ایک عمومی خیال یہ ہے کہ روزے رکھنے کی وجہ سے قوت مدافعت
کمزور پڑ جاتی ہے اور اسی وجہ سے آج کل بہت سے لوگ یہ کہتے نظر آرہے ہیں کہ
ہم اس سال روزہ نہیں رکھ پائیں گے۔ یہ شدید ترین غلط فہمی ہے کیوں کہ
میڈیکل سائنس کہتی ہے کہ روزہ رکھنے سے نہ صرف مدافعتی نظام مضبوط ہوتا
ہے۔واضح رہے کہ قوتِ مدافعت جسم کو مختلف اقسام کے کمزور اور طاقت ور
جراثیم سے بچاتی ہے ۔جب جسم پر کوئی بیماری یا جراثیم حملہ آور ہوتے ہیں تو
جسم کا دفاعی نظام متحرک ہوجاتا ہے‘سینکڑوں قسم کے دفاعی خلئے اس مدافعتی
نظام میں حصہ لیتے ہیں اب اگر یہ نظام مضبوط ہے تو جراثیم ختم ہوجاتے ہیں
لیکن اس نظام کی کمزوری انسان کی جان کو خطرے میں ڈال دیتی ہے ۔
اب طبی ماہرین کا ماننا ہے کہ روزہ رکھنے سے قوت مدافعت پر کسی بھی قسم کے
منفی اثرات مرتب نہیں ہوتے بلکہ بحیثیت مجموعی قوتِ مدافعت میں زبردست
اضافہ ہوتا ہے جس کے نتیجے میں جسم میں بیماریوں سے بچنے کی صلاحیت بھی
پیدا ہوتی ہے ۔
یہ عمل آخر ہوتا کیسے ہے ؟ تحقیق کے مطابق روزہ رکھنے سے جسم میں گلوکوز کی
سطح کم ہو جاتی ہے جس سے انسولین کم لیکن انسولین کی ماہیت کو بڑھا دیتا ہے‘
اس سے جسم کے خلیوں پر انسولین کے اثرات بڑھ جاتے اور بہتر ہو جاتے ہیں۔ اس
عمل کے نتیجے میں جسم کی نہ صرف قوت مدافعت بہتر ہوتی ہے بلکہ جسم کے تمام
خلیوں کی پیداواری صلاحیت میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔ یہ خلئے بہتر طریقے سے
پھلنے پھولنے اور بڑھنے لگتے ہیں۔ روزہ رکھنے کی وجہ سے جسم کا پورا
میٹابولزم نظام گلوکوز سے منتقل ہو کر چربی کی طرف چلا جاتا ہے۔ جسم میں
گلوکوز کی مقدار کم ہونے سے ہمارا جسم چربی کو بطور ایندھن استعمال کرنا
شروع کر دیتا ہے اور وہ جلنا شروع ہوجاتی ہے‘اس عمل کوکیٹونیت) Ketosis (کہتے
ہیں۔ اس عمل کی وجہ سے نہ صرف وزن میں کمی آتی ہے بلکہ فشار خون‘ ذیابیطس
‘کولیسٹرول اور مدافعتی نظام پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
جسم میں موجود امیونوگلوبلین نامی خلیوں کی کئی اقسام ہوتی ہیں جو سب کے سب
جسم کو مدافعت فراہم کرتے ہیں اور بالعموم بیماریوں کے خلاف دفاعی مورچے کا
کام کرتے ہوئے انفیکشن کا عمل کم کرتے ہیں یعنی عام دنوں میں اگر ایک مہینے
میں ایک ہزار لوگوں کو انفیکشن ہوتا ہے تو روزے داروں میں انفیکشن کی شرح
کم ہو گی۔ جو لوگ علاوہ رمضان ہفتے میں ایک بار یا مہینے میں دو تین روزے
رکھتے ہیں ان کا طویل المدتی مطالعہ ثابت کرتا ہے کہ ان میں شوگر کی بیماری
کی شرح 50 فیصد سے بھی کم رہ گئی ہے۔
بہت سی بیماریاں قوت مدافعت میں ہونے والی خرابی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں‘
ان میں گردے کی بیماری لوپس ‘ امراض جلد اور الرجی سے منسلک بیماریاں شامل
ہیں۔ روزے سے جسم میں ہائیڈروکارٹیزون کی سطح بڑھ جاتی ہے جو مدافعت کی
خرابی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کو بہتر کرتی ہے۔
ایک تحقیق یہ بھی ہے کہ بعض ٹیومرز (رسولیاں) قوتِ مدافعت کی خرابی ہی سے
وجود میں آتے ہیں۔ ان میں ایک خاص ٹیومرفائبرآئیڈ کہلاتا ہے جو خواتین کے
یوٹرس میں ہوتا ہے ۔ تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ جو خواتین ہفتے یا
مہینے میں ایک دو روزے رکھتی ہیں ان کے فائبرآئیڈکا سائز اور خون بہنے کی
مقدار کم ہو جاتی ہے۔ یہ تحقیق ابھی جاری ہے اورنتائج انتہائی حیران کن ہیں
کہ روزے کی وجہ سے ٹیومر کا سائز بھی کم ہو جاتا ہے اور اس کی پیچیدگیاں
بھی کم ہو جاتی ہیں۔
یہ ہمارا مدافعتی نظام ہی ہے جو ہمیں صحت مند رکھتا ہے، ہمیں بیماریوں سے
بچاتا ہے اوراگر بیمار ہو جائیں تو ہمارے صحت یاب ہونے میں مدد دیتا ہے۔
جسم کا کوئی حصہ‘کوئی خلیہ تباہ ہو جائے تو مدافعتی نظام اسکی مرمت کر کے
اسکی پیداواری صلاحیت میں اضافہ کرتا ہے۔ یہ پورا مدافعتی نظام روزے کی وجہ
سے مستحکم ہو جاتا ہے اور اس کی کارکردگی بہتر ہو جاتی ہے لہٰذا اگر آپ کسی
ایسی بیماری میں مبتلا ہیں جس کی وجہ سے طبی ماہرین آپ کو خالی پیٹ رہنے سے
منع کرتے ہیں تو آپ بے شک روزے نہ رکھیں لیکن محض اس شبہہ میں روزہ چھوڑنا
کہ ہماری قوت مدافعت کمزور ہوجائے گی ‘درست عمل نہیں ہے۔
|