عالمی سطح پر نوول کورونا وائرس کی تباہ کاریاں بدستور
جاری ہیں اور اس وقت امید کی واحد کرن جلد از جلد وائرس کے خلاف ویکسین کی
دستیابی ہے۔ چین ،امریکہ ،برطانیہ سمیت دنیا کے اکثر ممالک میں ویکسین کی
تیاری کے حوالے سے کاوشیں جاری ہیں اور لوگ پرامید ہیں کہ جلد اس حوالے سے
خوشخبری سننے کو ملے گی۔
ویکسین کی تیاری کے حوالے سے اہم پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ چین میں تیار کی
جانے والی ایک ویکسین کی کامیاب آزمائش بندروں پر کی گئی ہے جسے انتہائی
موئثر قرار دیا گیا ہے۔ PiCoVaccنامی یہ ویکسین بیجنگ کے ایک تحقیقی ادارے
نے تیار کی ہے۔سائنسدانوں کے مطابق بندروں کے جسمانی دفاعی نظام میں اینٹی
باڈیز پیدا کرنے کی صلاحیت پیدا کی گئی ہے ۔ یہ اینٹی باڈیز وائرس کے خاتمے
میں معاون ثابت ہوئے ہیں۔
تحقیق میں ایشیائی بندروں کی ایک خاص نسل پر ویکسین کا استعمال کیا گیا اور
تین ہفتوں بعد ان بندروں کو وائرس کے سامنے "ایکسپوز" کر دیا گیا۔ایک ہفتے
بعد ماہرین نے دیکھا کہ وہ بندر جنہیں ویکسین کی اضافی خوراک دی گئی تھی
اُن کے پھیپھڑوں میں وائرس نہیں پایا گیا جس کا مطلب یہ ہوا کہ ویکسین
بھرپور کام کر رہی ہے۔ اسی دوران ایسے بندر جنہیں ویکسین نہیں دی گئی تھی
وہ وہ وائرس کا شکار پائے گئے اور اُن میں شدید نمونیا کی علامات بھی ظاہر
ہوئی ہیں۔
چین میں انسانوں پر ویکسین کی آزمائش اپریل کے وسط سے جاری ہے اور یہ بات
قابل زکر ہے کہ دنیا بھر میں لاکھوں افراد کو لقمہ اجل بنانے والے نوول
کورونا وائرس کے خلاف PiCoVacc ہی واحد ویکسین نہیں ہے بلکہ چائنیز اکیڈمی
آف ملٹری سائنسز کی تیار کردہ اسی طرح کی ایک اور ویکسین کی آزمائش بھی
انسانوں پر جاری ہے۔سینو فارم کی تیارکردہ ویکسین بھی آزمائش کے دوسرے
مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔
چوبیس جنوری کو چینی مرکز برائے انسدادامراض نے کامیابی کے ساتھ کورونا
وائرس کی ساخت کی جانچ کے بعد ویکسین کی تیاری شروع کر دی تھی۔ مختلف
اداروں جیسے ٹونگجی یونیورسٹی ، زیامین یونیورسٹی ، چائنیز اکیڈمی آف
سائنسز اور دوا ساز کمپنیوں نے ایک بھی منٹ ضائع کیے بغیر ویکسین کا مطالعہ
شروع کیا۔
ویکسین کی تیاری کے حوالے سے مارچ میں ایک اہم پیشرفت ہوئی۔ اکیڈمی آف
ملٹری میڈیکل سائنسز کی ماہر چن وی کی زیرقیادت سائنسی تحقیقی ٹیم کی تیار
کردہ ویکسین کے کلینکل ٹرائلز کی منظوری دی گئی ہے۔نو اپریل سے یہ ویکسین
کلینکل ٹرائل کے دوسرے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ یہ دنیا میں پہلی ویکسین
ہے جو کلینکل ٹرائل کے دوسرے مرحلے میں داخل ہوئی ہے۔ بارہ اپریل کو ہی
سینو فارم اور چائنیز اکیڈمی آف سائنسز کی مشترکہ طور پر تیارکردہ ایک
ویکسین کلینکل ٹرائل کے لئے منظور کی گئی۔تیرہ اپریل کو بیجنگ کی شینگ
بائیوٹیکنالوجی کمپنی کی تیار کردہ غیر فعال ویکسین کی منظوری دی گئی۔
یہ امر خوش آئند ہے کہ چین میں مختلف تحقیقی اداروں کی تیار کردہ ویکسینز
کے جانوروں پر کامیاب تجربات کیے گئے ہیں اور ویکسینز کلینکل ٹرائل کے
مرحلے میں داخل ہوچکی ہیں۔یہ سوال بھی ذہن میں آتا ہے کہ اگر ویکسین
کلینکل ٹرائل کے دوسرے مرحلے میں داخل ہو چکی ہیں تو ان کا استعمال کب ممکن
ہے ؟ عام طور پر کلینکل ٹرائل چار مراحل پرمشتمل ہوتا ہے۔ ہر ایک مرحلے کے
مقاصد اور نوعیت مختلف ہے اور اسی طرح آزمائش کا دورانیہ بھی مختلف ہے۔
کلینکل ٹرائل کے پہلے مرحلے میں ویکسین کی سیکیورٹی توجہ کا نکتہ ہے۔ جس کا
مطلب یہ ہوا کہ بیس پچیس صحت مند رضا کاروں پر یہ ویکسین استعمال کی جائے
گی، اور اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ ویکسین کی مختلف خوراکوں سے
انسانی صحت کو کوئی نقصان نہ پہنچے ۔
کلینکل ٹرائل کے دوسرے مرحلے اس بات کا تعین کیا جاتا ہے کہ یہ ویکسن موئثر
ہے یا نہیں اور ویکسین کے استعمال کے طریقہ کار اور مقدار پر توجہ دی جاتی
ہے ۔ اس مرحلے میں تقریباً سینکڑوں رضا کار اور کئی ماہ درکار ہوتے ہیں۔
تیسرے مرحلے کے کلینکل ٹرائل کے لئے درپیش نمونوں کی تعداد زیادہ وسیع ہے۔
یہاں تک کہ ہزاروں رضاکاروں کی ضرورت ہے۔ تیسرے مرحلے کے کلینیکل ٹرائل میں
حتمی نتائج عام طور پر ویکسین کی منظوری کی سائنسی بنیاد ہیں۔تیسرے مرحلے
سے حاصل شدہ نتائج کا جائزہ لیا جاتا ہے جبکہ چوتھے مرحلے میں مزید آزمائش
کے بعد ہی حتمی منظوری دی جاتی ہے۔
اسی باعث ویکسین کی تیاری بلاشبہ ایک دشوار ، پیشہ ورانہ اور انتہائی ذمہ
داری کا کام ہے ۔کووڈ۔ 19 کے خلاف بھی ماہرین دنیا بھر میں وقت کی تیز
رفتاری کا مقابلہ کرتے ہوئے ویکسین کی تیاری میں تیزی لا رہے ہیں۔ ویکسین
کی تیاری میں جن مسائل کا سامنا رہتا ہے اُن میں عام طور پر رضاکاروں کی
تلاش ایک مشکل مرحلہ ہے۔اگر چین کی ہی بات کی جائے تو اس وقت متاثرہ افراد
کی تعداد صرف سینکڑوں میں ہے اور ماضی میں بھی سن دو ہزار تین میں سارس
ویکسین کی تیاری بھی اسی باعث ہی روک دی گئی تھی۔
امریکی صدر ٹرمپ بھی متعدد مرتبہ ویکسین کی تیاری سے متعلق اعلانات کر چکے
ہیں اور اُن کے مطابق امریکہ ویکسین تیار کرنے والا دنیا کا اولین ملک ہو
گا ۔نیو یارک ٹائمز نے اپنی ایک رپورٹ میں تسلیم کیا کہ چین ویکسین کی
تیاری میں سبقت لے رہا ہے ، چین کے چار اداروں کی تیار کردہ ویکسینز کی
انسانوں پر آزمائش جاری ہے اور چین کی تیار کردہ ویکسین کا کلینکل ٹرائل
کے دوسرے مرحلے میں داخل ہونا ایک اہم ہیش رفت ہے۔برطانیہ کی آکسفورڈ
یونیورسٹی کے سائنسدانوں کی تحقیق میں بھی اس حوالے سے نمایاں پیش ہوئی ہے۔
لہٰذا امید کی جا سکتی ہے کہ بہت جلد ویکسین کی دستیابی سے نوول کورونا
وائرس کو شکست دی جا سکے گی اور پوری دنیا مستقبل میں سائنس و ٹیکنالوجی کو
وہ اہمیت ضرور دے گی جس سے ویکسین یا طبی تحقیق سے جڑے ماہرین کی حوصلہ
افزائی ہو سکے کیونکہ آج وقت نے ثابت کیا ہے کہ ترجیحات میں تبدیلی سے ہی
انسانیت کا بچاو ممکن ہے۔
|