وزیراعظم عمران خان کی ہدایت پر وفاقی کابینہ نے ملکی
تاریخ میں پہلی مرتبہ قادیانیوں کو نیشنل کمیشن برائے اقلیت میں بطور غیر
مسلم شامل کرنے کا اصولی فیصلہ کیا ہے ۔ وزارت مذہبی امور کو نیشنل کمیشن
کی تشکیل نو کیلئے ہدایات جاری کر دی گئی ہیں ۔ کابینہ ارکان نے تجویز دی
تھی کہ آئین کے مطابق احمدی کمیونٹی کو غیرمسلم قرار دیا جا چکا ہے ۔ کمیشن
کا سربراہ بھی اقلیتی ممبر کو بنایا جائے ۔ اس فیصلے کے بعد مذہبی حلقوں
اور مفکرین کی جانب سے دو طرح کی آراء سامنے آئی ہیں۔ ایک طبقے کے مطابق
قادیانیوں کو قومی اقلیتی کمیشن میں شامل نہیں کیا جاسکتا کیونکہ وہ اپنے
آپ کو غیر مسلم اقلیت نہیں سمجھتے ۔انہوں نے دنیا میں اپنے آپ کو احمدی
مسلم کے طور پر متعارف کرایا ہوا ہے۔جبکہ دوسرے طبقے کا مؤ قف یہ سامنے آیا
کہ حکومت کے اس فیصلے میں کوئی مضائقہ نہیں بلکہ یہ تو مسلمانوں کے حق میں
بہتر فیصلہ ہے کہ اس کی منظوری کے بعد ہر فورم پر قادیانیوں کو اپنے آپ کو
غیر مسلم اقلیت کہنا لازم ہوجائے گا۔ یہاں دوسرا مؤقف بظاہر بھلا معلوم
ہوتا ہے کہ اس سے قادیانیوں کا گھیرا مزید تنگ ہوجائے گا اور ان کے تابوت
میں یہ کیل بھی ٹھونک دی جائے گی کہ وہ اپنے آپ کو غیر مسلم اقلیت تسلیم
کریں اور اسی حیثیت سے مذہبی رسومات انجام دیں۔ اسی بات کے پیشِ نظر بعض
ماہرین اور مفکرین اس فیصلے کو قادیانیوں کے خلاف سمجھ رہے ہیں ۔ بظاہر تو
یہی معلوم ہوتا ہے کہ حکومت کا یہ فیصلہ قادیانیوں کے خلاف ہے۔ لیکن عقل یہ
تسلیم کرنے سے قاصر ہے کہ موجودہ حکومت کوئی فیصلہ کرے اور وہ قادیانیوں کے
خلاف ہو۔ ناممکن ہے۔ بہرحال بات تعصب یا جذباتیت کی نہیں ہے۔ اس فیصلے کو
تعصب کی عینک اتار کر اور جذباتیت کو بالائے طاق رکھ کر حقائق کی روشنی میں
دیکھنے سے واضح ہوگا کہ یہ مسئلہ اتنا آسان نہیں ہے جتنا سمجھا اور سمجھایا
جارہا ہے۔
حکومت کے اس فیصلے کو گذشتہ فیصلوں کے تناظر میں دیکھنا ہوگا ۔
مثلاً:قادیانی مبلغ عاطف میاں کی بحیثیت مشیر تعیناتی کا معاملہ، آسیہ مسیح
کی رہائی، کرتارپور راہداری ، اسکول کالجز میں اسلامیات پڑھانے کے لیے غیر
مسلم اساتذہ کی تعیناتی ، ختم نبوت کے حلف نامے میں تبدیلی، حج فارم سے ختمِ
نبوت کا کالم حذف کرنے کا معاملہ وغیرہ ۔ اور سب سے بڑھ کر گذشتہ دنوں
امریکی کمیشن کی سالانہ رپورٹ جاری کی گئی جس میں پاکستان میں مذہبی آزادی
کے حوالے سے مثبت پیش رفتوں کا اعتراف کیا گیا جن میں کرتار پور راہداری
کھولنا، پاکستان کا پہلا سکھ یونیورسٹی کھولنا، ہندو مندر کو دوبارہ کھولنا،
توہین مذہب الزامات پر سپریم کورٹ اوراقلیتوں کے خلاف امتیازی مواد کے ساتھ
تعلیمی مواد پر نظر ثانی کے پاکستانی حکومتی اقدامات بھی شامل ہیں۔ یعنی
امریکی کمیشن کی رپورٹ میں پاکستان کے اسلام مخالف اقدامات کو سراہا گیا ہے۔
اسی طرح قادیانیت کے موجودہ خلیفہ مرزا مسرور کا علی الاعلان کہنا کہ
پاکستان کے قانون میں احمد یوں کے لیے نرمی ہوگی۔
لہٰذا ان تمام حقائق کے تناظر میں موجودہ فیصلے کو پرکھنے سے اظہر من الشمس
ہوتا ہے کہ یہ فیصلہ بھی قادیانیوں کو 1974ء کے آئین سے آزاد کرانے کے لیے
’’چور ‘‘ راستے کا انتخاب ہے۔ اس وقت آئین میں قادیانیوں کی پوزیشن یہ ہے
کہ وہ اپنے مذہب کی تبلیغ نہیں کرسکتے ، اپنی عبادت گاہوں کو مساجد نہیں
کہہ سکتے ، اذان نہیں دے سکتے وغیرہ وغیرہ ۔ لیکن جوں ہی کمیشن کا حصہ بن
کر غیر مسلم اقلیت قرار دے دیے جائیں گے تو اقلیتوں کے حقوق کے تناظر میں
وہ اپنے مذہب کی تبلیغ کے لیے آزاد ہوجائیں گے۔ قادیانیوں کو غیر مسلم
اقلیت قرار دینے کا مطلب یہ ہوگا کہ انہیں اپنے مذہب کے پرچار اور مذہبی
رسومات کی ادائیگی کی مکمل آزادی دے دی گئی۔ وہ جس طرح چاہیں عبادت کریں
اور اپنے مذہب کی تبلیغ کریں، کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی۔ کوئی بھی ان کے خلاف
آواز نہیں اٹھاسکے گا، جب ان کے خلاف آواز اٹھائی جائے گی کہ قادیانی اپنے
مذہب کی تبلیغ کرکے مسلمانوں کو گمراہ کررہے ہیں تو سامنے سے جواب دیاجائے
گاکہ آئین کی رو سے اقلیتیں اپنے مذہب کی تبلیغ میں آزاد ہیں لہٰذا اقلیتوں
کے حقوق سلب نہیں کیے جاسکتے۔
لہٰذا علماء اور مسلمان ماہرینِ قانون کو درج بالا تمام خدشات کے پیشِ نظر
موجودہ فیصلے کے خلاف لائحہ عمل تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ جذباتیت میں کوئی
بھی ایسا فیصلہ نہ ہوجائے جو بظاہر تو بھلا معلوم ہورہا ہو لیکن بعد میں
وبالِ جان بن جائے۔
|