ہرسال 3 مئی آزادی صحافت کے عالمی دن کے طورپرمنایا جاتا
ہے کہاجاتاہے کہ اس دن کو منانے کا مقصد عالمی سطح پرصحافتی آزادی کی اہمیت
کو اُجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ ایسے اقدامات کا حصول بھی ہے جن سے آزادی
صحافت میں پیش آنے والی مشکلات اور رکاوٹوں کا سدباب ممکن ہوسکے راقم
کوکبھی اس بات غرض نہیں رہی کہ اس دن کو منانے کا آغاز 1991 ء میں ہوا اور
1993ء میں اقوام متحدہ نے باقاعدہ طورپر آزادی صحافت کا عالمی دن منانے
کااعلان کیا،ہرسال 3مئی کو اخبارات خصوصی ایڈیشن کااہتمام کرتے ہیں خصوصی
طورپرمضامین لکھے یالکھوائے جاتے جن کاخاصہ کچھ یوں ہوتاہے کہ اس دن تمام
دنیا کی صحافتی برادری اس بات کا تجدید عہد کرتی ہے کہ پرتشدد عناصر یا
ریاستی دباؤ کے بغیر آزاد سچی حقائق پرمبنی مکمل غیرجابندار اور ذمہ دارانہ
اطلاعات عوام تک پہنچانے جدوجہدکرتے رہیں گے اس دن تمام صحافی اپنے پیشہ
وارانہ فرائض کو پوری ایمانداری اور حق گوئی و بے باکی کے ساتھ جاری رکھنے
کا عزم دہراتے ہیں یہ بھی کہاجاتاہے کہ 3مئی کو آزادی صحافت کو عالمی دن کے
طورپرمنانے کامقصدہے کہ آزادی صحافت کی اہمیت کے بارے میں آگاہی پیدا
کرنااور دنیا کی حکومتوں کو یاد دہانی کراناہے کہ وہ آزادی اظہار کا احترام
کریں جو انسانی حقوق کے 1948 کے عالمی منشور کے آرٹیکل 19 کے تحت دی گئی ہے
جبکہ حقیقت لکھنے لکھانے اورپڑھنے پڑھانے سے بے حدمختلف ہے ہرکوئی آزادی
صحافت یا آزادی اظہار کی مختلف تعریف بیان کرتااورعمل پیرانظرآتاہے جیساکہ
حکمران ،سرمایہ دار،تاجرطبقات اورمیڈیا ہاؤسز کے مالکان کوان مقاصد میں
کوئی خاص دلچسپی نہیں جو3مئی کے متعلق بتائے جاتے ہیں لہٰذاآزادی صحافت کے
عالمی دن کے حوالے سے راقم کی رائے گزشتہ کئی سالوں کی طرح اس سال بھی
خاموشی ہی رہتی جوپھول نگر سے ایک صحافی کی پھندہ لگی لاش نہ ملتی
برادرکالم نگارمحترم گل نوخیزاخترصاحب نے لکھاکہ دوسروں کی غلطیاں تلاش
کرنے کی بجائے اپنی غلطیوں پرنظرکریں محسوس ہوکہ سارادن کوئی غلطی نہیں کی
توجان بوجھ کرکوئی غلطی کردیں تاکہ معلوم ہوجائے کہ ابھی تک عام انسان ہی
ہیں یاکسی مرتبے پرفائزہوچکے ہیں کامل یقین ہے کہ راقم غلطیاں کرنے والاعام
انسان ہے کسی مرتبے کے لائق نہیں پھربھی دل للچایاکہ چلوغلطی کرکے دیکھتے
ہیں آزادی صحافت کے موضوع پرخاموشی توڑ کے دیکھتے ہیں-
سچ تویہی ہے کہ آزاد اورغیرجابندارصحافت جاندار معاشرے اورتواناریاست کیلئے
لازم وملزوم ہے صحافتی ادارے اور صحافی آزاداورغیرجانبدارہوں تو معاشرے کی
تعمیر و ترقی اور اصلاح میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں ریاست کے چوتھے اہم
ترین ستون کی حیثیت سے صحافت کا ملک کی ترقی و خوشحالی کیلئے بھرپور
کردارانتہائی اہمیت کاحامل ہوتاہے بدقسمتی سے وطن عزیز پاکستان کا شمار اُن
ممالک میں ہوتا ہے جہاں صحافت کو درپیش مشکلات کی طویل تاریخ موجود ہے
سال2019ء کے حوالے سے عالمی درجہ بندی کے مطابق 180ممالک کی فہرست میں
پاکستان تین درجے تنزلی کے بعد 145ویں نمبر پر چلا گیا جبکہ ہمسایہ ملک
بھارت اِس فہرست میں دو درجے تنزلی کے بعد 142ویں نمبر پر موجود ہے۔اِس
فہرست میں ناروے، فن لینڈ اور ڈنمارک کا شمار بالترتیب اُن ممالک میں ہوتا
ہے جہاں سب سے زیادہ صحافتی اداروں کوآزادی حاصل ہے پاکستان میں گزشتہ چھ
سال میں 33سے زائد صحافیوں کو فرائض کی انجام دہی کے دوران قتل کیا جا چکا
ہے پاکستان دنیا کے ان 13 ممالک میں شامل ہے جہاں صحافی عدم تحفظ کا شکار
ہیں، جہاں صحافیوں کے قتل کے بعد ملوث ملزمان قانون کی گرفت میں نہیں آتے
یاسزاسے بچ جاتے ہیں۔ملکی یاعالمی سطح پرجاری کردہ رپورٹس میں جن صحافتی
مشکلات کاتذکرہ ملتاہے اُن میں علاقائی صحافیوں کے مسائل ومشکلات کاذکر
شامل نہیں ایسی تمام رپورٹس دنیاکے بڑے شہروں یاناموراداروں سے تعلق رکھنے
والے میڈیاورکرزکے حوالے سے ترتیب دی جاتی ہیں جبکہ پاکستان کے دوردرازدیہی
علاقائی صحافیوں کو مزیدبہت ساری مشکلات درپیش ہیں یہاں تک کہ اُن کے قتل
کاذکر بھی ان رپورٹس میں نہیں پایاجاتادوسری جانب معیارصحافت پرنظرکی جائے
توانتہائی افسوس ناک صورتحال کاسامناکرناپڑتاہے مسلسل دباؤ،خوف اورمعاشی
مشکلات کے باعث تحقیقاتی صحافت دم توڑرہی ہے صحافی قتل ہورہے ہیں اخبارات
اورنیوزچینلزسیاسی بیانات،ٹاک شوزپرمبنی خبریں یاپروگرامز کی نشرواشاعت
کرنے میں عافیت محسوس کرنے لگے ہیں صحافتی اداروں نے مالی بدحالی کے سبب
عملہ کم کردیاہے اخبارات کمپوزشدہ خبروں اورمضامین کی سہولت سے مستفیدہورہے
ہیں نیوزایجنسیاں تحقیقاتی خبریں کم جبکہ سیاسی مذہبی تجارتی اورمسلکی
بیانات فراہم کرنے میں مشغول ہیں ہفتے دوہفتے بعد کسی علاقے سے بیانات کے
علاوہ بمشکل کوئی خبرموصول ہوتی ہے تووہ بھی ٹیبل سٹوری یعنی
مہنگائی،ملاوٹ،منشیات،ناقص صفائی ستھرائی وغیرہ ہی پرمبنی ہوتی ہے جس میں
حقائق کی تحقیق متعلقہ محکمے یاافرادکاموقف کہیں شامل نہیں ہوتاکوئی
نمائندہ اپنی جان پرکھیل کرکہیں سے کرپشن یاسنجیدہ جرائم کی تحقیقاتی
خبرنکالنے میں کامیاب ہوجائے توادارے میں بیٹھے ایڈیٹرزاورمالکان اسے شائع
یانشر کرنے سے صاف انکارکردیتے ہیں اخبارات کے ادارتی صفحات کی بات کی جائے
توچندایک معتبراداروں کے علاوہ انتہائی ناقص تحاریرجن میں اکثرکاپی یعنی
چوری شدہ تحاریرشائع ہوتی ہیں اکثرہماری تحاریرمختلف لوگوں کے نام اور
تصویرکے ساتھ چھپی دکھائی دیتی ہیں اکثردوست ہماری تفتیش کرتے ہیں اور ہمیں
اپنی صفائیاں پیش کرناپڑتی ہیں اکثرکالم چورسینہ زوری بھی کرتے ہیں کچھ
توپکڑے جانے پردوستی کاواستہ دیتے ہیں نہ ماناجائے توبددعائیں دینے
پراترآتے ہیں۔
علاقی صحافی کسی سیاستدان یاتاجررہنماء کابیان شائع کروانے کے بعد اخباربغل
میں دبائے یاکٹنگ واٹس ایپ کرکے ادارے کیلئے اشتہارمانگتے ہیں جس پرانہیں
کبھی زردصحافت کے طعنے سننے کوملتے ہیں توکبھی بلیک ملیرکے لقب ملتے ہیں
دوسری جانب ادارے نمائندوں سے بزنس کامطالبہ کرتے ہیں یوں کہاجائے کہ
تحقیقاتی صحافت کی جگہ تعلقاتی،مفاداتی،تاجراتی اوربڑی حدتک شہواتی صحافت
لے چکی ہے توزیادہ مناسب ہوگابزنس مانگنے والے اداروں کے ساتھ وہی لوگ
خدمات سرانجام دے سکتے ہیں جوکسی رشوت خوریااختیارات کاناجائزاستعمال کرنے
والے سرکاری آفیسر کسی منشیات فروش کسی غیرقانونی عمارت کی تعمیرپرمالکان
سے پیسے نکلوانے یااسی قسم کے دیگرمعاملات کے ذریعے بزنس حاصل کرنے
کاہنرجانتے ہیں۔راقم اس سال بھی 3مئی خاموشی سے گزارچکاتھاکہ گل
نوخیزاخترصاحب کے مشورے اورپھول نگرکے اخبار فروش صحافی سعید قیصر گل کے
صدمہ قتل کے سبب اس موضوع پرلکھنے کی غلطی کررہاہوں جانتے ہیں کہ ہمیشہ کی
طرح حکمران طبقے کے کانوں پرجوں تک نہیں رینگے گی پھر بھی سعید قیصر گل کے
قاتلوں کی فوری گرفتاری غیرجانبدارانہ تفتیش اورکیفرکردارتک پہنچانے
کامطالبہ کرتے ہیں سعید قیصر گل کے وارثان کی قانونی معاونت اورمالی مددکی
توقع بھی کرتے ہیں اورآخرمیں صحافی برداری کومفت مشورہ دینے کی ایک اورغلطی
کرکے دیکھتے ہیں کہ جب تک صحافی برادری وکلاء یاینگ ڈاکٹرزطرزکااتحادقائم
نہیں کرتی تب تک یونہی مشکلات کاشکاررہے گی۔صحافیوں کے مقابلے میں وکلاء
برادری میں کہیں زیادہ اختلاف پائے جاتے ہیں ایک دوسرے کے خلاف مقدمات کی
پیروی اور الیکشن میں مقابلے کی فضاء کے باوجودوکلاء برادری کااتحادمثالی
ہے جس سے جس قدرجلدی ہوسکے صحافی برادری سبق سیکھے بصورت دیگر۔۔۔خاموشی بھی
زبان رکھتی ہے اورسمجھنے والے سمجھ جاتے ہیں
|