جس طرح کامذاق اس ملک میں اسلام اوراسلامی
شعائرکااڑایاجارہاہے اسے دیکھ کرایسالگتاہے کہ امریکہ ،برطانیہ ،اسرائیل
اورانڈیاکی طرح کلمہ طیبہ کے نام پربننے والے ہمارے اس ملک میں بھی دین
اسلام کوئی ،،خاص تماشایانشانہ،، ہے۔ یہاں جن کواپنے گھرمیں کوئی گھاس نہیں
ڈالتا ایسے ایسے مسخرے بھی اس ملک کے اندر منہ اٹھاکراسلام کااس طرح مذاق
اڑاناشروع کردیتے ہیں کہ اﷲ کی پناہ۔یوں کہنے کے لئے تواسلام کے ولی وارث
اورٹھیکیدارکلمہ پڑھنے والے سارے مسلمان ہیں لیکن حقیقت میں کام اورمقصد ان
میں سے اکثرکااس دین کودنیاکے سامنے تماشابناناہے یاپھرنشانہ۔لاکھوں
اورکروڑوں وارثین اوربندہ گان توحیدکے ہوتے ہوئے بھی دین اسلام اس بدقسمت
ملک میں پھربھی اس قدرلاوارث اورمظلوم ہے کہ جس کوچھ کلمے بھی صحیح معنوں
میں نہیں آتے وہ بھی اس ملک میں اس دین کے علامہ ،مولانا،مفتی اورٹھیکیدار
بنے پھرتے ہیں۔یقین نہ آئے تواے سے لیکرزیڈتک تمام ٹی وی چینلزکی رمضان
ٹرانسمیشن اورعام دینی پروگرام دیکھ لیں ۔ہرپروگرام اورشومیں آپ کو دینی
تعلیم سے کورے ایسے بڑے بڑے علامہ،مولانااورمفتی دیکھنے کوملیں گے کہ آپ بے
اختیاراوربے ساختہ،،اعوذبااﷲ یااستغفراﷲ،،کہہ اٹھیں گے۔اسلام ہی اس ملک میں
وہ واحدمذہب ہے جس کو،،ذاتی مفاد،،کے لئے استعمال کرنے پردوست اوردشمن سب
کااجماع اورمکمل اتفاق ہے۔اپنے مفادیاذات کی کوئی بات ہوتواس وقت پھرسارے
اسلام کے وارث بن جاتے ہیں لیکن اﷲ اوراس کے رسول ﷺکی اگر کوئی بات
ہوتوپھراس اسلام کاایک وارث بھی ڈھونڈنے سے نہیں ملتا۔زکوٰۃ ،صدقات،عطیات
ہڑپ کرنے اورنام نہاددینی خدمات وفرضی عشق رسولﷺ کے نام پر اقتدارحاصل کرنے
کے لئے اس ملک میں اسلام کوہرکوئی گلے سے لگاتاہے لیکن جب مفاداورمرادپوری
ہو توپھرہرشخص ہاتھ دھوکر اسی اسلام کے پیچھے پڑناشروع کردیتاہے۔ویسے کہنے
کے لئے ہم پکے ٹکے مسلمان اورایک نمبرکے سچے وکھرے عاشقان رسول ہوتے ہیں
۔اس قدرپکے ٹکے مسلمان کہ کسی کی زبان سے اپنے لئے کچے مسلمان کالفظ برداشت
کرنے کے لئے بھی ہم تیارنہیں ہوتے۔اورعشق رسول ﷺ۔۔ اس نعرے
پرتوہماراجینابھی ہے اورمرنابھی ۔مطلب اگرکسی نے غلطی سے بھی ہمیں کبھی
رسول کاگستاخ کہاتوہم پھراسی وقت ان کے اوپرنیچے والے سارے دانت ایک کردیتے
ہیں کیونکہ اس مٹی پرہم سے بڑے ۔۔سچے اورکھرے عاشق توآج تک کسی ماں نے جنے
ہی نہیں ۔یہ ہے اﷲ اوراس کے پیارے حبیب ﷺسے ہماری محبت اوردین اسلام سے
رشتہ۔لیکن اب ذرہ ایک منٹ کے لئے دل پرہاتھ رکھ کرسوچیئے۔ ایک طرف اﷲ اوراس
کے پیارے حبیب ﷺسے ہماری یہی لازوال وبے مثال محبت ہوتی ہے اوردین اسلام سے
ہماراایک مضبوط رشتہ ۔۔مگربات اگرذات ،مفادیااقتدارکی ہوتوپھراس وقت ہمیں
اﷲ اوراس کے پیارے حبیب ﷺ سے کوئی محبت یادرہتی ہے اورنہ ہی دین اسلام سے
کوئی رشتہ۔نائن الیون کاعذاب جب آیاتوداڑھی،پگڑی،مساجدومدارس کوہم نے
دہشتگردی کی فہرست میں شامل کرکے سب سے پہلے اسی اسلام کونشانے پرلیا۔یہ
دنیااورکائنات توقائم ہی اسلام کی وجہ سے ہیں مگرنہ جانے ہم کن کے کہنے پر
اسی اسلام کوپھراس دنیاکے لئے خطرہ قراردے رہے ہیں۔اﷲ اوراس کے آخری رسول
محمدمصطفی احمدمجتبیٰ ﷺسے محبت اورعشق کے سوکھے دعوے اوروعدے اپنی جگہ لیکن
حقیقت یہ ہے کہ مساجد،مدارس،اسلام اورشعائراسلام نہ پہلے ہم سے محفوظ تھے
اورنہ یہ آج ہم سے محفوظ ہیں۔نائن الیون کی آڑمیں اﷲ کے گھروں کے ساتھ
جوکچھ ہوتارہا۔اہل ایمان وہ زخم بھی ابھی تک نہیں بھولے تھے کہ اوپرسے ہم
نے کروناکی وباء کے نام پر اﷲ کے انہی گھروں کوایک بارپھرنشانہ بناناشروع
کردیا۔ہمیں نہ کروناکے وجودسے انکارہے اورنہ ہی ہم کروناسے بچاؤکے لئے
احتیاطی تدابیرکے کوئی مخالف ہیں ۔ہم توچاہتے ہیں کہ اﷲ کرے اس وباء
اورعذاب کاآج ہی اس دنیاسے خاتمہ ہو۔ہماری تویہ بھی خواہش اورپروردگارعالم
سے ہمہ وقت یہ دعا ہے کہ اﷲ اس آفت،مصیبت،پریشانی اوروباء سے نہ صرف تمام
مسلمانوں بلکہ دنیابھرکے انسانوں کی حفاظت فرمادے۔ لوگ کروناسے بچاؤکے لئے
احتیاط کو،،ضرورت،،کی نظرسے دیکھتے ہوں گے۔مگرہم تواس وباء سے بچاؤکے لئے
اقدامات کوبھی فرض اورلازم کے درجے پررکھتے ہیں۔ہمیں کروناسے بچاؤکے لئے
حکومتی اقدامات یاطبی احکامات سے ذرہ بھی کوئی انکارنہیں۔ہم تویہاں تک کہتے
ہیں کہ اس وباء سے جان چھڑانے کے لئے اگرعوام کوزنجیروں میں جکڑنایارسیوں
سے باندھنابھی پڑے توبھی یہ کام ہمیں کرنا چاہیئے لیکن انتہائی معذرت کے
ساتھ بازاروں،مارکیٹوں،شاپنگ مالزاوردیگرعوامی مقامات پرکورناکوبے لگام
چھوڑکرصرف مساجد،مدارس اورخانقاہوں میں تین تین فٹ فاصلوں کی لکیریں کھینچ
کرپھراس کی کڑی نگرانی کرنایہ کوئی انصاف اورطریقہ نہیں۔امن ،حفاظت اوراشتی
کے وہ مراکزجہاں سے چودہ سوسال سے مسلمان فیض حاصل کرتے چلے آرہے ہیں ۔اﷲ
کے وہ گھرجوپوری کائنات میں انسانوں کے لئے سب سے زیادہ محفوظ تصورکیئے
جاتے ہیں ۔اﷲ کے ان گھروں سے انسانوں کوروکنے کے لئے تولکیریں کھینچی جارہی
ہیں مگربے حیائی کے وہ گڑھ بازاراورلالہ زارآج بھی نہ صرف کھلے ہوئے ہیں
بلکہ وہاں انسانوں کوروکنے اورٹوکنے والابھی کوئی نہیں۔مساجداورمساجدمیں
نمازیوں کوتوچیک کیاجارہاہے مگربازاروں میں نکلنے والے ہجوم کودیکھنے کی
ہمت کسی میں نہیں۔نام نہادلاک ڈاؤن میں بھی کسی نے بازاروں کے اندرکروناسے
بچاؤکے لئے حفاظتی اقدامات اورتدابیرکوضروری نہیں سمجھا۔اب جب لاک ڈاؤن ختم
ہوچکاہے۔پورے ملک میں بازاروں کے اندرپھروہی رش،ہجوم اورچہل قدمیاں ہیں۔نہ
کسی بازارمیں کوئی لکیرہے اورنہ ہی کروناسے بچاؤکے لئے انسانوں کے درمیان
کوئی فاصلہ۔مساجدکے اندرنمازیوں کے درمیان تین فٹ فاصلوں پرتوسب کی نظرہے
مگربازاروں میں ٹخنوں سے ٹخنے اورکندھوں سے کندھے ملاکرچلنے اوردوڑنے والے
کسی کونظرنہیں آرہے۔کروناجس طرح مساجدومدارس کے اندرخطرناک ہے اس سے کہیں
زیادہ یہ بازاروں اورلالہ زاروں کے اندربھی خطرناک ہے۔ہمارے حکمران
اورارباب اختیارواقتداراگرکروناکی روک تھام کے لئے واقعی سنجیدہ اورمخلص
ہیں توپھرانہیں مساجدومدارس سے پہلے بازاروں ،مارکیٹوں،شاپنگ
مالزاورشاہراہوں پرتین تین فٹ فاصلے کی لکیریں کھینچنی ہونگی ۔محض
مساجدکوتالے لگانے یانمازیوں کے درمیان لکیریں کھینچنے سے کروناکبھی ختم
نہیں ہوگا۔اﷲ کے دراس کی مخلوق پربندکرنے والوں پرپھرآسانی نہیں سختی
اورتباہی آتی ہے۔مساجدمیں تین فٹ کے فاصلے ناپنے والے شائدیہ بھول رہے ہیں
کہ یہ مساجدجس پاک ذات کے گھرہیں وہ اپنے ان گھروں کی حفاظت سے نہ پہلے
کبھی غافل تھااورنہ اب ہے۔ آپ کونہیں یاد۔خانہ کعبہ پرلشکرکشی کے لئے آنے
والے ابرہہ کاپھرکیاانجام ہواتھا۔۔؟یہ بات دل ودماغ سے نکال دیں کہ بے چارے
مولوی صاحب پراپنے لاؤلشکرسمیت چڑھائی کرکے تم مساجدکوتالے لگادوگے
یالکیریں کھینچ دوگے توتمہیں کوئی کچھ نہیں کہے گا۔ماناکہ بے چارہ مولوی
صاحب تمہاراکچھ نہیں بگاڑسکتا۔مگرایک بات یادرکھیں یہ مساجدومدارس جس کے
گھرہیں وہ دونوں جہانوں کے رب اورہم سب کے ملک وخالق جب پوچھنے پرآتے ہیں
توپھرابرہہ جیسے بدمعاش اورسرکش بھی اپنے لاؤلشکرسمیت منٹوں وسیکنڈوں میں
منہ کے بل گرکرزمین بوس ہوجاتے ہیں۔ کرونامساجدنہیں بے حیائی کے اڈوں سے
پھیلتاہے۔اس لیئے مساجدسے پہلے بے حیائی کے ان اڈوں کوبندکردیں۔وہاں لکیریں
کھینچیں۔پھردیکھناکہ کروناکی اس وباء سے تمہاری جان چھوٹتی ہے کہ نہیں۔صرف
مساجدمیں لکیریں کھینچنے سے یہ مسئلہ کبھی بھی حل نہیں ہوگا۔
|