے شہر میں بھی ایک مسجد تعمیرکرلی گئی۔دوسری جنگ
عظیم کے دوران’’اسلامک بوم‘‘ کے نام سے ایک سرکاری ادارہ وجود میں آیا جس
نے کچھ ہی عرصہ میں اسلام کے موضوع پرلگ بھگ ایک سو کتابیں شائع کردیں۔اس
وقت جاپان کی آبادی میں مسلمانوں کی تعدادآٹے میں نمک کے برابر ہے اور ان
میں سے جاپانی الاصل مسلمان تو نہ ہونے کے برابرہیں،بہرحال اس بہت کم تعداد
کے باوجود مسلمان باہم ملتے رہتے ہیں اور انہوں نے ’’جاپان دعوۃ‘‘ کے نام
سے ایک تنظیم بھی بنارکھی ہے جس کے مختلف پروگراموں میں مسلمانوں کی دینی
تربیت کاانتظام کیاجاتاہے۔اب تک جاپانی زبان میں اسلامی کتب کی شدیدکمی
ہے،جو جاپانی بھی اسلام کے بارے میں کچھ پڑھنا چاہتا ہے اسے انگریزی میں
لکھی کتب ہی دستیاب ہو سکتی ہیں اور وہ بھی بہت مہنگی۔مغربی میڈیاکا
پروپیگنڈہ بھی جاپانیوں کی فکرکو اسلام کے بارے میں آلودہ کرنے میں ایک اہم
کردار اداکررہاہے،تاہم اب بھی مسلمانوں کی تعداد وہاں تیزی سے بڑھ رہی ہے
اور وہ اپنے دین پر پوری مضبوطی سے قائم ہیں۔
|