تحریر : مہک سہیل،کراچی
کوڈ 19 نے دنیا میں ایسی تبدیلیاں تو پیدا کیں جن کو انسانی آنکھوں نے دنوں
اور گھنٹوں میں بدلتے دیکھا تو کچھ تبدیلیاں ایسی بھی ہوئی جو انسانی وجود
کے بعد قیامت تک دیکھنا مشکل تھا۔اگر ہم جنگ کی بات کریں تو اس سے جو
تبدیلیاں دیکھنے میں آتی ہیں انکے اثرات زیادہ تر منفی ہی ہوتے ہیں زمین کی
بات کریں یا آب وہوا کی یا پھر آسمان تک پہنچنے والے جنگی نقصان کی جو
دھماکا خیز مواد کے ذریعہ آسمان پر دْھوا بن کر رونما ہو کوڈ کو بھی ایک
عالمی جنگ قرار دیا جارہا ہے پر سوائے انسان کے کرہِ ارض پر اس عالمی وباہ
کا کوئی منفی اثر نہیں پڑا۔بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ انسانوں نے دنیا اور
قدرت سے حاصل ہونے والے وسائل کو جتنا نقصان پہنچایا جو زمین پر دباو ڈالا
ان سب سے دنیا آج آزاد اور انسان قید میں ہے تو غلط نہیں۔ سمندر کی لہریں
بھی جیسے آزاد ہیں جو بھاری کشتیوں اور جہازرانیوں کا بوجھ سر پر اٹھائی
پھرتی ہیں ساحل کچرے سے پاک ہیں جو کچرا مچھلیاں مچھلیاں اپنے پیٹ میں
اتارلیتی ہیں اور مرجاتی ہے۔ہوا بھی فیکٹریوں اور انڈسٹریوں کی گرد آلود
ہواوں سے پاک ہے وہ سڑکیں بھی سکون میں ہیں جو کئی سالوں سے بھاری بھرکم
گاڑیوں کا بوجھ اٹھاتی آئی ہیں خستہ حال اپنی جگہ چپ چاپ کسی راہگیر کا
انتظار کررہی ہیں،پرندے بھی اس کشمکش میں مبتلا ہیں کہ آسمان میں پرواز
کرنے والے جہاز اور طیارے کہاں ہیں؟پرانے درخت اپنی چھال زمین پر بچھا کر
بڑی شان سے کھڑے ہیں کیونکہ انہیں دور دور تک کوئی کٹائی کرنے والا نہیں
دِکھ رہا،سمندر کی بڑی مچھلیاں اونچے گوتے کھارہی ہیں کیونک کوئی شکاری
شکار کی آڑ میں کھڑا نہیں دکھتا۔ یہ وباء اختتام تک ہمیں اس دنیا میں اور
کیا کیا مثبت اثرات دکھاتی ہے ہم سب اس کے منتظر ہیں مگر جو لوگ جان سے گئے
افسوس وہ یہ سب نہیں دیکھ پائے گے انسان اور معشیت کو ایک بڑا دھچکا تو اس
وباء نے دیا ہے مگر غور کریں تو دنیا اپنی جگہ کھڑی ہے ایسا محسوس ہوتا ہے
کہ جیسے کوئی انتقام کا وقت ہے۔اگر دنیا اسی تیزی سے ریس لگاتے ہوئے بڑھتے
چلے جائے اور موسمیاتی تبدیلیوں کو خاطر خواہ نہ لائے تو دنیا آب وہوا کے
بحران میں ڈوب جائے گی۔امریکی نیشنل بحراتی اور ماحولیاتی انتظامیہ نے
اندازہ لگایا ہے کہ پیمائش شروع ہونے کے بعد سے 2020 کا سب سے گرم سال ہونے
کا 75 فیصد امکان موجود ہے دنیا کی ساڑھے سات ارب کی آبادی ہے ہم ایک دوسرے
سے آگے نکلنے کی حوس میں اتنے پاگل ہوگئے ہیں کہ زمین اور زیرِ زمین بہت
نقصان پہنچا بیٹھے ہیں۔ دنیا کے تمام ممالک کو مل کر ایسی ٹیکنالوجیوں وجود
میں لانا ہوگا جو ان مسائل کو حل کر سکے جن سے انسان اور حیوان مستفید ہوں
اور کرہ ارض کو نقصان نہ پہنچے۔ہمیں فکر ہونی چاہیے کہ گلیشیر پگھل رہے ہیں
کچھ برسوں میں پانی کی قلت کا ایسا بحران پیدا ہونے کا خدشہ ہے کہ مفت میں
یہ جس کو نصیب ہو وہ نصیب والا کہلائے گا،کہنے سے مراد یہ ہے کہ زمین ہمارے
لیے ریپروڈکشن کررہی ہے مگر ہم کوتاہی برت رہے ہیں جو زمین زرخیز ہے ہم اس
پر تعمیرات کرکے زراعت کے لیے بنجر زمین کا ارتکاب کرتے ہیں اور اس پر
ضرورت سے زیادہ پانی ضائع کرتے ہیں اور اس پر دگنی محنت بھی لگتی ہے۔دنیا
کے آبی وسائل تیزی سے کم ہورہیہیں ایک وقت ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ پانی پر
کوئی جنگ چھڑ جائے۔ قدرتی آفات،غربت،بیماری اور خوراک کی کمی کا سامنا دنیا
آج پہلی بار تو نہیں کررہی ایک عرصہ دراز سے لوگ ان تمام مشکلات سے دوچار
ہیں،انسانیت کو ضرورت ہے ریپروڈکشن کی ہم آج بھی چاہے تو دنیا جنت نما بنا
سکتے ہیں بیشک فرشتہ صفت ہم نہیں ہوسکتے پر قدرت ہمیں ہر موسم میں بدلنے
اور ہر آفت میں سمبھلنے کا موقع ضرور دیتی ہے ہمیں بس غور و فکر سے وسائل
کا صحیح استعمال کرنا ہے- |