جب نو آبادیاتی دور ختم ہوا تو دنیا بھر میں لوگ
بڑے خوش ہوئے کہ ہم آزاد ہو گئے۔ حالانکہ غلامی میں ذرا فرق نہ پڑنا تھا
اور نہ پڑا۔ کیونکہ آقائوں نے آزاد نہیں کیا تھا بلکہ اتنے بڑے خطوں کو
کنٹرول کرنے کے لئے ان کے پاس نفری نہ تھی۔ لِہٰذا انہوں نے افسر شاہی
(Bureaucracy) کا نظام قائم کیا اور اس غلامی کو پراکسی سے کنٹرول کیا۔
ہمارے لئے یہ کچھ اس طرح ہے کہ پہلے گورا خود حکومت کرتا تھا ۔ اب اسنے
ہماری بھیڑ کو اپنے تربییت یافتہ کالے افسروں سے کنٹرول کرنا شروع کر دیا۔
دنیا میں جس ملک نے جس کسی بھی انسانی گروہ کو غلام بنا لیا تھا۔ اسی
افسرشاہی سے قابو کیا۔ آپ کی سہولت کے لیئے آقائوں کی فہرست عرض کر دوں۔
۱۔ برطانیہ۲۔فرانس۳۔ہالینڈ۴۔ بلجییم۵۔جَرمنی۶۔اسپین۷۔پرتگال۸۔ اٹلی جن
اقوام پر انکا قبضہ تھا انکی فہرست عرض ہے۔ افریقہ کو ان سب نے ایک میز پر
بیٹھ کر افریقہ کے نقشے پر اسکیل اور پنسل سے لائنیں کھینچ کر بانٹ لیا۔
پھر قبضہ لینے نکل گئے۔ اسی طرح ایشیاء کی طرف نکل گئے اور اپنی مرضی کے
حصوں پر قابض ہو گئے۔ جب نفری کی کمی کی وجہ سے حُکومت کرنا ایک مشکل اور
تھکا دینے والا کام تھا ۔ انہوں نےاپنے لئے آسانیاں پیدا کرنےکے لئے افسر
شاہی کو ترتیب دیا۔اور تحاریک آزادی کی تنظیموں میں اپنے کالے حکمران داخل
کر دیئے پھر اپنے گماشتوں ہی کو حکومت منتقل کر دی۔ تحاریک آزادی کے اصل
نمائندوں کو یا تو خریدلیا یا اسطرح ہٹا دیا کہ وہ گمنام ہو گئے۔
پھر Divide and Rule تقسیم کرو اور حکومت کرو کے اصول پر اقتدار کوطول دینے
کے لئے جمہوریت کا تقدّس قائم کیا گیا۔ اور سب اس فریب میں کہ وہ آزاد ہو
گئے۔
مزید یہ کہ ایک اور سمت سے ان آزاد کردہ نام نہاد ممالک کو گرفت میں رکھنے
کے لئے اقوام متّحدہ اور اسکے اداروں کا گورکھ دھندا سامنے لا یا گیا۔
ملکوں کو آزادی اس مہارت سے دے گئی ۔ کہ انکے درمیان سکون کے بجائے بے چینی
بر قرار رکھی گئی۔ تاکہ اقوام ترقی نہ کر سکیں۔ اور ہمیشہ اپنے پرانے
آقائوں کے دست نگر رہیں۔ اس کی مثال میں عرض ہے کہ انڈیا اور پاکستان کے
درمیان کشمیر کا مسئلہ ڈال دیا۔ ترکی اور یونان کے درمیان میں قبرص کو چھوڑ
دیا۔
اقوام کی بے چینی کے لئے اقوام متحدہ نے کچھ نہ کیا۔ نام نہاد انسانیت کے
نام پر ۔ اقوام متحدہ کی فنڈنگ بھی بڑے بڑے ممالک کرتے ہیں تو ہماری یہ
توقع کہ اقوام متحدہ ہمارے لئے کچھ کرے۔ ہماری جیسے پس ماندہ اقوام کو
سوچنا بھی نہ چاہیئے۔
آج کی دنیا میں اقوام متحدہ اور اسکے ادارے غریب اقوام کی آبادی کو اپنی
مارکیٹ سمجھتے ہیں۔ اسپر مستزاد یہ کہ بڑے بزنس مین اقوام متحدہ کے اداروں
کو اپنی ذاتی تجارت کے لئے خرید لیتے ہیں۔ اور غریب اقوام کچھ کر نہیں
سکتیں ۔اور انکی تجارت کےلئےانکی آلہ کار بنی رہتی ہیں۔
فوری طور پر ہمارے ہاں کرونا ایک بہت بڑا مسئلہ پیدا کیا گیا ہے۔ اور بڑے
بزنس مین کا اقتصادی ایجنڈا ہے۔ اور ان کے اندرونی مقاصد بھی ہیں۔ میرا
خیال ہے ۔ آج سوشل میڈیا کی وجہ سے ہم تک ہر قسم کی خبریں پہنچ جا تی ہیں۔
مگر آزادیئےاظہار رائے کے چمپین جب اپنی تجارت کو خطرے میں دیکھتے ہیں۔ تو
اپنے اثر رسوخ سے یوٹیوب سے ہٹوادیتے ہیں۔
یہ کرونا وائرس سراسر اقتصادی مفاد کے لئے لایا گیا ہے۔ اور ہمارے ہاں بھی
ایسے لوگ ہیں جو انکے پے رول پر ہیں۔ لِہٰذا ان کے لئے کرونا کے مسئلہ کو
پوری طرح بڑھاوا دے رہے ہیں۔ اب دنیا بھر میں ویکسین بنائی جا رہی ہے۔ لیکن
عالمی ادارہ صحت پاکستان یا کسی اور طرف سے اس کرونا بیانیہ کے خلاف اظہار
رائے کی اجازت دینے پر آمادہ نہیں ہے،
ویتنام کے ایک مشہور اور مستند ڈاکٹر ہیں۔ ڈاکٹر بسوا رائے روپ چودہری۔
پہلے دن سے وہ ہر طرح سےسمجھارہے ہیں۔ کہ کرونا میں کچھ نہیں ہے۔ مگر اموات
خوف پھیلانے سے ہو رہی ہیں۔ یو ٹیوب نے انکی اکثر ویڈیو کو ہٹا دیا۔
امریکہ کے ایک بڑے ڈاکٹر راشد بوتر جو کہ امریکن آرمی میں بڑے عہدے پر فائز
تھے۔ انہوں نے اس کرونا کی پالیسی پر بہت کچھ لکھا اور ویڈیو بھی بنائی
۔مگر یو ٹیوب نے وہ بھی ہٹا دیں۔
کل پاکستان کے چند ڈاکٹروں نے ایک پریس کانفرنس کی۔ جس میں انہوں نے بتایا
کہ جو ویکسین وہ لائے ہیں نیوز ی لینڈ میں مستعمل ہے اور کامیاب بھی ہے۔
انکا کہنا تھا کہ وہ کوئی منافع نہیں کمانا چاہتے ۔ بلکہ اپنے ملک میں اپنے
بھائیوں کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔مگر وہ ویڈیو بھی ہٹا دی گئی۔ آخر کیوں؟
اسی پریس کانفرنس میں کوئی کہ رہا تھا کہ WHO کی اجازت کے بغیر آپ یہ کیسے
کر سکتے ہیں؟
کہاں گئی ہماری آزادی اور خود مختاری دوسرا سوال یہ ہے کہ ہمارے سارے سیاست
دان اور میڈیا اینکر بلا وجہ خوف پھیلارہے ہیں۔ حقیقی طور پر ایسا کچھ نہیں
ہے۔ہم وہ قوم ہیں جو جنگ میں بمباری کے دوران ٹرنچ ،خندقوں میں جانے کے
بجائے باہر نکل کر دیکھتے ہیں۔ ایمان کی بنیاد پر انکو اسی خوف سے متاثر
نہیں کیا جا سکتا ہے۔ یہ پاکستان میں اموات کی کمی کا سبب ہے۔
مجھے بڑی حیرت ہوتی ہے کہ یہ لوگ کسی ذاتی علمیت کے بغیر اموت کے کمنٹری
کرتے رہتے ہیں۔ اور زیادہ سے زیادہ اموات کی تمنّا کر رہے ہیں۔
اور ہمیشہ لاک ڈاؤن اور کرفیو کی حمائت کرتے رہتے ہیں انکے لیئے ہفتہ کا
لاک ڈاؤن کوئی بات ہی نہیں ہے۔ جبکہ غریبوں کی زندگی پر بنی ہوئی ہے۔
دوسری اہم بات یہ لوگ اللہ کی طرف سے قضاوقدر سے مرنے والوں کا کوئی شمار
نہیں کرتے۔ آدمی ضعیف العمری سے انتقال کرے، کینسر سے جائے۔ ہارٹ اٹیک ۔ ہو
یا اکسیڈنٹ سب کو کرونا میں لکھ دیتے ہیں۔
ہمارے ڈاکٹروں کو پس پشت ڈالکر اسرائیل سے ریسرچ کروائی جا رہی ہے۔
بلگیٹ ہمارے مشیر کار ہیں۔ اور اینکر پرسن مستقل خودکشی کی ترغیب دے رہا ہے
کہ لاک ڈاؤن کرلو۔ کہاں ہے ہماری آزادی؟ کیا ہم اپنی حفاظت کر سکتے ہیں؟ کل
یہی لوگ بلگیٹ سے ملکر ویکسین کو مینڈیٹری کروادیں گے۔ اور ہم اپنی شخصی
آزادی سے محروم ہو جایئں گے۔اللہ ہماری مددفرما اور ان جاہلوں اور فتنہ
مسیح ا لدجّال کے شر سے محفوظ رکھ۔آمین
|