ڈاکٹر غلام شبیر رانا
ماہرین ِ حیوانات کہ کہنا ہے کہ ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور مگر چبانے کے
اور ہوتے ہیں۔ ماہرین علم بشریات کی رائے ہے کہ انسان کی مثال بھی کواکب کی
سی کہ جیسے دکھائی دیتے ہیں ویسے نہیں ہوتے ۔تقدیر کی پہچان ہی یہ ہے کہ یہ
ہر لحظہ ہرگام انسانی تدبیر کی دھجیاں اُڑا دیتی ہے ۔توقعات اور تمناؤں کے
گھروندے جب تقدیر کے مہیب بگولوں کی زد میں آکر منہدم ہوتے ہیں تو اِرادے
باندھنے والے با لعموم شکستہ کھنڈرات کے ملبے تلے دبے کراہتے دکھائی دیتے
ہیں ۔وہ اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اس عالمِ آب و گِل میں توقعات کی محدود
نوعیت وسعت ِ فکر و خیال کے سامنے ہیچ ہے ۔ معاشرتی زندگی میں انسان کے
تکلم کے سلسلوں کا انحصار الفاظ کے انتخاب پر ہے ۔ اسی بنا پرماہرین
لسانیات اس بات پر متفق ہیں کہ الفاظ کے باہمی ارتباط اور تیزی سے بدلتے
ہوئے مطالب و مفاہیم اظہار وابلاغ کو نیا رنگ و آ ہنگ عطا کرتے ہیں ۔ بادی
النظر میں یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ گفتگو کے دوران میں الفاظ کی شکل و صورت
میں جو تبدیلی صاف دکھائی دیتی ہے اس کاتعلق صَرف سے ہے ۔جب کہ جملوں میں
استعمال ہونے والے الفاظ کے باطن میں مستور گنجینۂ معانی کے طلسم کا تعلق
نحو سے ہے ۔قحط الرجال کے موجودہ دور میں بے حسی کا عفریت ہر طرف منڈلا
رہاہے ۔ان اعصاب شکن حالات میں اظہار و ابلاغ کی راہیں مسدود ہونے لگی ہیں
اور جاہل اپنی جہالت کا انعام بٹورنے میں لگے ہیں ۔سید فخر الدین بلے (
علیگ ) نے اظہار و ابلاغ میں الفاظ کی اہمیت کے حوالے سے کہا تھا:
الفاظ و صوت و رنگ ِ نگارش کی شکل میں
زندہ ہیں لوگ آج بھی مرنے کے باوجود
علم نحو کیا ہے ؟
قلزم علم و ادب کی غواصی کرنے والے اس حقیقت سے آگا ہ ہیں کہ لسانیات کی
دنیا کے انداز نرالے ہیں ۔زبان کو قلزم ہستی میں تیرتے ہوئے ایک ایسے منجمد
برفانی تودے سے تشبیہ دی جاتی ہے جس کا خفیف حصہ تو نگاہوں کے سامنے آ جاتا
ہے مگر باقی حصہ لسانی گہرائی کی وسعتوں اورگہرائیوں میں گم نگاہوں سے
اوجھل رہتا ہے ۔لسانی عمل ایک پیچیدہ ذہنی عمل کا مظہر ہے جس میں متکلم کے
شعور ،لا شعور اور تحت الشعور کی اثر آفرینی کے حیران کن کرشمے خیال اور
تکلم کے سلسلوں کو نیا رنگ اور آ ہنگ عطا کرتے ہیں۔بر صغیر میں مسلمانوں کی
آمد سے دکنی اوراردو زبان کو پروان چڑھنے کا موقع ملا ۔اُردو زبان کی نحو
پر بھی اسی عہد میں کام کا آغاز ہوا ۔ قدیم دکنی اردو میں طویل عرصہ تک
ماضی مطلق یائے مخلوط کے ساتھ مستعمل تھی دکنی کے ممتاز شعرا نے چلا،پڑھا
،دیکھا کے بجائے علی الترتیب چلیا ، پڑھیا اوردیکھیا کو اپنا یا ہے دکنی
اردو میں مذکر و مونث کی جمع بناتے وقت بالعموم ‘ اں ‘ کا لاحقہ استعما ل
کیا جاتا تھا جیسے باتاں ،جھاڑاں ،غمزاں ،بھائیاں،پہاڑاں ، اور مائیوں
وغیرہ۔اُردو و دکنی زبان کے صرفی و نحوی معائر وقواعد میں مختلف اوقات میں
ترامیم و تغیر و تبدل کا سلسلہ جاری رہا جس نے زبان کو ترقی کے نئے آفاق تک
رسائی کے مواقع فراہم کیے ۔ نحو وہ علم ہے جس سے اجزائے کلام کو ترکیب دینے
اور جد ا جد ا کرنے کا ڈھنگ آتا اور کلمات کے ربط اور باہمی تعلق کا حال
معلوم ہوتا ہے اور جس غلطی سے مطلب میں خلل واقع ہو اس سے کلام کو محفوظ
رکھتا ہے ۔ یہاں یہ ترکیب سے مراد الفاظ کا ایسا مجموعہ ہے جو قواعد کے
لحاظ سے ایک ہی لفظ کی معنویت پر منتج ہو ۔نحو میں اجزائے کلام اور ان کے
مختلف تغیرات کو زیر بحث لایا جاتا ہے ۔ان کا تعلق تعداد ،زمانہ اور حالت
(فاعلی،مفعولی ،اضافی،انتقالی،ظرفی ،ندائیہ )سے ہوتا ہے اسے نحو تفصیلی کہا
جاتا ہے جب کہ نحو ترکیبی میں جملوں کی ساخت پر توجہ مرکوز رکھی جاتی ہے ۔
کلام کی دو اقسام ’ناقص ‘ اور ’تام ‘ہیں۔ ایسا مرکب جسے سننے کے بعد مکمل
استفادہ نہ ہو جیسے نوید جی کتاب ،سفید کپڑا،چار سو بیس ۔ان کلمات کو سننے
کے بعد سامع فائدہ تام حاصل کرنے سے قاصررہتا ہے اور مزید وضاحت کی خاطرکسی
تفصیل بات کا شدت سے منتظر رہتا ہے ۔ایسے کلام کو مرکب ناقص کہا جاتاہے ۔اس
کے بر عکس مرکب تام کے سننے سے سب حقائق تک رسائی یقینی ہے ۔
اردو زبان اور دکنی زبان کے افعال کے تقابلی مطالعہ پر راقم نے گزشتہ دو
عشروں میں تدریسی حوالوں اور نصابی ضروریات کے تحت جو تحقیقی کام کیا ہے اس
میں نحوپر بھی توجہ دی گئی ہے ۔میرے والد رانا سلطان محمود یہ بات بتاتے
تھے کہ انھوں نے صرف و نحو کی تعلیم اپنی والدہ سے حاصل کی ۔میں نے بھی
اپنی والدہ سے تکلم کے سلسلے اور آداب سیکھے ۔یہ والدین ہی ہیں جو اپنی
اولاد کی خاک کو اکسیر کرنے میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھتے ۔فاضل جمیلی نے
سچ کہا تھا:
آسمانوں جیسی مائیں ،ماؤں جیسے آسماں
ہم زمینوں کے لیے ہیں کیسے کیسے آسماں
بادی النظر میں یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ نحو میں دواہم امور کو زیر بحث
لایا جاتا ہے :
۱۔ اجزائے کلام (اسم ،صفت ،ضمیر وغیرہ ) اور ان کے مختلف قسم کے استعمال
اور ان میں رونما ہونے والے تغیرات کاعمل جسے نحو تفصیلی کہتے ہیں ۔
۲۔ جس میں جملوں کی ساخت ،اجزائے کلام کا آپس میں پایا جانے والا تعلق زیر
بحث لایا جائے اُسے نحوترکیبی کہا جاتاہے ۔
۱۔ نحو تفصیلی
ارد و اور دکنی زبان میں نحو ی مسائل توجہ طلب ہیں ۔
۱۔عقیدت ،احترام اورحفظ مراتب کو ملحوظ رکھتے ہوئے ارد و اور دکنی میں واحد
کے بجائے جمع کا استعمال کیاجاتا ہے جیسے وہ مجھ سے بڑے ہیں ۔
۲۔اوقات ِ سحر و شام ،پیمائش،وزن،شمار کرنا ،دام ،اطراف کے الفاظ جب ان کے
بعد حرفِ ربط ہو جمع کے موقع پر واحد کے طور پر مستعمل ہیں:
وہ تین سال سے نظر بند ہے،میں تین ہفتے میں جاؤں گا،وہ ستر برس کا ہے ،تین
گز میں شیروانی تیار نہیں ہو سکتی،پانچ من سے زیادہ چاول نہ دینا ،چار پیسے
تک نہیں ،سو روپے میں آ ئے گا ،چاروں طرف سے حملہ کیا ۔
الف : بعض الفاظ اگرچہ واحد ہیں مگر اردو اور دکنی میں جمع کی صورت میں
موجود ہیں :
دکنی اردو
انجھو : انجھو بہنے لگے آنسو : آنسو بہنے لگے
رُکھ : رُکھ بولدے ہیں درخت : درخت بولتے ہیں۔
دام دام
بھاگ بھاگ
کرتوت کرتوت
لچھن لچھن
درس: درشن
۳۔ کچھ الفاظ ایسے بھی ہیں جن کی شکل توجمع کی ہے مگر ان کا واحدمستعمل
نہیں ہے
ابھی اس کی مسیں نہیں بھیگیں ، اس کے اوسان خطا ہو گئے ۔
بادی النظر میں احوال ،اخبار ،اولاد جمع کے ہیں مگر ان کا واحد کبھی استعما
ل نہیں ہوا جیسے
سلطان کی اولاد بہت نیک بخت ہے ۔اب میں اس کا احوال بیان کرتی ہوں ۔یہ
اخبار لاہور سے شائع ہوتا ہے ۔
۴۔ بعض اسما چند خاص صورتوں کے سوا ہمیشہ واحد استعمال ہوتے ہیں :
(الف ) کچھ اسمائے کیفیت : اس گاؤں کے لوگوں کا چال چلن بہت اچھا ہے ۔اس
جامعہ کے طالب علموں کا مطالعہ بہت وسیع ہے۔چاوں کے چاروں پہلوان جوڑوں کے
درد میں مبتلا ہیں ۔
(ب) مادی اشیا : لوہا ،سونا ،چاندی ،تانبا ،پیتل،جست،تیل ،پانی وغیرہ۔
(ج) زرعی پیداوار : زرعی اجناس کے نام مثلاً ،باجرہ،جوار،مکئی،مسور،گُڑ
،شکر ،کھانڈ۔ غلوں میں گیہوں ،چنا ،جو متِل جمع بھی مستعمل ہیں ۔
(د) اشیائے خوردنی : گھی ،شہد ،تمباکووغیرہ ۔
(ر) اُردو میں فارسی ترکیب اضافی کا مضاف صورت واحد میں اور واحد و جمع
دونوں کے لیے یکساں مستعمل ہے (1)
مرکب ناقص : کلام ناقص سے مراد تکلم کا ایسا سلسلہ ہے جس سے سامع بھرپور
استفادہ نہ کر سکے اور اس کی تشنگی بر قرا ر رہے ۔اس کی دل میں یہ تمنا
پیدا ہو کہ کاش اس ادھوری گفتگو میں ناگفتہ رہ جانے والی ضروری باتوں کی
وضاحت کی کوئی صورت پیدا ہو سکے۔مثال کے طور پر نوید کا کمپیوٹر ،احسن کا
موبائل فون،نیلا کپڑا،دو سو پندرہ۔یہ ایسے کلمات ہیں جو سامع پر کوئی واضح
تاثر نہیں چھوڑتے ۔اس قسم کے کلمات جو مزید وضاحت کے متقاضی ہوں کو مرکب
ناقص سے تعبیر کیا جاتاہے ۔اس کے بر عکس جہاں تک کلام تام کا تعلق ہے یہ
اپنا بھر پور تاثر چھوڑتا ہے ۔
مرکب ناقص کی اقسام درج ذیل ہیں:
۱۔ مرکب اضافی
دہر میں نقشِ وفا وجہِ تسلّی نہ ہوا
ہے یہ وہ لفظ جو شرمندہ ٔ معنی نہ ہوا ( غالبؔ)
۲۔ مرکب توصیفی
کچھ جو سیدھی بھی بات کہتا ہوں
ٹیڑھیاں وہ مجھے سناتا ہے
۳۔مرکب عددی
عمرِ دراز مانگ کر لائے تھے چار دِن
دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں
۴۔مرکب عطفی
خدا کاذکر کرے ڈکر مصطفی ﷺ نہ کرے
ہمارے منھ میں ہو ایسی زباں خدا نہ کرے
۵۔ مرکب ظرفی
یہ دور اپنے براہیم ؑ کی تلاش میں ہے
صنم کدہ ہے جہا ں لاالہ الا اﷲ
۶۔ مرکب امتزاجی
۷۔ بدل و بدل منہ
۸۔ عطف بیان
۹۔ تابع مہمل
۱۰۔ تابع موضوع
۱۱۔ تاکید و موکد
عمر بھر سنگ زنی کرتے رہے اہلِ وطن
یہ الگ بات کہ دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ
۱۲۔تمیز و ممیّز
بھلاتا لاکھ ہوں لیکن برابر یاد آتے ہیں
الٰہی ترکِ الفت پر وہ کیوں کر یاد آتے ہیں
۱۳۔ اسم فاعل ترکیبی
۱۴۔اسم مفعول ترکیبی
۱۵۔اسم صفت ترکیبی
۱۶۔ اسم مکبر
۱۷۔ اسم مبالغہ
۱۸۔اسم تفضیل
۱۹۔اسم اشارہ و مشارُ الیہ (2)
۱۔ مرکب اضافی
جب بھی دو اسم آپس میں ملتے ہیں تو ان میں ایک ایسا تعلق استوار ہوتا ہے جو
کسی حد تک تشنگی کا مظہر ہوتا ہے ۔اسما کے اسی نا مکمل ناتے کو اضافت سے
تعبیر کیا جاتا ہے۔جس اسم کا تعلق دوسرے اسم کے ساتھ استوارکیا جائے اُسے
مضاف کہتے ہیں اور جس اسم کے ساتھ تعلق ظاہر کرنا مقصود ہو اُسے مضا ف الیہ
کا نام دیا جاتا ہے۔الفاظ کے باہمی ربط کا مظہر یہ مجموعہ مرکب اضافی
کہلاتاہے ۔
عمر ؓجب نبی ﷺ کے امت میں ہوے
یہودی عرب نے جو تھے سر نوے ( وجہی : سب رس صفحہ 6)
’’ سبحان اﷲ !اس کتاب کا ناؤں ’سب رس ‘ سب کو پڑھنے آوے ہوس،بول بول کوں
چڑھے اُمس،یادگار ہو اجھیگا دنیا میں کئی لاکھ برس ۔‘‘ (3)
شوریدگی کے ہاتھ سے سر ہے وبالِ دوش
صحرا میں اے خدا کوئی دیوار بھی نہیں (غالبؔ)
ذیل میں دکنی اور اُردو زبان سے مرکب اضافی کی چند مثالیں پیش کی جا تی
ہیں:
مضاف مضاف الیہ
اُمت نبی ﷺ
ناؤں کتاب
ہاتھ شوریدگی
۲۔ مرکب توصیفی
جب ایسے دو اسما کو ملایا جائے جن میں سے پہلااسم تو موصوف ہو جب کہ دوسرا
اسم صفت ہو تو اسما کا ایسا مجموعہ مرکب توصیفی کہلاتا ہے ۔
عقل ہے باز ولے بازِ بلند پرواز
شکار گاہ ہے اس کا حقیقت ہو ر مجاز ( وجہی : سب رس ) (4)
مندرجہ بالا شعر میں ’ بازِبلند پرواز ‘ مرکب توصیفی ہے ۔درج ِ ذیل شعر میں
’بے نام و نشاں بستیاں ‘ مرکب توصیفی ہے ۔
بستیاں ہو گئیں بے نام و نشاں راتوں رات
ایسے طوفان بھی آئے ہیں یہاں راتو ں رات (خاطر غزنوی )
۳۔ مرکب عددی
مرکب عدد ی کی تشکیل دو دو اعداد کی مدد سے ہوتی ہے ۔ قدیم دکنی اردومیں
ایک کی جمع ’ ایکاں ‘ لکھنے کا رواج تھا۔ اردو کے اکثر شعرا نے مرکب عددی
کواپنے اسلوب میں جگہ دی ہے :
اِک کھیل ہے اورنگِ سلیماں مرے نزدیک
اِک بات ہے اعجازِ مسیحا مرے آگے (غالب ؔ )
ایک ہے تیری نگہ میری آہ
کہیں ایسوں سے رہا جاتا ہے (داغ ؔ )
خبر دلجہ کوں معلوم ہر ایک منزل کا
فقیر تن ہو بچارا مطیع ہے دِل کا ( ملاوجہی ) (5)
۴۔ مرکب عظمی یا معطوف بہ حرف
جب تنہا کلمہ یاکلام ناقص یعنی مرکب اضافی و توصیفی وغیرہ کا عطف کلمہ واحد
یا کلام ناقص پر ہوں تو اسے بھی مرکب ناقص اور کلام تام کا جزو سمجھاجاتاہے
۔جیسے احسن کی کتاب اورنوید کا قلم ۔
۵۔ مرکب ظرفی
یہ ایسا مرکب ہے جس کی تشکیل مظروف اور ظرف کی مرہونِ منت ہے جیسے قلم دان
،آتش کدہ ،صنم کدہ وغیرہ۔ دکنی شاعر سید اشرف اشرف ؔ نے پالنا(پنگھوڑا )
کوایک مر ثیہ میں استعمال کیاہے :
بانوؓ گئیں اصغر ؓ نہیں اب میں جُھلاؤں کِس کے تئیں
سُونا ہوا ہے پالنا اب میں سُلاؤں کِس کے تئیں (سیداشرف اشرف ؔ)
بیجا پور کے شاعر سید شاہ ندیم اﷲ حسینی ندیمؔ نے ایک مر ثیے میں ’ پالنا
‘کو مو ضوع بنایا ہے :
ہے ہے اصغر ؓ ابنِ حسینؓ سُو نا تیرا پالنا
رو رو بانو ؓ کرتے ہیں بین سُونا تیرا پالنا ( سید شاہ ندیم اﷲ حسینی ندیم
ؔ ) (6)
۶۔ مرکب امتزاجی
ایسا اسم جو دو یا دو سے زیادہ اسما کے یک جا ہونے سے متشکل ہو مرکب
امتزاجی کہلاتا ہے جیسے نوید احسن ،مظفر گڑھ ،ساہی وال،کالا باغ ،ساجھووال
۷۔ بدل و مبدل منہ
کلام کی زینت بننے والے ایسے دو لفظ جن مین سے ایک تو مقصود بالذات ہو مگر
دوسرے سے کوئی غرض نہ ہو ۔مقصود بالذات کو بدل جب کہ دوسرے کو مبدل منہ کہا
جاتا ہے ۔ سپاہی سلطان کا پوتا نوید احسن لاہور میں پڑھتا ہے ۔یہاں سپاہی
سلطان جو مقصود بالذات ہے بدل ہے جب نوید احسن مبدل منہ ہے ۔
۸۔ عطفِ بیان
دو اسما کا اس طرح بیان کہ دوسرا اسم پہلے کی مزید تشریح کرے تو یہ عطف ِ
بیان کہلاتاہے جیسے موسیٰ ؑ کلیم اﷲ ،نواب محسن الملک مولوی مہدی علی
خان۔یہاں نواب محسن الملک مبیّن ہے اور مولوی مہدی علی خان عطفِ بیان ہے ۔
۹۔ تابع مہمل
جب کسی لفظ کے ساتھ ایک لفظ زائد بولا جائے تو ایسا لفظ تابع مہمل کہلاتا
ہے جیسے سچ مچ ،میل کچیل ،سود ا سلف میں مچ ،کچیل اور سلف تابع مہمل ہیں ۔
۱۰۔ تابع موضوع
کلام میں ایسے با معنی الفاظ کا زائد استعمال جو کچھ معنی نہ دیں جیسے رونا
دھونا ،چال ڈھال،کرنا کرانا میں دھونا ،ڈھال اور کرانا تابع موضوع ہیں ۔
۱۱۔ تاکید و موکد
اسم یا فعل کی تاکید کے اعجاز سے کلام کی تاثیر کو چار چاند لگ جاتے ہیں۔یہ
اسم کی تاکید اور تکرا رلفظی کی صورت میں کی جاتی ہے جیسے سب ،سبھی،سراسر
چپکے چپکے ۔
چپکے چپکے رات دِن آنسو بہانا یاد ہے
ہم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانہ یاد ہے ( سید فضل الحسن حسرت ؔ موہانی )
۱۲۔ تمیز و ممیّزاورعد د و معدو !
ایسے الفاظ جو کسی مفعد اسم یا جملے میں پائے جانے والے شک یا ابہام کو رفع
کرنے میں معاون ثابت ہوں وہ تمیز یا ممیّز کہلاتے ہیں۔ احسن علم حیوانات
میں ارشد سے برتر ہے ۔برتری کے متعدد اسباب ہو سکتے ہیں اس جملے میں علم
حیوانات کی صراحت سے ابہام دُور ہو گیا ۔اسی طر ح ’آٹھ من چاول ‘ پر غور
کریں ۔اگر محض آ ٹھ من کہا جاتا تو ابہام رہتا اب چاول بتانے کے بعدبات
واضح ہو گئی۔نہ نو من تیل ہو گا نہ رادھا ناچے گی ۔
مرکب تام
اس کو جملہ یا مرکب مفید بھی کہا جاتا ہے۔ جملہ انشائیہ یا خبریہ ہو سکتا
ہے۔جملہ انشائیہ کی درج ذیل بارہ اقسام ہیں :
۱ ۔ امر
آؤ اِک سجدہ کریں عالم مدہوشی میں ․
لوگ کہتے ہیں کہ ساغرؔ کو خدا یاد نہیں ( ساغر صدیقی )
۲۔ نہی
نہ کرو بحث ہار جاؤ گی
حسن اِتنی بڑی دلیل نہیں ( جون ایلیا )
۳۔ استفہام
بُھولیں اگرتمھیں توکِدھر جائیں کیا کریں
ہر رہ گزر پہ تیرے گزرنے کاحسن ہے ( فراقؔ گورکھپوری )
۴۔ تعجب
جاتے ہوئے کہتے ہو قیامت کو ملیں گے
کیا خوب قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور ( مرزا اسداﷲ خان غالب ؔ)
۵۔ تحسین
کیا لوگ تھے جو راہِ جہاں سے گزر گئے
جی چاہتا ہے نقشِ قدم چُومتے چلیں ( مجروح سلطان پوری )
۶۔ انبساط
ہم اتفاق سے کبھی ہنس بھی پڑے مگر
اِس جبر کی ہنسی میں خدائی کے رنج تھے ( سید عبدالحمید عدمؔ )
۷۔ نِدا
دنیا کرے سوال تو ہم کیا جواب دیں
تم کو نہ ہو خیال تو ہم کیا جواب دیں ( ساحر لدھیانوی )
۸۔تاسف
زندگی جن کے تصور سے جِلا پاتی تھی
ہائے کیا لوگ تھے جو دامِ اجل میں آئے (ناصر کاظمی)
۹۔ قسم ( حلف )
داور ِ حشر مجھے تیری قسم
عمر بھر میں نے عبادت کی ہے
تُو مِراا نامۂ اعما ل تو دیکھ
میں نے انساں سے محبت کی ہے ( احمد ندیم قاسمی )
۱۰۔ عرض
دامن میں آ نسوؤ ں کا ذخیرہ نہ کر ابھی
یہ صبر کا مقام ہے گریہ نہ کر ابھی ( ساقی فاروقی )
۱۱۔ تمنا
لیے جاتی ہے کہیں ایک توقع غالبؔ
جادۂ رہ کششِ کاف ِ کرم ہے ہم کو ( اسداﷲ خان غالبؔ )
۱۲۔تنبیہہ
جنگلوں میں کوئی پیچھے سے بُلائے تو منیرؔ
مُڑ کے رستے میں کبھی اُس کی طرف مت دیکھنا ( منیر نیازی )
جملہ خبریہ کی قسمیں
جملہ خبریہ کو جملہ اسمیہ اور جملہ فعلیہ دو اقسام میں زیر بحث لایا جاتا
ہے۔سب سے پہلے جملہ اسمیہ کی کیفیت پرغور کیا جائے گا :
جملہ اسمیہ
ا یسا جملہ جس کے اجزا میں میں ایسا تعلق ہو جو کلام کی تکمیل کرے یعنی
سامع کو اِس سے فائدہ تام میسر ہو اور کسی مزید بیان کی احتیاج نہ رہے ۔اس
قسم کا تعلق اسنا د کہلاتا ہے ۔جس چیز سے تعلق ہوتا ہے اسے مسند اور جس سے
تعلق ہو اسے مسند الیہ کہا جاتا ہے ۔ جو جملہ مسند اور مسند الیہ دونوں پر
مشتمل ہو اسے جملہ اسمیہ کہتے ہیں ۔عربی میں جملہ اسمیہ کی د و صورتیں ہیں
۔ایک وہ جس میں فعل مطلق نہیں پایا جاتا اور اس میں کم از کم دو اسم موجود
ہوتے ہیں ۔دوسرے وہ جس میں فعل تو موجود ہوتا ہے مگر وہ فعل ناقص کی صورت
میں سامنے آتا ہے ۔
جملہ فعلیہ
جملہ فعلیہ کی تشکیل کے لیے کم از کم فعل اور فاعل کی موجودگی نا گزیر ہے ۔
اُٹھایا گاہ اور گاہے بٹھایا
مُجھے بے تابی و بے طاقتی نے ( ذوق ؔ)
ضمائر کی حالت مفعولیت
صیغے
/ اردو
- دکنی
غائب
واحد مذکر
ُاُسے
اُس کو
اُس کے تئیں
اوسے
اوس کو
وس سی
جمع مذکر
انہیں
اُن کو
اُن کے تئیں
اُنن
اُنوں کو
اُن کی تئیں
واحد مونث
اُسے
اُس کو
اُس کے تئیں
اوسے
اوس کو
اوس سی
جمع مونث
اُنہیں
اُن کو
اُن کے تئیں
اُنن
اُنوں کو
اُن کی تئیں
حاضر
واحدمذکر
تُجھے
تُجھ کو
تیرے تئیں
تیں
تجھ کو
تیرے تئیں
جمع مذکر
تمہیں
تم کو
! تمہارے تئیں
تُمیں
„م کو
تُمارے تئیں
واحد مونث
تجھے
تجھ کو
تیرے تئیں
تیں
تجھ کو
تیرے تئیں
جمع مونث
تمہیں
تم کو
تمہارے تئیں
تمیں
„م کو
تمارے تئیں
متکلم
واحد مذکر
مجھے
مجھ کو
میرے تئیں
مجھ
مجھ کو
میرے تئیں
جمع مذکر
ہمیں
ہم کو
ہمارے تئیں
ہم
ہمن
ہمارے تئیں
واحد مونث
مجھے
مجھ کو
میرے تئیں
مجھ
مجھ کو
میرے تئیں
جمع مونث
ہمیں
ہم کو
ہمارے تئیں
ہم
ہمن
ہمارے تئیں
3 اظہار و ابلاغ کی وادی میں قدم رکھنے والے قطرے میں دجلہ اور جزو میں کُل
کے مناظر دکھانے کی سعی کرتے ہیں۔ جس طرح گلزارِ ہستی میں پیہم عنبر فشانی
میں مصروف گلِ تر اپنی عطر بیزی کے منابع سے ،ثمر ِ نورس اپنی حلاوت کے
ذخیرے سے،بُور لدے چھتنار اپنی گھنی چھاؤں کی اداؤ ں سے،دریا اپنی طغیانی
سے ،حسنِ بے پروا اپنی حشر سامانی سے ،اُٹھتی جوانی اپنی طبع کی جولانی
سے،سمندر اپنی گہرائی سے ،کلام ِ نرم و نازک اپنی ہمہ گیر گرفت و گیرائی سے
، شعلہ اپنی تمازت سے ،گفتار اور رفتار اپنے معیار اور نزاکت سے ،کردار
اپنے وقار سے ،جذبات و احساسات مستقبل کے خدشات اور اپنی بے کراں قوت و
ہیبت سے ، نو خیز کونپلیں اپنی روئیدگی سے ، سمے کا سم کے اپنے ثمر سے
،قوتِ عشق اپنی نمو سے ، سادگی اپنے در پئے پندار حیلہ جُو سے، گنبد نیلو
فری کے نیچے طیور کی اُڑان گھات میں بیٹھے صیاد کی مچان سے ،خلوص و دردمندی
اپنی خُو سے ،حریت ِ ضمیر اپنے خمیر سے ،موثر تدبیر سوچنے والے نوشتۂ تقدیر
سے،ایثار و عجز و انکسار کی راہ اپنانے والے جذبۂ بے اختیار کی پیکار سے ،
حسن و رومان کی داستان جی کے زیاں سے ،جبر کی ہیبت صبر کی قوت سے ،ظالم کی
واہ مظلوم کی آہ سے ،چام کے دام چلانے والے مظلومو ں کے ضمیر کی للکار سے
اور تاریخ سے سبق نہ سیکھنے والے فراعنہ جاہ و حشمت کے طومار سے وابستہ
حقائق کے بارے میں کچھ نہیں جانتے اسی طرح ایک تخلیق کار کے قلزم ِ خیال کا
پانی اس قدر گہرا ہوتا ہے کہ وہ زندگی بھر اس کی غواصی کرنے کے باوجود
تخلیقی عمل کے پس پردہ کا فرما محرکات کے تاب دار موتی بر آمد کرنے سے قاصر
ہے ۔صبر و استقامت وہ مقام ہے جہاں تک رسائی جان جوکھوں کا مرحلہ ہے ۔
ایک حسینہ درماندہ سی بے بس تنہا دیکھ رہی ہے
جیون کی پگڈنڈی یوں ہی تاریکی میں بل کھاتی ہے
کون ستارے چُھو سکتا ہے راہ میں سانس اُکھڑ جاتی ہے
راہ کے پیچ و خم میں کوئی راہی اُلجھا دیکھ رہی ہے ( اختر الایمان)
مرگِ ناگہانی اور مرگِ نوجوانی کے مسموم اثرات سے دائمی مفارقت دے جانے
والے عزیزوں کے پس ماندگان پر قیامت گزر جاتی ہے۔ اس نوعیت کے جان لیوا
سانحہ سے دو چار ہونے والاتخلیق کار جب اپنے ہاتھ میں قلم لے کر پرورشِ لوح
و قلم میں مصروف ہوتا ہے تو دبے پاؤں آنے والی موت کی آہٹ کوسننے کے بعد اس
کا اظہار لا شعوری انداز میں اپنی تحریروں میں بھی کرتا ہے۔ادبیاتِ عالم کا
مطالعہ کرنے سے یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ جو تخلیق کار عالمِ شباب میں
دائمی مفارقت دے گئے ان کی تخلیقات میں موت کے دبے پاؤں چلے آنے کی آہٹ صاف
سنائی دیتی ہے جس سے یہ گُمان گزرتا ہے کہ ان عظیم ادیبوں کو اپنے نہ ہونے
کی ہونی کا شدت سے احساس تھا۔رام ریاض ، عاشق حسین فائق ، بشیر سیفی ،اطہر
ناسک،میراجی،قابل اجمیری،پروین شاکر،اقتدارواجد،آنس معین،شکیب جلالی، ظفر
سعید، سجاد بخاری ،بائرن،کیٹس اورشیلے کی تحریریں پڑھنے کے بعد اس احساس
کوتقویت ملتی ہے کہ ایک داخلی کرب نے ان سب ادیبوں کے تخلیقی عمل کو اپنی
گرفت میں لیے رکھا ۔ زندگی کے بارے میں غیر یقینی حالات میں جب سب دعائیں
بے اثر ہو جائیں ،کلیاں شر ر ہو جائیں،سب بلائیں جب تمام ہو جاتی ہیں
تومرگِ ناگہانی کے اندیشے بڑھنے لگتے ہیں اور اس کے بعد زندگی کے لمحات
مختصر ہو جاتے ہیں۔ اُفقِ ادب سے جب یہ چودہویں کے چاند ہمیشہ کے لیے غروب
ہو جاتے ہیں تو سفاک ظلمتوں میں ہمارا سینہ و دِل حسرتوں سے چھا جاتا ہے
۔ہجومِ یاس میں جب دل گھبراتا ہے توہم آہیں بھرتے اور احساسِ زیاں سے نڈھال
کفِ افسوس ملتے ہیں کہ اپنی دل کش ،حسین ا ور طویل عرصہ تک یادرکھی جانے
والی تخلیقات سے علم و ادب کا دامن معمور کر دینے والی یہ نایاب ہستیاں کس
قدرجلد پیمانہ ٔ عمر بھر گئیں۔موت کے بارے میں یہی کہاجاتا ہے کہ یہ ہمیشہ
زندگی کے تعاقب میں رہتی ہے۔ان با کمال ہستیوں نے اپنی موت کی آہٹ سُن کر
بھی زندگی کی حقیقی معنویت کو اُجاگر کرنے کی مقدور بھر سعی کی ۔تخلیق فن
کے لمحوں میں خون بن کر رگِ سنگ میں اُتر جانے والے ان زیرک تخلیق کاروں نے
خونِ دِل دے کے گلشنِ ادب کو اس طرح سیراب کیا کہ اس کے معجز نما اثر سے
گلشن ادب میں گل ہائے رنگ رنگ سے سماں بندھ گیا اور ان کی عطر بیزی سے
قریہء جاں معطر ہو گیا ۔دانیال طریر اس تلخ حقیقت سے آگاہ تھا کہ مشعلِ
زیست کے گُل ہونے کے خطرات کو کسی طور بھی ٹالا نہیں جا سکتا لیکن خوف
اوراندیشوں کے سم کے مسموم اثرات سے گلو خلاصی ممکن ہے۔ اﷲ کریم نے اسے
مستحکم شخصیت سے نوازا تھا اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ زندگی کے سفرمیں جب
بھی کوئی موہوم ڈر یا اضطراب سد راہ بنتا تو وہ اپنے پاؤں کی ٹھوکر سے اسے
دُور کر دیتا اور کبھی دِل میں ملال نہ آنے دیتا۔اس نے موت کو کبھی دل دہلا
دینے والا لرزہ خیز سانحہ نہیں سمجھابل کہ وہ جانتا تھا کہ رخشِ حیات مسلسل
رو میں ہے،انسان کا نہ توہاتھ اس کی باگ پر ہے اور نہ ہی پاؤں رکاب میں
ہیں۔ کسی بھی وقت اور کسی بھی مقام پر اس کی روانی تھم سکتی ہے۔اس کی شاعری
کے مطالعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ یہ واضح کر نا چاہتا تھا کہ ماحول کی
سفاکی کے باعث جب آہیں اور دعائیں اپنی تاثیر سے محروم ہوجائیں جائیں تو
زندگیاں بھی مختصر ہو جاتی ہیں۔گلزارِ ہست و بُودمیں سمے کے سم کے ثمر سے
ایسی فضا پیدا ہو جاتی ہے کہ نرگس کی حسرت کی صدائے باز گشت کرگس کی کریہہ
صورت میں دکھائی دیتی ہے اور بقا کی تمنا اپنی ہر اداسے فنا کے سیکڑوں
مناظر سے آشنا کرتی ہے ۔خزاں کے اس نوعیت کے بے شمار تکلیف دہ مناظر کو
دیکھنے کے بعد طلوعِ صبحِ بہارا ں کی اُمید وہم و گُماں اور سراب سی لگتی
ہے۔دانیال طریر کی شاعری میں نُدرت ،تنوع اور جدت پر مبنی خیال آفرینی قاری
کو حیرت زدہ کر دیتی ہے ۔کورانہ تقلید سے اسے سخت نفرت تھی اس لیے وہ خضر
کا سودا چھوڑ کر اظہار و ابلاغ کی نئی راہیں تلاش کرتا ہے۔اس کی تحریریں
کلیشے کی آلودگی سے پاک ہیں۔اس کے دل کش ،حسین اور منفرد اسلوب میں ہرلحظہ
نیا طُور نئی برق ِتجلی کی کیفیت یہ ظاہر کرتی ہے کہ تخلیق ِفن میں اُس کا
مرحلہء شوق پیہم نئی منازل کی جانب روا ں دواں رہتا ہے ۔ مثال کے طوروہ پر
نئی تراکیب اور الفاظ کے بر محل استعمال سے اپنی شاعری کو گنجینہ ء معانی
کا طلسم بنا دیتا ہے ، بھنورکے بھید ،خیال کی جوت ،جھرنے کا ساز،کوئل کی
کوک ،گیت کی لے ،وقت کی نے اور خوابوں کے سرابوں جیسے الفاظ میں زندگی کی
کم ما ئیگی کا احساس قاری پر فکر و خیال کے متعدد نئے در وا کرتا چلا جاتا
ہے۔وہ اچھی طرح جانتا تھاکہ موت کی دیمک ہر فانی انسان کے تن کو چاٹ لیتی
ہے۔وہ چشمِ تصور سے زندگی کی راہوں میں ناچتی ،مسکراتی اور ہنستی گاتی موت
کی اعصاب شکن صدا سُن کر بھی دِ ل ِ برداشتہ نہیں ہوتا بل کہ نہایت جرأت کے
ساتھ شاعری کو تزکیہء نفس کا وسیلہ بناتا ہے۔ حرفِ صداقت سے لبریزاس کی
شاعری اس کے داخلی کرب اور سچے جذبات کی مظہر ہے ۔موت کی دستک سُن کر وہ
موت کے بارے میں جن چشم کشا صداقتوں کا اظہار کرتا ہے وہ زندگی کی حقیقی
معنویت کو سمجھنے میں بے حد معاون ہیں۔ا س کی شاعری کے مطالعہ کے بعدقاری
کے لیے اپنے آنسو ضبط کرنا محال ہو جاتا ہے۔اس حساس تخلیق کار کی دلی
کیفیات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں جو موت کی دستک زنی کے دوران بھی اپنے
قلبی احساسات کوپیرایہ ٔ اظہار عطا کرنے میں پیہم مصروف رہا۔ دانیا ل طریر
نے سچ کہاتھا:
جو اپنے مر گئے تھے ،جی اُٹھے ہیں سو چتا ہوں
حقیقت سے تو بہتر واہمے ہیں سو چتا ہوں
فلک پر رنگ و روغن ہو رہا ہے میری خاطر
فرشتے مجھ کو لینے آ رہے ہیں سوچتا ہوں
اِک بار جاکے قبر میں بھی دیکھوں تو طریرؔ
کیسی دکھائی دیتی ہے باہر سے زندگی
ایک مستعد تخلیق کار جب پرورش لوح و قلم پر توجہ مرکوز کرتاہے تو وہ الفاظ
ہی کی اساس پر اپنے افکار کاقصر عالی شان تعمیر کرتاہے۔یہ علم صرف ہی ہے جو
اُسے اس فقید المثال صلاحیت سے متمتع کرتاہے ۔اجزائے کلام کی موزوں ترکیب
کو ملحوظ رکھنے کا قرینہ نحو کی عطا ہے ۔تخلیق ادب میں صرف و نحو کا مطالعہ
ہمیشہ خضر ِ راہ ثابت ہوتاہے ۔
-------------
مآ خذ
(1)مولوی عبدالحق : اُردو صرف و نحو ،انجمن ترقی اردو ہند ،نئی دلّی ،سال
اشاعت1981،صفحہ 91۔
(2) مولوی فتح محمد خان جا لندھری : مصباح القواعد ، عہد آفرین پریس ،حیدر
آباددکن ، صفحہ 170۔
( 3) ملا وجہی : سب رس (مرتبہ : مولوی عبدالحق )،انجمن ترقی اردو پاکستان
،کراچی ،1952،صفحہ 9۔
(4) ایضاً ،صفحہ 17۔
(5) ایضاً ،صفحہ 26۔
(6)ڈاکٹر رشید موسوی :دکن میں مرثیہ ،ترقی اردو بیورو ،نئی دہلی،1969، صفحہ
70۔
Dr.Ghulam Shabbir Rana ( Mustafa Abad Jhang City )
م |