اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے عالمی رہنماوں اور تمام
خاندانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ دنیا بھر کے بچوں کی حفاظت کو یقینی بنائیں۔
کیونکہ ان کے خیال میں لاکھوں بچے کورونا لاک ڈاون کی وجہ سے اپنے ہی گھروں
میں بہت سے خطرات میں گھرے ہیں ۔ کورونا کی وجہ سے وسیع پیمانے پر بندش یا
لاک ڈاون کی وجہ پیدا ہونے والے مسائل کا سامنا اگرچہ سب کو ہے مگر سب سے
زیادہ پریشانی بچوں کے لئے ہے کیونکہ ان کا گھروں میں قید ہو کر بیٹھنا ان
کے لئے ایک نیا تجربہ ہے جو ان کے لئے ناقابل قبول تو ہے ہی نا قابل برداشت
بھی ہے
اگرچہ بچوں کو جوانوں کے،مقابلے میں اس وبا میں مبتلا ہونے کے خدشات کافی
کم ہیں کیونکہ وہ گھر سے کم ہی باہر نکلیں گے لیکن اس بیماری اور لاک ڈاون
کی وجہ سے دوسرے بہت سے برے جسمانی ذہنی اور نفسیاتی اثرات ہیں جو بچوں پر
مرتب ہو رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے ان خدشات کااظہار اپنے پالیسی بیان میں
بھی کیا۔ اس وبا کی وجہ سے بچوں کی صحت خاندانی زندگی،تعلیم،صحت کے وسائل
تک عدم رسائی اور انٹرنیٹ کے زیادہ استعمال سے پیدا ہونے والے برے اثرات کا
ذکر کیاگیا۔
ایک رپورٹ کے مطابق پوری دنیا کے ساٹھ فی صد بچے اس وقت ایک ہی ملک میں ہیں
جو کہ ایک لاک ڈاون میں ہے جس سے ان کی معاشرے میں نقل و حرکت اور دوسروں
تک رسائی کو محدود کر دیا ہے۔تمام برے اثرات اس امر سے سب سے زیادہ منسلک
ہیں کہ بچے اب سکول جانے سے قاصر ہیں۔رپورٹ کے مطابق 188 ممالک میں لاک
ڈاون ہے اورایک اعشاریہ پانچ بلین بچےاور جوان اس لاک ڈاون سے متاثر ہو رہے
ہیں۔
ان بچوں اور نوجوانوں کے لئے سب سے پہلا مسئلہ خوراک کا ہے۔
دنیا میں بہت سے بچے جن کو کھانا ان کے تعلیمی ادارے سے ملتا تھا اب وہ اس
سے محروم ہو چکے ہیں۔ 368 ملین بچے 143 ممالک میں متاثرین خوراک ہیں جنہیں
کسی دوسرے ذریعے سے کھانا حاصل کرنا پڑ رہا ہے۔دوسری بڑی پریشانی جس کا
بچوں کو سامنا کرنا پڑ سکتاہے وہ ہے خاندانی تشدد۔ تنہائی اور گھٹن کا شکار
خاندانوں میں تشدد کا رحجان بڑھ جاتا ہے اور اس سے بچے سب سے زیادہ متاثر
ہوتے ہیں۔بڑوں کی آپس کی لڑائی بھی ان بچوں کے معصوم اذہان پر منفی اثرات
ڈالے گی۔
لاک ڈاون کے حالات میں بچے سکول جانے سے قاصر ہیں ۔ ان کی تعلیم جاری رہے
اس سلسلے میں انٹرنیٹ کا استعمال کیا جانے لگا ہے۔ اب دنیا بھر میں آن لائن
کلاسیں لینے کے لئے بہت سے ٹولز درکار ہیں جو کہ لازمی طور پر تمام
طالبعلموں کے پاس نہیں ہیں اس طرح ان کے علم حاصل کرنے کے عمل میں بھی فرق
آئے گا۔وہ ایک جیسی مہارتیں حاصل نہیں کر پائیں گے۔کم آمدنی والے ممالک میں
صرف 30 فی صد ایسے ہیں جو ڈیجیٹل ٹریننگ دینے کے اہل ہیں۔ اسی طرح بہت سے
ممالک میں جنسی تفاوت ہے۔ لڑکیوں کی نسبت لڑکوں کی انٹرنیٹ تک رسائی زیادہ
ہے جس سے لڑکیوں کی تعلیم پر اور زیادہ برے اثرات ہوں گے۔لڑکیوں کے سکول
چھوڑنے کی تعداد میں اضافہ کا ڈر ہے کہ وہ اس وبا کے بعد پیچھے رہ جانے کی
وجہ سے سکول اور تعلیم کو خیر باد کہہ سکتی ہیں۔انٹرنیٹ کے استعمال سے بچوں
اور جوانوں کی توجہ صرف تعلیم پر اور تعلیم تک ہی محدود نہیں رکھی جا سکے
گی جس سے ان کے اخلاق اور رحجان تباہ ہونے کے خدشات بھی در پیش ہونگے۔ غیر
اخلاقی سرگرمیوں سے بچانے اور بچوں کی مثبت تربیت اور دیکھ بھال میں اب
والدین یا بڑوں کا بہت ہی زیادہ ہاتھ ہو گا۔ اب بڑے ہی ہیں جو اپنے بچوں کو
درست انداز سے آگے بڑھا سکتے ہیں اور اس عارضی مصیبت کے دنوں میں انہیں
مستقل نقصان سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ ہم سب بڑوں کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے
ہوئے اپنی آئیندہ نسل کو تباہ اور خراب ہونے سے بچانا ہو گا ورنہ یہ کورونا
سے بھی بڑی وبا بن کے سامنے آئے گی۔
|