مغرب کی ”علم دوستی “وانسانیت نوازی ۔ایک تازہ مثال

محمداسماعیل ریحان

مغرب کی علمی تحقیقات خصوصاً امریکی ڈاکٹروں کے ارشادات آج کل ہمارے علمی حلقوں میں وحی سے بھی کچھ زیادہ مستند مانے جاتے ہیں۔وحی کے احکام میں تو شک وشبہے کی ہزاروں راہیں نکل آتی ہیں، مگر امریکن دانش ور جو فرما دیں ،اس کے تحقیق شدہ ہونے پر بلاچوں چراں یقین کر لیا جاتا ہے۔یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ ان حضرات نے جو کچھ لکھا ہوگا اس میں زمین وآسمان کے سارے وسائل استعمال کر لیے ہوں گے۔اس قدر عرق ریزی اور باریک بینی سے کام لیا ہوگا جس سے زیادہ انسانی بساط سے باہر ہے۔اس کے بعد سامنے آنے والے نتیجے کو کسی تعصب کے بغیر من وعن بیان کر دیا ہوگا۔

ہماری اسی اندھی عقیدت سے فائدہ اٹھا کر دشمن جس طرح ہمیں دیگر میدانوں میں مات دے رہا ہے اسی طرح تاریخ کو بھی مسخ کرتا جا رہا ہے۔تاریخ کی اس پامالی کا ایک نہایت مکروہ پہلو یہ ہے کہ گزشتہ دو عشروں سے امریکی دانش ور تاریخ کی ہر اس شخصیت کو ہیرو بنا کر پیش کرنے کی تگ ودو کر رہے ہیں جس نے کسی بھی دور میں مسلمانوں کو غیرمعمولی طور پر نقصان پہنچایا ہو۔ چاہے وہ کسی بھی ملک یا مذہب سے تعلق رکھتا ہو۔

اس سلسلے کی سب سے شرمناک مثال گزشتہ چار پانچ سالوں میں سامنے آئی ہے ،جب امریکہ نے چنگیز خان کو دنیا کے محسن کے طور پر مشہور کرنا شروع کیا۔اس کے لیے ۵۰۰۲ءمیں خصوصی مہم چلائی گئی کیونکہ اس سال چنگیز خان کی ولادت کے آٹھ سو سال پورے ہو رہے تھے۔اُسی سال ۲۲ نومبر کو امریکی صدر جارج بش نے چنگیز خان کی جنم بھومی منگولیا کا دورہ کیا جہاں منگولیا کی فوج نے چنگیز خان کے دور کی قدیم فوجی وردیوں میں ملبوس ہوکر امریکی صدر کا استقبا ل کیا۔صدر بش کو تاتاریوں کے قدیم رواج کے مطابق گھوڑی کا دودھ پیش کر کے چنگیزی دور کی یادیں تازہ کی گئیں،اس موقع پر صدر بش نے چنگیز خان کے کردار کو سراہتے ہوئے کہا کہ ہم منگولوں جیسی بہادر قوم کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شریک ہیں۔ بش نے یہ اعلان بھی کیا کہ اب اسلامی بنیاد پرستی ناکام ہو کر رہے گی۔

بش کے منہ سے چنگیز خان کی اس برملا تعریف پر اصحاب ِعقل وخرد حیران رہ گئے کیونکہ اپنے ہمسایہ ملکوں پر چنگیز خان کا حملہ تاریخ کا ایک ایسا باب ہے جس میں ہر طرف لہو کے دریا بہتے نظر آتے ہیں۔ چنگیز خان کا پہلا حملہ چین اور کوریا پر ہوا تھا،اس کے بعد اس نے عالم اسلام کا رخ کیا تھا۔اس کے جرنیل مشرقی یورپ میں بھی گھس گئے تھے مگر یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اس کی سفاکیت کا اصل نشانہ عالم اسلام ہی بنا تھا۔مغربی مؤرخین خود اعتراف کرتے ہیں کہ چنگیز خان نے عالم اسلام میں جس قدر تباہی مچائی ،وہ چین اور دوسرے ملکوں سے کہیں زیادہ تھی۔گزشتہ صدی کا نامور امریکی مؤرخ ہیرلڈ لیمب اپنی تصنیف ”چنگیز خان “میں تسلیم کرتا ہے کہ چنگیز خان نے جیسی سفاکی کا ثبوت عالم اسلام میں دیا،اس کی مثال چین اور دوسرے ملکوں میں نہیں ملتی۔وہ چنگیزی حملے پر اظہار ِتاسف کرتے ہوئے لکھتا ہے :”یہ بغیر منافرت کے بنی نوع آدم کا قتل عام تھا جس کا مقصد محض انسانوں کو فنا کرنا تھا “(چنگیز خان باب ۷۱ ،ص ۷۳۱)

پھر یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ عالم اسلام میں بھی منگولوں کی تلواریں اہل سنت والجماعت کی آبادیوں کو بے دریغ صفحہ ہستی سے مٹاتی چلی گئیں،جبکہ گمراہ فرقے بڑی حدتک محفوظ رہے ،وجہ یہ تھی کہ ان کے عمائد اکثر مواقع پر حملہ آوروں کا نہ صرف ساتھ دیتے رہے بلکہ ان کو مسلم ملکوں پر حملوں کے لیے اکساتے بھی رہے۔ علامہ ذہبی نے لکھا ہے : تاتاریوں نے واسط سے ہرات کی طرف کوچ کیا تو پہاڑوں میں روپوش ایک تاجر اپنے چند ساتھیوں سمیت باہر نکلا اور لاشیں گننے لگا،وہ بتاتا ہے کہ ہم سات افراد نے پانچ لاکھ ،پچاس ہزار لاشیں شمار کیں،پھر ہم باطنیوں(اسماعیلی شیعوں) کے شہروں سے گزرے ، تو دیکھا وہاں سب کچھ سلامت تھا،ذرا بھی فرق نہیںپڑ اتھا۔“(تاریخ اسلام ذہبی ،احوال۷۱۶ھ)

اسی طرح بغداد کی بیس لاکھ آبادی میں سے اٹھارہ لاکھ اہل سنت کو قتل کر دیاگ یا،جبکہ اہل تشیع کے محلے کرخ کی دو لاکھ آبادی کو بخش دیا گیا۔(البدایہ والنہایہ احوال ۶۵۶ھ)

ایک ایک شہر اور ریاست میں اسی طرح لاکھوں مسلمان قتل کیے گئے جن کی مجموعی تعداد تین کروڑ سے متجاوز ہوجاتی ہے۔غرض تاریخ انسانی کے اس بھیانک ترین قتل عام کا اصل نشانہ عالم اسلام کے ممالک اور عالم اسلام میں سے اہل سنت والجماعت کے علاقے بنے ۔

عقیدے کی تفریق سے قطع نظر جو لوگ بھی اس حملے کا شکار ہوئے وہ انسان تھے اور اسی لیے آج تک کسی مؤرخ یا محقق نے چنگیز خان کی اس سفاکی کو جائز قرار نہیں دیا۔حتیٰ کہ خود چنگیز خان کے اپنے ہم قوم مؤرخین نے اس کی فتوحات ،تنظیم،قانون سازی اور اصلاحات کی تو تعریف کی ہے مگر اس کی خونریزی کے جواز کے لیے وہ بھی کوئی توجیہہ تلاش نہیں کرسکے۔

مگر شاباش ہے امریکی محققین کو کہ جب انہوں نے ۵۰۰۲ءمیں چنگیز خان کو ہیرو بنانے کا تہیہ کیا تو۰۱۰۲ء میں اس کی خونریزی کو بھی قابل تعریف قرار دے دیا اور اپنے زعم میں اس کے لیے ایک ٹھوس وجہ بھی وجہ تلاش کر لی۔

چنگیز خان کی تعریف وتوصیف کا پہلو ظاہر کرنے والی یہ جدید تحقیق امریکہ کی ایک خاتون ڈاکٹر ”جولیا پونگریٹنز“(Julia Pongratz)نے کی ہے ۔جولیا گلوبل ایکولوجی کے شعبے سے تعلق رکھتی ہے، اس نے ماحولیاتی آلودگی کے بارے میں اپنی تحقیق میں کہا ہے کہ چنگیز خان سب سے زیادہ ماحول دوست فاتح تھا جس کی سرگرمیوں نے گلوبل وارمنگ کم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔اگر وہ انسانوں(جن میں تین چوتھائی سے زیادہ مسلمان تھے) کا قتل عام نہ کرتا تو گلوبل وارمنگ بہت پہلے ایک شدید بحران کی شکل اختیار کر لیتی ۔جولیا کا کہنا ہے کہ یہ تصورغلط ہے کہ ماحولیاتی آلودگی کا آغاز تیل اور کوئلے سے چلنے والے کارخانوں کے بعد ہوا۔جولیا نے دعویٰ کیا کہ ماحول اسی وقت سے آلودہ ہونا شروع ہوگیا تھا جب انسانوں نے جنگل کاٹ کاٹ کر دیہات آباد کیے اور فصلیں اگانا شروع کیں۔جولیا چنگیز خان کو انسانیت کا محسن ثابت کرتے ہوئے کہتی ہے کہ چنگیز خان کے حملے کی وجہ سے وسیع قطعات ِاراضی طویل زمانے تک انسانی سرگرمیوں سے خالی رہے ،چنانچہ وہاں جنگلات اگ آئے جو کاربن ڈائی آکسائڈ کی بڑی مقدار کو جذب کرنے کے لیے کافی تھے۔اس طرح انسان ایک مدت تک صاف ہوا میں سانس لینے کے قابل ہوگیا۔

یاد رہے کہ یہاں جن قطعات ِاراضی کا ذکر ہو رہا ہے ان میں موجودہ افغانستان و خیبرپختونخواہ،قبائلی علاقہ جات،سندھ کا ساحلی علاقہ ،بلوچستان ،ایران ،وسط ِایشیا کی پانچ ریاستیں(تاجکستا ن،ترکمانستان ،ازبکستان ،کرغیزستان اور قازقستان)،عراق ،شام اور ترکی جیسے اسلامی تہذیب وتمدن کے بڑے بڑے گہوارے شامل ہیں جنہیں اس بدبخت چنگیز نے اس طر ح پامال کیا کہ صدیوں تک وہاں پہلے جیسی آبادی نہ ہوسکی۔ ہیرلڈ لیمب لکھتا ہے: ”اس قتل عام نے عالمِ اسلام کے قلب کو ایک طرح کا چٹیل میدان بنا دیا۔حکم یہ تھا کہ مسمار شدہ شہروں میں پھر سے انسان آباد نہ ہونے پائیں، ان شہروں کے نشان اس سرزمین پر داغوں کی طرح باقی رہتے جو کسی زمانے میں بڑی زرخیز تھی۔“(چنگیزخان باب ۷۱ ،ص ۷۳۱)

مگر کمال ہے کہ آج ایک مریکن ہی نے اس قتل عام کو نیکی ثابت کر دکھایا اور نسل ِانسانیت کے سب سے بڑے قاتل کو محسن ِانسانیت قرار دے دیا۔

یہ گمان نہ کیجئے کہ اس ”انوکھی نکتہ آفرینی“ پر موصوفہ کو دھری دھری لعنتیں ملی ہوں گی اور ایک متعصبانہ وانسانیت کُش مفروضے کو تحقیق کے نام پر پیش کرنے کی جسارت پر اسے تحقیقی ادارے سے برخواست کردیا ہوگا۔ جی نہیں ،ڈاکٹرنی کو اس پر۰۱۰۲ ءکاپیٹر کوپن ایوارڈ بھی مل چکا ہے۔

مغرب کی جدید علمی تحقیقات کے ایسے نمونے دیکھنے کے بعد مجھے یہ یقین ہو چلا ہے کہ اہل مغرب کے نز دیک اہلمشرق کو حیوان سمجھنے کی ذہنیت نہ صرف باقی ہے بلکہ رُوبہ ترقی ہے۔آج بھی وہاں مسلمانوں کو انسان نہیں سمجھا جاتا۔اپنے سوا وہ سب کو کیڑے مکوڑے تصور کرتے ہیں ۔مذکورہ تحقیق کو دیکھ کر بالکل ایسا لگتا ہے جیسے کسی کے گھر کے سامنے مردار جانوروں کا ڈھیر پڑا تھا جسے کسی خاکروب نے آکر صاف کردیا۔ اب گھر کے مالکان خاکروب کی تعریف کر رہے ہیں کہ اگر وہ یہ ہمت نہ کرتا تو انہیں سانس لینے میں کتنی مشکل پیش آتی۔
Muhammad Faisal shahzad
About the Author: Muhammad Faisal shahzad Read More Articles by Muhammad Faisal shahzad: 115 Articles with 174762 views Editor of monthly jahan e sehat (a mag of ICSP), Coloumist of daily Express and daily islam.. View More