کرونا وائرس۔ شبہات جنم کیوں لے رہا ہے؟

کرونا وائرس نے ان دنوں پوری دنیا کو لپیٹ میں لیا ہے مگر پاکستان میں عوام کی ایک بہت بڑی تعداد اسے شک کی نگاہ سے دیکھتی ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ کالم نگار سعیداللہ سعید اس پر اس کالم میں روشنی ڈالتےہیں۔

کرونا وائرس۔ شبہات کیوں؟

نسرین کا تعلق کراچی سے ہے۔ وہ ہارٹ پیشنٹ ہے اور ساتھ میں اسے شوگر بھی رہتا ہے۔ چند دن پہلے یہ دل کا معائنہ کرانے ایک بڑے سرکاری اسپتال چلی گئی۔

آج خلاف توقع نا تو ڈاکٹر اس سے اس کی بیماری کے متعلق پوچھ رہا تھا اور نا ہی کوئی ٹیسٹ وغیرہ تجویز کررہا تھا۔ نسرین کے مطابق معائنے کرانے جب وہ ڈاکٹر کے روم میں گئی تو ڈاکٹر نے ایک نگاہ اس پر ڈالتے ہوئے کہا کہ: مجھے لگ رہا ہے آپ کو کرونا ہوگیا ہے، لہذا اسے کنفرم کرانے کے لیے آپ کا کرونا ٹیسٹ کراتے ہیں۔

نسرین چونکہ آغازِ کرونا کے بعد مختلف افواہیں سن چکی تھی، اس لیے اس کے مطابق یہ بات سن کر تو اس کے پیروں تلے زمین نکل گئی۔ نسرین نے مجھے کہا کہ ڈاکٹر کی بات سن کر ایک لمحے کو اگر چہ میرے اوسان خطا ہوگئے لیکن پھر میں نے خود کو سنبھالا اور ڈاکٹر کو دو ٹوک انداز میں باور کرایا کہ نہ تو مجھ میں کرونا کی کوئی علامت پائی جاتی اور ناہی میں ٹیسٹ کراوں گی۔

نسرین کے بقول بعد میں انہوں نے ایک جاننے والے ڈاکٹر سے رابطہ کیا اور اس کی سفارش کے بعد اس کے دل کا معائنہ کرکے دوائیں تجویز کی گئی۔

قارئین کرام! یہ ایک نسرین کی کہانی نہیں بلکہ ان دنوں پورے ملک میں یہ بات گردش کررہی ہے کہ ڈاکٹرز حکومتی ایما پر دیگر امراض میں مبتلاء افراد کو بھی کرونا وائرس کے کھاتے میں ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں۔

اس حوالے سے پچھلے دنوں پشاور کے ایک بڑے نجی اسپتال میں دوران علاج بازی زیست ہارنے والے ایک شخص کے بھائی نے الزام عائد کیا تھا کہ اسپتال انتظامیہ نے غفلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے میرے بھائی کو کرونا پازیٹیو ظاہر کیا جبکہ خیبر میڈیکل یونیورسٹی کے رپورٹ کے مطابق مریض کے ٹیسٹ کلئیر ہے اور اسے کرونا وائرس نہیں تھا۔

ان دنوں اس قسم کی خبریں جس تواتر سے آرہی ہیں اس سے عوام میں شکوک و شبہات بڑھ رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اب کرونا وائرس کو سنجیدگی سے لینے کے لیے تیار نہیں بلکہ اسے ایک سازش کے طور پر دیکھتے ہیں جس کے نتیجے میں حکومتی احکامات اور پابندیاں عملا غیر موثر ہوکر رہ گئی ہیں۔

اس حوالے سے حکومتی کردار کا جائزہ اگر لیا جائے تو اسے کسی بھی صورت اس پیدا شدہ صورت حال میں بری الذمہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ مثال کے طور پر ہم دیکھتے رہے ہیں کہ حکومت نے کچھ کاروبار تو بند کردیے ہیں مگر جن کو کچھ شرائط کے ساتھ اجازت دیا ہے، ان شرائط پر دس فیصد عمل بھی نہیں ہورہا اور ناہی حکومت اس حوالے سے سنجیدگی دکھانے کی موڈ میں ہیں۔

مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ حکومت کا سارا فوکس مساجد پر ہیں اور ان کی یہ کوشش ہے کہ مساجد میں عام افراد کا داخلہ روکا جاسکے۔ حالانکہ یہ بات اب صاف ظاہر ہوچکی ہے کہ مساجد ہی وہ جگہیں ہیں جہاں حکومت کے جانب سے بنائی گئی SOPs پر من و عن عمل ہورہا ہے لیکن حکومت ان سے خوش اب بھی نہیں ہیں اس کے برعکس چھوٹی دکانوں سے لے کر بڑے ڈپارٹمنٹل سٹور تک بینکوں سے لے کر احساس پروگرام کے مراکز تک یہاں تک کہ اعلی سرکاری میٹنگز میں کرونا ایس او پیز کی دھجیاں دھڑلے سے اڑائی جارہی ہیں لیکن قانون حرکت میں آنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔

اس کے علاوہ مخصوص گھنٹوں کے لیے کاروبار کی آزادی اور اس کے بعد بندش جیسے عوامل سے عوام کو محسوس ہورہاہے کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔

بہر حال اب یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ پیدا شدہ الجھن کو دور کریں تاکہ عوام کو پتہ چلے کہ اصل کہانی ہے کیا؟ الجھن دور اور حقائق سامنے لائے بغیر حکومت کسی بھی صورت اپنے جاری کردہ احکامات پر عمل درآمد نہیں کراسکتی۔
 

Saeed ullah Saeed
About the Author: Saeed ullah Saeed Read More Articles by Saeed ullah Saeed: 112 Articles with 104993 views سعیداللہ سعید کا تعلق ضلع بٹگرام کے گاوں سکرگاہ بالا سے ہے۔ موصوف اردو کالم نگار ہے اور پشتو میں شاعری بھی کرتے ہیں۔ مختلف قومی اخبارات اور نیوز ویب س.. View More