بھٹو زندہ ہے اور اٹھارویں ترمیم کو خطرہ ہے ۔

پیپلزپارٹی ایک ایسی جماعت ہے جو ماضی کے بھٹوازم کا سہارالیکر حال اور مستقبل میں زندہ رہنا چاہتی ہے یہ سب کچھ جانتے ہوئے کہ ان کے پاس نہ تو کوئی نئی سوچ ہے اور نہ ہی عوام کے لیے قربانی اورخدمت کا کوئی جزبہ ہے ۔اس لیے بھٹو زندہ ہے کا نعرہ لگاکر ایک جزباتی اپیل کے زریعے اپنے سیاسی کاروبار کو آگے بڑھائے ہوئے ہیں ،یہ ہی وجہ ہے کہ پیپلزپارٹی اب اندرون سندھ میں چند ایک مقامات تک مخصوص ہوکر رہ گئی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے غریب آدمی کے لیے نہ تو کبھی کوئی کام کیا ہے اور نہ ہی مستقبل میں کوئی اس قسم کی غلطی کا کوئی ارادہ رکھتی ہے کیونکہ ان لوگوں کے انداز سیاست سے یہ اندازہ لگانا کوئی مشکل کام نہیں ہے کہ انسانی خدمت کویہ لوگ کسی گناہ سے کم نہیں سمجھتے،آجکل سندھ حکومت والے کروناوائرس کے معاملے کو ایک منافع بخش کاروبار بناکر نہایت ہی خوش اسلوبی کے ساتھ اپنا دھندہ چلارہے ہیں، بلکہ اس کروناکی آڑ میں وہ اپنی نااہلی کے درجنوں قصے بھی دبا کر بیٹھے ہیں یعنی کرنا کرانا کچھ نہیں بس میڈیا میں آئے اور عوام کوڈرایا دھمکایا خوف دلایا اورچلے گئے اور ان تمام باتوں میں کوئی ان سے پوچھے تو کہتے ہیں کہ گھروں میں ڈری سہمی عوام کو ہرایک چیز ان کی دہلیز پر پہنچائی جارہی ہے اور اصل حقیقت اس قدربھیانک ہے کہ جس کا چندلفظوں میں موازنہ کرنا ناممکن ہوگا یہ ہی وجہ ہے کہ بھٹو کے نام کو بیچنے والے اب عوام کی نظروں میں اس قدررسواہوچکے ہیں کہ جس کا اندازہ انہیں بہت جلد معلوم ہونے والا ہے۔ اب یہ کہنا بھی مناسب ہوگاکہ پیپلزپارٹی اپنے سیاسی امور کو زیادہ دیرتک خاندانی وراثت کے طور پر یا بھٹو کے نام کے بل بوتے پر نہیں چلاسکتی اس کی تمام تر وجوہات عیاں ہوچکی ہے یعنی نہ تو پیپلزپارٹی کی صوبائی حکومت عوام کو گزشتہ پندرہ سالوں سے کچھ دے سکی ہے اور نہ ہی اس پارٹی کے نوجوان چیئرمین کے پاس کسی قسم کی کوئی سیاسی بصیرت موجود ہے جواپنے سیاسی مخالفین پر تنقید کے علاوہ کچھ نہیں کرسکتے اور جو اپنے منہ سے تعمیری اور مثبت باتیں کہنے سے بھی عاری دکھائی دیتے ہیں جن کو مشورہ دینے والے وہ ہی لوگ دکھائی دیتے ہیں جن کے مشوروں سے ان کی والدہ محترمہ کی حکومتیں وقت سے پہلے زوال کا شکار ہوتی رہی ہیں دوسری جانب بھٹو کے نام سے چلنے والی اس خاندانی وراثت کازور آنے والے کچھ دنوں میں مزید کم ہوجائے گا، میں اس کی مثال ہندوستان اور سری لنکا کی ایک مشہور خاندانی سیاست سے دینا چاہونگا،جس میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ خاندانی وراثتیں اس وقت تک ہی چل سکتی ہیں جب تک وارثین عوام کی خدمت کرتے رہے اور عوام کے دلوں میں اپنا مقام اور مرتبہ قائم رکھ سکے یہ ہی وجہ ہے کہ ہندوستان کے نہرو اور گاندھی فیملی کے سیاستدان جبکہ سری لنکا میں بندارنائکے فیملی کا زور کم ہوگیاہے جس کی بنیادی وجہ عوام کے دلوں سے نکل جاناہے ،جس طرح ہندوستان میں نہرو نے اپنی بیٹی اندراگاندھی کے لیے وزرات عظمیٰ کی راہیں ہموار کی اور جس طرح سے سری لنکا میں بندار نائکے کی بیوہ اپنے مرحوم شوہر کی وجہ سے وزیراعظم بنی کچھ اسی طرح کی ملتی جلتی کہانیاں پاکستان کی موروثی سیاست میں بھی واضح طورپر دیکھی جاسکتی ہیں مگر ان ممالک میں ہونے والی موروثی سیاست کا جوحال ہورہاہے وہ بھی اب تاریخ کا حصہ بنتاجارہاہے یعنی کہیں بن چکاتو کہیں یہ تاریخ رقم ہونے والی ہے کہ لوگ خاندانی سیاست کو نہیں بلکہ عوام خدمت والی سیاست کو ہی ترجیح دے رہے ہیں۔یہاں تک میاں نوازشریف نے بھی بھٹو صاحب اور سری لنکا سمیت ہندوستان کی اس موروثی سیاست کو دیکھتے ہوئے اپنے سلسلہ نصب کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہواہے جس کی گونج آج کل پارٹی پر اقتدار کے حوالے سے مسلم ن میں چاچا بھتیجی کا جھگڑاہے جسے میڈیا سے چھپایا جارہاہے اورآجکل مسلم لیگ ن دوحصوں میں بٹی دکھائی دیتی ہے ، آج اگر ہم تاریخ کا مطالعہ کریں تو ہمیں اندازہ ہوجائیگا کہ پاکستان میں معاشی تباہی کے اصل ذمہ دار یہ دو گھرانے ہی ہیں یعنی مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی جنھوں نے ملکی اقتدار پر قبضہ کیے رکھا اور کبھی پاکستان کو ترقی اور خوشحالی کا منہ تک نہ دیکھنے دیا جن کے ہردور میں ملک کرپشن اور لاقانونیت کی دلدلوں میں دھنستا رہا،یہ ہی وجہ ہے کہ اس بار پنجاب جو کہ مسلم لیگ ن کا قلعہ تھا آج اس میں تحریک انصاف یعنی ایک نئی سوچ کی حکمرانی ہے جبکہ سندھ میں اب بھٹو کا نعرہ اندرون سندھ کے کچھ جانے انجانے علاقوں تک محدودہوکر رہ گیاہے اور وہاں بھی وقت کے ساتھ ساتھ اس ناگہانی نعرے کے نقش مٹتے چلے جارہے ہیں کیونکہ سندھ کے لوگ اب مزید موٹر سائکلوں پر لاشیں نہیں لے جاسکتے اپنے بچوں کو سیاسی بھیڑیوں کے بعد گلی محلوں میں پھرنے والے کتوں سے نہیں کٹواسکتے، آج پیپلزپارٹی کے نوجوان چیئرمین جو ہر وقت ایجی ٹیشن کے انداز میں بات کرتے ہیں جنھیں دیکھ کر لگتاہے کہ یہ نوجوان جان بوجھ کر حقیقت کی دنیا میں نہیں آنا چاہتاجس کی شخصیت دیکھ کر ایسا لگتاہے کہ ان موصوف میں کوئی نئی اور مثبت سوچ ہوہی نہیں سکتی جس کے پاس دوہزاربیس اور اکیس میں الجھی ہوئی قوم کو منجھدار سے نکالنے کے کسی سوال کا جواب ہی نہیں ہے جو صرف بھٹو کا نام بیچ کر اس ملک میں وزیراعظم بننے کا خواب دیکھ رہاہے جس نے اپنے چندوزرا کوٹی وی پروگراموں میں بٹھاکر اسے عوامی خدمت قرار دیاہواہے جنھوں نے باتیں تو بہت کی مگر کبھی کسی نے انہیں عملی اقدامات اٹھاتے ہوئے نہیں دیکھا،آج اس موروثی سیاست کا سہارا لینے والوں نے اٹھارویں ترمیم کو بلاوجہ کا ایشو بنارکھاہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ اٹھارویں ترمیم پیپلزپارٹی کا کند ہتھیارہے جو کہ کسی بھی طرح سے ان کے زوال کو نہیں روک سکتا جب ان لوگوں کے پاس کسی سوال کاجواب نہیں نکل پاتاتووہ اٹھارویں ترمیم کے دفاع کی بات شروع کردیتے ہیں اور میں یہ سمجھتاہوں کہ اٹھارویں ترمیم کو اگر کوئی خطرہ ہے تو خود پیپلزپارٹی سے ہی ہے ان کی خراب کارکردگی سے ہے کوئی ان سے پوچھے کے اس اٹھارویں ترمیم کے تحت جو پاوران کے صوبے کو ملی اس سے عوام کو کیا فائدہ پہنچایا گیا پچھلے پندرہ سالوں میں ایک شعبہ صحت کا یہ حال ہے کہ معصوم بچے آئے روز کتے کے کاٹنے سے مرجاتے ہیں مگر کسی ایک سرکاری ہسپتال میں اس کی ویکسین نہیں ملتی پھر کہتے ہیں بھٹو زندہ ہے اور اٹھارویں ترمیم کو خطرہ ہے کوئی ان سے پوچھے کہ صحت کے شعبے میں تین اداور میں ساڈھے پانچ کھرب کی بھاری رقم کہاں لگی تو یہ کہتے ہیں کہ بھٹو زندہ ہے اور اٹھارویں ترمیم کو خطرہ ہے، کوئی ان سے پوچھے سندھ میں تعلیم کا اربوں روپے کا بجٹ کس سرکاری اسکول پر لگا تو کہتے ہیں بھٹو زندہ ہے اور اٹھارویں ترمیم کو خطرہ ہے یہ ہی ایک نعرہ باقی بچا ہے ان لوگوں کے پاس یہاں تک ان سے یہ تک پوچھ کے دیکھ لے کے زرداری صاحب کے دور میں بہت اچھے کام ہوئے تو کہیں گے بہت شکریہ مگر کوئی ان سے پوچھے کہ بے نظیر کا قاتل کون ہے اور کہاں ہے؟ تو کہیں گے بھٹو زندہ ہے اور اٹھارویں ترمیم کو خطرہ ہے۔باقی آپ خود سمجھدار ہیں ۔ختم شد
 

Haleem Adil Shaikh
About the Author: Haleem Adil Shaikh Read More Articles by Haleem Adil Shaikh: 59 Articles with 37112 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.