آخر کار تاریخ کا وہ افسانوی
کردار جس نے ایک طویل عرصے تک عالم کفر خصوصاََ امریکہ کی ناک میں دم کئے
رکھا2مئی کو ایبٹ آباد میں امریکی فوجی آپریشن کے نتیجے میں شہید ہو کر
ہمیشہ کیلئے امر ہوگیا۔بات کو آگے بڑھانے سے قبل ہم یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ
شیخ اسامہ بن لادن کے حالاتِ زندگی پر مختصر سی نظر ڈال لیں ۔
اسامہ بن لادن 10مارچ 1957ءکو سعودی عرب میں ایک انتہائی معروف کنسٹرکشن
کمپنی کے مالک محمد بن لادن کے گھر پیدا ہوئے صرف گیارہ سال کی عمر میں ان
کے والد جن کا شمار شاہ فیصل کے خاص دوستوں میں بھی ہوتا تھا ایک ہیلی
کاپٹر حادثے میں جاں بحق ہو گئے۔شہزادوں کی طرح زندگی گزارنے والے اسامہ بن
لادن نے ریاض کی کنگ عبدالعزیز یونیورسٹی سول انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی وہ
زمانہ طالب علمی سے ہی مذہبی رجحانات کی حامل شخصیت تھے لیکن 1979ءمیں
افغانستان پر روسی جارحیت نے ان کی زندگی پر انتہائی گہرے اثرات مرتب کئے
انہوں نے اپنے سرمائے سے مجاہدین کی خوب اعانت کی بعد ازاں خود بھی فریضہ
جہاد کو ادا کرنے کیلئے افغانستان چلے آئے یہی وہ وقت تھا جب پوری دنیا میں
اسامہ کا طوطی بول رہا تھا خود امریکی cia اسامہ کو اسلحہ و تربیت فراہم
کرنے میں پیش پیش تھی۔ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعداسامہ واپس سعودی عرب
چلے گئے۔1990ءمیں ہونے والی خلیجی جنگ میں جب امریکی فوج نے جزیرةالعرب میں
قدم رکھے تو شیخ اسامہ نے اس کو سخت ناپسند کیا اور اسی مسئلے پر ان کے شاہ
فہد کے ساتھ شدید اختلافات پیدا ہو گئے ۔1991ء میں اسامہ نے سعودی عرب کی
شہریت چھوڑ دی اور سوڈان چلے گئے اسی دوران اسامہ کی طرف سے جاری ہونے والے
اس فتویٰ نے عالمگیر شہرت حاصل کی جس میں انہوں نے امریکی مفادات پر حملوں
کو جائز قرار دیا ان کے اس فتوے نے پوری دنیا میں امریکیوں کے خلاف پہلے سے
موجود نفرت میں مزید اضافہ ہو گیا جس سے امریکہ تلملا اٹھا اور اس نے اسامہ
کی گرفتاری کیلئے سوڈان پر دباﺅ ڈالا جس پر اسامہ سوڈان سے افغانستان منتقل
ہو گئے اس وقت تک طالبان افغانستان میں اپنی کامیابیوں کے جھنڈے گاڑھتے
ہوئے تقریباََ80%افغانستان کو اپنے زیرِنگیں کر چکے تھے۔طالبان نے اسامہ بن
لادن کو نہ صرف اپنے ملک میں پناہ دی بلکہ آخر دم تک اپنے بھائی کی حفاظت
بھی کی اس دوران امریکہ نے قندھار میں اسامہ کے مبینہ ٹھکانے پر کروز
میزائلوں سے حملہ بھی کیا لیکن ناکامی امریکہ کا مقدر بنی ۔اس کے بعد
9/11کا وہ حادثہ رونما ہوا جس نے بجا طور پر تاریخ کا دھارا بدل کے رکھ دیا
امریکہ نے اس حادثے کا ذمہ دار اسامہ کو قرار دیتے ہوئے افغانستان سے اس کی
فوراً حوالگی کا مطالبہ کیا جسے طالبان نے پائے حقارت سے ٹھکرا دیا جس پر
امریکہ نے افغانستان پر حملہ کر دیا اس جنگ کے دوران تورا بورا کے پہاڑوں
میں بھی امریکہ اور اسامہ کے حامیوں کے درمیان شدید جنگ ہوئی لیکن یہاں بھی
امریکہ اسامہ کو پکڑنے میں ناکام رہا ۔ تورا بورا کے بعد سے اسامہ کے بارے
میں کوئی یقینی اطلاع کسی کے پاس نہیں تھی کہ وہ کہاں َرہائش پزیر ہے البتہ
سی آئی اے اور موساد کی جانب سے وقتاََ فوقتاَ َاس قسم کے بیانات جاری ہوتے
رہے کہ وہ اسامہ کے بالکل قریب پہنچ چکے ہیں لیکن ماہرین ان بیانات کو اپنی
شکست خوردہ فوج کا مورال بڑھانے کا ایک طریقہ قرار دیتے رہے۔لیکن 2مئی کو
اچانک پاکستان کے شہر ایبٹ آباد سے اسامہ کی برآمدگی اور امریکیوں کی جانب
سے پاکستانی خفیہ ایجنسیوں کو مکمل بائی پاس کرتے ہوئے جس طرح آپریشن کر کے
انہیں شہید کیا یہ واقعہ اپنے پیچھے ان گنت سوالات چھوڑ گیا ہے ۔ان میں سب
سے اہم سوال یہ ہے کہ امریکہ نے پاکستانی سرزمین پر اتنی بڑی کاروائی سے
قبل آئی ایس آئی کو اعتماد میں کیوں نہیں لیا ؟کیا امریکہ آئی ایس آئی کو
طالبان یا القائدہ کا ساتھی سمجھتا ہے ؟اگر ایسا ہے تو اس بات کی کیا ضمانت
ہے کہ کل کلاں امریکہ دوبارہ ایسا مِس ایڈونچر نہیں کرے گا ؟ امریکہ کی اس
ہرزہ سرائی کا جواب کون دے گا کہ پاکستان اسامہ کو پناہ دینے میں ملوث ہے
یا اس نے نا اہلی کا ثبوت دیا ؟یہ تمام سوالات اس بات کی واضح چغلی کھاتے
نظر آتے ہیں کہ مستقبل میں پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات ایک مرتبہ
پھر کشیدہ ہونے جا رہے ہیں ۔یہاں پر ایک قابلِ غور نکتہ یہ بھی ہے کہ وکی
لیکس کے مطابق امریکہ اسامہ کے اس ٹھکانے سے شروع سے ہی باخبر تھا اس نے یہ
آپریشن پہلے کیوں نہیں کیا ؟
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس آپریشن کیلئے امریکہ timingکا خاص طور پر خیال
رکھا ہے اور یقیناََ ایک تیر سے کئی شکار کھیلنے کی کوشش کی ہے مثلاََ یہ
آپریشن ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب امریکی فوجیں افغانستان میں زِچ ہو
کر بھاگنے کی تیاری کر رہی تھیں ،دوم ریمنڈ ڈیوس کیس کے بعد آئی ایس آئی
اور سی آئی اے کے درمیان کشیدگی اپنے عروج پر پہنچ چکی تھی اور اب اسامہ کی
پاکستان میں طویل عرصے سے موجودگی کا راگ الاپ کر پاک فوج اور آئی ایس آئی
کو ایک بار پھر دفاعی پوزیشن پر کھڑا کر دیا گیا ہے اور ہمارے صدر محترم تو
پہلے ہی اسامہ کی شہادت کو ''سب سے بڑی برائی کا خاتمہ''قرار دے کر اپنے
آقا کی غلامی کا حق ادا کر چکے ہیں ۔حالانکہ اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے
حقیقی دوستوں اور دشمنوں کو پہچانتے ہوئے اور قومی سلامتی کے پیشِ نظر نئے
سرے سے موثر اور جامع حکمتِ عملی مرتب دیں ورنہ پھر بہت دیر ہو جائےگی۔ |