دنیا میں 26 لاکھ سے زائد افراد کورونا وائرس سے
متاثرہوچکے ہیں جبکہ ہلاک ہونے والوں کی تعداد ایک لاکھ 82 ہزار سے تجاوز
کرگئی ہے۔انڈیامیں ایک دن میں کوروناکے تقریباً ڈیڑھ ہزارمریض سامنے آئے
ہیں جبکہ اترپردیش میں طبی عملے پر حملہ کرنے والے پانچ افراد میں وائرس کی
تشحیص ہوگئی ہے۔ پاکستان میں 22/اپریل 2020ء کوکورونا وائرس کے مریضوں کی
تعداد 10520اور224 داعی اجل کولبیک کہہ چکے ہیں جبکہ صحت یاب ہونے والوں کی
تعداد2337ہے۔یہ تعدادجنوبی ایشیاکے کسی بھی اورملک کے مقابلے میں زیادہ
نہیں۔کورونا سے نمٹنے کے حوالے سے ابتدائی مرحلے میں صوبوں نے اپنے
طورپراقدامات توکئے ہیں لیکن آج ڈاکٹروں کی تنظیم نے عمران خان سے فوری
طورپرمکمل لاک ڈاؤن کامطالبہ کردیا ہے کہ جزوی لاک ڈاؤن کی وجہ سے مریضوں
کی تعدادخطرناک حدسے بھی تین گنازیادہ تجاوزکرگئی ہے۔اس وقت صوبوں میں لاک
ڈاؤن مختلف درجات میں نافذ ہے جو غیرتسلی بخش ہے۔
ایران سے آنے والے زائرین کوالگ تھلگ رکھنے کے حوالے سے کوتاہی کاارتکاب
کیاگیا۔وزیراعظم بھی اس حوالے سے تذبذب کا شکارہیں۔سعودی عرب سمیت
بیشترمسلم ممالک نے باجماعت نمازپرجوپابندی عائد کی تھی وہ ماہ رمضان
المبارک کی وجہ سے نرم کردی گئی ہےمگرپاکستان میں اس حوالے سے نیم دلانہ
فیصلے کیے گئے ہیں اوروہ بھی خاصی تاخیرسے۔ایک بنیادی حقیقت یہ بھی ہے کہ
پاکستان میں صحتِ عامہ کی وزارت اورنجی اسپتال اس وباسے نمٹنے کی خاطرخواہ
اہلیت کے حامل نہیں۔ غیرمعمولی بیماریوں یاوباؤں سے نمٹنے کی صلاحیت
پاکستان کے شعبۂ صحت سے متعلق اداروں میں برائے نام ہے ۔ کورونا وائرس کے
ہاتھوں ہلاک ہونے والوں میں چندڈاکٹراورنرسزبھی شامل ہیں۔ڈاکٹراورپیرامیڈکس
شدید خطرناک حالات میں کام کر رہے ہیں کیونکہ اُنہیں کوروناکے مریضوں کے
علاج کے دوران محفوظ رکھنے والاسامان (لباس، کٹ وغیرہ) بھی میسر نہیں۔
پاکستان میں صحتِ عامہ کے حوالے سے بنیادی ڈھانچاچونکہ انتہائی خراب حالت
میں ہے اس لیے اگریہاں کوروناوائرس کی وبا نے زورپکڑا(جس کاشدید خدشہ
ظاہرکیاگیاہے)توانتہائی سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔ سیاسی سطح پرکوتاہیوں
کاارتکاب ہواہے۔فوج نے ہمیشہ کی طرح اپنی مہارت ثابت کی ہے۔
کوروناچین کے شہرووہان سے پھیلا۔اس حقیقت کے بے نقاب ہوتے ہی باقی دنیانے
چین سے تعلق ختم کرناشروع کیا۔ بہت سے ممالک نے چین سے طلبہ سمیت اپنے
شہریوں کونکالنے کوترجیح دی۔ یہ بہت حدتک چین سے امتیازی سلوک تھا۔ایسے میں
پاکستان نے اُس کے ساتھ کھڑے ہونے کافیصلہ کیااور اپنے800طلبہ کووہاں سے
نہیں نکالا۔ یہ بھرپوردوستی اوریکجہتی کاثبوت تھا۔
پاکستان میں کوروناوائرس بظاہراُن زائرین کے ہاتھوں پھیلاجوایران سے واپس
آئے تھے۔ابتدائی مرحلے میں اُنہیں خاطرخواہ اہمیت نہیں دی گئی،الگ تھلگ
نہیں رکھاگیا۔جب معاملہ بگڑگیاتب13مارچ کو سخت تراقدامات کیے گئے۔یہ بات
کھل کرسامنے آئی کہ کوروناکے ہاتھوں پیداہونے والی صورتِ حال سے نمٹنے میں
کچھ غلطی ہوئی۔بہرکیف ایران اورافغانستان سے ملحق سرحد بند کردی گئی۔تعلیمی
اداروں کوبھی بندکردیاگیا۔وفاقی حکومت نے خصوصی رابطہ کمیٹی قائم کی
اورقدرتی آفات سے نمٹنے کیلئے بنائے گئے ادارے (پی ڈی ایم اے) کوبھی الرٹ
کردیاگیا۔مزید سخت اقدامات بھی خارج ازامکان نہیں۔
حکومت نے تبلیغی جماعت والوں پربھی زورڈالاکہ وہ اپنی سرگرمیوں کومعطل
یامحدودکردیں۔جب کورونا وائرس کے باعث پیدا ہونے والی صورتِ حال خاصی کشیدہ
ہوچکی تھی تب بھی 12مارچ کوتبلیغی جماعت کااجتماع ہواجس میں کم وبیش ڈیڑھ
لاکھ افرادشریک تھے۔اس کے بعدلوگوں کے جمع ہونے پرپابندی لگائی گئی
مگرشایدتب تک بہت دیرہوچکی تھی۔
ایران سے آنے والوں کو13مارچ کے بعدقرنطینہ میں رکھاجانے لگا۔تفتان میں اس
حوالے سے سہولتیں برائے نام تھیں۔قرنطینہ کا یہ حال تھاکہ وہاں رکھے جانے
والے لوگوں کومقامی بازارتک جانے اوروہاں سے ضرورت کی اشیاخریدنے کی اجازت
بھی دی جاتی تھی۔نہ توٹیسٹ کیے گئے اورنہ ڈھنگ سےالگ تھلگ
رکھاگیا۔بظاہرحفاظتی تدابیراختیارکیے بغیرہی اُنہیں گھرجانے کی اجازت بھی
دی گئی۔صوبائی حکومتوں نے ایران سے واپس آنے والوں کی اسکریننگ اپنے
طورپراوراپنے وسائل سے شروع کی۔ جن کے ٹیسٹ مثبت آئے انہیں قرنطینہ میں
ڈال دیاگیا۔ایران سے واپس آنے والوں میں سے اب تک600سے زائدافرادمیں
کورونا وائرس پایاگیاجبکہ تبلیغی جماعت کے اب تک دودرجن افرادکااندراج ہوا۔
ایران سے آنے والے بعض زائرین نے قرنطینہ سے بھاگنے کی کوشش بھی کی
اورکامیاب بھی رہے۔
پاکستان میں کوروناکے ہاتھوں پہلی موت ایک ایسے شخص کی ہوئی جو9مارچ
کوسعودی عرب سے واپس آیاتھااورمبینہ طورپر کورونا وائرس کا شکارہوچکاتھا ۔
عمرے سے واپسی پرگاؤں میں اُس کے اعزازمیں تقریب کااہتمام کیاگیاجس میں کم
وبیش400 افراد شریک ہوئے۔ لوگوں نے اُسے گلے لگاکرمبارک باددی۔16مارچ
کوڈاکٹروں نے چیک اپ کے بعداُسے الگ تھلگ رہنے کا مشورہ دیاتھا۔اس مشورے
پراُس نے عمل نہ کیااورگھرواپس چلاگیا۔ 19 مارچ کواس کاانتقال
ہواتوانتظامیہ نے پورے گاؤں کوسیل کرکے قرنطینہ میں تبدیل کردیا۔
پاکستان میں گھرانے بڑے ہیں یعنی ایک گھرمیں بالعموم 3تا6بچے ہیں۔میل جول
بھی زیادہ ہے۔ایسے میں قرنطینہ کے اصول پر پوری طرح عمل کرانا انتہائی
دشوارہے۔کوروناکی وبااگرپاکستان میں جوبن تک پہنچی توانتہائی خطرناک صورتِ
حال پیداہوگی۔
عمران خان نے قوم سے خطاب میں کہاہے’’گھبرانانہیں‘‘ ۔ یہ جملہ سوشل میڈیا
پربہت چلایاگیا۔عمران نے لاک ڈاؤن سے انکارکیا کہ یومیہ اجرت کی
بنیادپرکام کرنے والے غریب لاک ڈاؤن کے نتیجے میں مکمل بے روزگار ہوجائیں
گے۔ایسی حالت میں معیشت کابگاڑبڑھے گا۔ انہوں نے کوروناسے بچاؤکی ایک اہم
تدبیرکے طورپرقوم کومشورہ دیا کہ ایک دوسرے سے دور رہیں۔وہ اپنے خطاب کے
دوران قوم کویہ یقین دلانے میں ناکام رہے کہ کوروناانتہائی خطرناک وباہے۔
18ویں ترمیم کے نتیجے میں صوبوں کوبعض امورمیں اختیارات مل گئے ہیں۔یہی سبب
ہے کہ صوبائی حکومتوں نے لاک ڈاؤن کا فیصلہ اپنے طورپرکیا۔ سندھ نے23مارچ
کولاک ڈاؤن کااعلان کیا،باقی صوبوں نے جزوی لاک ڈاؤن کااعلان کیا،سب اپنے
اپنے طورپرکام کررہے ہیں۔سندھ حکومت نےفوج سے مدد طلب کی ہے۔
پاکستان نے پہلے مرحلے میں بیرونی پروازیں بندکیں اورپھراندرونی پروازوں
پربھی تاحکم ثانی پابندی عائدکردی۔ یہ سب کچھ درست مگرعمران اب تک لاک
ڈاؤن کے اعلان سے گریزاں ہیں۔ان کاکہناہے کہ لاک ڈاؤن کردیاتووائرس کے
مقابلے میں بھوک سے زیادہ لوگ مریں گے۔عمران بظاہرنہیں چاہتے کہ عوام کیلئے
پریشانی کاباعث بننے والے فیصلے کریں۔انہوں نے ایک ہزار ارب ڈالر سے زیادہ
کے امدادی پیکیج کااعلان بھی کیا،انہوں نے میڈیاکا سامنابھی کیاتاہم اب تک
بھرپور سنجیدگی ثابت کرنے میں ناکام رہے ہیں۔انہوں نے کرفیونافذکرنے کی
تجویزبھی مستردکردی ہے۔ایسالگتاہے کہ عمران نے کوروناکی نوعیت اور اثرات کے
بارے میں غلط تصورقائم کرلیاہے۔اگروباپھیلی تولاک ڈاؤن سے کہیں زیادہ
پریشان کن صورتِ حال پیدا ہو گی اور ہلاکتوں کاگراف بھی بلندہوجائےگا۔عمران
کوشایداس بات کااندازہ نہیں کہ وائرس کاپھیلاؤروکنے میں ناکامی ہوئی
توپبلک ہیلتھ سسٹم پرشدیددباؤ پڑے گا۔پاکستان کاپبلک ہیلتھ سسٹم اتنابوجھ
اٹھانے کی سکت نہیں رکھتا۔عمران کے بارے میں یہ تاثرعام ہے کہ وہ کسی کی
سنتے بھی نہیں اورذہن بھی تبدیل نہیں کرتے۔
عمران بظاہربحرانی کیفیت سے نمٹنے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتے۔توقع کرنی
چاہیے کہ وہ جلداپناذہن تبدیل کریں گے اور لاک ڈاؤن کی طرف جائیں گے۔فوج
ایسی صورتِ حال سے استفادہ کرنے کیلئے تیاررہتی ہے۔ملک کے معاملات پراس
کاتصرف بھی بڑھے گااوراس کی مقبولیت بھی بڑھے گی۔اس کااندازہ اس بات سے بھی
لگایاجاسکتاہے کہ23مارچ کوآئی ایس پی آرکے سربراہ نے پریس کانفرنس کی جس
میں ان کالہجہ’’وزیراعظمانہ‘‘تھا۔یہ پریس کانفرنس بظاہروزیراعظم کے خیالات
کے مقابل دوسری رائے پیش کرنے کیلئے تھی۔اب اپوزیشن بھی ملک گیرلاک ڈاؤن
کے نفاذکامطالبہ کررہی ہے۔
کوروناکے ہاتھوں پیداہونے والی صورتِ حال سے نمٹنے کیلئے سندھ حکومت نے
باجماعت نمازاورنمازجمعہ پرپابندی عائد کرنے کااعلان کیا۔اس معاملے میں
حکومت اورعلمائے کرام دونوں کی طرف سے تذبذب کااظہارکیالیکن انہوں نے
عملاًمکمل تعاون کااظہارکیا۔علمائے کرام کی طرف سے ردعمل کے خوف سے حکومت
نے مساجد بندکرنے کااعلان نرم کردیا۔لوگ بھی مساجد کارخ کرتے رہے۔ایک طرف
تویہ بات ہے کہ لوگوں کے نزدیک یہ اللہ سے رجوع کرنےکاوقت ہے اوردوسری طرف
لوگوں نے یہ بھی سوچاکہ جب حکومت نے مساجد بندنہیں کیں توشاید کوروناکاخطرہ
بہت بڑانہیں ہے۔ علماکرام سے مشاورت کے بعد 26مارچ کوسندھ حکومت نے اعلان
کیاکہ لوگ نماز جمعہ کے بجائےگھروں پرظہرکی نمازپڑھیں تاہم مساجدکوتالانہیں
لگایا جائے گا۔باجماعت نمازکوپانچ افرادتک محدود کرنے کابھی اعلان کیاگیا۔
پاکستان کے صدرڈاکٹرعارف علوی نے16اور17مارچ کوچین کادورہ کیا۔انہوں نے
پاکستان میں کوروناکے بڑھتے ہوئے واقعات کودیکھتے ہوئے چین سے مددچاہی۔چین
نےملین ماسک،آلات اورکٹس بھی عطیہ کی ہیں۔اگروفاق نے لاک ڈاؤن کااعلان
کیا تو پولیس اوررینجرزسے مددلیناپڑے گی۔ فوج سے مددلیے بغیربھی چارہ نہ
ہوگا۔یہ حقیقت ذہن نشین رہنی چاہیے کہ پاکستان کے دورافتادہ علاقوں میں لاک
ڈاؤن پرزیادہ عمل کراناممکن نہ ہوگا۔ شہروں کے گنجان آبادعلاقوں میں بھی
یہی کیفیت ہوگی۔ پاکستان کی آبادی میں 64فیصد ایسے ہیں جن کی عمر30سال سے
کم ہے۔کوروناسے نبردآزما ہونے کی صلاحیت پاکستانیوں میں زیادہ ہے تاہم اس
حوالے سے محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ نوجوان بھی اس وائرس کاشکارہوسکتے
ہیں۔عمران کومزید وقت ضائع نہیں کرناچاہیے۔لوگ الجھ گئے ہیں۔ 26مارچ
کووفاقی حکومت کی پریس کانفرنس میں عمران نہیں تھے۔وفاقی وزیرمنصوبہ بندی
اسدعمر میڈیاکے سامنے آئے۔عمران کیلئےمشورہ ہے کہ معجزے کاانتظارنہ
کیاجائے،مکمل لاک ڈاؤن کااعلان کیاجائے۔لاک ڈاؤن کامتبادل ایسی خرابی ہے
جس کاپاکستان متحمل نہیں ہوسکتا۔
ادھرتوقع کی جا رہی ہے کہ جمعرات کے روزہونے والی ویڈیو کانفرنس میں یورپی
یونین کوروناوائرس کے بحران سے متاثرہ ممالک کیلئے ایک بڑے امدادی پیکیج
پردستخط کرے گا۔500/ارب کے اس امدادی پیکج پراتفاق یورپی یونین کے شمال میں
امیر ممالک اورجنوب کی کمزورمعیشتوں کے مابین تلخ کلامی کے بعدکیاگیاتھا۔
|