ایک مشہور قول ہے "ہیلتھ از ویلتھ(Health is Wealth)، جس
کی تشریح اس طرح کی جا سکتی ہے کہ اگر انسان کے پاس دولت ہو تو تمام
آسائشوں تک رسائی ہو جاتی ہے۔ اس کے برعکس اگر دولت ہو پر صحت نہ ہو تو اس
دولت کا کیا فائدہ جس سے انسان اپنے آرام وآسائش کا سامان تو خرید سکے مگر
اپنی صحت نہیں۔حقیقی دولت انسان کی صحت ہے نہ کہ دولت۔ دل اس نے دیا ہے تو
وہی اس میں رہے گا ہم لوگ امانت میں خیانت نہیں کرتے
صحت اللہ تعالی کی طرف سے عطا کردہ ایک نعمت ہے یا پھر یو ں کہاجائے کہ
اللہ تعالی کی امانت ہے ہمارے پاس۔ جس کا ہمیں بھر پورطر یقے سے خیال رکھنا
چاہیے اور اما نت میں خیانت نہیں کر نی چاہیے۔ بے شک بیماری اور شفا ء اللہ
تعالی کی طرف سے آتی ہے لیکن اللہ پا ک نے انسان کو اشرف المخلوقات بنا کر
تمام مخلوقات (جن اور انس)پر فضیلت عطا کی ہے۔ اور یہ صلاحیت دی ہے کہ وہ
عقل اور شعور استعمال کر کے صحیح اور غلط میں فرق کر سکے۔ جو چیزیں انسان
کی صحت کے لئے مفید ہیں ان کوا ستعمال کرے اور جو غیر مفید ہیں ان کو
استعمال تر ک کر دے یا کم از کم گھٹا دے۔
ہما رے جسم میں موجود تمام اعضاء اللہ تعالی کی طرف سے عطا کر دہ ہیں۔ جیسے
ہر مشین کو چلا نے کے لئے اس کا انجن مو جود ہو تا ہے جس کے بغیر مشین
کارآمدثابت نہیں ہو سکتی، مثلا ء پنکھا، بلب، گاڑی وغیرہ۔ ویسے ہی انسانی
جسم بھی ایک مشین کی مانند ہے اس کا سب سے اہم عضو دل ہے دل کے بغیر جسم کا
کو ئی بھی عضو صحیح طریقے سے اپنا کام سر انجام نہیں دے سکتا۔ اس کے گرد
ہما رے جسم کا تمام تر نظام گھوم رہا ہے۔
دل ہمار ے جسم میں خون کو ٹرانسپورٹ کر تا ہے اور خون کے ساتھ ساتھ اس میں
موجود آکسیجن اور غذابھی جسم کے دوسرے حصوں تک منتقل کر تا ہے کیو نکہ
آکسیجن اور غذا، یعنی کے مشین کاایندھن، کے بغیر جسم کا کو ئی حصہ کا م
نہیں کر سکتا۔غرض یہ کہ دل کے بغیر پورا جسم اور اس کے اعضا متاثر ہو تے
ہیں۔ یہ تما م تر نظام ہما رے جسم میں اللہ تعالی کے مقررکردہ اصول کے
مطابق چل رہا ہے۔ اللہ تعالی کے علاوہ کو ئی اور طاقت ایسی نہیں جو اس طرح
کا کامپلیکس نظام بنا سکے۔ 21صدی کے سائنسدانو ں نے بھر پور کو شش کر لی
مگر انسانی جسم جیسا کو ئی نظام تشکیل نہ دے سکے۔
سودا گری نہیں یہ عبادت خدا کی ہے
اے بے خبر جزا کی تمنا بھی چھوڑ دے
اللہ پا ک نے ہمیں صحت مندو توانا بنا یا ہے جس کے لیے ہمیں اللہ تعالی کا
بھرپور شکر ادا کر نا چا ہیے۔ ہم اپنی ہی کوتاہیوں کی وجہ سے خود کو لا تعد
اد امراض میں مبتلاکر دیتے ہیں۔جیسے کے امراض قلب اگر صرف مو ٹاپے کو ہی
لیا جائے تو وہ دوطر ح کے ہو تے ہیں۔ ایک وہ جو ظاہر ی مو ٹاہو اور ایک وہ
جو حقیقتا موٹا یعنی کہ صحت مند ہو۔ حقیقا مو ٹا یعنی صحت مند شخص تو اگر
اپنے BMIپر پورا اتر رہا ہے تو ٹھیک ہے ورنہ وہ صحت مند کی کیٹیگری میں
نہیں آئے گا۔مو ٹاپا انسان میں بہت سی وجوہا ت کی وجہ سے ہو تا ہےجیسے کہ
خون کی کمی۔ خون کی کمی کی وجہ سے جسم میں خون میں موجود غذا کی کمی واقع
ہو جا تی ہے۔جس کی وجہ سے جسم پھول جا تا ہے (سو یلنگ)اور دیکھنے والے کو
علم نہیں ہوتا کہ بظاہر مو ٹا نظر آنے والا شخص اپنے اندر لاتعد اد
بیماریاں سموئے بیٹھا ہے۔
یہی مو ٹا پا انسان کوامراض قلب میں بھی مبتلا کر تا ہے۔ جن میں B.P، دل کا
دورہ، دل کے وال کا بند ہو جانا، دل کے شریانوں کا مسئلہ، پٹھوں کا کمزور
ہو جاناوغیر ہ شامل ہیں۔یہ تمام بیماریاں دل کے رکن، خون کی گردش پر مبنی
ہیں۔ اگر خون دل سے نکل کر پو رے جسم میں صحیح طریقے سے منتقل ہو رہا ہے تو
ٹھیک ہے ورنہ مندرجہ بالا امراض کا سبب بنتا ہے۔دل میں مو جو د
آکسیجینیڈبلڈ مختلف شر یانو ں کے ذریعے جسم کے دیگر اعضا ء تک پہنچتاہے۔ جب
جسم میں فیٹس(fats)اور کو لیسٹرول کی مقدار ذیا دہ ہو جا تی ہے تو یہ
شریانوں میں جمع ہونا شروع ہو جاتا ہےاور انہیں تنگ کر دیتا ہے ۔اس وجہ سے
شریانو ں میں خو ن کا بہاؤمتاثر ہو تا ہے اور B.Pکے امراض جنم لیتے ہیں
جوکہ پھر امراض قلب کا سبب بنتے ہیں۔
یہ ہے پیاری سی اک روئی
دوست ہیں اس کے پزا برگر
پر اٹھا بوٹی ہیں اس کے بھائی
خو ب بر ھتاہے وہ جس نے روٹی کھا ئی
آجکل کے دور میں دِل کی بیماریا ں اور B.Pکے مسائل بڑھتے جا رہے ہیں۔ نو جو
انوں میں بھی یہ بیماری ذیا دہ پا ئی جا تی ہے۔ WHOکے مطابق امر یکہ میں
40%اور پا کستا ن میں 22%اموات امراض قلب کی وجہ سے پیش آتی ہیں۔ اس کی وجہ
ہماری خوراک کا استعال ہے۔ آجکل ایک ٹرینڈ بنا ہو اہے کہ چاہے گھر ہو یا
دعوتیں فاسٹ فوڈ کا بے تحاشا استعمال کیا جاتا ہے مثلا ، پزا، بر گر،
شوارما، چپس وغیرہ- جنگ ٖفوڈ یا فاسٹ فوڈ میں فیٹس اور کو لیسٹر ول کی
مقدار ذیا دہ ہو تی ہے جو کہ زود ہضم غذا نہیں ہے- مکمل طور پر ہضم نہ ہو
نے کی وجہ سے یہ ہمارے جسم کے مختلف حصوں اور شریانوں میں جمع ہو نا شروع
ہو جا تا ہے۔ جب فیٹس اور کولیسڑول کی مقدار جسم میں 50-60%سے زیا دہ بڑ ھ
جائے۔ تو بالغرض ہمیں امراض قلب اور موٹا پے کا شکار بنا تا ہے۔ دوسری طرف
ان بیماریو ں کے علاج کے لئے ہمیں نہ صرف ڈاکٹرز کی بھاری بھرکم فیس ادا
کرنی پڑتی ہے بلکہ مہنگی ادویات بھی خریدنی پڑتی ہیں جو کہ صرف انہی کے
کلینک سے ملتی ہیں۔ اس سے پیسوں کا ضیاء بھی ہوتا ہے ۔پیسوں کا ضیاء ہی
کہنا چایئے کیونکہ اگر ان پیسوں کا استعمال صحت مند غذا اور بیلنسڈ ڈائٹ پر
کیا جاتا تو آج ان بیماریوں کی نوبت ہی نہ آتی۔اس طرح نہ صحت رہتی ہے اور
نہ ہی دولت۔(Health is Wealth Changes to No Health No Wealth)
اگر وقت پر ہی اپنی صحت کو اللہ تعالی کی دی ہوئی امانت سمجھ کر خیال رکھا
جاناا ور امانت میں خیانت نہ کرتے تو آج ایک صحت مند و توانا شخص کی طرح
زندگی بسر کر رہے ہوتے اور اللہ تعالی کی نعمتوں (نعمت صحت) کا شکر ادا کر
رہے ہوتے۔ نہ کہ اس چیز کا ملال ہو تا کہ کاش میں اس وقت اپنا ہاتھ روک
لیتا۔ لہذا ہمیں اپنی خوراک کو متوازن بنانا ہو گا جس میں
کاربوہایڈریڈز(Carbohydrates)، پروٹین(Proteins)، وٹامن(Vitamins)، فیٹس
(Fats)، نمکیات (Minerals)، فائبر (Fibers) اور پانی (Water)یہ سات اجزاء
شامل ہونے چاہے جوکہ بیلنسڈ ڈائٹ کا حصہ ہیں۔ ان اجزاء کی مقدار اوسط ہونی
چاہئے نہ بہت ذیادہ نہ بہت کم، کیونکہ خوارک کی کمی اور ذیادتی دونوں ہی
انسانی جسم کو بے شمار بیماریاں لاحق کر دیتی ہے۔ (Under-Nutrition and
Over-Nutrition) اس لیے خوراک کا چناؤ متوازن ہونا چاہئے۔خوراک کو متوازن
بنانے کے ساتھ ساتھ ورزش کرنا، چہل قدمی کرنا، ڈیپریشن کم کرنااور سوچ کو
مثبت بنانا بھی صحت مند ذندگی بسر کرنے کے اہم نکات ہیں۔
ان تمام باتوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اگر ہم اپنی صحت وزندگی کو اللہ تعالی
کی دی ہوئی امانت اور نعمت سمجھ کر خیال رکھیں گے تو اس سے ہمیں جسمانی
فائدہ بھی پہنچے گااور شکر کا جذبہ بھی پیدا ہوگا۔صحت مند اور توانا ہونے
کے سبب ہم اللہ تعالی کی عبادات بھی صحیح طریقے سے بجا لائیں گے اورباقی
روز مرہ زندگی کے کام بھی سرانجام دے سکیں گے۔ورنہ تو ہمارے پاس بہانوں کی
لسٹ موجود ہوتی ہے۔غرض یہ کہ اس سے ہم دینی اور دنیاوی طورپر مستفید ہو
سکتے ہیں۔
نقشِ توحیدکا ہر دل پر بیٹھایا ہم نے
زیرِ خنجر بھی یہ پیغام سنایا ہم نے
|