بسم اﷲ الرحمن الرحیم
اکل و شرب اورمسلمان مومن سے حسن ظن
’’حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ محسن انسانیت ﷺنے
فرمایاجب تم میں سے کوئی اپنے مسلمان بھائی پاس آئے تو اس کے کھانے میں سے
کھائے اور چھان بین نہ کرے اور اسکی پینے کی چیزوں میں سے پی لے اور پوچھ
گچھ نہ کرے‘‘۔
قرآن مجید کی سورہ نورمیں اﷲ تعالی نے حکم دیا ہے کہ ظن المومنون والمومنات
بانفسھم خیرا کہ مومن مردوں اور مومن عورتوں کے بارے میں حسن ظن رکھاجانا
چاہیے۔اگرچہ یہ آیت اپنے سیاق وسباق میں اور اپنے مفاہیم میں بہت وسعت کی
حامل ہے لیکن اس حدیث نبوی ﷺ کے تناظر میں میں ایک مسلمان کے لیے اس آیت
میں سبق پوشیدہ ہے کہ وہ جب بھی اپنے کسی مسلمان بھائی کے ہاں جائے تو اسکے
اکل و شرب میں بغیر کسی تشکیک وتحقیق کے شامل ہو جائے اور کسی طرح کاتردد و
شبہ نہ کرے ،کیونکہ قرآن نے مومن مردوں اور مومن عورتوں کے بارے میں سوئے
ظن سے منع فرمایا ہے اور انکے بارے میں نیک گمان رکھنے کا حکم صادر کیا
ہے۔اس حدیث کے پس منظر میں اسلام کاپیش کردہ اعلی ترین قانون حلال و حرام
ہے۔شریعت اسلامیہ نے کھانے پینے کے معاملات میں حلال و حرام کی سختی کی ہے
اور مسلمانوں کو اس بات کا پابند بنایا ہے کہ صرف وہی اشیا کھائیں جنہیں اﷲ
تعالی نے حلال اور پاکیزہ قرار دیا ہے اور حرام اشیا سے بالکلیہ بچتے
رہیں۔اکل و شرب میں اس تصور حلال و حرام کے بہت سارے پوشیدہ پہلو ہو سکتے
ہیں جن پر سے وقتاََ فوقتاََپردے ہٹتے بھی رہتے ہیں لیکن مختصراََ اتنا
سمجھ لینا کافی ہے کہ جو چیزیں قبیلہ بنی نوع انسان کے لیے فائدہ مند ہیں
انہیں حلال قرار دیاگیااورجو نقصان دہ ہیں انہیں حرام قراد دے دیا گیا۔جن
جانوروں کاگوشت کھانے سے وحشت ودہشت،بے رحمی،درندگی اور بے غیرتی وبے شرمی
انسان میں عود کر آئے وہ حرام قرار دیے گئے اور شرافت و نظافت کے دائرے میں
رہنے والے جانوروں کو کھاناحلال قرار دے دیا گیا تاکہ انکی اچھی صفات انسان
کی عادات کا حصہ بن جائیں۔
شریعت نے حلال کھانے کے ساتھ ساتھ حلال کمانے پر بھی زور دیا ہے،عین ممکن
ہے کسی کے دسترخوان پر کھانے کی حلال اشیا دھری ہوں لیکن ان اشیاکو حرام کی
روزی سے حاصل کیا گیا ہو،تب اﷲ کے نبی ﷺ نے یہ تعلیم فرمائی ہے کہ ایک
مسلمان کے بارے میں حسن ظن سے کام لیا جائے اور یہ سوچا جائے کہ اس کی روزی
کے ذرائع یقیناََ حلال ہی ہونگے اور اس نے یعنی ایک مسلمان نے کسی بھی ظلم
و ستم یا زورزبردستی یارشوت وجواوکماربازی، سود و دیگر حرام ذرائع سے اپنے
آپ کو بچایاہوا ہوگا۔قرآن مجید کا آغاز ہی اس بات سے ہوتا ہے کہ ذالک
الکتاب لا ریب فیہ یعنی اس کتاب میں شک کی گنجائش نہیں۔تب اس کتاب کے ماننے
والوں پر بھی شک نہیں کرنا چاہیے۔جن کے دلوں میں شمع ایمان روشن ہے اوروہ
عقائد اسلام کے ماننے والے ہیں ،توحید ،رسالت،آخرت،ملائکہ اور کتب الہیہ پر
ایمان رکھتے ہیں ان سے یہ توقع نہیں رکھنی چاہیے کہ وہ کسی مسلمان بھائی کو
یا غیرمسلم کو ہی دھوکہ دیں گے۔ان عقائد کے حامل لوگوں پر صرف مسلمان ہی
نہیں غیرمسلم بھی اعتماد کر سکتے ہیں بلکہ مسلمانوں کی شاندار تاریخی
روایات بھی یہی ہیں کہ انہوں نے اپنوں کے ساتھ ساتھ غیروں کوبھی کسی بھی
طرح کے شر سے محفوظ رکھاہے۔پس جب بھی کوئی مسلمان کے ہاں جائے تو اسکے
کھانے میں بھی شریک ہو اور کے مشروبات سے بھی اپنا حصہ وصول کرے اس اعتماد
کے ساتھ کہ اس میں کوئی دھوکہ دہی نہیں ہے۔
اس حدیث سے یہ بھی سبق ملتا ہے کہ وہم سے بہت حد تک بچنا چاہیے۔بہت سے لوگ
جو وہم کا بہت زیادہ شکار ہوتے ہیں اپنے کھانے پینے کو بہت مشکل کر لیتے
ہیں۔طہارت و نظافت کی وہ تعلیمات جو نبی ﷺ کی سنت سے انسانیت کو میسر آئی
ہیں وہ بلاشبہ کہیں اور نہیں ملتیں لیکن وہم کرنا اور حد سے ز یادہ احتیاط
کرنا اور یہ احتیاط اس حد بڑھا دینا کہ دوسرے مسلمان بھائیوں کے ہاں سے
کھانا پینا ترک کر دینا محسن انسانیت ﷺ کے طریقے کے صریحاََ خلاف ہے۔چنانچہ
ایک مسلمان کو چاہیے کہ وہم سے بہت دور رہے اور جس طرح اپنے گھر میں اور
اپنے دسترخوان پر وہ صفائی کے جن اصولوں کادھیان رکھتاہے دوسروں کے لیے بھی
اسکا اہتمام کرے اور دوسروں سے بھی یہی توقع رکھے۔اس حدیث سے ایک اور سبق
یہ بھی ملتا ہے کہ اپنے ہاں آئے ہوئے مہمان کی خدمت کرنی چاہیے۔آپ ﷺ نے اس
میزبان کو مردہ کہا ہے جس کا مہمان کچھ کھائے پئے بغیر چلا جائے۔حضرت
ابراہیم علیہ السلام بعض اوقات کئی پہر تک بھوکے رہتے تھے اور اسی وقت ہی
کھانا کھاتے تھے جب کوئی مہمان آجائے۔ایک بار ایک کافرشخص مہمان بن کر آگیا
کھانا شروع ہونے پر اصلیت پتہ چلی تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اسے اپنے
گھر سے باہر کر دیا،تب اﷲ تعالی نے وحی کی کہ اے ابراہیم علیہ السلام یہ
آدمی کفر تو میرا کرتا ہے اور میں اسے اتنے عرصے سے رزق دے رہاہوں اورآپ نے
اسے ایک وقت کا کھانا بھی نہ کھلایا؟؟اس پر حضرت ابراہیم علیہ السلام گلی
سے کافرکودوبارہ بلاکرلائے اور اسے کھاناپیش کیا۔اس حدیث سے کھانا کھلانے
کی ترغیب بھی ملتی ہے اور اگر کھلانے کے لیے کھانا نہ ہو یا کھانے کا وقت
نہ ہو تو کچھ پلانے کی ترغیب ملتی ہے آپ ﷺ نے کھانا کھلانے کی ترغیب دیتے
ہوئے فرماکہ جو خود پیٹ بھرکرسویااوراسکا پڑوسی بھوکا سوگیاوہ ہم میں سے
نہیں ،مزیدفرمایاکہ جس بستی میں کوئی بھوکاسوگیا تو وہاں سے اﷲ تعالی ک ذمہ
داری ختم ہو گئی۔آپ ﷺ نے کچھ اور پسندیدہ امور کے ساتھ ساتھ کھانا کھلانے
کو بہترین اسلام قرار دیااوران پر عمل کرنے والے کے بارے میں فرمایا کہ وہ
امن و سلامتی سے جنت میں داخل ہو جائے گا۔
اس حدیث میں اسلام کی قائم کردہ بہترین معاشرت کا بھی پتہ ملتا ہے۔اسلام نے
لوگوں کے باہمی ملنے جلنے کوپسند فرمایاہے۔بعض مذاہب نے راہبانیت اور ترک
دنیا کی تعلیم دی ہے لیکن محسن انسانیت ﷺ نے فرمایا کہ اسلام میں رہبانیت
نہیں ہے اوربعض مذاہب میں طبقاتی تقسیم بھی ہے۔چنانچہ اسلام کی تمام عبادات
اجتماعیت پر مبنی ہیں۔عیادت،تعزیت،سوگ اور مبارک کی تمام روایات اسلامی
معاشرت کے اس باب سے تعلق رکھتی ہیں جہاں باہم میل ملاقات کی ترغیب دی گئی
ہے۔اب آنے والا کسی بھی مقصد کے لیے آئے وہ مقصدکاروباری ہو،ذاتی ہو یا
دفتری ہو، میزبان اور مہمان جب ایک ہی دسترخوان پر اکل و شرب کریں گے توان
میں محبت بڑھے گی اور دوبارہ ملنے کا جذبہ بھی پروان چڑھے گا۔اس حدیث سے یہ
بھی سبق ملتا ہے کہ ایک مسلمان کودوسرے مسلمان کی قدر کرنی چاہیے۔آنے والا
کسی طبقے،کسی عمریاکسی معاشرتی و معاشی حیثیت سے متعلق ہو،بحیثیت مسلمان
اسکا حق ہے کہ اسکی قدر کی جائے۔آنے والا اگرچہ میزبان کے اخلاق اور اسکے
رویے سے بھی متاثر ہوتا ہے لیکن کچھ کھلانے یااچھی چیز پلائے جانے پروہ
اپنی قدرافزائی محسوس کرتا ہے ۔اس طرح دوانسانوں کے درمیان پیارومحبت کا
رشتہ جنم لے لیتا ہے اورانکے درمیان نفرت،کدورت اورعداوت کا خاتمہ ہوجاتاہے
اور ایک ایسا معاشرہ وجود میں آتا ہے جس میں انسانوں کے باہمی تعلقات بہت
مضبوط بنیادوں پر استوار ہوتے ہیں۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ یہاں صرف مسلمان
کا ذکر کیاگیا ہے ۔اسکی وجہ یہ ہے کہ کھانے پینے میں حلال و حرام کا جواعلی
معیاراسلام نے دیا ہے وہ دوسرے مذہب میں نہیں ملتا،حتی کہ دوسری اقوام کے
لوگ ایسی ایسی چیزیں بھی کھاجاتے ہیں جنہیں اگراہل ایمان صرف سن لیں تو
انہیں گھن آنے لگے۔تب ضروری ہے کہ جب ایک مسلمان کسی غیرمسلم کے ہاں جائے
تو اس بات کا اطمنان کرے کہ سامان اکل و شرب حلال چیزوں میں سے ہی ہیں
۔تاہم جب غیرمسلم کسی مسلمان کے مہمان بنیں تو انہیں پورااحترام اور عزت
ملنی چاہیے اور انکی پوری خدمت داری کی جانی چاہیے کہ یہی ہمارے نبی ﷺ کی
سنت ہے اور یہی اسلام جیسے عالی شان دین کی تعلیمات ہیں۔
یہ تمام امور آداب میزبانی سے متعلق تھے کہ جب کوئی مہمان بنے اور اس کو
اکل و شرب بطور مہمان نوازی کے پیش کیاجائے۔مسلمانوں نے کل دنیاپرازشرق
تاغرب کم و بیش ایک ہزاربرس حکومت کی ہے،لیکن اس پورے عرصہ دراز میں کسی
ہوٹل،کسی ریستوران یاکسی ایسی جگہ کا پتہ معلوم نہیں پڑتاجہاں کھانے پینے
کی اشیاء قیمتاََ دی جاتی ہوں۔صباح و مساء نوابین اور سرداران قوم کے
دسترخوان کھلے ہوتے تھے اور مسافر چندکوس ہی چل پاتاتھا کہ اسے کوئی مسافر
خانہ،کوئی مہمان خانہ،کوئی سرائے یاکوئی آرام گاہ مل جاتی تھی جہاں اس کی
مفت خاطرتواضع کے لیے سامان لذت کام و دہن سمیت عملہ موجود ہوتاتھا۔ جب سے
سیکولرازم نے ا نسابیت کی گردن پراپنے خونین پنجے گاڑے ہیں تب سے ہر
چیزبرائے فروخت ہوگئی ہے حد یہ کہ کھاناپینابھی برائے فروخت ہو چکا۔اس
کاروباری تہذیب اور منافع خوری کی ثقافت میں کوئی انسان دوسرے کو
کیاکھلارہاہے؟وہ حلال ہے یا حرام ہے؟وہ صحت بخش ہے یا دشمن جسم و جاں ہے؟وہ
چندٹکوں کے حصول کے لیے اپنی پیداوارپر سچ لکھ رہاہے یا جھوٹ ؟اب اس کی
کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔رہی سہی کسر اس اشتہاربازی اور مشہوری کی لعنت
نے پوری کر دی ہے کہ عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے بھاری بھرکم اخراجات سے
اس حد تک شورمچایاجاتاہے کہ مضرصحت اشیاکی مصنوعی قلت بھی پیداہوجاتی
ہے۔اسی کانتیجہ ہے کہ ہسپتال بھرے پڑے ہیں،دوائیاں پھانکی جاتی ہیں اور
اطباء کے پاس مریضوں کو دیکھنے لیے وقت نہیں ملتا۔ان حالات سے خلاصی کے لیے
انسانیت کوایک بارپھرمحسن انسانیتﷺکی تعلیمات کی طرف پلٹناہوگا۔
|