شہریت کے قانون میں ترمیم کے بعد اگر پڑوسی ممالک کے کسی
غیر مسلم باشندے نے پڑوسی ممالک سے نکل کر ہندوستان آنے کا ارادہ کیا ہوگا
تو جمعہ کی صبح مہاراشٹر کے اورنگ آباد سے قریب پیش آنے والے سانحہ کی
تفصیل انٹر نیٹ پر پڑھ کر یا ٹیلی ویژن کے پردے پر دیکھ کر اپنا ارادہ بدل
دے گا ۔ وہاں کرماڈ اسٹیشن کے قریب صبح تڑکے پندرہ مہاجر مزدور وں کو مال
گاڑی نے کچل دیا۔ یہ کوئی اجتماعی خودکشی کی واردات نہیں تھی ۔ وہ بدنصیب
لوگ ایک لوہے کی صنعت میں ملازم تھے ۔ لاک ڈاون کے سبب ان کا روزگار چھن
گیا ۔ وقت کے ساتھ جو تھوڑی بہت جمع پونجی تھی ختم ہوگئی۔ سرکار کا دعویٰ
کہ اناج کے ذخائر کافی ہیں اس لیے کوئی بھوکا نہیں سوئے گاکھوکھلا ثابت ہوا۔
ڈیڑھ ماہ بعد جب یہ لوگ دانے دانے کے محتاج ہوگئے تویہ خوشخبری آئی حکومت
ریل گاڑی سے مزدوروں کو اپنے وطن پہنچانے کا انتظام کررہی ہے۔ یہ ریل گاڑی
ممبئی سے ان کے وطن بھوپال تو جارہی تھی لیکن اس کو اورنگ آباد سے نہیں
گزرنا تھا ۔ ایسے میں کیا کیا جائے؟ ان بیچاروں پیدل اپنے قریب ترین اسٹیشن
بھساول تک جا نے کا ارادہ کیا تاکہ وہاں سے ریل گاڑی میں سفر کیا جائے۔ گھر
پہنچنے کی امید میں یہ لوگ ریلوے پٹری کے ساتھ چل پڑے کہ اور چلتے چلتے تھک
گئے اسی پر سو رہے ۔
یہ بیچارے اس غلط فہمی کا شکار تھے کہ جب ریل گاڑی ان کے لیے نہیں ہے تو
کسی کے لیے نہیں ہوگی ۔ جب اناج اور دیگر اشیاء انہیں نہیں مل رہاہے تو کسی
کے لیے نہیں آرہا ہے لیکن ایسا نہیں تھا ۔ مال گاڑی چل رہی تھی ۔ اس کے
ڈرائیور نے ان کو سوتا ہوا دیکھ کر گاڑی کوروکنے کی کوشش کی مگر کامیاب
نہیں ہوسکا اور وہ سارے لقمۂ اجل بن گئے۔ ایک سوال یہ ہے کہ اگر ریل گاڑی
سازوسامان کے لیے چل سکتی ہے انسانوں کے لیے کیوں نہیں؟ ریلوے کی خدمات اگر
اورنگ آباد سے بھساول کے درمیان بھی ہوتی تو یہ لوگ کیوں ریلوے پٹری پر
اپنی جان گنواتے ؟ لیکن ان مزدوروں کے لیے کون سوچتا ہے؟ ان کے ہمارے
رہنماوں کے پاس ٹوئیٹر پر اظہار افسوس کے سوا کچھ اور نہیں ہے۔ اس لیے ہر
کوئی ٹوئیٹر پر دوچار الفاظ لکھ کر اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہوجاتا ہے۔ اس
طرح کی دردناک خبروں سے توجہ ہٹانے کے لیے ہمارے میڈیا کے پاس ہندو مسلم
کھیل موجود ہی ہے۔ یہ ایک ایسی زہریلی شراب ہے کہ منٹوں میں کروڈوں افراد
کا دماغ ماوف کردیتی ہے اور ان مظلوموں کا غم یکسر غلط ہوجاتا ہے۔
عدالت نے جن سرکاری وعدوں پر اعتماد کیا ان کا حال تو یہ ہے کہ دیش بندی کے
۴۲ دن بعد بھی ہزاروں لوگ پیدل اپنے گھروں کی جانب رواں دواں ہیں ۔
مسلمانوں کو گھر واپسی کی دعوت دینے والوں کو اب پتہ چل رہا ہے گھرواپسی کس
قدر دشوار گزار ہے۔ رویش کمار جب اپنے چینل پر ان مظلوموں سے بات کرتے ہیں
تو انسانیت خون کے آنسو روتی ہے۔ ان میں سے ہر ایک کی اپنی کہانی ہے لیکن
اس میں مشترک کلمہ یہ ہے کہ اگرواپس نہیں جائیں گے تو مرجائیں گے ۔ ممبئی
سے اترپردیش پیدل جانے والی پریتی کے ہاتھ میں اس کا ۱۱ ماہ کا بچہ تھا۔ اس
دھوپ اور گرمی میں اپنے شیر خوار بچے کے ساتھ سیکڑوں میل کے سفر پر رواں
دواں اس ابلہ ناری سے جب پوچھا گیا کہ وہ اتنا طویل سفر کیسے طے کرے گی تو
وہ بولی ہمارے پاس کیا متبادل ہے؟ ہمارے پاس کھانے کے لیے پیسے نہیں ہیں ۔
میں اپنے بچے کو کیا کھلاوں گی ؟ پریتی کی فریاد نے تمام سرکاری دعووں کی
دھجیاں اڑا دیں۔ اس کے کرب اس جملے سے محسوس کیا جاسکتا ہے کہ ہم اپنے اہل
خانہ کے ساتھ کچھ دن زندہ تو رہ سکیں گے ۔
ایک قسمت کے مارے ڈرائیور نے بتایا میں ٹیکسی چلاتا تھا ۔ اسی میں رہتا تھا
۔ اب میرے پاس گھر ہے نا کھانا کیونکہ لاک ڈاون کی وجہ سے دھندہ بند ہے۔ اس
طرح کب تک رہیں گے مجبوراً 20 دن کا رخت سفر ڈال دیا ہے۔ ان مزدوروں میں
اکثر کا کہنا ہے کہ اب شہر میں کبھی لوٹ کر نہیں آئیں گے۔ یہاں ہمارے لیے
کچھ بھی نہیں ہے ۔ کاش کہ عدالت عظمیٰ اپنے آنکھوں پر بندھی پٹی ہٹا کر ان
مزدوروں کا درد دیکھاہوتا اور اسے محسوس کیا ہوتا تو اسے پتہ چلتا کہ ان
بیکس و مجبوروں کو آنکھ موند کر اس نے جس حکومت کے حوالے کردیا ہے وہ اپنی
ذمہ داری ادا کرنے میں کیسی مجرمانہ کوتاہی کررہی ہے ۔ اس سنگین صورتحال
میں عدالت کو چاہیے تھس کہ وہ سرکار کی سرزنش کرتی لیکن اگر اس کی جرأت
نہیں ہے تو کم ازکم مزدوروں کی دادرسی کرنا تو لازم تھا ۔ یہ بات اظہر من
الشمس ہے مہاجر مزدوروں کی حالتِ زار میں مقننہ کے ساتھ ساتھ عدلیہ بھی
برابر کی شریک ہے۔یہ ابتر صورتحال ساری دنیا کے سامنے ہے لیکن افسوس کہ
آنکھوں پر پٹی چڑھائے عدلیہ کو یہ دکھائی نہیں دیتا ۔ رنجن گوگوئی کے بعد
سپریم کورٹ کے ججوں کو تو صرف سبکدوشی کے بعد ملنے والے فائدےیا ایوان
پارلیمان کی رکنیت بلکہ وزارت دکھائی دیتی ہے اس لیے وہ عوام کے حقوق کو
سلب کرنے کی سرکاری زبان بولنے لگے ہیں ۔
فی الحال ملک میں مزدوروں کی دگرگوں صورتحال کے عدلیہ اور مقننہ مشترکہ طور
پر ذمہ دار ہیں ۔ انتظامیہ تو ان کے ہاتھ کی کٹھ پتلی ہے اور عوام ان کا
نرم چارہ ہے ۔ سرمایہ داری کی زعفرانی فصل کو فی زمانہ مزدوروں کے خون سے
سینچا جارہا ہے اوراس پر اقتدار کا قلعہ تعمیر کیا جاتا ہے۔ اس لیے عام
حالات نہایت غیر فطری دکھائی دینے والا اشتراکی نظریہ بھی اس طرح کے
استحصال زدہ دور میں خوشنما نظر آنے لگتا ہے۔ محنت کش جب عدلیہ اور مقننہ
کی چکی میں پسنے لگ جائے تو سرخ پرچم اپنے آپ لہرانے لگتا ہے۔ ایسے میں
اسلام پسندوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ان مزدوروں کو جبر سے آزاد کرانے کے
لیے میدانِ عمل میں آئیں لیکن انہیں اپنے ملی مسائل سے ہی فرصت نہیں ملتی
۔ یہی وجہ ہے کہ جس طرح حضرت بلال ؓ اور ان جیسے بے شمار غلامی کا شکار
صحابہ کو اسلام کے پیغام میں جوامید کی کرن نظر آتی تھی وہ ان مزدوروں کو
اسلامی تحریک میں نہیں دکھائی دیتی۔ بہر حال کورونا وائرس کی وباء نے
جمہوری نظام کے دیو استبداد کا کریہہ چہرہ پھر ایک بار بے نقاب کردیا ہے۔
اس صورتحال پر علامہ اقبال کا مشہور شعر صادق آتا ہے ؎
دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب
تو سمجھتا ہے کہ آزادی کی ہے نیلم پری |