ریاضی سے آزادی تک کا سفر

یہ نوجوان جوان لڑکا جو کہ حسین خواب لئے زندگی گزار رہا تھا اور اب تو وہ اعلیٰ تعلیم کے لئے مقبوضہ کشمیر سے 1500 کلومیٹر دور بھوپال کی یونیورسٹی میں داخلے کا سوچ رہا تھا. اس نے ریاضی کی بجائے آزادی کو ترجیح دیتے ہوئے تمام خیال ترک کردیے اور اب وہ باقی نوجوانوں کی طرح اپنی حریت اور آزادی کی خاطر  بھارتی فوج کے سامنے مزاحمت کا استعارہ بن گیا تھا. اب یہ لڑکا آزادی کی تحریک کا سپاہی بن گیا تھا.

پلوامہ دسڑکٹ جو کہ مقبوضہ کشمیر کے جنوب میں واقع ہے. اس ڈسٹرکٹ کے چھوٹے سے گاؤں میں 1985 کو ایک لڑکے نے جنم لیا. لڑکے کے والد پیشے کے لحاظ سے درزی تھے. لڑکے کے والد کا نام اسدﷲ تھا جبکہ والدہ کا نام زیبا تھا. اس لڑکے نے ہمدرد اور ملنسار لوگوں کے درمیان پرورش پائی. یہ لڑکا قدرتی ذہین اور تعلیم کی جانب اس کا رحجان دیدنی تھا. جیسے کہ ذہین لوگوں کو ریاضی کے ساتھ خاص انسیت ہوتی ہے، اس ذہین لڑکے کو بھی ریاضی سے انسیت تھی اور وہ اس مضمون میں خود کو اچھا محسوس کرتا تھا. جیسے ہی یہ لڑکا نوجوان ہوا اس نے ایک پرائیویٹ سکول میں ریاضی کی تعلیم دینا شروع کردی. لیکن اچانک ایسا کیا ہوا کہ اس خاموش طبع نوجوان جو کہ پھولوں سے محبت کرتا تھا، اور جو قرآن شریف کا قاری تھا اس نے قلم چھوڑ کر ہتھیار اٹھا لئے؟ دراصل ہوا یہ کہ 2010 میں بھارتی فوج کی فائرنگ سے شہید ہونے والے نوجوان توفیل متو کی شہادت نے تمام کشمیریوں کے رنج وغم و غصہ میں اضافہ کردیا تھا. لہٰذا یہ نوجوان جوان لڑکا جو کہ حسین خواب لئے زندگی گزار رہا تھا اور اب تو وہ اعلیٰ تعلیم کے لئے مقبوضہ کشمیر سے 1500 کلومیٹر دور بھوپال کی یونیورسٹی میں داخلے کا سوچ رہا تھا. اس نے ریاضی کی بجائے آزادی کو ترجیح دیتے ہوئے تمام خیال ترک کردیے اور اب وہ باقی نوجوانوں کی طرح اپنی حریت اور آزادی کی خاطر بھارتی فوج کے سامنے مزاحمت کا استعارہ بن گیا تھا. اب یہ لڑکا آزادی کی تحریک کا سپاہی بن گیا تھا. اس نے دوسرے حریت مجاہدین کی طرح یونیورسٹی سے فرار حاصل کرکے جنگلات میں اپنے آپ کو چھپا لیا تھا. اس لڑکے کی آنکھ میں اب بس یہی خواب تھا کہ مقبوضہ کشمیر کو بھارت کے ظلم سے نجات دلائی جائے. اس مقصد کے تحت اس نے حزب المجاہدین جو کہ حریت پسندوں کی عسکری جماعت تھی اس میں شمولیت اختیار کرلی. اس لڑکے نے اپنے نوجوان ساتھی برہان وانی شہید کی شہادت کے بعد اپنے حریت پسند جوانوں کو یکجا کیا اور ایک نئے عزم کے ساتھ کشمیر کی آزادی کی جنگ میں شمولیت اختیار کرلی. اب یہ نوجوان لڑکا جو کل تک ریاضی کا استاد تھا ہتھیاروں اور حریت پسندوں کا استاد بن گیا تھا. یہاں تک کہ یہ لڑکا بھارت کے غلیظ عزائم کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن گیا تھا. لہٰذا اب یہ نوجوان لڑکا بھارت کو کھٹکتا تھا. اب یہ نوجوان لڑکا حزب المجاہدین کا بڑا رہنما بن گیا تھا اور اب یہ نوجوانی سے جوانی کی طرف سفر کر گیا تھا. اس دوران اس کو بہت سے مظالم کا سامنا کرنا پڑا. اس کے والد کو گرفتار کیا گیا تو اس نے بھارت کو یہ پیغام بھیجا کہ وہ تمام قیدیوں کو رہا کردے گا لیکن میرے والد کو رہا کر دیا جائے. یہ لڑکا خود بھی تین دفعہ بھارتی فوج کی حراست سے یعنی موت کے منہ سے بچ نکلا تھا. لیکن 2 مئی، بدھ کے دن یہ بھارتی فوج کی حراست سے بچنے میں ناکام رہا اور اپنے ساتھی سمیت بھارتی فوج کی فائرنگ کا نشانہ بن گیا. یوں یہ لڑکا جو کہ محض ریاضی کا استاد تھا جس کا نام ریاض نائیکو تھا کشمیر کی آزادی کی جنگ لڑتے لڑتے تھک کے سو گیا تھا یعنی کہ شہید ہوگیا تھا. جی ہاں یہ وہی ریاض نائیکو تھا کہ جس کے سر کی قیمت سترہ ہزار ڈالر تھی. اس کی قیمت سے معلوم ہوتا ہے کہ کشمیر کی مٹی کا یہ عظیم اور بہادر سپوت کیسے بھارت کے منفی اور غلیظ عزائم کے خلاف سینہ سپر کھڑا تھا اور یہی کہ وہ بھارت کے لئے کتنا بڑا ہدف تھا. ریاض نائیکو کی جماعت جس کا یہ رہنما تھا یعنی کہ حزب المجاہدین ریاست جموں و کشمیر کو پاکستان میں شامل کرنے کی حامی تھی. نائیکو کا خود بھی یہی موقف تھا کہ ہم بھارت سے فوراً مذاکرات نہیں کرسکتے جب تک بھارت ان مذاکرات میں پاکستان کو شامل نہ کرے. ریاض نائیکو کو شاید معلوم نہیں تھا کہ پاکستان کے حکمران کتنے کمزور ہیں. کیونکہ جو وزیراعظم بھارت میں جاکر حریت پسند رہنماؤں سے ملاقات کرنے سے ڈرے اس کی ذہنی پستی اور بھارت نوازی کا کیا عالم ہوگا. میں یہ بات حریت پسند رہنما یاسین ملک کی کوٹ کر رہا ہوں جو کہتے ہیں کہ نواز شریف جب وزیراعظم مودی کی تقریب حلف برداری میں آئے تو بھارت کے دباؤ میں آکر انھوں نے ہم سے ملاقات معطل کردی. ایک طرف تو اتنی بزدلی اور دوسری طرف صرف نعرے بازی یعنی ہم صرف گانے کی حد تک یہ کہہ سکتے ہیں کہ انڈیا جا جا کشمیر سے نکل جا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہم میں اتنی سکت ہی نہیں کہ ہم کشمیریوں کی طرح بھارت کے مظالم کا جواب دیں. اس سلسلے میں موجودہ حکومت کا کردار بھی محض تقاریر تک محدود ہے عملاً تو ہمیں کوئی بہت بڑا کردار نظر نہیں آتا. پاکستان کی طاقت کا تو یہ عالم کہ ترجمان خارجہ ڈاکٹر فیصل صاحب کا ٹویٹر اکاؤنٹ اس لئے معطل ہوجاتا ہے کہ انھوں نے کشمیریوں کے لئے چند بول لکھے تھے. یہاں تو کشمیریوں کے لئے اگر کوئی ٹرینڈ چلایا جائے تو فیس بک اور ٹویٹر انتظامیہ کی جانب سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ جاتا ہے. ہمیں سوچنا چاہیے کہ ایک وہ کشمیری ہیں جو مسلسل بھارت کے ظلم و بربریت کا مردانہ وار مقابلہ کر رہے ہیں اور ایک ہم ہیں جو کہ آزاد ملک میں رہتے ہوئے بھی کشمیریوں کے لئے کچھ نہ کرسکے. یقیناً یہ جنگ خالص کشمیریوں کی جنگ ہے اور اس جنگ کو کشمیریوں کو ہی لڑنا ہوگا. البتہ کشمیریوں کے لئے نعرے بازی اور نغمے ہم بناتے اور گاتے رہیں گے اور یہ دعا بھی کریں گے کہ ﷲ کشمیریوں کو ان کی جدوجہد میں کامیاب کردے . ظلم کی یہ سیاہ اور تاریک رات کشمیریوں کے لئے نئے سورج کا باعث بنا دے. نیز یہ کہ کشمیری جوانوں، نوجوانوں، عورتوں، بچوں اور بزرگوں کی شہادت کو قبول فرمائے اور ان کی یہ شہادتیں کشمیریوں کے لئے آزادی کا سورج بن کر طلوع ہوں. آمین

Muhammad Humayun Shahid
About the Author: Muhammad Humayun Shahid Read More Articles by Muhammad Humayun Shahid: 34 Articles with 31506 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.