صحافت اور درباری ادب

 گزشتہ روز عالمی یوم صحافت منایا گیا۔ اس وقت دنیا میں میڈیا کو درپیش چینلجز پر کئی رپورٹس شائع ہوئیں۔ قلم کی حرمت اور لفظ کے تقدس پر بات کی گئی۔ سب نے اتفاق کیا کہ کیمرے کو تحفظ حاصل ہے۔ اس کی انشورنس کی گئی ہے۔ مگر بے چارہ کیمرہ مین بے یار و مددگار ہے۔ اسے کوئی تحفظ حاصل نہیں۔ کہتے ہیں صحافت آزاد ہے۔ مگر صحافی کے لئے اب میڈیا بحران کی زدمیں ہے۔ بے لگام اور سرکش سوشل میڈیا کے اس دور میں اب ذمہ دار اور معتبر صحافت کے قدردان کم ہو رہے ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا نے پرنٹ میڈیا کے لئے نئے مسائل ضرور پیدا کئے ہیں مگر،معتبر اور ذمہ دار پرنٹ میڈیا کی اہمیت کبھی کم نہیں ہو سکتی۔یہی اعتبار اور ذمہ داری ڈوبتے کو تنکے کے سہارا جیسی ہو گی۔ جیسے کہ جان بچی تو لاکھوں پائے۔یہ بات بھی درست نہیں کہ میڈیا کا سورج غروب ہو رہا ہے۔ بلکہ تقدس اور احترام پر مبنی صحافت کا سورج ہمیشہ طلوع ہوتا ہے، ڈوبتا نہیں۔ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا اور جان بچی ، لاکھوں پائے، کے بھی کئی قصے کہانیاں ہیں۔ شعراء حضرات اور ادیبوں نے اس سلسلے میں بہت کام کیا ہے۔ صحافی برادری ادب سے تعلق رکھتی ہے ۔ اس لئے بے ادبی سے بچی رہتی ہے۔یہ عظیم اور محترم لوگ ہیں، انتہائی حساس اور غم خوار۔ پہلے یہ کہا جاتا تھا کہ جو چیز غیر معمولی ہو۔ آپ کے جذبات کی عکاسی کرے۔ آپ اسے سنیں یا پڑھیں تو بلا ساختہ پکار اٹھیں کہ یہی تو میں بھی کہنا چاہتا ہوں ۔ یہی ادب ہے۔ اب اس کی بھی کئی قسمیں دریافت ہوئی ہیں۔ اس میں جدید بھی ہیں اور قدیم بھی ہیں۔ تا ہم آج بھی یہی کہا جاتا ہے کہ شعر و شاعری میں اگر گستاخی بھی ہو تو شاعر کو چھوٹ ہے۔ جیسے یہ بھی مشہور کیا جا چکا ہے کہ ایمبولنس کو کئی قتل معاف ہیں۔ کیوں کہ وہ جان بچانا چاہتے ہیں۔ اگر اس دوران ایمبولنس کے راستے میں کوئی رکاوٹ آ جائے تو وہ اس کو کچلنے میں آزاد ہے۔ لیکن یہ محاورہ زیادہ معقول نہیں۔یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی جان بچانے کے لئے کئی جانیں لے جائے۔ جان بچانے کے لئے جان لینے کی ہر گز کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ایمبولنس کو بھی کسی کو کچلنے کی چھوٹ نہیں ہو سکتی ہے۔ اس طرح کے کئی محاورے ہیں جو سینہ بہ سینہ منتقل ہو رہے ہیں۔ ان کی صحت پر بات وہ سکتی ہے۔ یہی ادب کی شان ہے کہ وہ معاشرے کی عکاسی کرتا ہے۔ آپ آج سے سو سال پہلے کے ادب کا مطالعہ کریں، اس میں تاریخی ادب بھی شامل ہے۔ پنڈت کلہن کو ہو سکتا ہے کشمیر سے باہر لوگ عام طور پر نہ جانتے ہوں۔لیکن ان کی راج ترنگنی نے اپنے چھ ہزار سالہ تاریخ کو سر عام کیا ہے۔ یہ چھ ہزار سالہ کشمیر ی معلوم تاریخ ہے۔ اس میں زمانہ جاہلیت کا عکس بھی ملتا ہے۔ دیوی دیوتاؤں کا زکر بھی ہے۔ خیالات کو بھی تاریخ بنایا گیا ہے ۔ مولانا روم، ابن بطوطہ کا ادب بھی دیکھ لیں۔ اس کا بھی ایک الگ حال ہے۔ جو میں یہاں قارئین کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اپنے خیالات کو خبر بنائیں گے تو تاریخ ضرور مسخ ہو گی۔ اس کو کوئی رنگ دیں گے تو تاریخ متاثر ہی نہیں بلکہ لہو لہاں ہو گی۔ درباری شاعری سے لے کر درباری تاریخ تک کے چلن نے اسے پہلے ہی تباہ کیا ہے۔ لوگوں نے جان بچانے، جان کی امان پانے کے لئے بادشاہوں اور امراء کی شان میں قصیدہ گوئی کی۔ آج بھی ہمیں اس طرح کے قصیدہ گو کہیں کہیں مل جاتے ہیں۔ کسی نے صدیوں پہلے عہدوں کے لئے یا شہرت کے لئے تعریفی کلمات کہے یا لکھے ۔ اس کو تاریخ بنا دیا گیا۔ آپ دیکھیں کہ سوانح عمریاں لکھنے والوں نے کیا کمال کیا ہے۔ اپنی تعریف کی۔ قصیدہ گوئی ہوئی۔ مخالفین کی ہجو میں حد پار کر دی۔ جو اپنی کمزوریاں تھیں ،ان پر پردہ ڈال دیا۔ افسوس، اس کی وجہ سے زمانے کے سچے حالات ہم تک نہ پہنچ سکے۔ ہم ماضی کو سامنے رکھ کر فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں اسی وجہ سے نہیں آتے۔

ہماری صحافت بھی اسی وجہ سے سوالات کی زد میں رہی ہے۔ شاید ہر ایک نے اپنا لیڈر، پارٹی، پرچم، نظریہ، نصب العین رکھا ۔روزی روٹی کی تلاش میں اس شعبہ پر دھبہ لگا دیئے۔اس وجہ سے صحافت کی معتربیت اور بے باکی چھن گئی۔ جب کہ آسمانی صحیفوں سے نکلی صحافت ان سب تضادات سے پاک ہے۔ سب کے لئے انصاف کا ترازو ہے۔ صحافت اگر ادب کی ایک شاخ ہے۔ تو اس نے حالات کی درست عکاسی کرنی ہے۔ ورنہ درباری لوگ تو صدیوں پہلے بھی موجود تھے۔ یہ دور زمانہ جاہلیت کا تھا۔ آج چاہے کوئی عمران خان یا زرداری صاحب کی شان میں قصیدہ گوئی کرتا ہییا کوئی شریف برادران کی تعریف کرے۔ کوئیکسی کی شان میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتا ہے تو کوئی کسی کو ہی نجات دہندے کے طور پر پیش کرتا ہے۔ آپ جس بھی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ آپ کا زاتی معاملہ ہے لیکن جب آپ اپنی امانت میں خیانت کریں گے تو یہ افسوسناک بات ہو گی۔ اگر کوئی لفافے لے کر حقائق کو توڑے مروڑے گا تو یہ سراسر نا انصافی ہو گی۔ یہ اس امانتمیں بھی خیانت ہے جو ہم پر آئیندہ نسلوں نے ڈالی ہے۔ آج سے پچاس، سو ،ہزار سال بعد کے لوگ آج کے درست حالات معلوم کرنا چاہیں گے۔ تو ان کے لئے کون سی ریفرنس کتاب قابل بھروسہ ہو گی۔ کوئی نہیں جانتا۔ یہ اعتبار اور حرمت و پاکبازی قائم کرنے والے بھی لا تعداد موجود ہوں گے۔

سیاستدان اگر عوام کو گیلے کپڑوں کی طرح نچوڑ رہے ہیں تو ان کو یہ موقع دستیاب رکھنے میں کچھ قصور عوام کا بھی ہو گا۔کیوں کہ ہم ایسی جمہوریت کے دور میں زندہ ہیں، جو سر گنتی ہے، انتخابات میں سب لوگ ایک دوسرے کو پچھاڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سیاسی نمبر حاصل کئے جاتے ہیں۔ اس دور میں ہماری صحافت اور ادب بھی متاثر ہو اہے۔ کیا یہ ادب تخلیقی ہے یا تخریبی۔ ہمارے دربار مختلف ہیں۔ کوئی کسی پارٹی کا نمائیندہ ہے، کوئی کسی حکمران کا اور کوئی کسی سیاستدان کا۔عالمی یوم صحافت کے موقع پر یہ سوال خود سے کیا جا سکتا ہے کہ کہیں ہم آج کے نام نہاد ترقی یافتہ دور میں درباری شہراء ، امراء، وزراء، مورخین کا کردار ادا تو نہیں کر رہے ہیں۔کہیں ہم اکیسویں صدی میں درباری صحافت و ادب کی ترویج و فروغ میں کردار ادا تو نہیں کر رہے ہیں۔کہیں ایسا تو نہیں کہ آئیندہ نسلیں سچ سے محروم رہ کر ہم پر درباری ، چاپلوس، متعصب یا دغا باز ، تاریخ کو مسخ کرنے والے مہرے کا الزام عائد تو نہیں کریں گی۔؟
 

Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 479780 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More