یہ ادارے اور ملک دونوں ہمارے ہیں

ہماری جنریشن میں شائد ہی کوئی نوجوان بچاہو جس نے فراز و فیض کو پڑھا نہ ہو اور اپنی طرف سے محبوب کو لکھے گئے خطوط میں ان دو شعراء کا کلام آہیں لے لے کر نہ لکھا ہو، سوشل میڈیاء کے اس مصروف دور میں بھی یہ دونوں حضرات مقبول ترین شاعر ہیں ۔

گزشتہ رات معروف شاعر احمد فراز صاحب کا ایک انٹرویو جو انہوں نے کسی وقت بی بی سی کو دیاتھا پڑھنے کا اتفاق ہوا ، ان پہ تنقید کرنا چھوٹا منہ بڑی بات ہوجائے گی ، بچپن سے ان کی رومانی شاعری پڑھ رہا ہوں، وہ میرے پسندیدہ شاعر ہیں ، لیکن مزکورہ انٹرویو میں انہوں نے پاک فوج کے لئے جس طرح کی زبان استعمال کی وہ میرے جیسے معتدل مزاج بندے کے لئے بھی برداشت کرنا مشکل تھا ۔ اگرچہ مجھے خود بھی جرنیلوں کی کئی چیزیں ناپسند رہی ہیں اور اب بھی کھلم کھلا ان پہ تنقید کرتا ہوں، اس کے باوجود میں سمجھتا ہوں کسی فوجی افسر پہ تو تنقید ہوسکتی ہے آپ ضرور کریں لیکن کسی شخص کی آڑ میں پورے ادارے کو تو نہ رگڑیں، یہ فوج ہماری ہے یہ ملک ہمارا ہے۔ اور ملک و قوم کے لئے پاک فوج کے کارنامے گنوانے شروع کروں تو احباب تھک جائیں گے پڑھتے پڑھتے ، میرے پاس سینکڑوں مثالیں ہیں جو نوجوان نسل کے لئے قابل رشک ہیں۔

کسی سیاستدان ، انقلابی شاعر یا اس کے کسی بیٹے نے آج تک ہمارے ملک و قوم کے دفاع کے لئےکبھی ایک گولی بھی کھائی ہے؟ ایسے ہزاروں لاکھوں لوگ جن کے پاوں میں کبھی وطن کے لئے ایک کانٹا نہیں چبھا کیسے اس فوج کے تقدس کو مجروح کرسکتے ہیں جس کے جوان ہرروز دشمن کے ناپاک عزائم کو ناکام کرنے کے لئے اپنے سروں کی قربانیاں پیش کرتے ہیں ؟۔

فراز صاحب اب ماضی کا حصہ ہیں کسی وقت شائد یہ بڑے انقلابی شاعر سمجھے جاتے تھے لیکن عملی طور پہ زندگی کا بڑا حصہ حکومتی عہدوں پہ فائز رہ کر گزارا اور آج ان کا بیٹا بھی پی ٹی آئی میں ایک اہم عہدے کا چارج سنبھال چکا ہے ۔

مجھے بڑی حیرت ہوتی ہے جب میں انقلابی سمجھے جانے والے شعراء کی ذاتی پرتعیشانہ زندگی اور ان کی کروڑ پتی اولادوں کو دیکھتا ہوں صرف مشاعرے پڑھنے سے اتنی بڑی بڑی جائیدادیں کیسے بن گئیں، کچھ تو ہے صاحب جس کی پردہ داری ہے ۔

شائد زاتی شہرت اور اخبارات کے چرچوں میں رہنے کے لئے اس طرح کی باتیں تو کرنی پڑتی ہیں صرف ایک بار کی مختصر اور بے ضرر جیل کو فراز صاحب نے ساری زندگی کیش کیا ، خود سرکاری ملازمت کے لطف لئے ، ریٹائرمنٹ کے طویل عرصے بعد بھی سرکاری بنگلہ چھوڑنے پر راضی نہیں تھے ، طرز زندگی ہمیشہ شاہانہ رہا ، ان کے پاس اتنی دولت کیا صرف مشاعروں سے آئی ہوگی جبکہ کیرئیر کا آغاز تو معمولی تھا ، نام بن جائے تو بہت باتوں پر پردہ پڑ جاتا ہے۔

بیٹا بھی جب بوڑھا ہو کر کسی کام کا نہیں رہے گا تو ایسی ہی باتیں کرے گا ۔ ابھی تو سب ہربھرا ہے۔
اللہ بخشے مجھے ایک حبیب جالب صاحب ہی ایسے انقلابی شاعر نظر آتے ہیں جو خود بھی اپنی انقلابی شاعری اور کھرے نظریات پہ پورے اترتے ہوں یہی وجہ ہے کہ خود بھی ساری عمر مصائب میں کٹی اور آج ان کی اولاد بھی کسمپرسی کی زندگی گزارنے پہ مجبور ہے ۔

ذاتی مفادات یا افراد سے رنجشوں کی وجہ سے اگر ہمارے اداروں کی حرمت پہ ہماری وجہ سے حرف آئے تو یہ سوچ قطعی نامناسب ہے۔

 

Shahid Mushtaq
About the Author: Shahid Mushtaq Read More Articles by Shahid Mushtaq: 114 Articles with 87250 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.