روایات ،ثقافت،تہذیب وتمدّن اور انسانی تکوین میں متنوع
تبدیلیاں وقت اور حالات کے دھارے میں کیسے و قوع پذیر ہوتی ہیں اسکا اندازہ
اس ایک بات سے کیا جا سکتا ہے کہ ایک زمانے سے چھینک کومس کال کی علامت
سمجھا جا تا آرہا ہے یعنی چھینک کا مطلب تھا کہ کوئی آپ کو یاد کر رہا ہے
لیکن آج وہی چھینک خطرے ،دہشت اور خوف کی علامت بن چکی ہے جیسا کہ نمونیا
سے مشابہ اور نظامِ تنفس کو متاثر کرنے والی وباء یکم دسمبر 2019 کو چین کے
صو بہ ہوبی کے دارالخلافہ ووہان کی مچھلی منڈی سے متصل علاقہ سے پہلی بار
منظرعام پر آئی، جس نے دیکھتے ہی دیکھتے 4.5ارب سال پہلے تشکیل پانے والے
510.1 ملین مربع کلو میٹر رقبہ پر محیط نظام شمسی کے سیارہ زمین یعنی کرہ
ارض کے طول و عرض میں بسنے والے7.8بلین افراد کو بلواسطہ و بلا واسطہ اپنی
لپیٹ میں لے لیاہے،ابتک مصدّقہ متاثرین کی تعداد لاکھوں میں جا چکی ہے،
جبکہ ہزاروں افراداپنی زندگی کی بازی ہار چکے ہیں اور دنیا کے بیشتر ممالک
کے نظام ہائے صحت اس کے سامنے بے بسی کا شکار ہیں۔
اس وباء کی تباہ کاریوں کے پیش نظر عالمی ادارہ صحت نے 11مارچ2020 کو اسے
عالمی وباء قرار دیا ہے اور اسے نوول کرونا (Covid-19)کا نام دیا گیا ہے،
یہ ایک شدید متعدی بیماری ہے ا ور اس کے وائرس میں جوہری ایٹم کے پھیلاؤکی
طرح 2 سے 4، 4 سے 8 اور 8 سے 16 میں تقسیم ہو کر بڑھنے کی صلاحیت موجود
ہے،اس کی ناولٹی کا مطلب ہے کہ اس سے کسی کو استثنیٰ نہیں ہے، اس کے
پھیلاؤکی وجوہات و اسباب اور تدارک کا تعین تاحال واضح طور پر سامنے نہیں آ
سکا، عالمی ادارہ صحت کے حکام کے مطابق اس مرض سے بچاو کے لئے 70سے زائد
قسم کی مختلف ویکسین تیاری کے مراحل میں ہیں اور تادمِ تحریر یہ لاعلاج مرض
ہے، سائنس کے اتنے ترقی یافتہ ہونے اور شعبہ طب کے جدید منازل طے کرنے کے
باوجود آج بھی اس وبائی مرض سے بچاو کا وہی ایک سینکڑوں سال پرانا طریقہ
علاج دستیاب ہے اور وہ ہے" احتیاط، احتیاط یا پھر وفات"
سو بنی نوع انسان کو اس وقت ایسی غیر مرئی آفت کا سامنا ہے جس کا اپنا سائز
125 نینو میٹر سے بھی کم ہے لیکن اس کی دھماکے دار انٹری اور پھیلاؤنے نہ
صرف سابقہ معاشی عشاریوں اور عالمی معیشت دانوں کی پیشین گوئیوں کو تلپٹ کر
کے رکھ دیا ہے بلکہ نظام زندگی کے ہر شعبہ کو تہہ وبالا کردیا ہے، مذہبی
رسومات سے ثقافتی روایات تک، صنعتی کارخانوں سے تجارتی کاروبارتک، سیاحت سے
زراعت تک، ہالی وڈ کی چکا چوندرعنائیوں سے کھیل کے میدانوں تک، سرمایہ دار
سے دیہاڑی دار تک، آئل مارکیٹ، ذرائع نقل و حمل اور رسل ورسائل، فضائی،
بحری اور پبلک ٹرانسپورٹ سمیت کوئی ایسا شعبہ نہیں جو اس کی لپیٹ میں نہ
آیا ہو، الغرض طرز زندگی اور عالمی طرز معاشرت کا نمونہ بالکل بدل کر رہ
گیا ہے اور سماجی رویوں کا نیا رنگ دیکھنے میں آ رہا ہے۔
اس عالمی وباء نے جہاں دنیا میں دولت، طاقت اور برتری کے معیار بدل دیئے
ہیں وہاں اس بات کی یاددہانی بھی کرائی ہے کہ انسان فانی ہے اور اقتدار
اعلیٰ اور طاقت کا سرچشمہ صرف خدائے بزرگ و برتر کی ذات ہے، اﷲ ہی سپریم ہے،
اس وباء نے دنیا کی بے ثباتی و ناپائیداری اور اﷲ جل جلالہ کی لافانی
حاکمیت کوروز روشن کی طرح عیاں کر دیا ہے کہ ایک نظر نہ آنے والا وائرس خود
کو سپر طاقت سمجھنے والے انسان پر کتنا بھاری ہے اس کا ثبوت بین الاقوامی
معاشی و مالیاتی اداروں کی رپورٹس سے عیاں ہے کہ عالمی معیشت رواں صدی کی
شدید ترین کساد بازاری سے گزر رہی ہے، عالمی ترقی کی شرح نمو ڈرامائی انداز
سے سکڑی ہے، مختلف ممالک کے لئے ادائیگیوں کا توازن برقرار رکھنا مشکل ہو
چکا ہے، جاری کھاتوں کے مالی خسارہ میں اضافہ ہو رہا ہے جبکہ مجموعی عالمی
معاشی نقصان ٹریلین ڈالرز تک جائے گا، معاشی ناہمواری، غذائی قلت، بے
روزگاری اور معاشی بحران جیسے خدشات کے ساتھ ساتھ اس وبا ء نے د نیا کو
ایسے چوراہے پر لاکھڑا کیا ہے جہاں ایک چومکھی جنگ کا سامنا ہے، ایک طرف تو
اس مرض سے بچاؤ کی خاطر سماجی دوری اختیار کر کے اس کے پھیلاو کو روکنا ہے
تو دوسری طرف معاشی و معاشرتی سرگرمیوں کی بحالی کا چیلنج ہے، تیسری طرف
مہنگائی و بے روزگاری کے جن کو واپس بوتل میں بند کرنا تو چوتھی طرف اس مرض
کے خاتمے کے لئے اس کے علاج کو یقینی بنانا ہے، یہ امر ناگزیر ہے کیونکہ
جیسے جیسے کرونا میں طوالت کے باعث متاثرین کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا
رہاہے ویسے ویسے غربت اور بے روز گاری کا گراف بھی بڑھتا جا رہا ہے ان
حالات میں انسانی حقوق، صحت اور مالیات کے عالمی اداروں یو این او، ڈبلیو
ایچ او، ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کو آگاہی اور رہنمائی کے فیزسے نکل کرخیر
خواہی کی طرف آنا چاہیے اسی طرح حکومتوں کو بھی افتتاحی اور رونمائی کے موڈ
سے نکل کرعملی کاروائی کی طرف آنا چاہیے تا کہ دنیا کے غریب ترین اور سب سے
زیادہ کمزور طبقے کے لیے غیر جانب داری اور برابری کی بنیاد پر عملی طور پر
مدد کو یقینی بنایا جا سکے۔ حکومت پاکستان بھی اس وباء پر قابو پانے کے لئے
تمام وسائل بروئے کار لا رہی ہے اور تمام متعلقہ شعبے اور ادارے اپنی
استعداد اور صلاحیت کے مطابق مصروف عمل ہیں۔
ان غیریقینی کے حالات میں اگر مواصلاتی ٹیکنالوجی کی افادیت کو دیکھا جائے
تو یہ بات واضح طور پرسامنے آتی ہے کہ آج سے پہلے کبھی ہماری صحت اور حفاظت
کے لئے ٹیلی مواصلات اتنی اہم نہیں تھی جتنی آج ہماری معیشت اور معاشرے کو
کام کے لئے مربوط کرنے کے لئے اہم کردار ادا کر رہی ہے جب ہم کووڈ 19 کے
بحران سے گذر رہے ہیں، اس سلسلے میں پاکستان ٹیلی کام اتھارٹی بطور شعبہ
ٹیلی کا م کے ریگولیٹر کے قومی مقاصدکے حصول کے لئے کورونا وائرس کے خلاف
جاری قومی اقدامات کا بھرپور انداز میں ساتھ دے رہی ہے۔
اس وباء کے خلاف جنگ میں پی ٹی اے نے ریلیف کے لئے متعدد اور بروقت اقدامات
اٹھائے ہیں جن میں وباء سے بچاؤ کی آگاہی مہم، صارفین کے لئے ممکنہ
مواصلاتی سہولیات کی فراہمی اور ملکی اداروں سے تعاون کی ترجیحات شامل ہیں،
اس سلسلے میں پی ٹی اے نے مارچ میں ا پنے لائسنس یافتگان کو ایک مفصل اور
جامع ایڈوائزری جاری کی جس میں صارفین کو ٹیلی کام خدمات کی بلا تعطل
فراہمی اور آسان رسائی کے لئے تمام ضروری وسائل کے ساتھ تیار رہنے کی تاکید
کی گئی اور صارفین کی شکایات کے ازالے کے لئے موثر حکمت عملی اپنا نے کی
ہدایات جاری کی گئیں، مزید برآں ٹیلی کام کمپنیوں کو اپنے عملے کی حفاظت کو
یقینی بنانے پر بھی زور دیا گیا اور تمام صوبائی اور وفاقی حکام سے ٹیلی
مواصلات فراہم کرنے والے عملے کے ساتھ تعاون کی بھی درخواست کی گئی موبائل
آپریٹروں کو کورونا وائرس کی روک تھام اور احتیاطی تدابیر سے متعلق صارفین
کے شعورمیں اضافہ کرنے کے لئے اردو، انگریزی اور علاقائی زبانوں میں بار
بار مفت ایس ایم ایس بھیجنے اور رنگ بیک ٹونز میں آگاہی پیغامات نشر کرنے
کی ہدایات کی گئیں تاکہ وسیع پیمانے پر وباء کے حوالے سے آٓگاہی کو ممکن
بنایا جا سکے، یہ پیغامات ان کروڑوں صارفین تک بھی پہنچ رہے ہیں جن کو
انٹرنیٹ تک رسائی نہیں ہے پی ٹی اے نے آگاہی کے ساتھ ساتھ صارفین کی
سہولیات، معاشرتی میل جول میں کمی اور عوام کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لئے
موبائل ڈیوائسز کو ڈربز نظام کے ذریعے بلاک کرنے کے عمل کو وقتی طور پر
مخصوص مدت کے لئے معطل کر دیا ہے ۔ احساس پروگرام میں رجسٹریشن کے لئے کوڈ
8171 پر بھیجے جانے والے تمام ایس ایم ایس مفت کر دیئے گئے ہیں وائرس پر
قابو پانے والے سرکاری اداروں کو 12 مختلف شارٹ کوڈز اور ٹال فری نمبرز
جاری کئے ہیں جن میں وزیراعظم ریلیف فنڈ کا کوڈ 6677 بھی شامل ہے، جس پر
ایس ایم ایس بھیج کرفنڈ میں 20 روپے عطیہ کیا جا سکتا ہے پی ٹی اے موجودہ
وباء کے خلاف قومی کاوشوں میں موثر کردار ادا کرنے کے ساتھ ملکی اداروں،
وزارت داخلہ و صحت، این ڈی ایم اے، قومی ادارہ صحت (این آئی ایچ) و دیگر کو
مکمل تعاون اور معاونت فراہم کر رہا ہے۔
ان غیر معمولی حالات میں لاک ڈاون کے دوران تعلیمی اداروں، تدریسی عمل،
کاروباری سرگرمیوں، تنظیمی و دفتری امور کی گھر سے انجام دہی ، ڈیجیٹل چینل
کے ذریعے رقوم کی ادائیگیوں اورآن لائن خریداری کی وجہ سے انٹرنیٹ کے
استعمال میں 15 فی صد سے زائد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، اس ٹریفک کے غیر
معمولی دباؤ کے باوجود انٹرنیٹ فراہمی اور دستیابی کی صلاحیت مطمئن حد تک
بغیر کسی تعطل اور رکاوٹ کے جاری ہے، یہ سب پی ٹی ا ے کی ٹیلی کام کمپنیوں
کو پراعتماد ماحول کی فراہمی،ٹیلی کام نیٹ ورک اور خدمات کے معیار اور
مقدار کو یقینی بنانے، نگرانی کے عمل کے موثر نظام اور مسلسل قومی خدمت کے
جذبے سے بھرپور، دیرپا اور پائیدار اصلاحاتی پالیسیوں اوروباء کے خطرات کے
باوجود اتھار ٹی ممبران اور عملے کی لگاتار محنت کی مرہون منت ہے جس کی وجہ
سے پاکستان میں انفارمیشن اور مواصلات کی قابل بھروسہ، قابلِ استطاعت، سستی،
معیاری اور دستیاب ٹیکنالوجی کووڈ 19 کو شکست دینے میں مددگار ثابت ہو رہی
ہے۔انسداد کرونا کے حوالے سے پی ٹی اے کے بروقت اقدامات اور کاوشیں قابل
تقلیدہیں
ٹیلی کام کمپنیوں نے بھی اس جنگ میں ذمہ دارانہ کردار ادا کیا ہے، پی ٹی اے
کی ہدایات کی روشنی اور اپنی پیشہ ورانہ مہارت سے ملک بھر میں صارفین کو
سہولیات کی فراہمی، آسان رسائی اور بلا تعطل خدمات کے ساتھ ساتھ نئے اور کم
قیمت پیکجزمتعار ف کرائے ہیں، بلنگ اور بیلنس کی معیادکی مدت میں توسیع
فراہم کی گئی ہے کورونا وائرس کے متعلق عالمی و قومی سرکاری اور صحت سے
متعلق ویب سائٹس تک رسائی مفت کردی گئی ہے جبکہ ایمرجنسی مددگار نمبر 1166،
ریڈ کریسنٹ مددگار نمبر 1030 اور مقامی سرکاری ہسپتالوں اور ڈاکٹروں تک
رسائی کے حوالے سے نمبر 4343 پر مفت کالوں کی پیش کش متعارف کروائی ہیں، اس
کے علاوہ سول سوسائٹی اور مختلف حکومتی اداروں کے ساتھ مختلف علاقوں میں
متاثرہ خاندانوں اور مستحقین میں راشن، ادویات اور دیگر حفاظتی و امدادی
سامان فراہمی کی سرگرمیوں اور حکومتی ریلیف فنڈ میں تعاون کے حوالے سے
بھرپور حصہ لے رہے ہیں، ان تمام پیکجز اور تازہ ترین خدمات و سرگرمیوں کی
تفصیلات پی ٹی اے، تمام ٹیلی کام آپریٹرز، پی ٹی سی ایل، این ٹی سی او ر
سپیشل کمیونیکیشن آرگنائزیشن (ایس سی او) کی ویب سائٹس پر دستیاب ہیں-
مواصلاتی ٹیکنالوجی نے جتنی تیزی سے رابطہ کاری کے ساتھ ساتھ اقوام عالم کی
معاشی ترقی میں خود کو صف اول کے چند شعبوں میں لاکھڑا کیا ہے وہاں اس وباء
کے دوران مشکل اور غیر یقینی حالات میں زیادہ سے زیادہ محفوظ، مضبوط اور
مربوط بنانے میں ایک لائف لائن کی حیثیت اختیار کر گئی ہے، یہ وباء جہاں
ایک چیلنج بن کر ہمارے اوپر نازل ہوئی ہے وہاں مواصلاتی ٹیکنالوجی کی بدولت
کاروباری معاملات، تدریسی عمل، دفتری امور کی انجام دہی اور آن لائن
خریداری اور ادائیگیوں کے گھر بیٹھے حصول میں نئے رحجانات اور مواقعوں کو
بھی جنم دیا ہے، اعداد و شماراور حقائق کی روشنی میں اس بات کا تجزیہ کرنا
بہت ضروری ہو گیا ہے کہ آن لائن امور کی انجام دہی سے مستقبل میں سڑکوں پر
ٹریفک کے دباؤ اور حادثات کو کم کرنے، ماحولیاتی آلودگی میں کمی لانے ،
ایندھن اور توانائی کی مد میں بچت کرنے، پارکنگ اور دفاتر میں جگہ کی کمی
کے مسائل کو حل کرنے اوردفاتر کے کرایوں اور اخرجات میں کمی لانے میں کتنی
مدد مل سکتی ہے سب سے اہم ' 'ورک فرام ہوم(گھر سے دفتری امور کی انجام دہی)
'' اورآفس ورک کی کارکردگی کا تقابلی جائزہ لے کر مستقل بنیادوں پرنظم و
ضبط اور شفافیت کو مد نظر رکھتے ہوئے جزوی طور پر اور روٹیشن بنیادوں پر
ایسی پالیسی اختیار کرنے کے کتنے مفید امکانات ہو سکتے ہیں ۔ اس کے سا تھ
ساتھ مواصلاتی ٹیکنالوجی کی اہمیت و افادیت کے پیش نظرآن لائن نظام کو
زیادہ سے زیادہ محفوظ ومضبوط بنانے اور مستقبل میں کسی بھی نا گہانی صورت
سے نمٹنے کے لیے مزید بہتر اقدامات کی کتنی ضرورت ہے!!! کیونکہ"محدود ہیں
تومحفوظ ہیں"۔
|