سورۃ یوسف
اس کائنات کا ہر مسئلہ اس کائنات کو درکار ہر مسئلے کا حل ایک مکمل اور
کامل کتاب میں موجود ہے ۔جس میں رائی کے دانے کے برابر بھی شک و شبہ کی
گنجائش نہیں ۔ہم بتدریج اس کتاب سے عقیدت اور اس کافہم عام کرنے کے لیے
کوشاں ہیں ۔اسی کی ایک کڑی آج کی یہ تحریر بھی ہے ۔لیجیے ۔ہم سورۃ یوسف کے
متعلق جانتے ہیں کہ اس سورۃ میں آخر ہے کیا؟
سورۂ یوسف مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی اور اس سورت کاشانِ نزول یہ ہے کہ
یہودیوں کے علماء نے عرب کے سرداروں سے کہا تھا کہ محمد مصطفٰی صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے دریافت کرو کہ حضرت یعقو ب
عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کی اولاد ملک ِ شام سے مصر میں کس طرح
پہنچی اور اُن کے وہاں جاکر آباد ہونے کا سبب کیا ہوا اور حضرت یوسف
عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ کیا ہے؟ اس پر یہ سور ۂ مبارکہ
نازل ہوئی۔
(مدارک، یوسف، تحت الآیۃ: ۱، ص۵۱۹۔)
اس سورت میں 12 رکوع، 111 آیتیں ، 1600 کلمے اور 7166 حروف ہیں۔ (خازن،
تفسیر سورۃ یوسف علیہ الصلاۃ والسلام، ۳/۲۔)
اگر ہم اس سورۃ کے نام پر غور کریں تو یہ ایک شخصیت کے نام پر ہے جی ہاں یہ
ایک نبی علیہ السلام کے نام پر ہے۔اس سورت میں اللہ تعالیٰ کے نبی حضرت
یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے حالات ِزندگی اور ان کی سیرتِ
مبارکہ کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اس مناسبت سے اس سورت کا نام
’’سورۂ یوسف‘‘ رکھا گیا۔
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَافرماتے ہیں ’’ایک دن
یہودیوں کے علماء میں سے ایک عالم جو کہ تورات کا قاری تھا حضور پر نور
صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَکی بارگاہ میں حاضر ہوا،
اس وقت نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سورۂ
یوسف کی تلاوت فرما رہے تھے۔ اس عالم نے سورۂ یوسف سن کر عرض کی: اے محمد
(مصطفی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ)، آپ کو یہ سورت
کس نے سکھائی ہے؟ ارشاد فرمایا ’’اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ سورت سکھائی ہے۔
وہ یہودی عالم حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ
وَسَلَّمَکا ارشاد سن کر بہت حیران ہوا اور یہودیوں کے پاس آ کر ان سے
کہنے لگا ’’کیا تم جانتے ہو،خدا کی قسم! محمد(مصطفی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ) قرآنِ مجید میں ان باتوں کی تلاوت کرتے ہیں
جو تورات
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ میں
نازل کی گئی ہیں۔ چنانچہ ان میں سے ایک گروہ بارگاہِ رسالت صَلَّی اللہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ میں حاضر ہوا اور انہوں نے آپ صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَکے اَوصاف کو پہچانا، مُہرِ نبوت
کی زیارت کی اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے
سورۂ یوسف سن کر اسلام قبول کر لیا۔ (1)
کسی بات کو سمجھنے سے پہلے ہمیں یہ معلوم ہونا ضروری ہے کہ اس بات کا محل
کیا ہے ؟مقصد کیا ہے ؟اس بات کا مضمون یا عنوان کیا ہے ؟آئیے ہم سورۃ یوسف
کے مضامین پر غور کرتے ہیں ۔ اس سورت کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ اس میں نبی
کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَکی نبوت کی دلیل کے
طور پر حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے حالاتِ زندگی تفصیل
کے ساتھ بیان کئے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ اس سورت میں یہ مضامین بیان ہوئے
ہیں :
(1) …قرآنِ مجید کا بہترین قصہ بیان کیا گیا ۔
(2) …حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے واقعے میں یہودیوں کے
لئے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی نبوت کی
نشانیاں ہیں۔
(3) …تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّم َسے
پہلے جتنے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَا م دنیا میں تشریف
لائے سب مرد ہی تھے کسی عورت کو نبوت نہیں ملی۔
(4) …انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوموں کے
واقعات میں عقلمندوں کے لئے عبرت اور نصیحت ہے۔
(5) …اس سورت کے آخر میں قرآنِ مجید کے اَوصاف بیان کئے گئے کہ یہ سابقہ
آسمانی کتابوں کی تصدیق کرتا ہے، اس میں ہر چیز کا مُفَصَّل بیان ہے اور
یہ مسلمانوں کے لئے ہدایت اور رحمت ہے۔
سبحان اللہ !!ہے نا مفید معلومات ۔تو یہ معلومات دوسروں تک بھی پہنچائیں
۔ان شاء اللہ کاروان علم و آگاہی کے اس کاروان کے آپ میرِ کارواں ثابت
ہوں گے ۔اللہ عزوجل ہمیں اخلاص کی نعمت سے بہرہ مند فرمائے ۔
نوٹ:آپ ہمارے اپنے ہیں تو ہم اپنے من کی بات بھی کردیتے ہیں ۔ہم ایک
تعلیمی ادارہ بنانے کے لیے کوشاں ہیں ۔جس میں ہمیں آپ کی مدد درکارہے ۔آپ
اس معاملے میں ہمارے ساتھ تعاون کیجیے ۔اپنے تعاون سے پہلے تصدیق اور تحقیق
ضرور کرلیں کہ کہیں ہم مفروضوں پر مبنی بات تو نہیں کررہے ۔اس لیے آپ ہم
سے رابطہ کرسکتے ہیں ۔ |