پال گھر اور بلند شہر کے حالیہ سانحات میں سادھووں کا قتل
مشترک ہے۔ اسلام میں چونکہ کسی بھی فرد کے بلاجواز قتل کو ساری انسانیت کا
قتل قراردیا گیا ہے اس لیے دنیا کا ہر مسلمان ان واقعات کی مذمت کرتا ہے
اور اس کا ارتکاب کرنے والوں کے سخت ترین سزا کا مطالبہ کرتا ہے۔ اسلام کی
نظر میں عام و خاص کی تفریق نہیں وہ انسان کی حیثیت سےگرو اور چیلا کی جان
کو یکساں اہمیت دیتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ذرائع ابلاغ کا معاملہ بالکل
مختلف ہے وہ نہ صرف مارنے والے اور مرنے والوں کے اندر تفریق و امتیاز کرتا
ہے بلکہ قاتل و غارتگری کس کی حکومت میں ہوئی اس کو ابھی اہمیت دیتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ پالگھر کے سانحہ کو لے کر جو شور شرابہ میڈیا کے ذریعہ ہوا
ویسا ہنگامہ بلند شہر کے واقعہ پر نہیں کیا گیا حالانکہ ایک جگہ چور سمجھ
کر سادھو کا قتل ہوا اور دوسرے مقام پر ایک چور نے سادھو کو قتل کردیا ۔
بلند شہر ضلع کے انوپ شہر علاقہ میں پاگونا گاوں کے اندر ایک مندر ہے۔ اس
کے اندر ۵۵ سالہ جگدیش گری عرف رنگی داس اور ۴۶ سال کے شیر سنگھ پچھلے دس
سالوں سے پوجا پاٹ کی خدمات انجام دے رہے تھے ۔ یہ لوگ ۱۲ سال قبل اپنا گھر
بار چھوڑ کر علی گڑھ آگئے۔ وہاں دو سال گزارنے کے بعد یہ پاگونا گاوں میں
آئے اور یہیں کے ہورہے۔ اسی گاوں میں دیوی سہائے کا بیٹا مراری سنگھ عرف
راجو بھی رہتا ہے۔ وہ بھنگ کے نشے کا عادی ہے۔ اس کو کچھ عرصہ قبل چوری اور
قتل کے الزام گرفتار کرلیا گیا تھا لیکن ابھی حال میں ضمانت پر وہ گاوں لوٹ
آیا ہے۔ یہ بات قابلِ غور ہے کہ جس اترپردیش میں انسانی حقوق کے لیے کام
کرنے والوں کو آئے دن گرفتار کرکے جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیج دیا جاتا
ہے۔ ڈاکٹر کفیل جیسے فرشتہ صفت مسیحا کو جب عدالت رہا کرتی ہے تو نئے
الزامات لگادئیے جاتے ہیں اور ان پر عدالتی ضمانت کے ملتے ہی این ایس کے
تحت گرفتار کرلیا جاتا ہے وہیں راجو کو بہ آسانی ضمانت مل جاتی ہے تاکہ
سادھو سنتوں کا قتل کرسکے۔
پاگونا گاوں کے مراری سنگھ عرف راجو پر الزام ہے کہ قتل سے دو دن قبل اس نے
مندر سے چمٹاچرا لیا تھا۔ اس پر سادھووں نے گھر جاکراس کو ڈانٹا ڈپٹا۔ اس
کہا سنی کے دوران مراری نےغصے میں آکر بر انجام بھگتنے کی دھمکی دے دی ۔
دودن بعد اس نے حسب عادت بھنگ کا نشہ کیا اور رات کے وقت مندر میں جاکر کسی
دھار دار ہتھیار (ممکن ہے تلوار) سے سادھووں کا بہیمانہ قتل کردیا۔ ویسے
پولس نے دوسرے بیان میں بتایا کہ لاٹھی سے پیٹ پیٹ کر اس نے قتل کیا ۔ صبح
جب عقیدتمند مندر میں گئے تو انہوں نے خون سے لت پٹ لاشوں کو دیکھا اور
قاتل کی تلاش میں نکل پڑے۔ مندر سے دو کلومیٹر دور جنگل کی طرف خورجہ کا
رہنے والا راجو ان کے ہاتھ آگیا۔ لوگوں نے اسے مارنا شروع کیا تو پولس
آگئی اور گرفتار کرکے تھانےلے گئی۔
یہ عجیب اتفاق ہے کہ سہارنپور کی بھیڑ نے نشے میں دھت راجو کو پکڑا لیکن
ہلاک نہیں کیا اور پولس بہ آسانی اس مجرم کو چھڑا کر لے گئی مگر پالگھر کی
پولس سادھووں کو بچانے میں ناکام رہی ہے ۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ پاگونا
گاوں کے لوگ راجو کو جانتے تھے ۔ اس لیے راجو کے خلاف ان کا رویہ نرم تھا
جبکہ پالگھر والوں کے لیے سادھو اجنبی تھے۔ انہوں نے ان سادھووں کو صحیح
معنیٰ میں بچہ چور سمجھ لیا تھا۔ گرفتاری کے بعد جب راجو کو دوپہر میں ہوش
آیا تو اس نے بتایا کہ سادھووں سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں تھی۔ یہ بھگوان کی
مرضی تھی جو اس کے ہاتھوں وہ دونوں ہلاک ہوگئے ۔ راجو نے قتل کا اعتراف
کرتے ہوئے بڑی چالاکی سے بھگوان کو اپنے جرم میں شامل کرلیا ہے ۔ اس سے
اندازہ لگایا جاسکتا ہے آگے چل کر شاطر مجرم پیشہ لوگ بابری مسجد کے حالیہ
فیصلے کا کیسا فائدہ اٹھا سکتے ہیں ۔
پالگھر کے سانحہ کے بعد ذرائع ابلاغ میں اچانک جو سنت سماج متحرک ہوٓگیا
تھا وہ بلند شہر کی واردات کے بعد سردمہری کا شکار ہوگیا ۔ اکھاڑہ پریشد کے
صدر نریندر گری مہاراج نے اس وقت اترپردیش میں بیٹھ یہ پتہ لگا لیا تھا کہ
سادھووں پر ایک مسلم اکثریتی گاوں میں قتل ہوا ہے۔ اس لیے گاوں کو مقفل
کرکے سارے لوگوں کو گولی سے بھون دینا چاہیے ۔ ایسا جرم راکشش ہی کرسکتے
ہیں اور راکشش کو مارنا گناہ نہیں ہے یعنی کارِ ثواب ہے ۔انہوں نے یہ اعلان
بھی کیا کہ سنتوں کی دھرتی مہاراشٹر میں فی الحال راون راج ہے۔ انہوں نے
لاک ڈاون کے بعد سارے اکھاڑوں کو ساتھ لے کر مہاراشٹر مظاہرہ کرنے کی دھمکی
بھی دے دی ۔ اس طرح گویا راون راج کو رام راج میں بدلنے کی حکمت عملی بھی
پیش فرمادی۔
اس کے بعد ذرائع ابلاغ میں سادھو سنتوں کا ایک سیلاب آگیا ۔ نول گری
مہاراج نے سادھووں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکامی کے سبب مہاراشٹر سرکار سے
استعفیٰ کا مطالبہ کردیا۔ انہوں نے مودی اور یوگی سے سیاسی دباو بنانے کی
گہار لگائی لیکن بلند شہر کے سانحہ نے منظر بدل دیا ۔ میڈیا نے اس کو ایک
معمولی قتل کی واردات قرار دے دیا ۔ سادھو سنتوں کی سینا اچانک منظرعام سے
غائب ہوگئی ۔ اپنے ٹھنڈے ٹھنڈے بیان میں یوگی سے کارروائی کا مطابہ تو کیا
گیا مگر کسی استعفیٰ طلب کرنے کی جرأت نہیں دکھائی ۔ اس سے اندازہ لگایا
جاسکتا ہے یوگی مہاراج نے خود اپنے سنت سماج کو کس قدر دہشت زدہ کرکے رکھا
ہوا ہے۔ اتفاق سے اتر پر دیش کا وزیراعلیٰ اور وزیر داخلہ ایک ہی شخص ہے ۔
بی جے پی کے وزرائے اعلیٰ چونکہ اپنے ہی لوگوں پر اعتماد نہیں کرتے اس لیے
وزیر داخلہ کم ہی بناتے ہیں ۔ مہاراشٹر کے دیویندر فردنوایس نے اسی طرح
پانچ سال نکال دیئے ۔ ویسے مودی جی 2014 میں تو بادلِ ناخواستہ یہ اہم عہدہ
راجناتھ سنگھ کے حوالے کردیا تھا لیکن موقع ملتے ہی اس عہدے پر 2019 اپنا
نہایت وفادار آدمی لے آئے ۔ِ
بلند شہر سانحہ پر اکھاڑہ پریشد کے صدر نریندر گری مہاراج کا بیان چھپا کہ
اگر کارروائی نہیں ہوئی تو وہ خود اقدام کریں گے، لیکن کیا کریں گے؟ اس
بابت کوئی وضاحت نہیں کی گئی ۔ نریندر گری مہاراج کے خوف کا یہ عالم ہے کہ
ابھی کوئی ٹھوس کارروائی نہیں ہوئی لیکن انہوں نے وزیراعلیٰ یوگی کو یہ
سرٹیفکیٹ دے دیا کہ اس معاملے کو بڑی سنجیدگی لیا گیا ہے اور متعلقہ حکام
کو مناسب احکامات دے دیئے گئے ہیں ۔ یہ کیفیت ان کو مہاراشٹر میں نظر نہیں
آئی۔ اس بار کسی ٹی وی چینل نے ان کے بیان کو شوٹ کرکے نشر کرنے کی زحمت
نہیں کی ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سنت سماج کا غم و غصہ میڈیا کی مرہون منت
تھا ۔ ویسے بھی چونکہ اب کسی میں راون راج کہنے کی جرأت نہیں ہے اس لیے سب
نے انہیں نظر انداز کردیا۔ ان دو سانحات نے میڈیا کے اعتماد اور سنت سماج
کی عزت و توقیر کو خاک میں ملا کر دونوں کے سرکاری بھوپوں ہونے کو طشت
ازبام کردیا۔
گجرات فساد کے بعد اٹل جی نے اس وقت کے وزیراعلیٰ نریندر مودی کو راج دھرم
پالن کرنے کی نصیحت کی تھی۔ یوگی جی کو مودی جی یہ صلاح نہیں دے سکتے
کیونکہ وہ خود اس عمل نہیں کرتے ، لیکن یوگی کے والد آنجہانی آنند سنگھ
بشٹ نے ان کے وزیر اعلیٰ بننے پر یہ تلقین ضرور کی تھی کہ آدتیہ ناتھ کو
تمام مذاہب کا احترام کرنا چاہئے اور لوگوں کا دل جیتنا چاہئے۔ انہوں نے
ساتھ ہی یہ بھی کہا تھا کہ ان کے بیٹے کو ہندوتو ٹیگ سے نکلنے کی ضرورت ہے۔
آنند سنگھ بشٹ تو خیر اس دنیا سے سدھار گئے تو یوگی جی ان کی بات کیا
مانتے کورونا کا بہانہ بناکر آخری رسومات میں شرکت تک کے لیے تک نہیں گئے۔
انتخابی مہم کی خاطر ملک بھر میں ہیلی کاپٹر سے گھومنے والے یوگی اگر چند
گھنٹوں کے لیے اپنے آبائی وطن جاکر والد کی ارتھی کو کندھا دے دیتے تو کون
سا پہاڑ ٹوٹ پڑتا ؟ خیر یہ ان کا ذاتی معاملہ ہے۔یوگی کا حال یہ ہے کہ
سہارنپور میں رہنے والی ان خالہ سروج دیوی اس غم کی گھڑی میں اپنی بہن کی
تعزیت کے لیے پاس لے کر نکلیں تو اتراکھنڈ کی سرحد سے انہیں واپس کردیا گیا
۔ بعد میں انتظامیہ نے اپنی گاڑی سے انہیں بھیجنے کا اہتمام تو کیا لیکن
انہوں اپنے بیٹوں ستیندر اور لوکیندر کو روانہ کردیا خود نہیں گئیں ۔ خیر
درمیان میں یہ تو ایک جملۂ معترضہ تھا۔
پالگھر کے بعد اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ نے اپنی شہرت بڑھانے کی خاطر ادھو
ٹھاکرے سے فون پر بات کی تھی اور مجرمین کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کا
مطالبہ کیا تھا ۔ ادھو ٹھاکرے اور وزیر داخلہ انل دیشمکھ کے تفصیلی بیان کے
بعد اس ڈرامہ بازی کی مطلق ضرورت نہیں تھی لیکن یہ بات یوگی جی سمجھ میں
نہیں آسکتی ۔ انہیں پتہ نہیں تھا کہ دس دن بعد ادھو ٹھاکرے کو اپنا حساب
چکانے کا موقع مل جائے گا ۔ بلند شہر سانحہ کے بعد اپنا قرض اتارتے ہوئے
ادھو ٹھاکرے نے یوگی کو فون کیا اور قاتل کو سخت سے سخت سزا دلوانے کا
مطالبہ کیا۔ اس کی اطلاع سنجے راوت نے دی اور یہ طنز بھی کیا کہ اس طرح کے
غیر انسانی معاملات پر سیاست نہیں ہونی چاہیے اور سب کو مل کر مجرمین کو
سزا دلانی چاہیے۔ یوگی جی اگر جلد بازی نہیں دکھاتے اور ملک کے دیگر وزرائے
اعلیٰ کی طرح اپنے کام سے کام رکھتے تو انہیں یہ رسوائی نہیں اٹھانی پڑتی ۔
(۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰جاری)
|