مورخین، مصنفین، مبصرین و تجزیہ نگار دقت نظر، رسوخ بصیرت،
قوت استنتاج اور علمی دیانت کا لحاظ رکھنے میں ایک سے نہیں ہوتے بسا اوقات
سیاہ کو سفید بنادیتے ہیں اور غلط کو درست سے ملادیتے ہیں کبھی واقعات کو
توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں تو کبھی واقعات سے اس چیز کو دلیل لیتے ہیں جس پر
وہ دلالت ہی نہیں کرتے، گذشتہ دو دہائیوں سے پھیلایا جانے والا اسلاموفوبیا
اس کی سب سے بڑی مثال ہے کہ کس طرح بھونڈے طریقے سے اسلام کو دہشتگردی سے
جوڑ کر پیش کیا جاتا آرہا ہے اور پاکستان دشمن عناصر نے موقع سے فائدہ اٹھا
کر بڑی خوبصورتی سے پاکستان کو دہشتگردی کا گڑھ بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی
جاتی رہی اور دوسری طرف اندرون پاکستان دہشتگرد گروہوں کو فنڈنگ و سرپرستی
کرتے ہوے کراچی تا خیبر بدامنی و دہشتگردی کا طوفان کھڑا کردیا، ایسے میں
افواج پاکستان نے بفضل اﷲ تعالیٰ دونوں محاذ پر دشمن کو ناکام بنادیا اور
اس نریندر مودی کو خاک چاٹنے پہ مجبور کردیا جو فخریہ کہتا پھرتا تھا کہ ''ہم
نے پاکستان کو آئسولیٹ یعنی تنہا کردیا ہے'' اور جب پاکستان سے دہشتگردی کے
ناسور کو اکھاڑ کر پھینک دیا گیا تو نظریہ پاکستان اور افواج پاکستان کے
خلاف ایک منظم اور مضبوط پروپیگنڈے کی یلغار شروع ہوگئی ساتھ ساتھ دوسری
طرف ڈرامائی انداز سے PTM کی صورت میں ایک گروہ پیدا کردیا گیا جسے اس کی
بساط سے بڑھ کر عالمی و قومی سطح پر غیرمعمولی کوریج دی گئی، PTM سے منسلک
افراد کا ہدف فقط و فقط افواج پاکستان ہی نظر آتی ہیں اور وہ کونسا الزام
ہے جو ابتک اس جانب سے سپاہ وطن پہ نہ لگایا گیا ہو، ان الزامات میں کتنی
حقیقت کتنا فسانہ جاننے کے لیے ماضی کے اوراق پلٹ کر دیکھنا ہوگا اس ضمن
میں حسین حقانی کی کتاب Pakistan between Mosque & Military سے جائزہ لیتے
ہیں کہ PTM کی حقیقت کیا ہے اور اس کے بیانیہ کتنی حقیقت پہ مبنی ہے، پشتون
تحفظ موومنٹ اور کچھ نام نہاد دانشوروں کا کہنا ہے کہ پاکستان و پاک فوج نے
افغانستان کو پسماندگی کی طرف دھکیلا جبکہ حسین حقانی صاحب اپنی مذکورہ
بالا کتاب میں لکھتے ہیں کہ روسی مداخلت سے پہلے افغانستان کے پاس کوئی
مناسب انتظام ریونیو نہیں تھا اور اس کا 60 فیصد انحصار بیرونی امداد پر
تھا'' مزید لکھتے ہیں کہ جب PDPA کے زریعے ظاہر شاہ کا تختہ کلٹی کرکے داود
خان نے افغانستان کا کنٹرول سنبھالا تو PDPA کے بمشکل پانچ سے چھ ہزار
ارکان ہونگے، اس کے بعد نور محمد ترکی اور پھر ببرک کرمل نے جس طرح افغان
تخت اپنے نام کیے تو اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ افغانستان میں کوئی
باقاعدہ نظام نہیں تھا بس ''جس کی لاٹھی اس کی بھینس'' کے مصداق جو طاقتور
ہوتا وہی بادشاہ بن بیٹھتا، حسین حقانی نے افغانستان کے لیے smaller &
weaker state کے لفظ استعمال کیے ہیں اور قبائل کے لیے lawless جس سے ایک
بات تو واضح ہے کہ افغانستان نہ تو کوئی طاقتور ریاست تھی نہ ہی خوشحال، وہ
مزید لکھتے ہیں کہ افغانستان کے زریعے سے پاکستان میں بدامنی کو ہوا دی
جاتی رہی ایک طرف پشتونستان جبکہ دوسری طرف بلوچ علیحدگی پسند تحریکوں کو
سپورٹ فراہم کی جاتی رہی جوکہ افغانستان کی بساط میں تو نہیں تھا البتہ
قائداعظم و لیاقت علی خان کو اس بات کا قوی یقین تھا کہ بھارت افغانستان کے
زریعے پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ پشتون تحفظ
موومنٹ اور کچھ نام نہاد دانشوروں کا کہنا ہے کہ پاکستان و پاک فوج نے
افغانستان کو پسماندگی کی طرف دھکیلا جبکہ حسین حقانی صاحب اپنی مذکورہ
بالا کتاب میں لکھتے ہیں کہ روسی مداخلت سے پہلے افغانستان کے پاس کوئی
مناسب انتظام ریونیو نہیں تھا اور اس کا 60 فیصد انحصار بیرونی امداد پر
تھا'' مزید لکھتے ہیں کہ جب PDPA کے زریعے ظاہر شاہ کا تختہ کلٹی کرکے داود
خان نے افغانستان کا کنٹرول سنبھالا تو PDPA کے بمشکل پانچ سے چھ ہزار
ارکان ہونگے، اس کے بعد نور محمد ترکی اور پھر ببرک کرمل نے جس طرح افغان
تخت اپنے نام کیے تو اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ افغانستان میں کوئی
باقاعدہ نظام نہیں تھا بس ''جس کی لاٹھی اس کی بھینس'' کے مصداق جو طاقتور
ہوتا وہی بادشاہ بن بیٹھتا، حسین حقانی نے افغانستان کے لیے smaller &
weaker state کے لفظ استعمال کیے ہیں اور قبائل کے لیے lawless جس سے ایک
بات تو واضح ہے کہ افغانستان نہ تو کوئی طاقتور ریاست تھی نہ ہی خوشحال،
حقانی صاحب جن کے ہم خیال آج کل پشتونوں اور افغانیوں کو زبردستی کے
خیرخواہ بنے ہوے ہیں کل تک حسین حقانی انکے لیے ایسا خیال رکھتے تھے کہ
By accepting a neutral & independent Afghan Kingdom they sought to pass
on burden of subdueing some of lawless tribes to a local monarch, albeit
with british economic & military assistance.
ایک اور جگہ پشتون قبائل کے لیے حسین حقانی راقم ہیں کہ
The british created autonomous tribal agencies controlled by british
political officers with help of british chieftains whose loyalty was
ensured through regular subsidies.
آج تک پنجاب و سندھ کے وڈیروں جاگیرداروں کے لیے تو لکھا جاتا رہا ہے وہ
انگریز کے وفادار تھے لیکن کبھی پشتونوں کے لیے ایسا خیال نہیں کیا گیا اور
پاکستانی عوام و پاک فوج پشتونوں کو بہادری کی علامت سمجھتے ہیں جبکہ آج کل
PTM کے سب سے بڑے ہمدرد و ہم خیال کل تک پشتونوں کے لیے یہ خیال رکھتے تھے
کہ وہ پیسے کے عیوض انگریز کے وفادار تھے اس کے علاوہ وہ مزید لکھتے ہیں کہ
افغانستان کے زریعے سے پاکستان میں بدامنی کو ہوا دی جاتی رہی ایک طرف
پشتونستان جبکہ دوسری طرف بلوچ علیحدگی پسند تحریکوں کو سپورٹ فراہم کی
جاتی رہی جوکہ افغانستان کی بساط میں تو نہیں تھا البتہ قائداعظم و لیاقت
علی خان کو اس بات کا قوی یقین تھا کہ بھارت افغانستان کے زریعے پاکستان
میں عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ
افغانستان نے روز اوّل سے پاکستان میں بدامنی کو سپورٹ کیا اور پشتونستان
کی مہم چلائی حتٰی کہ ڈیورنڈ لائن پر بھی اعتراز اٹھایا جسے برطانیہ نے
یکسر مسترد کردیا اس ضمن میں لارڈ برڈووڈ اپنی کتاب Indo Pak a continent
decide میں لکھتے ہیں کہ
British insisted that its treaties with Afghanistan remained valid for
lawful successor state Pakistan and Afghanistan did not formally take
its claim to UN.
آج کل ایک تیر سے دو شکار کے مصداق غدار ساز فیکٹری کے نام سے ملکی سلامتی
کے اداروں پہ تہمت لگائی جاتی ہے اور بڑی چالاکی سے ریاست مخالف عناصر کو
تحفظ و جگہ دی جاتی ہے جس کی قائداعظم، لیاقت علی خان و دیگر بانی رہنماوں
کے نزدیک کوئی جگہ نہیں تھی جیسا کہ قائداعظم محمد علی جناح نے NWFP (KPK)
سے ڈاکٹر خان صاحب کی حکومت گرا کر کیا، قائداعظم و لیاقت علی خان نے باچا
خان اور اس کے بھائی ڈاکٹر خان صاحب کو غداری کے الزام کے تحت نہ صرف جیل
میں ڈالا بلکہ ان پر سیاسی پابندی بھی لگائی اس کے علاوہ کرپشن و قوم پرستی
کے الزام میں ایوب کھوڑو کو معزول کیا، قائد کے اس اقدام سے ایک بات واضح
ہے کہ پاکستان میں غدار اور کرپٹ کے لیے کوئی جگہ نہیں لیکن نام نہاد
دانشور و میریت زدہ صحافت نے قائد کے اصل وژن کو دفن کرنے میں کوئی کسر
نہیں چھوڑی۔ کہا جاتا ہے کہ آئی ایس آئی نے افغانستان میں جہادی پیدا کیے
جبکہ حسین حقانی صاحب خود اس کی نفی ان الفاظ میں کرتے ہیں کہ
Although it is difficult to find hard evidence of prior collusion
between Pakistani
Islamists and the state regarding Rabbani and the members of the
Jamiat-e-Islami Afghanistan.
خود ہی شاہدی دیتے ہیں کہ بھٹو صاحب نے افغانستان کی بلوچ علیحدگی پسندوں
اور پشتونستان کی سپرستی کے ردّعمل میں افغان مجاہدین کی مدد کی اور
جہادیوں کی بھرتی میں افغان کمیونسٹوں کی غلط پالیسیوں نے راہ ہموار کی نہ
کہ پاکستان کی پالیسیوں نے
The PDPA
regime implemented its radical social and economic policies, resentment
against the new order in Kabul spread through the Afghan countryside.
Land reform limited landholding to five acres, which made a large number
of Afghan landowners into
enemies of the regime. Disrespect toward clerics and traditional tribal
leaders
coupled with efforts to change conservative social norms by decree
created a larger
pool of disgruntled Afghans from which Islamists could now recruit
insurgents. In addition to the Jamiat-eIslami & Hizbe Islami, which were
already active, several new Afghan groups began to organize.
اگرچہ پاکستان نے روسی مداخلت کے بعد افغانستان میں حصہ لیا اور امریکی مدد
بھی حاصل کی جوکہ افغانی مسلمان بھائیوں کی مدد تھی اور اگر افغانستان میں
روسی جارحیت پر افغانی خوش ہوتے تو ایک چوتھائی افغانی پہلے ہی جھٹکے میں
کیوں پاکستان ہجرت کرتے اور ایک بڑی تعداد کیوں روس کے خلاف علم بغاوت بلند
کرتی، ایسے میں پاک افواج نے اپنے افغان بھائیوں کی مدد کی یہی وجہ ہے کہ
جب جنرل محمد ضیائالحق شہید ہوے تو افغان پناہ گزین دھاڑیں مار مار نہ روتے
کہ حسین حقانی جیسے پاک ملٹری مخالف یہ لکھنے پہ مجبور ہوگئے
After an elaborate state funeral for Zia ul-Haq, at which a large number
of his
supporters and Afghan refugees demonstrated their admiration for him.
اگر ماضی کے اوراق کو پلٹا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ شروع سے ہی پشتونستان
کے حامی موجود رہے جن کی جڑیں بھارت نواز و روس نواز چند افغان سے ملتی ہیں
اور حالیہ PTM اپنے طور طریق سے نئی بوتل پرانی شراب کے مترادف وہی چیز
معلوم ہوتی ہے، اﷲ پشتون بھائیوں کو اس پُرفتن دور میں فتنوں سے محفوظ
رکھے۔۔۔۔آمین
|