درد کی ایک ٹیس ہے جو وقفے وقفے
سے دل کے سکون کو بےسکونی میں بدل دیتی ہے۔کل تک جن کی سلامتی کی دعائیں
لبوں پر تھیں،آج وہ ہم میں نہیں رہے۔وہ شخص جس کا ہر پل اور ہر سانس
مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے ظلم وستم پر اشک بار تھا،جو قبلہ اول کی آزادی
اور حر مین شریفین کے تحفظ کو اپنا مشن بنا چکا تھا،جس نے عشرت کدوں کو
چھوڑ کر سنگلاخ پہاڑوں کو اپنا مسکن بنایا،جس نے وقت کے فرعونوں کے سامنے
خدائے بزرگ وبرتر کی توحید کا اعلان ڈنگے کی چوٹ پر کیا،جس نے صہیونی
ارادوں کے سامنے سدسکندری کا کردار ادا کیا۔لاریب اِس دم ،فردوس کے
بالاخانوں میں اپنی کامرانی پر خوب نازاں وشاداں ہوگا۔آخر اس کی عمر بھر کی
بے قراری کو قرار آہی گیا ہوگا۔ماضی کے اوراق پلٹتے جائیے۔ایسے کئی سرفروش
وجانباز نظر آئیں گے ،جن کے خون کی سرخی اسلام کی حقانیت کا منہ بولتا ثبوت
اور”جتنا دباﺅ گے ،اتنا ہی ابھرے گا‘ ‘کا عملی تصویر پیش کرتی دکھائی دیتی
ہے۔
وقت حاضر کا فرعون بھی اپنی چنگیزیت میں بے مثل
ہے۔عراق،افغانستان،پاکستان،لیبیا،فلسطین اورکشمیر سمیت کونسا مسلم خطہ ہے
جہاں بالواسطہ یا بلاواسطہ اس کے پنجے نہ گڑھے ہوئے ہوں؟جہاں معصوم بچوں کا
قتل عام نہ کیاگیاہو؟لمحہ موجود میں اس کا غرور وتکبر افغان کہساروں کے
درمیان ہچکولے کھارہا ہے۔ اُس کے چہرے سے مساوات اورانسانی حقوق کا نقاب
الٹ چکاہے۔دس برس بیشتر افغانستان کو لقمہ تر سمجھنے والوں کے لیے افغان
سرزمین گلے میں پھنسی ہڈی بنی ہوئی ہے، جو نگلی جاسکتی ہے نہ اگلی جاسکتی
ہے۔ امریکاایسے وقت میں جب اسے ذلت آمیز شکست کا سامناہے شیخ اسامہ کی
شہادت کو اپنے کھاتے میں ڈال کر، امریکی قوم اور بین الاقوامی طاقتوں کے
سامنے اپنا گرتاہوا تاثر بچانے کی سعی لاحاصل کررہاہے۔
پاکستان سے متعلق2مئی کے بعد جو لب ولہجہ امریکی حکام کا سامنے آیا ہے،وہ
اپنی جگہ معنیٰ خیز ہے۔ صہیونی منصوبہ سازوں نے صلیبی جنگ کوجس خاموش حکمت
عملی کے تحت پاکستان منتقل کردیاہے ،وہ ہمارے پالیسی ساز اداروں اورقومی
سلامتی پر مامور افراد کی آنکھ کھول دینے کے لیے کافی ہوجانا چاہیے۔ ابیٹ
آباد آپریشن اس سلسلے کی بنیادی کڑی معلوم ہوتی ہے۔مذکورہ کاروائی وہ
دوراہا ہے جہاں سے امریکا اورپاکستان کے راستے مکمل طورپر جداہوجاتے ہیں۔اب
چاہے سربراہان ِمملکت اسے فتح عظیم کا نام دیں یا اپنے خلاف اعلان جنگ کا
طبل سمجھیں ۔مزید یہ کہ اب تک جس خود مختاری اورآزادی کے دعوے کیے جاتے رہے
ہیں ،اس کی حقیقت فقط اتنی رہ گئی ہے کہ ہر امریکی جارحیت کے بعد دبے لفظوں
ایک مذمتی بیان جاری کردیا جائے۔ زیادہ سے زیادہ منہ توڑ جواب دینے کا
اعلان کرکے قوم کے جذبات کو تھپکی دی جائے۔ یہ امر کسی صاحب نظر سے چھپا
ہوانہیں ہے کہ جس دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ہمارے بے حمیت حکمران امریکا
کی ہاں میں ہاں ملارہے ہیں، وہ اصل میں اپنے پاﺅں پر کھلاڑی مارنے کے متراد
ف ہے۔
چنانچہ سیاسی وعسکری قیادت کی پرزور مذمت کے باوصف 6مئی کو ہونے والے
امریکی ڈرون حملے نے پاکستان کی داخلی وخارجی آزادی کو ایک بار پھر چیلنج
کردیاہے۔ساتھ ہی ہمارا ازلی دشمن اپنی بھانت بھانت کی بولی سے غوغاآرائی
میں مصروف نظرآرہاہے۔گزشتہ حملوں کی طرح حالیہ فضائی حملے میں بھی کسی دہشت
گرد کے مارے جانے کی اطلاع نہیں ہے۔عساکر پاکستان کے سپہ سالار کے صائب
موقف سے یہ تجزیہ اخذ کیا جارہاتھا کہ پاکستان اب اپنی فضائی حدود کی خلاف
ورزی کسی صورت برداشت نہیں کرے گا۔مگر نتیجہ ڈھاک کے تین پات سے مختلف نہ
نکلا۔فی الحقیقت معصوم پاکستانیوں اورغیور قبائلیوں کا خون چھپائے نہیں چھپ
رہا۔محب وطن شہداءکا لہو پکارپکار کر کہہ رہاہے کہ اے ہم وطنوں! عنقریب یہ
آگ تمہاری دہلیز کو چھونے والی ہے۔
اس امر میں کسی شبہے کی گنجائش نہیں ہے کہ اسلامی برادری میں پاکستان ایک
ممتاز مقام رکھتاہے۔جس کے پس منظر میں تقسیم برصغیر اورقیام پاکستان کی
پوری تاریخ موجود ہے۔عالم اسلام میں مادر وطن واحد ایسی مملکت ہے جو
عسکری،نظریاتی،ایمانی اوردفاعی حوالے سے مضبوط حیثیت کی حامل ہے۔یہی وجہ ہے
کہ باطل کے تمام تیروں کا رخ ارض پاک کی جانب مڑچکاہے۔یہاں موجود جوہری
طاقت ،اسرائیل نواز قوتوں کے سینے پر مونگ دل رہی ہے۔عظیم تر اسرائیل کے
منصوبے کے آگے اگر کوئی ملک اپنی آواز بلند کرسکتاہے تو وہ مملکت خداد
ادہے۔ایسے میں بھلا ایک مستحکم ،پرامن اورترقی یافتہ پاکستان آخر انہیں
کیسے قابل قبول ہوسکتاہے ،جن کی پوشیدہ عداوت ان کی زبانوں سے نکل نکل کر
ظاہر ہورہی ہے۔ستم ظریفی کی انتہا ہے کہ امریکی چوکھٹ پر اپنا ماتھا ٹیکنے
اوراس کو اپنا حاجت روا ماننے والے ہمارے ارباب اقتداربھی غیروں کی جنگ میں
معاون وشریک کارہیں۔نتیجتاً نام نہادانتہاپسندی اوردہشت گردی کا خاتمہ تو
کیا ہوتا،الٹاختم نہ ہونے والی بدامنی ،اقتصادی بدحالی اورروز افزوں گرانی
جیسے مسائل نے ملک کو گھیررکھاہے۔قوم پریشان ہے۔غریب اپنی غربت کے ہاتھوں
خود کشی پر مجبورہے۔لوٹ کھسوٹ ،فرائض سے پہلوتہی اورخیانت جیسے معاشرتی
ناسور برساتی کیڑوں کی طرح ہر جگہ سراٹھارہے ہیں۔
متذکرہ حقائق کے پیش نظر امریکی افواج کاآپریشن ”جیرونیمو“ ارض وطن کے خلاف
خطرے کی گھنٹی ہے۔ان حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر فرد اپنی جگہ خود
احتسابی کے اسلحے سے مسلّح ہو ۔اس وقت ایک سچا مسلمان اورمخلص پاکستانی ہی
عالمی طاقتوں کے ناپاک ارادوں کو روکنے میں کلیدی کردار
اداکرسکتاہے۔یقیناآپس کے تفرقات واختلافات کو پس پشت ڈال کر،باہمی اتحاد
واتفاق میںملکی سلامتی وتحفظ کا راز مضمر ہے۔اس وقت عصبیت کے بدبودار نعروں
کوچھوڑ کر اسلامی اخوت کے رنگ میں رنگ جانا،ہماری نجات کی سب سے بڑی دلیل
بن سکتا ہے۔سماج میں موجود خرابیوں کو دور کرنے اور اصلاح ِاحوال پر توجہ
دے کر نہ صرف حق سبحانہ وتعالیٰ کی رضا کا پروانہ حاصل کیاجاسکتاہے، بلکہ
عالمی سامراجوں کی پشت پر ضرب کاری بھی لگائی جاسکتی ہے۔کیونکہ یہی قرآنی
حقیقت بھی ہے اور زمینی واقعات کا موجودہ تقاضا بھی۔ورنہ عیار دشمن کا چھپا
وار سامنے آنے تک بہت کچھ ہاتھ سے نکل جانے کا امکان ہے۔پھر ہماری قسمت میں
کف ِافسوس ملنے کے سوا کچھ نہ ہو گا۔ |