گزشتہ سے پیوستہ،ہمارا ایم فل جاری ہے۔۔۔ناول امراؤ جان
ادا میں مرزا ہادی رسواؔ نے امراؤ جان کی زبان سے ایک شعر کہلوایا ہے کہ:
(لطف ہے کونسی کہانی میں۔آپ بیتی کہوں کہ جگ بیتی)، لیکن ہم جگ بیتی کو آپ
بیتی بنانے کی جسارت کررہے ہیں۔۔۔عرضِ حال یہ کہ،ہم ورکشاپس کے بعداپنے
اپنے گھروں کو لوٹ گئے اور اسائمنٹ کے نام پر اپنی نیندیں بر باد کرنے
لگے۔رات ۲ اور ۳ بجے تک انٹرنیٹ ٹٹولتے اور پھر اسی سوچ کو جو یقیناًکسی
انگریز کی سوچ ہوتی ( انگریز کی چول کو بھی ہم آجکل اسکا فلسفہ سمجھتے
ہیں۔۔شاید ایم فل ایجوکیشن کا اثر ہے) کو اپنے الفاظ میں ڈھالنے کی کوشش
کرتے جو، اکثر کمخواب میں ٹاٹ کا پیوند ثابت ہوتا۔۔ یہ نقل، اصل سے زیادہ
مشکل کام تھا ۔ لیکن پلیجرازم کا توڑ، ایک محترمہ نے یہی بتایا تھا کہ ہر
تیسرے یا پانچویں لفظ کو تبدیل کر لو(مطلب مترادف لگا لو)تو سافٹ وئیر
کنفیوز ہو کر پاس کر دے گا،یعنی چوری کرو اور سینہ زوری بھی کرو۔۔۔ کچھ
احباب نے تو ورکشاپ کے دنوں میں ہی اسائمنٹ مکمل کرکے (مطلب مترادفات تبدیل
کرکے) پلیجرازم معلوم کرنے کے سافٹ وئیر بھی انسٹال کر لیے، اور بار بار
ہماری آنکھوں کے سامنے اپنی اسائمنٹ کا پوسٹ مارٹم کرکے کہتے ۔۔ دیکھیں صرف
اٹھارہ فیصد ہی سُرقہ(پلیجرازم) نکلاہے۔۔۔اور ہم اتنی قابلیت پر ہکا بکا ہی
رہ جاتے۔۔۔ہمیں تو اتنی لمبی اور مشکل انگریزی میں بنی ہوئی اسائمنٹ پڑھتے
ہوئے بھی چکر آنے لگتے۔۔۔لکھنا تو دور کی بات۔۔۔پھر ہم جس انداز سے ڈاؤن
لوڈنگ میں مگن تھے ہمیں یقین تھا کہ اٹھارہ فیصد بھی میرا ذاتی کام نہیں
نکلنا (وہ بھی ۔ایم ایس ورڈ۔ پروگرام خود مترادفات لاتا ہے ورنہ ہمیں کیا
پتہ کہ انگریز ایک چیز کو کتنے ناموں سے پکارتے ہیں)،چہ جائیکہ بیس سے کم
پلیجرازم۔۔یہ قدرت کا نظام ہے کہ ایک جیسی طبیعت والے لوگ اکھٹے ہو جاتے
ہیں اور چل بھی جاتے ہیں۔۔۔ ایک محاورہ بھی اسی ضمن میں کسی شوخ نے گڑھ
رکھا ہے۔۔ کہ کبوتر کبوتروں کے ساتھ اور باز بازوں کے ساتھ اُڑتے ہیں۔۔ہم
کچھ دوستوں کے مزاج بھی اسی انداز سے ملنے لگے۔۔۔ہم جتنے بھی سنگی جمع تھے
ان ہی فارمولوں پر عمل پیرا تھے۔۔۔لیکن پلیجرازم کی تنبیہوں سے دل لرز جاتے
تھے اور اسائمنٹ بھیجنے کے بعد بھی رہ رہ کے فیل ہونے کے خوف سے راتوں کو
آنکھ کھل جاتی۔۔۔ کہ بھیجا تو سوفیصد پلیجرائزڈ ہے، اب کیا ہوگا۔۔۔لیکن
جہاں انسانی ذہن اب کیا ہوگا۔۔کی سٹیج پر پہنچتا ہے تو چہرے بے اختیار اللہ
رب العزت کی طرف اُٹھ جاتے ہیں ۔۔۔ہم بھی دل کو طفل تسلی دینے لگے کہ اللہ
مالک ہے،اور معجزے مشکلوں میں ہی تو ہوتے ہیں۔۔۔پاس ہی کریں گے۔۔۔ ۔ہم نے
مقررہ تاریخوں پر پورے اُترتے اُترتے اپنے سارے پلیجرائزڈ، اسائمنٹس متعلقہ
پروفیسرز تک پہنچانے کی کوشش کردی ۔۔ لیکن رزلٹ تک اعتبار نہیں تھا کہ
پاکستان پوسٹ نے پہنچا دیے ہوں گے ۔ (کیونکہ اس یونیورسٹی کی فاصلاتی
کتابیں ڈاک خانوں میں جس طرح فرش پر پھینکی جاتی ہیں اور جس سست روی سے
ترسیل کی جاتی ہیں، اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔۔۔ہر ایک کو کتابیں پہلے اسائمنٹ
کی مقررہ تاریخ کے دومہینوں بعد ہی موصول ہوتی ہیں)،لیکن میرے اسائمنٹس
ڈاکخانے نے پہنچا دیے تھے۔۔۔ کتابوں کی تاخیر سے موصولی کی شکایات کے لیے
یونیورسٹی ھذا میں ایک ایکسچینج بھی بنا ہے جس پر کال کرنے کے بعد آپکی بات
کرنے کی باری شروع ہوجاتی ہے، اور آپ بات کرنے کے لیے لائن میں لگ جاتے
ہیں۔۔۔۔ پتہ نہیں ایکسچینج میں بیٹھی محترمہ ہر ایک شائقِ گفتگو سے پندرہ
پندرہ منٹ تک کس موضوع پر بات چیت کرتی ہے ۔۔۔کیونکہ ہمارا تو جب بھی نمبر
ریسیو کیا ،صرف دس سیکنڈ میں ٹرخاگئی۔ ۔۔ہم سلام کے بعد کتابوں کا پوچھتے
۔۔ اور وہ محترمہ تھکے ہوئے بیزار لہجے میں ابھی نہیں بھیجیں کہہ کر۔۔
اگنور ہی کر دیتی ۔۔۔ ہر مرتبہ ساری کلاس کو کتابیں ترسیل ہونے کے بعد، ہم
نے وہیں جاکر بہ نفسِ نفیس اور بقلم خود دستخط سے وصول کیں ہیں، اُنھیں
بھیجنے کی زحمت نہیں دی(یا انھوں نے کی نہیں)۔۔۔
اسائمنٹ کے سلسلے میں اگر بات کی جائے ،تو طلباء کو اتنا ڈرایا اور دھمکایا
گیا تھا ،کہ ایک دوسرے سے اعتبار اُٹھ چکا تھا۔کوئی بھی اپنے اسائمنٹس ایک
دوسرے کو دکھانے پر راضی نہ تھا ،اور کسی سے لینا تو جوئے شیر لانے کے
مترادف تھا۔۔کیونکہ انٹلیکچول پراپرٹی پر ناجائز قبضے کا خطرہ تھا۔۔۔ (یہ
تو ہم بھی مانتے ہیں، کہ ہمارے گاؤں (ضلع) میں جتنی بھی لڑائیاں اور قتل
مقاتلے ہوئے پراپرٹی ۔۔یا حُسن پر ہوئے ہیں۔ اس سے ظاہر ہے کہ پراپرٹی اور
حُسن بہت قیمتی چیز یں ہیں۔۔۔حُسن سے متعلق ایک مرتبہ ایک مدرسے کے دوست نے
کہا کہ۔۔ اختلاف دین کا حُسن ہے۔۔بے ساختہ ہمارے مُنہ سے نکل گیا۔۔جی سچ ہے
کیونکہ اتنے قتل تو بدصورتی پر ہونے سے رہے۔۔) ہماری کلاس بھی پراپرٹی پر
ناجائز قبضے کے سلسلے میں محتاط تھی ۔۔۔پوچھنے پر بھی کوئی ایک دوسرے سے
اظہار نہ کر تا ، کہ میرے اسائمنٹس مکمل ہیں۔۔۔ کیونکہ آگے سے مانگنے کا
خطرہ ہمہ وقت سر پر منڈلاتا رہتا۔ ۔۔ لیکن ہمارا سسٹم تھوڑا ساالگ
تھا۔۔۔ہماری اسائمنٹ میں ہماری محنت سرے سے تھی ہی نہیں، اس لیے سُرقہ کی
کوئی گنجائش ہی نہ تھی۔۔بقولِ قتیل شفائی مرحوم (اب جس کے جی میں آئے وہی
پائے روشنی۔۔ہم نے تو دل جلا کے سرِ عام رکھ دیا)،ہم نے کبھی بھی اپنی کاپی
پیسٹ پر (جسے باقی طلباء اور اساتذہ اسائمنٹ سمجھتے) تکبر نہیں کیااور نہ
چھپایا ۔۔بلکہ سرِ عام پیش کیے۔۔ جس نے بھی علم کی روشنی مانگی، فوراََ۔ای
میل ۔ کردی۔ ۔ کیونکہ مجھے سرقے کا کوئی ڈر نہیں تھا( سب کچھ پہلے سے انٹر
نیٹ پر موجود تھا، چند مترادفات تبدیل کرنے کی کوشش ضرور کی تھی، لیکن سارے
فقرے کا مزہ اور موسیقیت ختم ہو جاتی اس لیے جوں کا توں ہی کاپی پیسٹ
کرتارہا)۔۔ مگرایک مزے کی بات رزلٹ میں پتہ چلی کہ ایک ہی اسائمنٹ جو پانچ
چھ طلباء کے ناموں سے ۔ایل ایم ایس۔پہ ڈالی گئی ،اور کچھ نے ڈاک کے ذریعے
بھیجی ،الگ الگ گریڈز سے نوازی گئیں تھیں۔۔۔اس سے چیکنگ کے اعلیٰ معیار اور
پیمانوں کا بھی ادراک ہوا۔۔۔۔کہ نام کی تبدیلی سے بھی چیز کی قدرگھٹتی یا
بڑھتی ہے۔۔۔ حالانکہ شیکسپئرصاحب تو کہہ چکے ہیں کہ، نام میں کیا رکھا ہے
گلاب کو کسی بھی نام سے پکاریں ،گلاب ہی رہے گا۔۔۔۔(جامن نہیں بنے گا)۔۔
خیر جب نتیجہ موصول ہوا۔۔۔تو ہم دوسرے سمسٹر کے سلسلے میں یونیورسٹی میں
موجود تھے۔۔۔ہمیں تو ہمارے رزلٹ کے بارے میں ساری زندگی دوسروں نے اطلاع دی
ہے ۔۔کیونکہ اتنے لائق رہے نہیں کہ انسان کو یونیورسٹی ٹاپ کرنے کی حسرت
ہو، اور اسی خواہش میں اپنی راتوں کی نیندیں حرام کر کے ،رزلٹ کے لیے دُبلا
ہوتا پھرے۔۔۔ لیکن رزلٹ کے نمبر دیکھ کر محسوس ہوا کہ سب ایک ہی گھاٹ پر
پانی پی رہے ہیں۔۔ ۵۰ سے ۶۵نمبروں کے درمیان سارے طلباء رکھے گئے تھے۔۔اور
پرفیکٹ سیمیٹرک کرو(سٹیٹسٹک کی اصطلاح ہے)،حاصل کی گئی تھی ۔ کوئی آؤٹ
لائیرز(سٹیٹسٹک کی اصطلاح ہے) نہیں تھے۔۔ سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکا گیا
تھا۔۔مجھے تو یہ نتائج الیکشن۲۰۱۸ کے نتائج لگے۔۔ یعنی تراشیدہ۔۔۔اب کوئی
یہ نہ سمجھے کہ میں شکایت لگا رہا ہوں بلکہ مجھے میری اوقات سے زیادہ نوازا
گیا تھا۔اس کی حیرت ہے۔۔ میں نے کہیں پڑھا تھا کہ علم کی انتہا حیرت
ہے۔۔۔صوفیا ء تو عشق کی انتہا بھی حیرت ہی کو کہتے ہیں۔۔۔ لیکن ہمیں ان
بحثوں میں نہیں پڑنا۔۔ ہاں میرے ریزلٹ کی انتہا حیرت تھی،علم اور عشق کا
ابھی تک پتہ نہیں۔۔۔
اب دوسرے سمسٹر میں پھر ہم کو چھ مضامین میں سے چار چُننے کا اختیار ملا
اور ہم نے نہ چاہتے ہوئے بھی،حسابی کتابی مضامین چُنے۔۔۔حالانکہ حساب میں
بی ایس سی تک رعایتی نمبروں سے پاس ہوئے ہیں (رعایتی نمبر وہ نمبر ہوتے ہیں
جو چیکنگ والا شش و پنج کی سیچویشن میں مبتلا ہو نے کے بعد انسانی ہمدردی
کے تحت دیتا ہے،اور۳۰، ۳۲ کی جگہ ۳۳ لکھ دیتا ہے۔اں حسابی کتابی مضامین کی
وجہ سے ساری زندگی گریڈزپر پالاپڑتا رہا۔۔ اور ۔ڈی ایم سیز۔ کسی کو منہ
دکھانے کے قابل نہیں رہیں)۔ ہم سیکنڈری ٹیچر ایجوکیشن والے پھر سے دو
گروہوں میں تقسیم ہوگئے (ہم اس گروہ بندی کوبھی اپنے پکے مسلمان ہونے کی
دلیل سمجھتے ہیں،کیونکہ تاریخ میں مسلمان ہی تقسیم در تقسیم ہوئے ہیں،کبھی
بہ حیلہءِ مذہب کبھی بہ نامِ وطن)۔ اب کلاس اتنی چھوٹی رہ گئی تھی، کہ
اساتدہ یا توخالی کرسیوں کی طرف دیکھ دیکھ کر لیکچر دیتے یا ہمیں مخاطب
کرتے ۔۔۔ اسی روش سے تنگ آکر،ایک محترمہ نے تو ایک دن بھری کلاس میں
میڈم۔م۔صاحبہ کو کہہ دیا ،کہ ہماری طرف بھی دورانِ لیکچر دیکھ لیا
کریں۔۔زنانہ وارڈ،اگنورڈ، اگنورڈ سا فیل کررہاہے۔۔۔ اس کے بعد میڈم نے سب
تک پیڈسٹل فین کی طرح گردن گھما گھما کر نظر ڈیلیور کی۔۔اور طلباء نے بقدرِ
ظرف وصول کی۔۔۔۔ کلاس میں ہم طلباء کی تعداد انگلیوں پر گننے جوکے رہ گئی
تھی۔۔۔اس لیے اساتذہ کی کہی ہوئی ہر بات ذاتی ،اور سرگوشی سی لگتی تھی۔۔۔
ہر سیشن میں اساتذہ اتنے قریب سے لیکچر دیتے کہ لگتا ، ایک ہی صف میں کھڑے
ہوگئے محمود و ایاز،اور،نہ کوئی بندہ رہا اور نہ ہی کوئی بندہ نواز۔۔۔ یہی
وجہ تھی کہ میڈم ۔ت۔ نے ہمیں بارہا دیوار کے ساتھ بیٹھنے کو کہا۔۔۔،کیونکہ
ہم نظر کی کمزوری کا بہانہ کر کے بار بار بورڈ کے قریب کُرسی سرکا لیتے جو
اُس کے بالکل نزدیک پڑا تھا۔۔۔اور جس نزدیکی سے ہم لیکچر سننے کے لیے
بیٹھتے ہیں اتنے قرب سے تو خیالات کے ساتھ ساتھ انسانوں کے سپنے بھی مشترک
ہونے کا خطرہ پیدا ہوجاتا ہے۔۔۔اس لیے یہ میڈم ہمیں حدِ ادب فاصلے پر رکھتی
یعنی دیوار کے ساتھ لگنے کا کہتی، حالانکہ دورانِ کلاس نہ ہم زیادہ بولتے
ہیں اور نہ گھورتے ہیں (زور زیادہ پہ ہے،گھورنے اور بولنے پر نہیں)۔ ان ہی
کلاسوں میں میڈم ۔س۔ ہمیں ڈانٹنے اور ڈرانے دھمکانے کے لیے بھیجی جاتی۔۔جب
کوئی وجہ نہ ہوتی تو بِلاوجہ ڈانٹتی۔۔۔ایک دن اس بات پر بگڑ گئی کہ ۔اے سی۔
ٹھنڈا کیوں نہیں کرتا۔۔۔ اور ہم اتنے سہم گئے تھے کہ ، یہ بھی نہ پوچھ سکے
کہ۔۔۔کِسے؟۔۔۔ ہم نے کبھی بھی اُس کی موجودگی میں پریزینٹیشن نہیں
دی۔۔کیونکہ ہم اُن لوگوں میں سے ہیں جن کے لیے ویڈیوز کے شروع میں لکھا
جاتا ہے کہ کمزور دِل والے اور بچے نہ دیکھیں۔۔۔لیکن اُس سے ڈرتے ڈرتے ہم
باقی کلاسوں میں نڈر ہوگئے۔۔میڈم ۔س۔ جب اچھے موڈمیں ہوتی تو اپنے بچوں کی
ڈانٹ ڈپٹ کے واقعات سُناتی۔۔اور اینڈرائیڈ موبائل کے لیے اُن کی شاہ خرچیوں
کے قصّے بیان کرتی۔۔جو ہم بڑی دلچسپی اور غور سے سُنتے ۔۔۔کیونکہ ڈانٹ ڈپٹ
سے بچے رہتے۔۔۔ان لیکچرز کے دوران ایک بزرگ اور ملنسار ڈاکٹر صاحب پر تواس
قرب کا اتنا ،اثر ہوا کہ سرِ عام بخاری صاحب کا ماتھا چومنا پڑا ،اور ہم نے
ریکارڈ کے لیے اس عظیم لمحے کو کیمرے کی آنکھ سے دیکھا،جو تا دمِ تحریر
محفوظ ہے۔۔۔ ۔
ان ورکشاپس میں،کچھ ۔پی ایچ ڈی۔ کے طلباء بھی ہم پر علم آزمائی کرنے کے لیے
بُلائے جاتے۔۔۔وہ ہمیں پڑھانے سے زیادہ نصیحتیں کرتے۔۔۔ سارے سیشنز ڈو اینڈ
ڈونٹس کی گفتگو میں گزر جاتے۔۔۔ اور کچھ خود ستائی میں۔۔۔ ایک اسی قسم کے
اُستاد نے جب ایک سکول میں اپنی بھرتی سے پہلے اور بھرتی کے بعد کے حالات
کا نقشہ کھینچا تو دل بے ساختہ حالیؔ مرحوم کے مدوجزرِ اسلام کے عرب کی طرف
مائل ہوگیا۔۔(اُس کا سکول بھی اُس کی آمد سے پہلے وہی نقشہ پیش کر رہا
تھا۔۔جو اسلام سے پہلے عرب کا تھا۔۔۔یعنی عرب جس کا چرچا تھا یہ کچھ وہ کیا
تھا ۔۔جہاں سے الگ اک جزیرہ نما تھا۔اور۔کہیں پانی پینے پلانے پہ جھگڑا
۔۔کہیں گھوڑا آگے بڑھانے پہ جھگڑا۔۔۔باقی مسدس حالی خود پڑھ لیں اور اُس
صاحب کے ظہور سے پہلے اُس کے سکول کا نقشہ ملاحظہ کر لیں)،لیکن ہمیں کیا
پڑھانا چاہتے تھے پتہ نہیں چلااور سیشن گزار لیے۔۔۔ہمارے ایک ڈاکٹر صاحب
پروجیکٹرز وغیرہ کے سخت خلاف واقع ہوئے تھے ،اس لیے ہر بات تختہءِ سفید
(وائیٹ بورڈ)پر مارکر سے لکھ کر سمجھاتے۔۔۔شاید پیراڈائم کے متعلق کچھ
سمجھانا چاہتے تھے ۔۔۔ایک مثال جس میں ایک بچے نے کوئے پر سفید رنگ کیا
ہوتا ہے، اور ریسرچر اُس کے پیچھے بھاگتا ہے اورپکڑتا ہے۔۔۔استادِ محترم کی
عظیم مثالوں میں سے ایک تھا۔۔۔ استادِ محترم اسے کوالیٹیٹیو ریسرچ
کہتے۔۔۔ہمارے علاقے میں اسے شکار کہتے ہیں (لیکن مسلمان کسی ایسے پرندے کو
تکلیف نہیں دیتے جسے وہ پکا کر کھا نہیں سکتے۔۔ماخوذاز یوسفی)۔۔ اورکوے کو
ایک ریسرچر ہی پکڑ سکتا ہے (کیونکہ اسلام آباد میں ابھی کوّا بریانی کی
روایت قائم نہیں ہوئی)۔۔۔ اس سے ریسرچر کی تگ و تازاور ذہنی کیفیت کا خود
اندازہ لگا لیں۔۔مگر کوے کے شکار سے آگے ہم نے غور نہیں کیا۔۔۔ اس استاد
صاحب نے امریکہ کی کوئی بات نہیں سُنائی کیونکہ آسٹریلیا سے پی ایچ ڈی
یافتہ تھے۔۔۔جب بھی دیتے آسٹریلیا ہی کی مثال دیتے۔۔اور حد سے زیادہ بیزار
رہتے۔۔شاید سسٹم کے شاکی تھے۔۔۔۔ایک استادِ محترم سے تو ہماری اتنی علیک
سلیک ہوئی کہ بیچلر ہاسٹل(ہاسٹل کا صرف نام ہی بیچلر ہے ،شادی شدہ کو بھی
رہنے کی اجازت ہے)، میں ہم دوست جاکر اُس سے ریسرچ کے متعلق بات چیت کرنے
لگے۔۔۔۔اسی محترم سے سُنا تھا کہ لوگ کوانٹی ٹیٹیوسے کوالیٹیٹیو پر چلے
جاتے ہیں۔۔۔لبرل ،کُھلے ذہن اوراُس سے زیادہ کھلے جسم کے انسان تھے۔۔۔
سکولوں میں ڈانس کے حق میں تھے۔۔اسی ایک خیال کی ہم خیالی، ہمارے اشتراک کی
وجہ تھی اور یہ بھی سچ ہے۔۔کہ ہم نے کئی مرتبہ اسی ڈانس اور میوزک فلسفے کے
تحت اپنی اسائمنٹ اور پریزینٹیشن ادھور ی چھوڑ کر یونیورسٹی کے ادب میلے
اور کلچرایوننگز میں شرکت کی اور رات بارہ بارہ بجے تک کی،لیکن پھر بھی
تشنگی باقی رہی۔۔ہاں۔۔ بخاری صاحب ہمیشہ پڑھائی کو میوزیکل نائٹس پر ترجیع
دیتے رہتے، حالانکہ شاعر ہیں(بقول اُن کے) اور شاعر کے متعلق تو یہ نظریہ
ہے کہ یہ کھوکھلے ہوتے ہیں،ان سے بانسری کی طرح آواز سریلی نکلتی ہے لیکن
اسے کوئی بے سہارا ضیعف ٹیک کر منزل تک نہیں پہنچ سکتا کیونکہ بہت جلد ٹوٹ
جاتے ہیں،اور دوراہے پر چھوڑ دیتے ہیں۔۔۔پُرانے زمانے کا تو پتہ نہیں لیکن
آجکل کے شعراء کا کلام تو وزن سے گراہی ہوتا ہے۔۔۔(شاعر معاف کریں)۔۔
ضمنی طور پر یہ بھی عرض کرتے چلیں کہ ایک ادبی میلہ جسکانام لٹریچر
کارنیوال رکھا گیا ہے ،اور سال بہ سال یونیورسٹی میں منعقد ہوتا ہے میں ہم
رات گئے تک کلچرل موسیقی، قوالیاں اور اشعار سُنتے رہے۔ ۔افتخار عارف صاحب
،اور احمد حمادؔ صاحب جیسے بڑے بڑے شعرا نے اس میلے میں شرکت کی اور اپنے
اپنے کلام سُناے،حمادؔ کا ایک شعر یاداشتوں سے چپک کر رہ گیا کہ (تیرے حماؔ
د کو لوگوں نے بتایا ہی نہیں۔۔شاہ کو بولنے والے نہیں اچھے لگتے)۔اس میں
بچے، بچیوں کاایک بیت بازی مقابلہ بھی ہوا جس میں سب سے چھوٹے بچے جیت گئے
۔۔۔حالانکہ بچیوں نے بھی دل کھول کے شعر سُنائے،اور ہم نے کان کُھول کر
سُنے ۔۔جیسے (یہ ضروری تو نہیں ہیر فقظ جھنگ سے ہو۔۔ یار کا شہر کراچی بھی
تو ہوسکتا ہے۔۔۔۔۔یا۔۔۔۔دفعتاََ ترکِ تعلق میں بھی رسوائی ہے ۔۔الجھے دامن
کو چُھڑاتے نہیں جھٹکا دیکر)، اس کارنیوال میں کتاب میلہ بھی ہوتا ہے،
کپڑوں کے سٹال بھی ہوتے ہیں اور ملتانی قلفیاں بھی ۔۔۔لیکن مجھے ملتانی
قلفیاں ہی سب سے اچھی لگیں(اور ہاں ملتانی قلفی ،ربڑی اور فالودے کا تو ایک
ہی ذائقہ ہوتا ہے،پھراسے لوگ الگ الگ طریقوں اور لوازمات کے ساتھ کیوں
کھاتے ہیں)۔۔ اکثر پروفیسر صاحبان اور صاحبات کوکپڑوں کے سٹالوں پر
دیکھا۔۔۔خیر اپنے مدعا پر آتے ہیں کہ بیچلر ہاسٹل والے پروفیسر صاحب کا
کلاس میں کافی ایٹیٹیوٹ تھا، مگربے تکلف محفل میں انتہا درجے کے ملنسار،
مہمان نواز اور خوش مزاج انسان تھے۔۔۔ حسِ ظرافت اعلٰی ،اور مشاہدہ کافی
سٹرانگ تھا(مشاہدے کے ضمن میں مثالوں سے دانستہ گریز کر رہا ہوں۔۔ورنہ اُس
کا ہر مشاہدہ بعد میں ناسٹراڈیمس کی پیشن گوئی ثابت ہوا)۔۔۔۔ ہم نے ہزار
مرتبہ دل پر جبر کیا ،کہ اُس سے علم کی باتیں بھی گرہ میں باندھ لیں۔۔۔
لیکن اِس خود سردل نے ہماری ایک نہ مانی،اور کچھ نہ سمجھا۔۔۔۔
ہر ورکشاپ میں پریزنٹیشن کا ٹنٹنا ضرورہوتا اور ہم کچھ بھی بول کر پاس
ہوجاتے۔۔۔ یعنی ہمارے پاس جتنی بھی انگریزی بہ کفایت دستیاب ہوتی اس کو جوڑ
کر تقریری لب و لہجہ اختیار کرتے۔۔ لیکن جب کوئی آگے سے سوال پوچھتا تو
ہمارے علم کا دریا سوکھ جاتا (پریزینٹیشن میں اساتذہ کے ساتھ ساتھ طلباء کو
بھی جمہوری نظام کی طرح سوال کرنے کا حق حاصل تھا،اور وہ پاکستانیوں کے ووٹ
کی طرح یہ حق استعمال کرتے)، اصل مسائل ہمیں ان پریزینٹیشنز کی تیاری کے
وقت ان کے عنوانات سے ہوتے ، کیونکہ یہ موضوعات اتنے گنجلک ہوتے کہ
گنجینہءِ معنی ہاتھ ہی نہیں آتاتھا،اور آخری وقت تک ایک دوسرے سے پوچھتے
پھرتے، کہ جو کچھ بنایا ہے کیاعنوان کی زد میں آتا ہے یا نہیں۔۔۔۔کیونکہ
میڈم ۔س۔ جتنی پریزینٹیشنز دیکھتی ایک ہی اعتراض کرتی۔۔۔یہ عنوان کی زد میں
نہیں آرہا۔۔۔۔۔۔
ہم چونکہ دور دراز علاقوں کے طلباء میں سے تھے اس لیے مسکن ہاسٹل ہی رکھا
۔۔۔یونیورسٹی والوں نے صنف نازک اور صنفِ سخت(میں نے نازک کا متضاد سخت ہی
سمجھا ہے ،آپ صنف کُھردرابھی کہہ سکتے ہیں) کے ہاسٹل آمنے سامنے بنائے تھے
لیکن اسلامی ملک کی رعایت سے ایک پتلی سی سڑک بیچ میں ڈال دی تھی تاکہ حدِ
ادب فاصلہ قائم رہے اور اگر کوئی سڑک پار کرے تو کیمرے کی آنکھ یا تاک میں
بیٹھے چوکیدار کی آنکھ میں محفوظ ہو جائے ۔۔۔ بخاری صاحب بھی ایک صبح
کاونٹر پر بغیر اطلاع دیے کمرے میں آگئے تھے اور کیمرے کے بجائے چوکیدار کی
آنکھ میں محفوظ ہوگئے تھے۔۔ پھر شام تک وارڈن کی جرح کے جوابات ضلع کچہری
کی طرح ہم تینوں دوست دیتے رہے۔۔۔ ان جڑواں ہاسٹلوں کے نام آزادی کے عظیم
رہنماؤں کے ناموں پررکھے گئے تھے۔ مردانہ ہاسٹل کے لیے قائدِ اعظم کا نام
تو ٹھیک تھا لیکن زنانہ ہاسٹل کو لیاقت علی خان کہنے کی کوئی لاجک سمجھ نہ
آئی۔۔۔کیونکہ فاطمہ جناح اور رعنا لیاقت علی خان جیسی عظیم خواتین اس تحریک
کا حصہ رہی تھیں ،کسی کا بھی نام لگاتے تو خوب جچتا۔۔ مردانہ ہاسٹل میں صرف
قیام تھا لیکن زنانہ کو طعام کی سہولت بھی حاصل تھی۔۔ ہم نے ساکنانِ مردانہ
ہاسٹل کو بھی اکثر وہیں طعام کرتے پایا (خودہم بھی وہیں سے کھاتے تھے)۔۔۔
البتہ بخاری صاحب علیٰ ا لصبح بلاک نمبر۴ کے قریب کی طعام گاہ میں چلے جاتے
جہاں بقول اُس کے کھانا اچھا ہوتا۔۔۔ لیکن ہم دو آلسی زنانہ طعام گاہ پر
شکر بجالاتے،جس کے لیے صرف پتلی سی سڑک پارکرنی پڑتی۔۔ کیونکہ کھانا نہ سہی
یہاں کا ماحول ضرور اچھا تھا۔۔۔ (انسان روح و بدن کا مجموعہ ہے ۔۔۔ماحول
روح کی بالیدگی کرتا ہے ،اور کھانا جسم کی۔۔۔ہم دونوں کو روح کی بالیدگی
درکار ہے۔۔جسم تو روح کا ضمیمہ ہے) بخاری صاحب کو کنوینس کرنے کے لیے ہم
ایسے ایسے دلائل گڑھتے ۔۔۔اور،ان دلائل پر بخاری صاحب ہمیشہ تنقیدی اور
طنزیہ ہنسی ہنسنے لگتے۔۔۔پھر پنجابی کے اشعار سُناتے جس میں میاں محمد بخش
کے زیادہ ، اور بُلھے شاہ کے ضمنی ہوتے۔۔۔۔یہ سب اشعارویسی ہی نصیحتوں سے
بھرے ہوتے ، جو عبدالرحمان بابا ہمیں پشتو میں کر چکے تھے، لیکن ہم نہ
سمجھی کی اداکاری کرکے بات گول کرجاتے۔۔۔ روح اللہ بھائی اور میں اکثر اس
زنانہ طعام گام میں ایک ہی چیز مختلف ناموں اور قیمتوں سے کھاتے۔۔۔اُسی
سالن میں کبھی دال ہوتی،کبھی مٹر، کبھی انڈا ،اور کبھی گوشت لیکن اللہ حاضر
و ناظر ہے کہ کسی نے ذائقے میں تبدیلی دیکھی ہو۔۔وہی ذائقہ اور مصالحہ
ہرکھانے میں پڑتا۔۔ ہم نے بار ہا بریانی میں پلاؤ اور کابلی پلاؤ کا ذائقہ
پایا۔۔اور قیمے میں ٹینڈوں اور کدو کا سواد۔۔۔ چائے ہمیں اکثر بنی بنائی
ملتی(یعنی پہلے سے کسی کے لیے بنی پڑی ہوتی،یہ صرف گرم کرکے لاتے)۔۔ اور
پراٹھے بھی ٹھنڈا ٹھارہوتے(گرمیوں کی رعایت سے) جن میں طعام گاہ والوں کا
قصور کم اور ہمارا ذیادہ تھا کیونکہ ہم جولائی اگست میں بھی آٹھ نو بجے
ناشتہ کرنے جاتے۔۔ہم تو راضی بہ رضائے الٰہی قسم کے لوگ ہیں ، لیکن بخاری
صاحب ہر گلاس اور پلیٹ میں کیڑے نکالتے اورویٹر سے دوبارہ دھلواتے۔۔اورآخر
کار تنگ آکر اپنے لیے نیسلے کی ایک الگ بوتل رکھ لی ، جس سے شیرخواروں کی
طرح ہرجگہ،ہر موقع اور ہر کلاس میں پانی چوستے رہتے۔۔ ہمیں ڈرانے کے لیے
بخاری صاحب نے دوعدد سفید کاغذ نیسلے کی بوتل میں ڈال رکھے تھے اور کسی
پہنچے ہوئے بابا جی کے تعویز بتا رہے تھے۔۔ہم بھی ڈرتے تھے کہ ایسا نہ ہو
بابا جی کا تعویز اثر ہی کر جائے۔۔۔ کیونکہ بخاری صاحب کے جتنے بھی ناقابلِ
بیان (اور ناقابلِ اشاعت )مسائل اور ارادے ہیں، مجھے ان دو سفید کاغذوں کی
کرامات لگتے ہیں۔۔ یہ دونوں کاغذ جن کی سیاہی بخاری صاحب کب کے پی چکے تھے،
اب بچوں کے نامہءِ اعمال کی طرح کورے تھے۔۔۔ ۔ ہر وقت مچھلیوں کی طرح بوتل
میں تیرتے رہتے اور بخاری صاحب دن میں کئی مرتبہ ان پر ٹھنڈے کولروں سے
پانی ڈالتے اور پیتے۔۔ہر ڈیپارٹمنٹ کے کولر اور نل کا پانی ان تعویزوں پہ
ڈالا اور پیاگیا تھا۔۔۔اُردو ڈیپارٹمنٹ کا پانی ڈالنے اور پینے کے بعد کئی
دنوں تک بِلا ارادہ مُنہ سے غالب ؔ مرحوم کے اشعار جوش ملیح آبادی کے سے
جذبے کے ساتھ نکلے۔۔۔ماس کمیونیکیشن ڈپارٹمنٹ کا پانی پینے کے بعد موجودہ
حکومت کی ہر پالیسی سے متفق رہنے لگے۔۔۔اور سراہتے بھی رہے۔۔۔ ۔آئی ٹی۔
ڈیپارٹمنٹ کا پانی بوتل میں بھرتے ہی۔۔۔ اپنے متوقع لیپ ٹاپ کے دیدار کا غم
ستانے لگا۔۔۔اور بڑی بے صبری سے کب ملے گا، کا ورد کرتے پائے گئے۔۔۔ہمارے
سامنے ہر مرتبہ نئے جوش و جذبہ سے قبلہ رو ہوکر کورے کاغذوں کا پانی
شفایابی کے جذبات سے مغلوب ہو کر پیتے۔۔۔اورہماری حالتِ زار پر کفِ افسوس
ملتے،کہ تم لوگ اپنی کم فہمی کے باعث ان مجربات سے محروم رہ گئے۔۔۔القصّہءِ
مختصر ایک ہفتے کے بعدہمیں زنانہ طعام گاہ کا کھانا باالکل اپنے گھر کے
کھانے سا لگنے لگا جو ہم اکثر بے رغبتی سے شکم پُری کے لیے استعمال کرتے
ہیں۔۔۔۔
روح اللہ بھائی طبیعت کے ملنسار اور نفیس واقع ہوئے ہیں ،اس لیے ہر ایک سے
انتہائی مدہم لہجے اور نفیس پیرائے میں بات کرتے ہیں ۔۔۔چھوٹی سے چھوٹی بات
بھی تفصیلاََ ،اور انکساری سے کرتے ہیں اسی لیے ہم جب بھی یونیورسٹی سے
باہر نکلے ، اسلام آباد پولیس نے ہمارا چالان ضرور کیا ہے۔۔۔لیکن پرچی کبھی
نہیں پکڑائی ہاں ۲۰۰یا ۳۰۰ لیکر آئندہ محتاط رہنے کی نصیحت اور وارننگ کے
ساتھ چھوڑدیا۔۔ ہم اکثر سیٹ بیلٹ لگانا بھول جا تے تھے ،لیکن ان رشوتوں کے
باعث اب یونیورسٹی کے اندر بھی باندھ لیتے ہیں ، مبادا کوئی سنتری صاحب
کھڑے نہ ہوں۔۔۔ہم چونکہ نئے تھے اس لیے کبھی بھی اسلام آباد میں گم ہوئے
بغیر سفر نہیں کیا۔۔۔ایک رات تو سیور فوڈ سے آتے ہوئے گوگل میپ بھی بند
ہوگیا ، اور ہم پانچ لوگوں پر، جو قیامت یونیورسٹی کا راستہ ڈھونڈتے
ڈھونڈتے گزری،وہ فتنہءِ محشر سے کسی طور کم نہیں تھی۔۔۔ سڑک کنارے عام
بندوں کو چھوڑیں ہر ایک بھکاری سے بھی اپنی یونیورسٹی کا ایڈریس پوچھا ، جس
کے بعد وہ اپنے ہاتھ کے اشاروں سے ہلالِ احمر کے راستے کا گوگل میپ
بناتا،اور ہمیں سمجھاتا۔۔ ہم دوبارہ پوچھنے کی تاب نہ لاتے ہوئے ہاں کہہ
دیتے، حالانکہ کچھ بھی سمجھ میں نہ آتا۔اوریوں خوار ہوتے ہوتے رات ۱۲ بجے
کے لگ بھگ معجزاتی طور پر ہاسٹل پہنچے۔۔۔ ہمیں اسلام آباد کی ہر سڑک، ہر
نوزائیدہ بچہ اور مرغی کے چوزے ایک سے لگتے ہیں۔۔۔یہ جو عورتیں کہتی پھرتی
ہیں کہ بچہ فلانے پہ گیا ہے اس کی تُک مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی۔۔کہ کس
بناء پر کہتی ہیں۔۔۔
چلو ہاسٹل کی طرف آتے ہیں۔۔۔ یہاں ہر کمرہ چار افراد کومشترکہ الاٹ کیا
جاتا، جس میں ہم تین کے علاوہ ایک چوتھا بندہ بھی بطورِ ڈسٹریکٹر ڈالا
جاتاتھا (حالانکہ ۔ایم سی کیوز ۔ میں تین ڈسٹریکٹرز ہوتے ہیں اور کوئی اُف
تک نہیں کرتا)۔۔جو ہم تینوں کی ہنسی مذاق میں ہمیشہ کنفیوز رہتا ، کیونکہ
وہ بے تکلف دوستوں کے درمیان ڈواینڈ ڈونٹس کا اندازہ نہیں لگا سکتاتھا۔۔۔ہم
اتنے فری ہوچکے تھے کہ ایک دوسرے کے اشارے کنایے بھی سمجھ لیتے،جس سے اکثر
بھری کلاس میں بھی کام لیا جاتا۔۔۔پڑھائی سے زیادہ ہمارے کمرے میں میوزک
پسند کیا جاتا اورہر وقت مشاعرے کاسا سماں رہتا۔۔نہاتے وقت باتھ روم سے بھی
شعر پھینکے جاتے۔۔کیونکہ کسی سیانے نے کہا ہے کہ شعر اور موت کاکوئی مقررہ
وقت نہیں ہوتا(میں نے تواس قول سے یہی مطلب لیا ہے کہ دونوں ہروقت، بے وقت
لگتے ہیں)۔۔۔ہم صبح اکثر کلاس سے لیٹ ہوتے کیونکہ ایک مولانا صاحب کو
یونیورسٹی نے ایک سمسٹر میں بطورِ ڈسٹریکٹر ہمارے کمرے میں بھیجا
تھا۔۔۔۔ایم اے اسلامیات کے طالب علم تھے اور یونیورسٹی کے ظلم وستم کا شکار
۔۔۔کیونکہ یونیورسٹی بار بار فیل کرکے تھک چکی تھی۔۔۔ ہماری نمازوں کی تہہ
دل سے نگرانی کرتے اور ہمارے جیتے جی نکیرین(قبر میں سوال و جواب والے
فرشتوں)کا کردار نبھاتے۔۔یعنی اسلام کے باب میں سوال وجواب!۔۔۔ اُن کے سوال
کچھ یوں ہوتے ۔۔صُبح کی کیوں قضا ہوئی ۔۔عصرکی کہاں پڑھی میں نے نہیں
دیکھا۔۔مغرب اور عشاء ، شاید اکھٹی کرلی،کیونکہ خاصی لمبی تھی۔۔۔اُس کے
سوالوں سے بچنے کے لیے ہم پانچوں کی پانچوں عین اُس کی آنکھوں کے سامنے
خشوع وخضوع سے پڑھتے۔۔لیکن شومئی قسمت ۔۔مسجد کا راستہ اور باجماعت نمازوں
کے اوقات ہمیشہ ہم سے پوچھتے۔۔۔اور مسجد سے واپس آنے کے بعد باجماعت نماز
کی فضیلتیں بتاتے۔۔۔ہمیں گنہگار گنہگار فیل کراکے اندرونی سکون محسوس
کرتے۔۔لیکن ہم یہ موقع اُنھیں بار بار نہ چاہتے ہوئے بھی مہیا کردیتے۔۔۔ وہ
عین کلاس سے ایک گھنٹہ پہلے باتھ روم کی کنڈی چڑھا لیتے اور پھر ڈیڑھ گھنٹے
بعد نکلتے۔۔۔اس دوران ہم تینوں بے چین نظروں سے باتھ روم کے دروازے کو تکتے
اور کمرے میں ٹھلتے رہتے ۔۔ کہ کب کھلے گا دروازہ۔۔۔۔ہم اتنی افراتفری میں
کپڑے تبدیل کرتے کہ کلاس کی طرف چلتے چلتے شرٹ کو اُس کے جائز مقام
(پینٹ)میں اڑستے جاتے۔۔اور وہ سرپھری بار بار نکلتی جاتی۔۔ ۔چند راتوں کے
لیے وارڈن نے ایک منیجمینٹ کے طالب علم کوبھی ہمارے صبر کا امتحان لینے
بھیجا تھا۔۔۔جو بچاس سے تجاوز کر چکے تھے،اور ہنستے ہوئے اُس کا بیڈ چر چر
کی صدائیں بلند کرتا۔۔۔ کیونکہ وہ ہلتے زیادہ اور ہنستے کم تھے۔۔یوں سمجھ
لیں کہ ہنستے ہوئے وائبریشن پر لگ جاتے۔۔ یہ صاحب بَلا کے قیافہ شناس تھے
اور نام کے الفاظ سے فال نکالتے تھے۔۔۔ کچھ مراقبہ میں بھی درک تھا اور اُس
پر کسی میڈیٹیشن ہال میں کئی مرتبہ حال بھی آچکا تھا (بقول اُس کے)۔۔۔اسی
مناسبت سے خود کو صاحبِ حال کہتے (یا ہال)۔۔ مجھ سے فوراََ گویا ہوئے۔۔۔
یار تم اپنا نام ۔آئی۔سے لکھتے ہو نا۔۔۔میں نے کہا ۔۔جی حضور۔۔۔۔تو
بولے۔۔ڈبل ای ۔۔سے لکھا کرو مسائل ختم ہو جائیں گے۔۔۔۔اور میں ہنس
دیا۔۔۔اُس نے ہنسنے کی وجہ پوچھی تو میں نے کہا۔۔۔۔جناب۔۔پہلے تو یہ بات
کہ، میرے جتنے بھی مسائل ہیں میری ذاتی کاوش اور خواہش کا نتیجہ ہیں (یعنی
اپنی مرضی سے شادی شدہ ہوں۔۔۔۔وہ ہنستے ہنستے پھر سے وائبریشن پر لگ
گئے)۔۔اور جہاں تک ۔آئی ۔ کی بات ہے ،تو یہ ۔آئی ۔ تو ہمارے درمیان مشترک
ہے۔۔۔ہاں اگر یہ ۔آئی۔ نہ ہوتی تو زندگی اس سے یکسر مختلف ہوتی۔۔۔لیکن مجھے
بھی اپنی اس تکلیف دہ ۔آئی۔ سے پیار ہے۔ اور اُسے بھی۔۔۔۔۔حضور یہ۔۔۔آئی۔اب
باالکل بھی نہیں نکل سکتی۔ ۔۔ اس کے بعد بخاری صاحب ہر وقت تکلیف دہ ۔آئی ۔
کے طعنے دیتے رہے، اور اسے ختم کرنے کے درپے رہے۔۔۔۔۔ خیراس بات کو چھوڑتے
ہیں
ہمیں اپنی پیدائشی امن پسندی،اور ڈر کی وجہ سے ہر، وردی والا سر لگتاہے۔۔
اس کے ثبوت میں، ہم ہر ناکے پر کھڑے سنتری کو سر کہہ کر پکارتے ہیں ،جس سے
وہ اور بھی شیر ہو جاتا ہے۔۔۔اور کُھل کر پیسے مانگ لیتا ہے۔۔۔ان ہی وردی
والوں پر قیاس کرکے اس یونیورسٹی کے سیکیورٹی گارڈز کو بھی سر کہہ کر مخاطب
کرتا ہوں۔۔۔ لیکن یہاں خاکی وردی والے اور نیلی وردی والے دو قسم کے
سیکیورٹی گارڈز پائے جاتے ہیں۔۔یعنی یونیورسٹی کی سیکیورٹی رنگین ہے۔ان
رنگوں کا فرق مجھے نہیں پتہ حالانکہ بہت غور کیا۔۔۔۔خیر یہ سیکیورٹی والے
دن کے وقت یونیورسٹی اور شام کے بعد طلباء کے چال چلن پر پہرہ دینے کی کوشش
کرتے ہیں۔۔۔ اس سمسٹر کے دوران ہم نے یہ بھی محسوس کیا کہ ان شب کے پہرے
داروں کے ہاتھ میں ایک ایک عدد ٹارچ بھی تھما دی گئی ہے۔۔۔تاکہ دورتک
اندھیروں کو چیر سکیں۔۔۔حالانکہ دیوار نما پودے جو باغیچوں کے گرد لگے ہوئے
تھے اور قدِ آدم اونچائی پر تھے ۔۔اُس کی اونچائی بھی دوفٹ ہماری آنکھوں کے
سامنے کر دی گئی۔۔۔تاکہ تاریکیاں کم ہوں اور روشنیاں ہر کونے میں پہنچ
سکیں۔۔۔۔ لیکن طلباء علمی ضرورتوں کے پیشِ نظر اور مشترکہ پراجیکٹس کے لیے
ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ جاتے ہیں،بات چیت کرلیتے ہیں۔۔سب میجیور ہیں۔۔۔ اس
میں اتنی بے اعتباری کی کیا ضرورت ۔۔۔کہ جہاں دومخالف اصناف کے لوگ کھڑے
ہوئے یا بیٹھ گئے ۔۔ تو قریب سنتری صاحب بھی مشقوق سے ٹہلنے لگے۔۔۔۔ ایک
مرتبہ تو صرف ہم حضرات ہی بیٹھے تھے کہ سنتری صاحب ہاتھ میں ٹارچ تھامے
مشقوق گشت کرنے لگے۔۔۔پوچھنے پر پتہ چلا کہ پشاور سے ہیں۔۔۔اس لیے ہم نے
دیکھی ان دیکھی کر دی اور ہنس دیے، کیونکہ اُسکا شک بنتا تھا۔۔پشاور سے جو
تھے۔۔۔ جب ایک دوست سے اس نئے بے اعتبار ماحول کی بابت بات کی،تو اس نے کہا
ان ہاسٹلوں میں ایم اے کے طلباء بھی ٹھہرے ہوئے ہیں۔۔جو ابھی بچے ہی
ہیں۔۔اُن کے چال چلن پر پہرہ وقت کا اہم تقاضا ہے۔۔۔ہم نے چال چلن اور پہرے
کے تعلق پر کچھ تبصرہ تو نہیں کیا لیکن صرف اتنا کہاکہ:۔۔۔دل کے خوش رکھنے
کو غالب ؔ یہ خیال اچھا ہے۔۔۔۔۔اور یوں یہ سمسٹر بھی ہنسی خوشی اختتام پذیر
ہوا۔۔۔۔
اکثر لوگ منزلوں کے اسیر ہوتے ہیں لیکن میں راستوں کا قیدی ہوں ۔۔۔اور مجھے
راستے منزلوں سے زیادہ دلچسپ لگتے ہیں منزل پر پہنچنے کے بعد وہ تڑپ ختم
ہوجاتی ہے، وہ تکلیف ،وہ میٹھی تھکن اور منزل کی طرف کھینچنے والی قوت اور
کشش زائل ہوجاتی ہے۔۔ راستے کی کسوٹیوں سے گزارکر ہی سیمرغ بنتے ہیں،منزل
تو ایک سراب ہے۔۔میریج آف مائنڈ۔۔کسی شوخ نے کہیں لکھا ہے کہ پہاڑ اور
چالیس سال سے اوپر کی عورت دور سے اچھے لگتے ہیں۔۔۔لیکن میں اتنی گستاخی
نہیں کرسکتا۔۔ صرف منزلوں کے بارے میں یہ الفاظ استعمال کرسکتا ہوں ۔۔۔کہ
منزلیں دور سے اچھی لگتی ہیں۔۔۔ کیونکہ، منزل کے گرد،رومانیت کا ہالہ اُس
کے قریب جانے سے مٹ کر تحلیل ہوجاتا ہے۔۔۔اور سچ میں منزل اتنی خوبصورت
کبھی نہیں ہوتی جتنی اُس کی لگن۔۔۔اپنے ایم فل کے بارے میں بھی میرا یہی
نظریہ ہے،کہ کاغذ کا ایک ٹکڑا ڈگری کے نام پرتھما دیا جائے گا اور ہم اُس
ہجوم میں شامل ہوجائیں گے جن کے ہاتھوں میں ایسے ہی کاغذ کے ٹکڑے ہوں گے،۔۔
ایم اے ۔۔والا ہجوم پیچھے رہ جائے گا اور کچھ نہیں ہوگا۔۔ (ہاں ایم فل کے
بعد بڑائی کی ایک ذہنی فینٹیسی موجود رہے گی) ۔۔۔کسی کی تنخواہوں میں اضافے
ہوں گے۔۔۔اور کسی کی ۔پے سلپ۔ پہ پندرہ سے سولہ اور سولہ سے سترہ لکھ دیا
جائے گا۔۔۔لیکن یہ گزرے دن ،یہ بیتے لمحے ،یہ ڈیڈلانز، اساتذہ کی ڈرانے
والی باتیں،اور پڑھائی پر اکسانے والی بچگانہ دھمکیاںیادوں میں مٹھاس بھرتی
رہیں گی۔۔۔یہ سچ ہے کہ جس چیز کا آغاز ہو اُس کا انجام بھی ہوتا ہے لیکن یہ
بھی سچ ہے کہ ۔۔۔ اس ڈگری نے خیبر سے کشمیر اور لاہور تک اور گوادر سے
سکردو تک کتاب کے پَنوں کی طرح لوگوں کو اکھٹا کیا۔۔۔اور خوبصورت لمحوں سے
اس کتاب کے ہر پنے پر وقت نے بہت سی یادیں تحریر کیں۔۔ اس کتاب کا شیرازہ
ٹوٹ بھی جائے،تو یہ یادیں نہیں مٹیں گی۔۔ یہ لمحے ہر صفحے پر نقش رہیں
گے۔۔۔ مجھے یہ پَل یہ گزرے لمحے اور بیتا کل بہت عزیز ہے۔۔۔۔اور ان پر اللہ
تعالی کا شکر ادا کرتا ہوں کہ مجھ جیسے بے فیض کو ان اساتذہ ، قابل دوستوں
اور کلاس فیلوز کا قرب نصیب ہوا۔۔۔۔
نوٹ:
۔۱۔کچھ کلاس فیلوز کی طرف سے چائے اور ڈنر کی،چار پانچ پارٹیوں کا بھی
احتمام کیا گیا جس میں ہم نے شرکت کی،اُن سب کاتہہ دل سے مشکور
ہوں۔۔۔۔ناموں کی چونکہ اجازت نہیں لی اس لیے نہیں لکھے
۔۲۔روح اللہ بھائی اور بخاری صاحب سے اُن کے نام استعمال کرنے کی پیشگی
اجازت لی ہے۔
۔۳۔ سیمرغ فرید الدین عطارؒ ؒ کی مثنوی منظق الطیر(پرندوں کے سات سفر) کا
اعلی ترین مثالی کردار ہے۔۔آپ نے پرندوں کے سفر کے ذریعے سلوک وعرفان(تصوف)
کی منزلیں بیان کی ہیں۔۔
۔۴۔اپنے لیے میں کی جگہ ہم استعمال کرنے پر معذرت۔
۔۵۔تذکیر و تانیث کی غلطیوں سے صرفِ نظر کرلیں کیوں کہ ہم اہلِ زبان نہیں
پشتون ہیں ۔۔اُردو الفاظ میں تو پھر بھی بہت باریکی ہوتی ہے ہم پشتون
تو۔۔۔۔۔خیر چھوڑیں ان باتوں کو
۔۶۔ناسٹراڈیمس(جس کی اکثر پیشن گوئیاں سچ ثابت ہوئیں)۔۔۷۔ ایل ایم ایس
(لرننگ منیجمنٹ سسٹم۔۔ویب سائیٹ)۔۔
وسیم خان عابدؔ
نومبر۲۰۱۸
|